امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ جرمنی کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 19؍فروری 2022ء کو(10سے12سال کی) ناصرات الاحمدیہ جرمنی سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ ناصرات نے اس آن لائن ملاقات میں بیت السبوح فرانکفرٹ جرمنی سے آن لائن شرکت کی۔
ملاقات کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہواجس کے بعدناصرات کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ کیا جماعت کی کتب نابینا لوگوں کے لیے برائل Braille میں مہیا ہوں گی؟
حضور انور نے فرمایا کہ ہاں ان شاء اللہ۔ وقت آئے گا جس طرح جماعت ترقی کر رہی ہے یہ بھی مہیا ہو جائیں گی ان شاءاللہ تعالیٰ۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ تمہیں قرآن کریم پڑھنا آتا ہے؟
عزیزہ نے بتایا کہ اسے قرآن کریم پڑھنا آتا ہے نیز وہ حفظ بھی کر رہی ہے۔
حضور انور نے فرمایا: اچھا ماشاء اللہ۔نیز فرمایا کہ وقت آئے گا تومہیا ہوں گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ابھی تو پرنٹ میں بھی پوری طرح نہیں آئیں۔ ان شاء اللہ کوشش کریں گے۔
ایک ناصرہ نے عرض کی کہ انسان ہر کام حکمت سے کرنے کے لیے حکمت کیسے سیکھ سکتا ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ حکمت کیا چیز ہے؟ حکمت ہوتی ہے عقل۔ اپنی عقل کو استعمال کرو۔ علم حاصل کرنے سے عقل بڑھتی ہے ۔علم بھی حاصل کرو اور جب علم حاصل کرو گے تو تمہارے اندر بات کو سمجھنے کی زیادہ صلاحیت پیدا ہو گی اور جب کسی چیز کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے پھر اس کا جواب بھی حکمت سے دینے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے حکمت یہ ہے کہ ماحول کے مطابق عقل سے جواب دینا۔ اگرکوئی تمہارے سے لڑ رہا ہو، اس کا جواب اگر تم سختی سے دو اور سخت لہجے میں دو اور وہ ناراض ہو جائے اور تمہارے سے لڑائی کرنے لگ جائے تو وہ حکمت نہیں ہے لیکن وہی جواب اگر تم نرمی سے دو اور پیار سے اور سمجھا کر دو تو وہ حکمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو عقل دی ہوئی ہے اس سے فیصلہ کرنا چاہیے کہ میں نے اس کا جواب کس طرح دینا ہے اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب تمہارا علم بھی اچھا ہو۔ اگر تم زبردستی کسی کو کہو کہ دیکھو تم پردہ نہیں کرتی، اللہ تعالیٰ کے حکموں پہ عمل نہیں کرتی تو اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے گا جہنم میں ڈالے گا۔ اس کو غصہ آ جائے گاکہ تم کون ہوتی ہو مجھے اس طرح کہنے والی۔ اللہ نے میرافیصلہ کرنا ہے۔میرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ اگر یہی بات کسی کو پیار سے کہو کہ میں تو پردہ اس لیے کرتی ہوں،حجاب اس لیے لیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس پہ عمل کرو تو میں تو اپنے دین کی تعلیم پر عمل کرنے کے لیے کرتی ہوں تو یہ حکمت سے اسے سمجھا بھی دیا اور لڑائی بھی نہیں ہوئی۔ حکمت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عقل استعمال کرتے ہوئے کسی بات کا جواب دینا جس سے نتیجہ بہتر نکلے۔ لیکن ڈر جاناحکمت کا مطلب نہیں ہے ۔ اگر کوئی تمہیں کہے کہ تم احمدی ہو اور تم کہو کہ نہیں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ وہاں لوگ مذاق اڑائیں گے تو میں کہہ دوں کہ احمدی نہیں ہوں۔ تو یہ حکمت نہیں۔ کہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اللہ میاں نے توفیق دی کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے زمانے کے امام کو مان لیا۔ تو یہ جواب ہے۔ حکمت کا مطلب خوف بھی نہیں ہے حکمت کا مطلب یہ ہے کہ عقل سے ایک ایسا جواب دینا جس کا برا نتیجہ نہ نکلے۔ لیکن جہاں ایمان کا سوال آتا ہے وہاں ایمان کو نہیں چھپانا، وہاں ڈر کے مارے خوف زدہ ہو کے نہیں کہناکہ یہ حکمت تھی کہ میں نے ڈر کے مارے کہہ دیا کہ میں احمدی نہیں ہوں۔ یا نماز کا وقت آیا تو میں نے کہہ دیا کہ کوئی بات نہیں ہم نمازنہیں پڑھتے ۔ ایسی باتیں نہیں ہیں۔ جہاں دین کا معاملہ ہے وہاں غیرت دکھانی ہے۔ جہاں کسی بات کو کرنے کا معاملہ ہے، دوسرے کو سمجھانے کا معاملہ ہے وہاں حکمت سے بات کرنی ہے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ مشکل وقت سے انسان کیسے گزر سکتا ہے جب اس کو محسوس ہو رہاہو کہ وہ اپنا ایمان کھو رہا ہے اور وہ ایمان کو کیسے واپس حاصل کر سکتا ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ اگر ایمان ضائع ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جو تعلق ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ ایمان مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمہیں پتا ہو کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے تو غیب پر ایمان ہونا چاہیے۔یہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے ہاتھ میں سب طاقتیں ہیں پھر وہ کس طرح ہے اس کی تلاش کرو۔ کل ہی میں نے خطبہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بیان کیا تھا کہ وہ گیارہ سال کے تھے تو ان کو خیال آیا کہ میں کیوں احمدی ہوں، پھر میں کیوں مسلمان ہوں، میں کیوں اللہ تعالیٰ پریقین کرتا ہوں۔ پھر انہوں نے سوچنا شروع کیا اور ایک رات اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھانا تھا اس لیے آسمان پہ چمکتے ہوئے ستارے دیکھ کے ہی ان کو پتہ لگ گیا کہ دیکھو یہ جو ستارے ہیں اس کے پیچھے اَور ستارے ہیں، سیارے ہیں ،کائنات ہے، ایک کائنات کے بعد دوسری کائنات ہے اتنی لاکھوں کائناتیں ہیں،سائنسدان کہتے ہیں ہمیں پتا ہی نہیں کتنی کائناتیں ہیں۔ تو جب ان کو پتا نہیں ہے، لامحدود ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طاقت بھی اسی طرح لامحدود ہے۔ پھر جب یہ پتا لگ جائے کہ اللہ تعالیٰ ہے تو پھریہ بھی پتا لگنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جو ہماری اصلاح کے لیے نبی بھیجتا ہے وہ بھی سچے ہیں اور پھر اس زمانے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ۔اگر تم دیکھوقرآن کریم میں بہت ساری پیشگوئیاں ہیں۔ لوگ نماز نہیں پڑھتے، اللہ سے رو رو کر اپنے ایمان کی مضبوطی کے لیے دعا نہیں کرتےتو پھر تو ایمان ضائع ہی ہوتا ہے۔ پھر اگر قرآن کریم نہیں پڑھتے اور قرآن کریم کو سمجھ کر نہیں پڑھتے اس میں سے حکم نہیں نکالتے جو ایمان کو مضبوط کرنے والے ہوں تو پھر بھی ایمان کمزور ہوتا ہے۔ پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بہت سارا لٹریچر دیا ہے۔ اس میں جو آسان آسان باتیں ہیں ایمان مضبوط کرنے کے لیے اگر ہم وہ پڑھیں تو ہمارا علم بڑھے گا اور علم کے ساتھ ہمارا ایمان بھی بڑھے گا تو یہ چیز تو محنت سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہی کہا ہے۔ وَالَّذِیۡنَ جَاھَدُوْا فِیْنَاجو میرے رستہ میں جہادکرتے ہیں ان کو میں صحیح رستہ دکھاتا ہوں۔ توجہاد کا مطلب یہی ہے کوشش کرنی پڑتی ہے ایمان کو لانے کے لیے اور کوشش یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور اپنا علم بڑھانے کی کوشش کرو اور قرآن کریم میں اللہ کے جو حکم ہیں ان کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ بارہ سال کی عمر میں یہ کوشش کرنی شروع کر دینی چاہیے ۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ وہ کونسی نظم ہے جو آپ کو بہت پسند ہے اور آپ اکثر سنتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ ہر نظم جو اچھی پڑھی ہوتی ہے مجھے اچھی لگتی ہے۔ باقی سب سے اچھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں ہیں۔ کلام محمود کی بہت ساری نظمیں ہیں ۔ درّعدن کی نظمیں ہیں اور بہت سارے شاعروں کی نظمیں ہوتی ہیں۔ کسی دن کسی چیز کا موڈ(mood) ہو جاتا ہے کبھی سننے کا اگر وقت ملے تو، اکثر بیٹھ کرنظمیں سننے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ تم کون سی نظم سنتی ہو؟
عزیزہ نے عرض کی کہ بہت ساری سنتی ہوں جیسے ’’خلیفہ کے ہم ہیں‘‘ یا ’’خلیفہ دل ہمارا ہے‘‘۔
حضور انور نے فرمایا: درّثمین کی نظمیں پڑھا کرو اور کلام محمود کی نظمیں پڑھو، تمہارا اس سے ایمان بھی بڑھے گا۔ عارضی جوش پیدا کرنے کے لیے نظمیں جو ہوتی ہیں وہ تو ہیں لیکن ایمان بڑھانے کے لیے زمانے کےامام مسیح موعود علیہ السلام کا کلام اور پھر خلفاء کا کلام بھی پڑھنا چاہیے۔ اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔
ایک عزیزہ نے عرض کیا کہ جاپان ،کوریا اور چین میں سلام کرتے وقت جھکتے ہیں۔ کیا اگر ہم ادھر جائیں تو اس طرح جھکنا شرک کہلائے گا کیونکہ انسان کے سامنے جھکنا جائز نہیں ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ان کا ایک tradition ہے۔ان کا سلام کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ وہ یوں سر جھکا کر سلام کرتے ہیں۔ ہمارے ایشیا میں بھی رواج ہے، پاکستان میں بھی، انڈیا میں بھی کہ ہم بعض دفعہ سینے پہ ہاتھ رکھ کے یوں جھک کے سلام کر دیتے ہیں۔ السلام علیکم کہتے ہیں، ساتھ سینے پہ ہاتھ رکھ کے کہہ دیتے ہیں تو وہ کوئی شرک تو نہیں ہوتا۔ ویسے بھی ان کی traditionہے، ان کا سلام کا طریقہ ہے وہ یوں جھکتے ہیں،کوئی عبادت کے لیے نہیں جھکتے۔ وہ اگلے کو خدا سمجھ کے تو نہیں جھک رہے ہوتے کہ اس سے میں نے کچھ لینا ہے یا مانگ رہا ہوں۔ وہ تو ایک کرٹسی (courtesy)کا اظہار ہے جو دکھائی جا رہی ہے کہ کس طرح ہم آپ کو عزت دیتے ہیں، احترام دیتے ہیں اور سلام کا ایک طریق ہے۔ جاپان وغیرہ اور بہت ساری جگہ جب عورتیں سلام کرنے کے لیے آتی تھیں تو میں عورتوں سے ہاتھ تو نہیں ملاتا تو میں جھک کے ذرا سا آگے ہو کے السلام علیکم کہہ دیتا ہوں اس سے ان کو ہو جاتا ہے کہ ہماری عزت افزائی ہو گئی۔ تو اصل چیز تو یہ ہے کہ اگلے کی عزت کرنا اور ایک اصول یاد رکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر تمہاری نیت کسی کے سامنے جھکنے کی اس لیے ہے کہ تم اس سے مانگو اور اس کو خدا سمجھ رہی ہو تو وہ شرک ہے اگر صرف یہ کرٹسی ہے اور ایک کرٹسی دکھانے کے لیے اس کو عزت دینے کے لیے یوں کر کے ہلکا سا سر آگے جھکا دیا یا ذرا سا کمر کو بھی جھکا دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یہ کوئی شرک نہیں ہے ۔
پھر ایک عزیزہ نے سوال پوچھا کہ لاہوری جماعت ہم سے علیحدہ کیوں ہوئی تھی؟
