اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اُس کی عبادت کی جاوے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 28؍ اپریل 2006ءمیں فرمایا:
ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام پیشگوئیوں کو پورا ہوتا دیکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور آپؐ کے غلام صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس مسیح و مہدی کو ماننے کی توفیق دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ہر وقت ڈوبا رہتا تھا۔ آپؑ اپنے ایک فارسی کلام میں فرماتے ہیں :
بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
کہ اللہ تعالیٰ کے بعد مَیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوبا ہوا ہوں۔ اگر یہ عشق جو مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، کفر ہے، تو مَیں بہت بڑا کافر ہوں۔ تو یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام عشق خدا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ پس ہم جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم تبھی حقیقی احمدی کہلا سکتے ہیں جب ہم بھی اپنے پیدا کرنے والے خدا اور اس کے آخری شرعی نبی سے عشق کرنے والے بنیں۔ اس کوشش میں رہیں کہ اس عشق کے معیارہمیں بھی حاصل ہوں اور یہ کوشش کس طرح ہو گی؟ یہ تب ہو گی جب ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حکموں پر عمل کرنے والے ہوں گے، اُس تعلیم پر چلنے والے ہوں گے جو ان پاک اور نیک عملوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہے۔
آپؑ اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں :’’ہر وقت جب تک انسان خداتعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان ہر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے، بات نہیں بنتی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دوقسم کے ہیں۔ ایک حقوق اللہ‘‘(یعنی اللہ تعالیٰ کے حقوق اور )’’دوسرے حقوق العباد‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ایک دوسرے کے حقوق۔ ’’اور حقوقِ عباد بھی دو قسم کے ہیں، ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں ‘‘۔ یعنی آپس میں احمدیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ حقوق ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق ہیں، ’’خواہ وہ بھائی ہے یا باپ یا بیٹا ہے۔ مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے‘‘۔ ایک دین کا ایسا رشتہ ہے جو بھائی بھائی کا رشتہ ہوتا ہے’’اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی ہے‘‘۔ اس کے علاوہ دوسرے انسان ہیں کسی بھی مذہب کے ہوں، کسی بھی فرقے کے ہوں، ان سب سے سچی ہمدردی کرنا ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اُس کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو‘‘۔ یعنی کسی اپنے ذاتی مقصد کے لئے نہ ہو ’’بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے‘‘ یعنی جواللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئے’’کوئی فرق نہ آوے۔ اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے۔ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے، پورے طورپر سینہ صاف نہیں ہوتا۔ اُدْعُوْنِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن :61) میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 68جدیدایڈیش مطبوعہ ربوہ)
تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اپنے دو حقوق ادا کرو، ایک اللہ کا حق جو بندے پر ہے دوسرا بندے کا حق دوسرے بندے پر یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی جو مخلوق ہے، اس میں ایک انسان کا دوسرے انسان پر حق۔