محمود احمد صاحب المعروف محمود کریانہ سٹور والے
ہمارے خاندان میں بہت سے افراد ایک خوشحال اور بھرپور زندگی گزار کر اس دنیا سے چلے گئے۔ مگر آج تک کسی کے متعلق بھی لکھنے کا موقع نہیں ملا۔ تایا جان کی وفات پر اُن کے بچوں سے تعزیت کے لیے خاکسار نے مختصراً اُن کو یہ تحریر بھجوائی جوخاندان والوں کے بے حد اصرار پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بغرض دُعا ہدیہ قارئین ہے۔
ہمارے تایا جان نے ہر لحاظ سے ایک مثالی زندگی گزاری۔ ان کا بچپن، پاکیزہ جوانی، بحیثیت شوہر، پڑوسی، بھائی، باپ، غرضیکہ ہر لحاظ سے ان کی زندگی مثالی تھی۔ ان کی وفات پر ان کے سب سے چھوٹے بیٹے مکرم احمد خالد صاحب نے کیا خوب کہا کہ ہر کسی کی زندگی میں اس کا کوئی نہ کوئی آئیڈیل ہوتا ہے،کسی کا آئیڈیل کوئی سنگر تو کسی کا فٹ بالر! مگر میرا آئیڈیل میرا باپ ہے۔ یقیناًوہ ہم سب کےآئیڈیل تھےاور ہمیں اس بات پر فخر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے جب کبھی پاکستان جانے کا موقع ملے تو وہاں عموماً ناظران کرام و وکلائے کرام سے بات کرتے ہوئے خاندان کا تعارف کروانا پڑتا ہے، مجھے جب بھی اپنے خاندان کا تعارف کروانا پڑا تو اس کا آغاز تایا جان سے ہو تا۔
آپ کا پورا نام محمود احمد ولد محمد رمضان تھا۔ آپ 1934ءمیں ضلع سیالکوٹ کے گاؤں گھنوکے ججہمیں پیدا ہوئے اور گھٹیالیاں سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذآپ کے دادا دسوندی کھوکھر صاحب آف گرجاکھ(GARJAKH) ضلع گوجرانوالہ کے ذریعہ ہوا جن کا تعلق دیو بندی مسلک سے تھا۔
آپ کے دادا نے غالباََ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دَور میں احمدیت قبول کی اور مخالفت کی وجہ سے گرجاکھ سے گھنوکے ججہشفٹ ہوگئے۔ تایا جان 1957ء میں مع فیملی گھنوکے ججہسے ربوہ شفٹ ہوئے اور پھر 1991ءتک ربوہ میں ہی رہے۔
آپ باریش خوبصورت چہرے والے پابند صوم و صلوٰۃ، فجر کے بعدر و ز انہ لمبی تلا و ت کر نے و ا لے، خلافت سے بے پناہ محبت کرنے والے فرشتہ سیرت انسان تھے۔ آپ نے جرمنی جانے کے بعد ہمیں سب سے پہلا تحفہ حضور کے خطبات کی آڈیو کیسٹس کا بھجوایا۔ اس طرح بچپن سے ہی ہمیں خلافت سے محبت اور اُس سے وابستہ رہنے کی طرف توجہ دلائی۔
جرمنی سے جب بھی یوکے جاتے تو مسجد فضل لندن کے قریب اپنے بیٹے مسعود احمد کھوکھر کےہا ں رہتے تا کہ وہاں قیام کے دوران امام وقت کی اقتدا میں زیادہ سے زیادہ نمازیں ادا کر سکیں اور خلافت کی برکات سے فیض پائیں۔ آپ 1991ءمیں فیملی سمیت جرمنی چلے گئے۔ آپ نے اپنی جماعت (Oberursel)اوبرارزل میں بطور صدر جماعت، سیکرٹری تبلیغ، سیکرٹری تعلیم القرآن و وقف عارضی اور زعیم مجلس کے علاوہ مشن ہاؤس Mittelweg Frankfurt میں شعبہ سمعی و بصری اورمشن ہاؤس بیت السبوح میں بھی بطور انسپکٹر بیت المال خدمت کی توفیق پائی۔ پاکستان میں بھی گول بازار ربوہ کی مجلس میں بطور زعیم مجلس عَلمِ انعامی لینے کی توفیق ملی۔
