شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپؑ کے عشق الٰہی کا بیان
خداکے فرستادے اوراس کے مامورعشق الٰہی کے رنگ سے رنگین ہوتے ہیں۔انہوں نے عشق الٰہی کی آتش میں اپنے تَن من کو‘‘من تن شدم”کے فناکے ایسے مقامات سے گزاراہواہوتاہے کہ جس طرح لوہاآگ میں پڑکر آگ ہی نظرآنے لگ جاتاہے اسی طرح “تاکَس نگویدبعدازیں من دیگرم تُودیگری”کے مقام پروہ فائز ہوجاتے ہیں ۔یہی وہ مقام ہوتاہے کہ کہنے والاتو‘‘أَنَاالْحَقّ”کہہ جاتاہے۔لیکن سننے والوں کی کوتاہ عقلیں سمجھنے سے قاصررہ جایاکرتی ہیں۔ اورکبھی کبھی ٹھوکربھی کھاجاتی ہیں۔ہاں اہل دل ، عارف اور سعادت مندلوگ اس بات کوسمجھ لیاکرتے ہیں اور وہ اپنے ٹھٹھرتے ہوئے ایمانوں کواس کی حرارت اور گرمی سے اقتباس کرتے ہوئے اپنی دنیااوردین اور اس عارضی زندگی اور دائمی زندگی کی بہتری اورنیک عاقبت کے سامان کرلیاکرتے ہیں ۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام محبتِ الٰہی کی اسی آگ کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
“اورجیساکہ ایک لوہا آگ میں پڑ کربالکل آگ کی رنگ میں آجاتاہے اورآگ کی صفات اُس سے ظاہرہونی شروع ہوجاتی ہیں ایساہی اس درجہ کاآدمی صفاتِ الٰہیہ سے ظلّی طور پرمتصف ہوجاتاہے۔اور اس قدر طبعاً مرضات الٰہیہ میں فنا ہوجاتاہے کہ خدامیں ہوکربولتاہے اورخدامیں ہوکردیکھتاہے اورخدامیں ہوکرسنتاہے اورخدامیں ہوکرچلتاہے گویا اس کے جُبہ میں خداہی ہوتاہے۔”
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22 ص 24-25)
یہ لوگ اپنے خداکے عشق میں فناہواکرتے ہیں ۔وہ اسی کی پوجااور پرستش کرتے ہیں اور‘‘شہوات نفسانیہ کا چولہ آتشِ محبتِ الٰہی میں جلادیتے ہیں اور خدا کے لیےتلخی کی زندگی اختیار کر لیتے ہیں وہ دیکھتے ہیں جو آگے موت ہے اور دوڑ کر اُس موت کو اپنے لیےپسند کر لیتے ہیں وہ ہر ایک درد کو خدا کی راہ میں قبول کرتے ہیں اور خدا کے لیےاپنے نفس کے دشمن ہو کر اور اس کے بر خلاف قدم رکھ کر ایسی طاقت ایمانی دکھلاتے ہیں کہ فرشتے بھی اُن کے اس ایمان سے حیرت اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں ۔وہ روحانی پہلوان ہوتے ہیں اور شیطان کے تمام حملے اُن کی روحانی قوت کے آگے ہیچ ٹھہرتے ہیں وہ سچے وفادار اور صادق مرد ہوتے ہیں کہ نہ دنیا کی لذّات کے نظّارے انہیں گمراہ کر سکتے ہیں اور نہ اولاد کی محبت اور نہ بیوی کا تعلق اُن کو اپنے محبوب حقیقی سے برگشتہ کر سکتا ہے۔غرض کوئی تلخی اُن کو ڈرا نہیں سکتی اور کوئی نفسانی لذّت اُن کو خدا سے روک نہیں سکتی اور کوئی تعلق خدا کے تعلق میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتا۔”
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22 ص 24)
خدائے تعالیٰ سے عشق ومحبت کی یہی وہ لذت ہے کہ ایک جگہ حضرت اقدسؑ بیان فرماتے ہیں :
“ایک لذیذمحبت الٰہی جولذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے اگران کے وجودوں کوہاونِ مصائب میں پیساجائے اورسخت شکنجوں میں دے کرنچوڑاجائے توان کاعرق بجزحُب الٰہی کے اورکچھ نہیں۔”
(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد 2 ص 79حاشیہ)
یہ وہ محبت ہوتی ہے کہ ‘زخم ومرہم برہِ یارتویکساں کردی’ کامصداق بن جایاکرتی ہے۔اسی محبت کے لیےان کی مائیں ان کوجنم دیاکرتی ہیں اور یہی عشق ومحبت ماں کے دودھ کے ساتھ ان کی رگوں میں شامل ہوتاہے۔
حضرت اقدس ؑاپنے فارسی منظوم کلام میں فرماتے ہیں :
مَن زِ مادر برائے تو زادم
ہست عشقت غرض زِ ایجادم
مجھے تومیری ماں نے تیرے لیےہی جنم دیاہے اور میری پیدائش کی غرض تیراہی عشق ہے۔