حضور انور نے فرمایا کہ فرق یہ ہے کہ لاہوری جماعت والے لوگ کہتے تھے حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں بھی یہی ان کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ خلافت انجمن کے ماتحت ہونی چاہیے اور انجمن کے افسران کہتے تھے ہم جماعت کو چلائیں۔ سارے فائدے اٹھانا چاہتے تھے۔ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا تھا کہ خلیفہ وقت کواللہ تعالیٰ نے کل اختیارات دیے ہیں اور یہی اسلامی طریقہ ہے تو خلیفہ انجمن کے ماتحت نہیں ہو سکتا ۔ خیر اس وقت تو انہوں نے حضرت خلیفہ اول کے چھ سال کا زمانہ برداشت کر لیا لیکن پھر جب خلافت ثانیہ کا انتخاب ہوا تو پھر جو بڑے بڑے مولوی جماعت کے عہدیدار تھے۔ انہوں نے کہا خلافت نہیں ہونی چاہیے اور ان کو یہ شک تھا کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ منتخب ہو جائیں گے اس لیے انہوں نے شور مچا دیا کہ ہم خلافت نہیں مانتے۔ حضرت مرزا بشیر الدین خلیفہ ثانی نے کہا کہ خلافت تو بہرحال ہونی چاہیے۔ تمہیں اگر یہ شک ہے کہ میں خلیفہ بنوں گا تو مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں۔ اگر تم چاہتے ہو توتمہارے میں سے کسی ایک کو ہم خلیفہ مان لیتے ہیں لیکن خلافت ہی ہو گی جس پہ ہم اکٹھے ہو جائیں، چاہے وہ مولوی محمد علی صاحب ہوں یا کوئی اَور ہو کسی ایک کو ہم خلیفہ مان لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں نہیں ہمیں پتا ہے کہ جماعت والوں نے آپ کو ہی بنانا ہے تو اس لیے انہوں نے خلافت سے انکار کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے تویہ وعدہ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت قائم ہو گی اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رسالہ الوصیت میں جو وصیت کی سکیم شروع فرمائی ہے اس وقت اس میں بھی یہ فرمایا تھا کہ میرے بعد خلافت ہو گی۔ اس لیے یہ خلافت تو بہرحال قائم ہونی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا تھا۔ آپ کی حدیث بھی یہی ہے کہ خلافت قائم ہو گی لیکن یہ لوگ خلافت کو ماننے کو تیار نہیں تھے اس لیے یہ لوگ علیحدہ ہو کے لاہور چلے گئے اور وہاں جا کے انہوں نے اپنی جماعت بنا لی اور جتنا جماعت کا خزانہ تھا، پیسے تھے وہ بھی ساتھ لے گئے۔ بہت سارے بڑے بڑے علماء ان کے ساتھ چلے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ خلافت کی حفاظت کرنی تھی اس لیے ان کی جماعت تو کچھ عرصہ کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوتے ہوتے اب بالکل ختم ہی ہو چکی ہے لیکن جماعت احمدیہ جو خلافت کے ساتھ تھی جس کا خلافت سے تعلق تھا وہ بڑھ رہی ہے اور بڑھتی چلی جارہی ہے اور اب دنیاکے دو سو بارہ ملکوں میں پہنچ چکی ہے۔ تو اختلاف یہاں ہوا تھا کہ وہ لوگ جو بڑے علماء تھے وہ کہتے تھے کہ ہم جو افسران ہیں ہمارے پاس سارے اختیار ہوں اور خلیفہ وقت کے پاس کوئی اختیار نہ ہو بلکہ ان کی خواہش یہ تھی کہ خلیفہ ہو ہی نہ ،صرف انجمن ہو۔ اس لیے اس بات کو مانا نہیں اور نہ جماعت کے ممبران نے اور اس کے بعد ناراض ہو کے وہ لاہوری جماعت لاہور چلی گئی اور لاہور جا کر انہوں نے اپنی ایک جماعت علیحدہ قائم کر لی جس کو پیغامی بھی کہتے ہیں، لاہوری بھی کہتے ہیں، غیرمبائع بھی کہتے ہیں جنہوں نے خلافت کی بیعت نہیں کی لیکن اب دیکھ لو آہستہ آہستہ وہ لوگ جو بڑے بڑے لوگ تھے اور سمجھتے تھے کہ قادیان ختم ہو جائے گا کہا کرتے تھے کہ اب قادیان میں کچھ بھی نہیں رہے گا اس کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی لیکن قادیان تو ترقی کرتا گیا اور جب ہجرت ہوئی تو اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بھی مرکز دے دیا۔ پھر دنیا میں اور جگہ جماعتیں بننی شروع ہو گئیں لیکن وہ پیغامی چند ایک جگہ پہ ہی ہیں۔ اب ایک برلن میں تمہارے جرمنی میں ان کی مسجد ہے جو سب سے بڑی پرانی مسجد ہے لیکن اس مسجد میں ان کو تو نماز پڑھانے کے لیےامام بھی کوئی نہیں ملتا۔ بڑی مشکلوں سے کبھی کوئی آتا ہے دو مہینے تین مہینے کے لیے پھر چلا جاتا ہے جبکہ ہماری مسجد برلن میں بن گئی ہے وہ آباد رہتی ہے۔ جب میں وہاں گیا ہوں، برلن میں ان کی مسجد دیکھنے بھی گیا تھا۔ اس وقت وہاں امریکہ سے ایک لڑکا آیا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا میں ہی ان کا امام ہوں اور میں یہاںعارضی طور پہ آیا ہوں ۔ نہ اس میں اماموں والی کوئی بات تھی نہ کوئی دینی علم پڑھا ہواتھا۔ لٹریچر بھی ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں بھی شائع کرتے ہیں لیکن کیونکہ ان کے پاس پیسہ ہےبس تھوڑا بہت لٹریچر شائع کر لیتے ہیں ان کے ماننے والے چند ایک رہ گئے ہیں چند سو ہوں گے لیکن جماعت احمدیہ جو خلافت کے ساتھ ہے وہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ وہاں مسجد میں بھی میں نے ہر طرف دیکھا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ بڑا بُرا انتظام تھا، مسجد کی صفائی بھی کوئی نہیں ہوئی تھی لیکن جماعت احمدیہ دیکھ لو جرمنی میں بھی نئی نئی مسجدیں بنا رہی ہے اور ترقی بھی کر رہی ہے۔ یہ خلافت کی وجہ سے ہی ہے اور اسی طرح دنیا کے دوسرے ملکوں میں، افریقہ میں، ایشیا میں،آسٹریلیا میں، جزائر میں، امریکہ میں، یورپ میں ہر جگہ جماعت ترقی کر رہی ہے۔ تو وہ لوگ خلافت کے انکاری تھے اس لیے چلے گئے اور اس کا نقصان بھی انہوں نے دیکھ لیا۔ اب ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو اس بات کو مانتے ہیں کہ ہم نے خلافت کو چھوڑ کے غلطی کی ہے۔ مَیں فجی گیا ہوں تو وہاں پیغامیوں میں سے بعض مجھے ملنے بھی آئے تھے اور انہوں نے بیعت بھی کی ہے۔ اسی طرح نیوزی لینڈ میں آئے تھے۔ انہوں نے بیعت کی تو آہستہ آہستہ لوگ ان میں سے جن کو سمجھ آ رہی ہے احمدی ہوتے بھی گئے اور خلافت کے سائے تلے آ گئے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ حدیث سے پتاچلتا ہے کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی تو ایسی کیفیت ہو جاتی تھی کہ باوجود سردی کے موسم کے آپ کو پسینہ آ جاتا تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایسی کیفیت کیوں ہوتی تھی اور کیا اس وقت آپ جسمانی تکلیف بھی محسوس فرماتے تھے اور کیا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الہام ہوتے تھے تو آپ کی بھی ایسی ہی کیفیت ہوتی تھی؟
حضور انور نے فرمایا کہ جب فرشتے وحی لے کر آتے ہیں تو وہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کا خوف نبیوں کو سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور جب فرشتے پیغام لے کر آ رہے ہوتے ہیں تو اس کا بوجھ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ انسان کانپ کے رہ جاتا ہے اور جس کو اس چیز کاصحیح فہم ہو، ادراک ہو، اس کو سب سے زیادہ اس کا احساس ہوتا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو کیفیت ہوتی تھی وہ اس لیے ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی یہ وحی نازل ہوئی ہے اور اس وقت لگتا تھا، آپ فرماتے ہیں لگتا تھاکہ ٹنوں بوجھ میرے اوپر پڑ گیا ہے اور فرشتے وہ پیغام لے کر آتے تھے۔ اس وحی کا بوجھ ہی اتنا ہوتا ہے کہ انسان کا دل اس سے کانپ جاتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے وجود کا صحیح ادراک ہو اور نبیوں میں سب سے زیادہ ادراک ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی حالت ہوتی تھی اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی جب الہامات کی کیفیت طاری ہوتی تھی تو آپؑ پر بھی گو اس مقام پر تو نہیں پہنچ سکتے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تھے لیکن آپؑ پر بھی ایسی کیفیت طاری ہو جاتی تھی کہ آپ کا جسم بہت زیادہ کانپنے لگ جاتا تھا اور ایک کیفیت پیدا ہو جاتی تھی کہ لگتا تھا کہ کوئی الہام ہو رہا ہے۔ جتنا زور دار الہام ہوتا تھا اتنی زیادہ آپ کی جسمانی کیفیت ہوتی۔ اور تھوڑی دیر کے لیے پھر کمزوری بھی رہتی ہے پھر وہ کیفیت جاتی رہتی ہے۔