میرا تایا جان سے رابطہ اور دوستانہ تعلق تین ادوار پر مشتمل ہے۔ پہلا دور وہ ہے جب وہ پاکستان میں تھے یعنی مستقل جرمنی شفٹ ہو نے سے پہلے۔ اس دور سے لےکر آج تک میں نے ان کوکبھی جناح کیپ کے بغیر نہیں دیکھا۔ جب وہ مستقل جرمنی شفٹ ہوئے، اس وقت میری عمر بارہ سال تھی۔ ہمارا ایک ہی محلہ دارالعلوم جنوبی تھا لیکن گھر کافی دور تھا۔ ہمارا گھر دارالعلوم جنوبی حلقہ احد کی مسجد کے قریب جبکہ تایا جان کا گھر دارالعلوم جنوبی کی مسجد بشیر کے قریب بر لب سڑ ک تھا۔ مگر اسکول یا بازار جاتے ہوئے گھر راستے میں آتا تھا۔ جب میرا داخلہ مدرستہ الحفظ میں ہوا تو ساتھ ان کے چھوٹے بیٹےاحمد خالد کا داخلہ بھی ہوا۔ اس لیے اُس دَور میں تو میرا روزانہ اُن کے گھر آنا جانا رہتا۔ آپ نے اپنے بچوں کو بھی خوب پڑھایا اور اُس دَور کے اچھے سے اچھے اسکول میں داخلہ دلوایا۔ ہمارے خاندان میں عموماًمیٹرک تک لڑکیوں کو پڑھایا جاتا تھا مگر آپ نے اپنی بیٹی کو کالج بھی بھجوایااور خود اسے اسکول، کالج چھوڑنے اور لینے جاتے۔ خاندان میں کوئی بھی اہم معاملہ زیر بحث ہوتا تو اس میں تایا جان کی شرکت لازمی ہوتی اور عموماًتایا جان کے فیصلے کو اہمیت دی جاتی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان پر بہت بڑی ذمہ داری تھی۔
دوسرادَور وہ ہے جب آپ 1991ء میں جرمنی شفٹ ہوئے۔ 31؍دسمبر 1993ء کو میرے والد صاحب کی وفات ہوئی۔ وہ وقت ہم سب پر انتہائی کٹھن تھا کیونکہ ہم سات بہن بھائی تھے اور چھ غیر شادی شدہ تھے، سب سے چھوٹا بھائی احسان اللہ طاہر (حال مقیم جرمنی) اُس وقت ڈیڑھ سال کا تھا۔ ان حالات کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو اس کیفیت سے گزرا ہو۔
والد صاحب کی وفات کے وقت میری عمر14سال تھی۔ اس دور میں بذریعہ خطوط ہی سب سے رابطہ ہوتا۔ تایا جان کو خط لکھنے کی ذمہ داری بھی مجھ پر آن پڑی۔ یہ سلسلہ اس دَور تک جاری رہا جب تک فون کال سستی نہیں ہو گئی۔ ابھی تک مجھے Oberurselبھی یاد ہے کیونکہ خط پر ایڈریس لکھتے ہوئے یہ بھی لکھنا پڑتا تھا۔ 2017ءمیں پہلی بار جرمنی جانے کا اتفاق ہوا تو اس کا صحیح تلفظ معلوم ہوا۔
تایا جان نے مالی لحاظ سے ہم سے بہت تعاون کیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہماری ضروریات کی خاطر اپنے بچوں کی جائز ضروریات کو بعض دفعہ پورا نہ کیا۔ ہم سب کی شادیوں پر بہت خرچ کیا۔ جس کا کبھی انہوں نے اظہار بھی نہ کیا۔
ہمارے علاوہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کی بھی ہر ممکن مدد کرتے رہے۔ جب فون کال کچھ سستی ہوئی تو اُن دنوں ہماری کالونی میں صرف تین گھروں میں فون تھا، سب کے فون انہی گھروں میں آتے۔ ہمارا فون جہاں آتا وہ ہمارے گھر سے چند منٹ کے فاصلہ پر تھا۔ سب سے پہلے وہ خود فون پر بات کرتے اس کے بعد ہمیں اطلاع آتی۔ چونکہ فون اتنا بھی سستا نہیں تھا جیسے آج کل ہے، اس لیے بعض اوقات ٹھیک سے بات بھی نہ ہو پاتی کہ کارڈ ختم ہوجاتا۔
