ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 19؍ ستمبر 2014ء میں فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئی بار اپنی مختلف تحریروں میں، ارشادات میں، مجالس میں اس طرف ہمیں توجہ دلائی کہ اپنے اعمال صالحہ کی طرف توجہ کرو۔ اپنے اعمال کی طرف توجہ کرو۔ ایسے اعمال بجا لاؤ جو صالح عمل ہوں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہوں، جو دنیا کو تکلیفوں سے بچانے والے ہوں۔ ایک اقتباس میں نے پہلے شروع میں پڑھا تھا۔ بعض اور اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا یعنی یہ کہ میری تعلیم کیا ہے اور اس کے موافق تمہیں عمل کرنا چاہئے۔ فرماتے ہیں:
’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پرعمل کرتا ہے۔ لیکن جو محض نام رکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔ اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آجائے گا کہ وہ الگ ہو جائے گا۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔ اعمال پَروں کی طرح ہیں۔ بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کے لئے پرواز نہیں کرسکتا اور ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتا جو اُن کے نیچے اﷲ تعالیٰ نے رکھے ہیں۔ پرندوں میں فہم ہوتا ہے اگر وہ اس فہم سے کام نہ لیں تو جو کام ان سے ہوتے ہیں نہ ہو سکیں۔ مثلاً شہد کی مکھی میں اگر فہم نہ ہو تو وہ شہدنہیں نکال سکتی اور اسی طرح نامہ بر کبوتر جو ہوتے ہیں۔’’ (ایسے کبوتر جن کے ذریعہ سے پیغام پہنچائے جاتے ہیں) ‘‘ان کو اپنے فہم سے کس قدر کام لینا پڑتا ہے۔ کس قدر دُور دراز کی منزلیں وہ طے کرتے ہیں اور خطوط کو پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح پر پرندوں سے عجیب عجیب کام لئے جاتے ہیں۔ پس پہلے ضروری ہے کہ آدمی اپنے فہم سے کام لے اور سوچے کہ جو کام مَیں کرنے لگا ہوں یہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کے نیچے اور اس کی رضا کے لئے ہے یا نہیں۔ جب یہ دیکھ لے اور فہم سے کام لے تو پھر ہاتھوں سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔ سستی اور غفلت نہ کرے۔ ہاں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ تعلیم صحیح ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعلیم صحیح ہوتی ہے لیکن انسان اپنی نادانی اور جہالت سے یا کسی دوسرے کی شرارت اور غلط بیانی کی وجہ سے دھوکا میں پڑجاتا ہے۔ اس لئے خالی الذہن ہو کر تحقیق کرنی چاہئے۔‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 439-440۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)