اسی محبت کے ساتھ وہ پروان چڑھتے ہیں ۔ان کی روح اس کے نام سے ایسے اچھلتی ہے جیساکہ شیرخواربچہ ماں کے دیکھنے سے۔
اورآخرکارخدائے رب کریم انہیں اپنے پیارکی گودمیں اٹھا لیتا ہے۔اور خدا کا عرش ان کا دل ہو جاتا ہے۔وہ اپنے حسن وجمال کی تجلیات سے اپنی محبت سے ان کے دلوں کو پُر کر دیتا ہے۔‘‘خدا اس کو ایک بچہ کی طرح اپنے کنارِ عاطفت میں لے لیتاہے اور اس کے لیےایسی ایسی طاقتِ الوہیت کے کام دکھلاتاہے جس سے ہر ایک دیکھنے والے کی آنکھ کو چہرہ خدا کا نظر آ جاتا ہے۔پس اس کا وجود خدا نما ہوتا ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ خدا موجود ہے۔”
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22 ص 57)
“وہ اس خدائے واحدویگانہ کے منادی بن جایا کرتے ہیں ۔اور کہتے ہیں کس طرح اس خوشخبری کودلوں میں بٹھادوں۔ کس دَف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں ۔”
(کشتیٔ نوح،روحانی خزائن جلد19ص22)
وہ آئینہ بن جایاکرتے ہیں اس آفتاب کا، کہ آؤ اس آئینہ صافی میں اس واحدوأحد محبوب حقیقی کاچہرہ دیکھ لو۔کیونکہ یہی وہ عاشق ہوتے ہیں جو نگر نگر اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ۔یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس خدا کے وجود کا پتہ دینے والے ہوتے ہیں ۔اس کے واحد لاشریک ہونے کا علم لوگوں کو سکھلانے والے ہوتے ہیں ۔اگر یہ عاشق نہ ہوتے تو اس معشوق کی شناخت بھی ممتنع اور محال ہوجاتی۔
خدائے واحد و یگانہ کا یہ عاشق صادق اپنی تصنیف ‘حقیقۃ الوحی’ میں فرماتا ہے:
“جس طرح آنکھ میں ایک روشنی ہے اور وہ باوجود اس روشنی کے پھر بھی آفتاب کی محتاج ہے اِسی طرح دنیا کی عقلیں جو آنکھ سے مشابہ ہیں ہمیشہ آفتابِ نبوت کی محتاج رہتی ہیں اور جبھی کہ وہ آفتاب پوشیدہ ہو جائے اُن میں فی الفور کدورت اور تاریکی پیدا ہو جاتی ہے۔کیا تم صرف آنکھ سے کچھ دیکھ سکتے ہو؟ ہرگز نہیں ۔اِسی طرح تم بغیر نبوت کی روشنی کے بھی کچھ نہیں دیکھ سکتے۔پس چونکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے اِس لیےیہ خود غیر ممکن اور محال ہے کہ بجز ذریعہ نبی کے توحید مل سکے۔نبی خدا کی صورت دیکھنے کا آئینہ ہوتا ہے اسی طرح آئینہ کے ذریعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے۔جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں بھیجتا ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعہ سے دکھلاتا ہے۔تب دنیا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔پس جن لوگوں کا وجود ضروری طور پر خدا کے قدیم قانونِ ازلی کے رُو سے خد اشناسی کے لیےذریعہ مقرر ہو چکا ہے اُن پر ایمان لانا توحید کی ایک جزو ہے اور بجز اس ایمان کے توحید کامل نہیں ہو سکتی۔کیونکہ ممکن نہیں کہ بغیر اُن آسمانی نشانوں اور قدرت نما عجائبات کے جو نبی دکھلاتے ہیں اور معرفت تک پہنچاتے ہیں وہ خالص توحید جو چشمۂ یقین کامل سے پیدا ہوتی ہے میسر آسکے۔وہی ایک قوم ہے جو خدا نما ہے جن کے ذریعہ سے وہ خدا جس کا وجود دقیق در دقیق اور مخفی در مخفی اور غیب الغیب ہے ظاہر ہوتا ہے اور ہمیشہ سے وہ کنزِ مخفی جس کا نام خدا ہے نبیوں کے ذریعہ سے ہی شناخت کیا گیا ہے۔ورنہ وہ توحید جو خدا کے نزدیک توحید کہلاتی ہے جس پر عملی رنگ کامل طور پر چڑھا ہوا ہوتا ہے اُس کا حاصل ہونا بغیر ذریعہ نبی کے جیسا کہ خلاف عقل ہے ویسا ہی خلاف تجارب سالکین ہے۔
