سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

اس سعادت منداورفرمانبرداربیٹے نے کہ جو وَبَرًّا بِوَالِدَتِ يکی فطرت لیے ہوئے پیداہوا تھا۔وہ اپنی اس مادرصدیقہ کوزندگی بھرنہیں بھولا۔ تبھی تو عمرکے آخری حصہ میں بھی خداکایہ رسول جب بھی اپنی والدہ مہربان کاذکرکرتاتوآنکھیں ڈبڈبا جایاکرتی تھیں

وفات والدہ ماجدہ

حضرت اقدس علیہ السلام جوکہ بَرًّابِوَالِدَیْن کی مجسم تصویرتھےانہوں نے اپنے والدصاحب کے اصرار پر سیالکوٹ میں سرکاری ملازمت اختیارفرمالی۔آپؑ سیالکوٹ میں ہی تھے کہ معلوم ہوتاہے آپؑ کی والدہ ماجدہ کی حالت بگڑی ہے۔قیاس کیاجاسکتاہے کہ آپؑ کووالدہ ماجدہ کی اس بیماری سے فوری آگاہ نہیں کیاگیا۔البتہ آپؑ کے والدبزرگوارماں بیٹے کی اس محبت اورلگاؤ سے بھی بخوبی آگاہ تھے اور محبت کی جس چنگاری کوباپ نے سینے میں دبایاہواتھا معلوم ہوتاہے کہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ ؒکی بیماری نے اس کوہوادے کرشعلہ بنادیاجس نے بیٹے کی اس دوری اورملازمت کے قیدخانہ کی زنجیروںکوجلاکرراکھ کردیااور باپ نے اپنے سعادت مندبیٹے کوپیغام بھیجاکہ ملازمت سے استعفیٰ دے کرفوراًواپس آجاؤ۔

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ نے جب حضورؑ کو استعفیٰ دے کر واپس چلے آنے کا پیغام بھجوایا تو حضوؑر کی والدہ ماجدہ سخت بیمار تھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیغام سنتے ہی فوراً سیالکوٹ سے روانہ ہوگئے۔ امر تسر پہنچے تو قادیان کے لیے تانگہ کا انتظام کیا۔ اسی اثنا میں قادیان سے ایک اور آدمی بھی آپؑ کو لینے کے لیے امرتسر پہنچ گیا۔اورشایدیہ دوسراآدمی میراں بخش حجام تھا۔اس نے یکہ بان سے کہا کہ یکہ جلدی چلاؤکیونکہ ان کی حالت بہت نازک تھی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا بہت ہی نازک حالت تھی جلدی کرو کہیں فوت نہ ہوگئی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ سنتے ہی یقین ہوگیا کہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوچکا ہے۔چنانچہ قادیان پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی مشفق ومہربان اور جان سے پیاری والدہ آپ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوچکی ہیں۔

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے’’حیاتِ احمدؑ ’’ میں یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ’’میراں بخش حجام کو آپ کے پاس بھیجا گیا اور اسے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ یکدم حضرت والدہ مکرمہ کی وفات کی خبر حضرت مسیح موعودؑ کو نہ سنائے۔ چنانچہ جس وقت بٹالہ سے نکلے تو حضرت کو حضرت والدہ صاحبہ کی علالت کی خبر دی۔یکّہ پر سوار ہو کر جب قادیان کی طرف آئے تو اس نے یکّہ والے کو کہا کہ بہت جلد لے چلو۔ حضرت نے پوچھا کہ اس قدر جلدی کیوں کرتے ہو؟اس نے کہا کہ ان کی طبیعت بہت ناساز تھی۔ پھر تھوڑی دور چل کر اس نے یکہ والے کو اور تاکید کی کہ بہت ہی جلد لے چلو۔ تب پھر پوچھا۔ اس نے پھر کہا کہ ہاں طبیعت بہت ہی ناساز تھی کچھ نزع کی سی حالت تھی۔خدا جانے ہمارے جانے تک زندہ رہیں یا فوت ہوجائیں۔ پھر حضرت خاموش ہوگئے۔ آخر اس نے پھر یکہ والےکو سخت تاکید شروع کی تو حضرت نے کہا کہ تم اصل واقعہ کیوں بیان نہیں کردیتے کیا معاملہ ہے۔ تب اس نے کہا کہ اصل میں مائی صاحبہ فوت ہوگئی تھیں۔ اس خیال سے کہ آپ کو صدمہ نہ ہویک دفعہ خبر نہیں دی۔ حضرت نے سن کر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ دیا۔’’(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 219)

