مولوی سیدعبدالواحد (1853تا 1926ء) ازبرہمن بڑیا۔ بنگال (نمبر15)
قادیان دارالامان میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں وارد ہونے والے اس مہمان کا نام مولوی سید عبدالواحد تھا۔ اورآپ برہمن بڑیا، مشرقی بنگال کے ایک ممتاز خاندان کی یادگاراوراپنے علاقہ کی ایک معروف، فاقید النظیروعدیم المثال محقق اورعلمی شخصیت تھے۔
اس سفر کے دوران آپ کا قیام قادیان میں قریباً پندرہ دن رہا۔ اس دوران آپ نے اپنے تمام سوالات اور شبہات اپنے قابل ذی احترام ومعزز میزبان تک پہنچائے۔ ہر وسوسے کا علمی اور کافی و شافی جواب پاکر داخل احمدیت ہوئے اوراجازت لےکر اپنے آبائی وطن کی طرف واپس لوٹ گئےاور پھر آپ کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے صوبہ بنگال میں ہزاروں افراد پر مشتمل جماعتیں قائم فرمادیں۔
زیر نظر معزز مہمان کو نصیب ہونے والی مہمان نوازی دنیاوی کھانوں اورظاہری آرام وراحت سے زیادہ علمی اور فکری سوالات کے جوابات کی صورت میں ملی، جس سے ان کواپنےاس طویل اور تھکا دینے والے سفر کی صعوبتیں بھی آسان لگنے لگیں۔
مولانا موصوف نے ڈھاکہ شہر کے گورنمنٹ عربی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد تکمیل علوم دینیہ کے لیے ہندوستان کا سفر اختیار کیا تھا۔ ہندوستان کی مختلف درسگاہوں کا تنقیدی نگاہوں سے معائنہ کرتے ہوئے لکھنؤ فرنگی محل کے مشہور علامہ مولوی عبدالحئی صاحب کی شاگردی پسند فرمائی اور عرصہ دراز تک وہاں علم دین حاصل کرتے رہے۔
مولانا موصوف کے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مولوی عبدالحئی صاحب نے نظام حیدرآباد کی حکومت میں 500روپے تنخواہ پر ایک جلیل عہدہ پر بھیجنا چاہا لیکن بیماری کی وجہ سے آپ نے حیدر آباد کے گرم علاقہ میں جانا پسند نہ فرمایا۔
مختلف پیشکشوں کو ٹھکرا کر آپ برہمن بڑیا میں غربت اور تنہائی کی زندگی پر قانع تھے اور مقامی مسلمانوں کی درخواست پریہاں کی نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے بطور مدرس ہائی سکول اور مقامی قاضی خدمات بجا لاتے رہے۔
آپ تک اپنے ایک دوست منشی دولت احمد خان وکیل عدالت برہمن بڑیا کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام اور دعویٰ بھی پہنچا۔ آپ ان دعاوی کی تحقیقات میں ہمہ تن مصروف رہے۔ قریباً 10سال 1902تا 1912ء مطالعہ اور تحقیق میں صرف کردیے۔ مولوی صاحب موصوف کی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے بھی بعض سوالات کے جوابا ت کے لیے خط و کتابت تھی۔ مکتوبات احمد۔ جلد پنجم کے صفحہ 268 اور 269 پر ان خطوط کے جوابا ت کا متن موجود ہے۔ اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مولانا موصوف کا ذکر براہین احمدیہ جلد پنجم میں بھی فرمایا ہے۔ جہاں آپؑ نے مولوی صاحب کے بعض وساوس کا جواب درج فرمایا ہے۔
مولوی عبدالواحدصاحب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت نہ کر سکنے کا افسوس تھا۔ وہ بعض علمی الجھنوں کو حل کرنے اور معروضی تحقیقات میں بھی مگن رہےاور وقت گزرتا چلا گیا۔ اس لیے آپ نے اپنے بڑھاپےاورکمزورئ صحت کےباوجودقادیان جانے کامصمم ارادہ کرلیا۔ اپنے تین قریبی شاگردوں مولوی امداد علی صاحب، قاری دلاور علی صاحب اور دھانو منشی کے ہمراہ سال 1912ءکے ماہ اکتوبر میں قادیان دارالامان کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستہ میں ہندوستان کے مشہور علماء مولوی احمد رضا خان بریلوی، مولوی شبلی نعمانی، مولوی عبداللہ صاحب ٹونکی، مولوی عین القضاۃ صاحب فرنگی محل لکھنؤ، مولوی عبدالباری صاحب فرنگی محل لکھنؤ، مولوی عبدالحق صاحب تفسیر حقانی، مولوی ثناء اللہ امرتسری، مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ سے ملاقات کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پرسوال و جواب اور بحث مباحثہ کرتے ہوئے قادیان دارالامان پہنچے۔ کیونکہ اپنی ذاتی تحقیق اورگہرے مطالعہ کے بعد بھی سمجھتے تھے کہ شاید ان علمائے ہند کے پاس احمدیت کے بطلان کی کوئی قطعی دلیل موجود ہے آپ ان اکابر علماء سے بالمشافہ ملاقات کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں ان مسلمان علماء سے ہونے والی متنوع گفت وشنیدبلکہ بعض جگہ ہونے والی شدید اختلاف رائے اور مخاصمت والی کیفیت نے آپ کے شوق تحقیق کو مزید مہمیز دی۔ اور قادیان جا پہنچے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت و تربیت میں رہنے والی علمی و عملی و روحانی حالت کا بچشم خود مشاہدہ کرسکیں۔
تاریخ احمدیت کی جلد سوم کے صفحہ 426 پر لکھا ہے کہ’’قادیان میں آپ پندرہ دن تک حضرت خلیفہ اوّل سے تبادلہ خیال کرتے رہے اور جب اپنے تمام نوٹ کئے ہوئے شبہات کا تسلی بخش جواب پاکر ہر طرح سے اطمینان کر لیا، اور قادیان کے باشندوں کے حالات کو بھی غور و تدبر کی نگاہ سے دیکھ کر انشراح صدر ہوگیاتو مزید توقف نہ کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اوّل کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ ‘‘
جماعت کے اخبار الحکم نے اپنے 7؍نومبر 1912ء کے شمارہ کے صفحہ 8 کے کالم 3 میں خبر دی کہ’’بنگال مشرقی کے مقام برہمن بڑیا سے مولوی عبدالواحد صاحب ایک مشہور فاضل تحقیقات کامل کے بعدآکر سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے ہیں۔‘‘
الغرض آپ قادیان میں کچھ وقت ٹھہرنے کے بعد حسب اجازت حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ برہمن بڑیا واپس چلے گئے۔ آپ کے اس سفر کے دلچسپ او رمفصل حالات آپ کی تصنیف ’’جذبۃ الحق‘‘میں بیان ہیں۔ اس کتاب کا بڑا حصہ آپ کی زندگی میں آپ کے زیر نگرانی چھپ گیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد آخری صفحات پر آپ کے بیٹے سید سعید احمد صاحب مینیجر بنگال احمدیہ ایسوسی ایشن نے ایک نوٹ لکھ کر مولانا سید عبدالواحد صاحب کے نام حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے 2 خطوط کا متن درج کیا ہے۔ یہ خطوط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے 17؍اگست 1905ء اور 24؍جنوری 1906ء کو تحریر کیے گئے تھے۔
’جذبۃ الحق‘ از مولوی سید عبدالواحد صاحب برہمن بڑیا۔ جماعت کی مرکزی ویب سائٹ پر یہ کتاب موجود ہے۔
٭…٭…٭