1996ءمیں میرا داخلہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں ہوا جس کی تایا جان کو بھی بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے مجھے لکھا کہ آپ کا جتنا بھی خرچ ہے وہ مجھے لکھو میں آپ کو بھجوا دیا کروں گا۔ آپ خوب دل لگا کر پڑھواور جامعہ کی تعلیم مکمل کرو۔ تایا جان کی ذمہ داریاں دیکھ کر میں نے اپنے لیے ماہانہ خرچ لینے سے انکار کر دیا کیونکہ مجھے ہر ماہ جامعہ کی طرف سے وظیفہ مل رہا تھاجس سے میرا خرچ پورا ہوجاتا۔ اس کے باوجود جب بھی تایا جان کے بیٹے مقبول احمد شاہد صاحب پاکستان آتے تو تایا جان کی طرف سے مالی تعاون کا ضرور پوچھتے۔ چنانچہ ان کے بےحد اصرار پر خاکسار نے ملفوظات، تفسیر کبیر اور دیگر جماعتی کتب تایا جان کے تعاون سے خریدیں۔
2003ءمیں خاکسار نے جامعہ سے شاہد کا امتحان پاس کر لیا اور میری پہلی تقرری ڈیریانوالہ ضلع نارووال میں ہوئی۔ خاکسار وہاں ایک سال رہا اس دوران تایا جان نے اپنے بیٹے کو پاکستان بھجوایا۔ اس دَور میں نارووال کی طرف آنے والی سڑکوں کی حالت بہت خستہ تھی۔ ان کے بیٹے بذریعہ ٹیکسی خاکسار سے ملنے ڈیریانوالہ آئے، تایا جان کا پیغام دیا، کچھ دیر بیٹھے پھر اسی دن واپس چلے گئے۔ وہ بھی تایا جان کی طرف سے بے پناہ محبت کا اظہار تھا۔
تیسرا دَور وہ ہے جب 1991ءکے بعد میری اُن سے پہلی ملاقات ہوئی۔ جنوری2005ء میں خاکسار کو گھانا مغربی افریقہ بھجوادیا گیا۔ یہاں آکر بھی بذریعہ خط یا فون تایا جان سے رابطہ رہا۔ بظاہر لگتا تھا کہ میری تایا جان سے کبھی ملاقات نہ ہوسکے گی۔ جولائی2011ء میں میری پہلی چھٹی تھی جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت براستہ یوکے منظور کی۔ جس کی بے حد خوشی ہوئی۔
20سال بعد24؍جولائی2011ءحدیقۃ المہدی میں میری ملاقات تایا جان سے ہوئی۔ وہ لمحات اور جذبات بھی کیا تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ایک باپ کو بیس سال بعد اپنا گمشدہ بیٹا مل گیا ہو۔ ملاقات کے دوران ہم دونوں کی کیفیت ایسی تھی کہ اُن کو تحریر میں لاتے ہوئے میرا یہ صفحہ بھی آنسوؤں سے نم ہو رہا ہے۔ تایا جان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ 20سال بعد بھی ان کے جسم میں وہی چستی اور چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی۔
پھر کچھ ماہ بعد میری تائی جان کا انتقال ہوگیا۔ تایا جان اب پہلے کی طرح نہ رہے۔بظاہر دیکھنے میں ہر لحاظ سے ٹھیک مگر اندر سے جیسے شدید غم کو چھپا رہے ہوں۔ اس کااندازہ اُس وقت ہوا جب تائی جان کی وفات کے چند ماہ بعد تایا جان گھانا دو ہفتے کے لیے مجھے ملنے آئے۔
2017ءمیں مجھے جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کی توفیق ملی۔ اس بار تایا جان کو وہیل چیئر پر دیکھا، بہت خاموش۔ مختصراً یہ کہ تائی جان کی وفات کے بعد تایا جان کی صحت کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی۔ اسی کیفیت میں تایا جان اپنی زندگی کی 87بہاریں دیکھ کر 14؍اپریل 2021ءکواپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تایا جان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان جیسے پاک وجود ہر خاندان میں پیدا کرے۔ آمین