اوریوں اب جب نہ جانے کتنی دیربعد واپس وطن کولوٹے توماں کی کھلی بانہوں کااستقبال اور چشم ترکاانتظاراور ماتھے پرپیار کے نشان ثبت کرنے والا مہربان وجود اس جہان سے جاچکاتھا۔

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار؟

کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار؟

جس کی آنکھیں سالوں بعد ماں کاذکرکرنے پر ڈبڈبا جایاکرتی تھیں۔اب اپنے گھرکوماں کے محبت بھرے وجودسے خالی پاکر خدا جانےماں کی ممتا کی کتنی کہانیاں سی یاد آکے رہ گئی ہوں گی۔اور نہ جانے صبرورضاکامجسم وجود بن کروہ اپنی مادرِمہرباں کے چہرے کوکتنی دیر تک تکتارہاہوگا۔اور’’إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، وَ لَا نَقُوْلُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ’’(بخاری کتاب الجنائز بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِنَّ بِکَ لَمَحْزُوْنُوْنَحدیث1303) ’’یقیناً آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم وہی کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہواور اے ابراہیم ہم یقیناًتیری جدائی سے غمگین ہیں۔’’کے مصداق اس کے اشکوں میں نہ جانے اس وقت کتنی تصویریں پلکوں سے ڈھلک ڈھلک گئی ہوں گی۔

لو ڈھلک گیا وہ آنسو کہ جھلک رہا تھا جس میں

تری شمعِ رُخ کا پَرتَو تیرا عکس پیاراپیارا

اس سعادت منداورفرمانبرداربیٹے نے کہ جو وَبَرًّا بِوَالِدَتِيکی فطرت لیے ہوئے پیداہوا تھا۔وہ اپنی اس مادرصدیقہ کوزندگی بھرنہیں بھولا۔ تبھی تو عمرکے آخری حصہ میں بھی خداکایہ رسول جب بھی اپنی والدہ مہربان کاذکرکرتاتوآنکھیں ڈبڈبا جایاکرتی تھیں۔ دن اور رات میں بیسیوں مرتبہ رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ کی دعائیں پڑھنے کے باوجود آپ گاہے اپنی والدہ ماجدہ کے مزارپردعاکے لیے تشریف لے جاتے۔

ایک چشم دید واقعہ حضرت عرفانی صاحب ؓنے یوں بیان فرمایاہے کہ’’ان دعاوٴں کا تو ہمیں پتہ نہیں جو آپ اپنے والدین کے لئے کرتے ہوں گے مگر والدہ صاحبہ کی محبت کا ایک واقعہ اور جوش دعا کا ایک موقعہ میری اپنی نظر سے گزرا ہے۔ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ سیرکےلئے اس قبرستان کی طرف نکل گئے جو آپ کے خاندان کا پرانا قبرستان موسوم بہ شاہ عبدالله غازی مشہور ہے راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ والدہ صاحبہ کی قبر پر آئے اور بہت دیر تک آپ نے اپنی جماعت کو لے کر جو اس وقت ساتھ تھی دعا کی۔اور کبھی حضرت مائی صاحبہ کا ذکر نہ کرتے کہ آپ چشم پُر آب نہ ہوجاتے۔

حضرت صاحب کا عام معمول اس طرف سیر کو جانے کا نہ تھا مگر اس روز خصوصیت سے آپؑ کا ادھر جانا اور راستہ سے کترا کر قبرستان میں آ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھاناکسی اندرونی آسمانی تحریک کے بدوں نہیں ہو سکتا۔’’(حیات احمدؑ جلدا ول صفحہ 221)

تاریخ وفات کی تعیین

حضرت اقدسؑ کی والدہ محترمہ کی تاریخ وفات بالعموم 1868ء بیان ہوتی ہے۔لیکن اب ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ایک قلمی روزنامچہ حال ہی میں دریافت ہوا ہے جس کے اکثر اندراجات مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے قلم سے ہیں۔ انہوں نے اس میں حضرت والدہ صاحبہ کی تاریخ وفات12ذی الحج1283ھ(مطابق 18؍اپریل 1867ء) لکھی ہے ۔’’(تاریخ احمدیت جلداول صفحہ 103)

مزار مبارک

آپ کا مزار مبارک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے قدیم خاندانی مقبرہ میں موجود ہے جو مقامی عیدگاہ کے پاس ہے اور قادیان سے مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس قبرستان کے ایک حصے کا نقشہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کی تحقیق کے مطابق سیرت المہدی میں درج ہے۔جس میں بعض قبورکی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک قبر حضرت والدہ محترمہ صاحبہؒ کی بھی ہے جس کانشان ابھی تک محفو ظ وصحیح سلامت چلاآرہاہے۔

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر

خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیراسفر

مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا!

نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا!

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے!

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button