بعض نادانوں کو جو یہ وہم گذرتا ہے کہ گویا نجات کے لیےصرف توحید کافی ہے نبی پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں۔گویا وہ رُوح کو جسم سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں یہ وہم سراسر دلی کوری پر مبنی ہے۔صاف ظاہر ہے کہ جبکہ توحید حقیقی کا وجود ہی نبی کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور بغیر اس کے ممتنع اور محال ہے تو وہ بغیر نبی پر ایمان لانے کے میسر کیونکر آسکتی ہے۔اور اگر نبی کو جوجڑھ توحید کی ہے ایمان لانے میں علیحدہ کر دیا جائے تو توحید کیونکر قائم رہے گی۔توحید کا موجب اور توحید کا پیدا کرنے والا اور توحید کا باپ اور توحید کا سرچشمہ اور توحید کا مظہر اتم صرف نبی ہی ہوتا ہے اُسی کے ذریعہ سے خدا کا مخفی چہرہ نظر آتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ خدا ہے۔”
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22 ص115-116)
حضورؑ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا تذکرہ کیا ہی پیارے الفاظ میں فرماتے ہیں کہ:۔
“او میرے مولا۔میرے پیارے مالک میرے محبوب میرے معشوق خدا دنیا کہتی ہے تو کافر ہے مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اَور مل سکتا ہے۔اگر ہو تو اس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں۔لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیں جب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ میں کس حالت میں ہوں اس وقت تو مجھے جگاتا ہے اور محبت سے ، پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا میں تیرے ساتھ ہوں تو پھر اے میرے مولیٰ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے ہوئے پھر بھی میں تجھے چھوڑ دوں ہر گز نہیں ہرگز نہیں ۔”
(سیرت حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ تقریر از مولانا شریف امینی صاحب صفحہ 23، 24)
آپؑ فرماتے ہیں :
“کیا بدبخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی۔یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑوکہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں ۔کس دَف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سُننے کے لیےلوگوں کے کان کھلیں ۔
اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقینا ًسمجھو کہ خداتمہارا ہی ہے تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لیےجاگے گا تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں ۔اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتاکہ تم دنیا کے لیےسخت غمگین ہو جاتے ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لیےایسے بے خود کیوں ہوتے؟ خدا ایک پیارا خزانہ ہے اُس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارامددگار ہے تم بغیر اُس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں ۔”
(کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 21، 22)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :
“بیان کیا مجھ سے جھنڈا سنگھ ساکن کاہنواں نے کہ میں بڑے مرزا صاحب کے پاس آیا جایاکرتا تھا۔ایک دفعہ مجھے بڑے مرزا صاحب نے کہا کہ جاؤ غلام احمدکو بلالاؤ ایک انگریز حاکم میرا واقف ضلع میں آ یا ہے اس کا منشا ہو توکسی اچھے عہدہ پر نوکر کرا دوں ۔جھنڈا سنگھ کہتا تھا کہ میں مرزا صاحب کے پاس گیا تو دیکھاچاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا کر اس کے اندر بیٹھے ہوئے کچھ مطالعہ کررہے ہیں ۔میں نے بڑے مرزا صاحب کا پیغام پہنچا دیا۔مرزا صاحب آئے اور جواب دیا‘‘میں تو نوکر ہو گیا ہوں”بڑے مرزا صاحب کہنے لگے کہ اچھا کیا واقعی نوکر ہوگئے ہو؟مرزا صاحب نے کہا ہاں ہو گیاہوں ۔اس پر بڑے مرزا صاحب نے کہا اچھا اگر نوکر ہو گئے ہوتو خیر ہے۔”
(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 52)
(باقی آئندہ)