ایک ناصرہ نے حضور انور کو بتایا کہ اس کی سکول کی سہیلیاں اس بات کو نہیں مانتیں کہ وہ سکارف اپنی مرضی اور خوشی سے پہنتی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اگر آپ اس کو پہن کر خوشی محسوس کرتی ہیں،تو ان کو یقین آ ہی جائے گا کہ آپ کو مجبور نہیں کیا جا رہا۔ تاہم اگر آپ غمگین ہو گی تو وہ کہیں گی کہ آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔ (آپ کہہ سکتی ہیں کہ) میں اس کو اچھا سمجھتی ہوں اس لیے میں ایسا کرتی ہوں۔ بہر حال اگر آپ کہیں کہ آپ کو ایک خاص کھانا پسند ہے اور آپ کی سہیلی کہے کہ آپ جھوٹ بول رہی ہیں تو کیا آپ وہ کھانا کھانا چھوڑ دیں گی؟ اس لیے ہر کسی کو جو پسند ہو تاہے وہ کرتاہے ۔ اور جو بھی وہ کر رہے ہیں اگر وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے تو پھر انہیں وہ کام مزید مستعدی سے کرنا چاہیے۔ آپ کو اسے بتانا چاہیے کہ آپ سکارف اپنے مذہبی عقائد کی اطاعت میں پہنتی ہیں اور یہ بھی کہ آپ یہ اپنی مرضی سے کر رہی ہیں۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ اس حوالہ سے کوئی بھی دلیل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ جو آپ کے حرکات و سکنات پر شک کرتے ہیں آپ ان سے لڑ تو نہیں سکتی ۔ ہمارا کام لوگوں سے لڑنا نہیں ہے۔ اگر آپ نے ان کو بتا دیا ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ آپ کی بات مانتے ہیں یا نہیں۔ آپ کو اس بات پر کہ دوسری لڑکیاں آپ کو تنگ کرتی ہیں ہرگز کسی احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ چاہیں تو آپ کو تنگ کر سکتی ہیں۔ اگر ہم اپنے مذہب کی تعلیمات پر اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے عمل پیرا ہیں تو پھر ہمیں دوسروں کی کوئی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ وہ کیا سوچتے ہیں۔
ایک ناصرہ نے پوچھا کہ وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی محبت اور خلیفہ وقت کی محبت حاصل کر سکتی ہے۔
حضور انو ر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لیے وہ فرماتا ہے کہ ہمیں اس کی عبادت کرنی چاہیے اور اس کا قرب پانا چاہیے۔ وہ ہمیں پانچ وقت نماز پڑھنے کی تلقین فرماتا ہے اور نمازوں کے دوران مستقل الحاح اور رونے کی تلقین فرماتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر آپ کی دعائیں قبول کرے گا اور جب آپ کا دل اطمینان پکڑ لے تو آپ کو احساس ہوگا کہ آپ کو خدا کا قرب حاصل ہے۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ جب آپ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں تو وہ خود آپ کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ آپ اس سے قربت حاصل کریں جس سے آپ نے بیعت کی ہوئی ہے اور اس کی بات غور سے سنیں اور اس کی باتوں پر عمل کریں۔ خلیفہ وقت آپ کو اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور جب آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو قربت ملتی ہے۔ یہی اچھی باتیں آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بھی بنا دیں گی۔ جب آپ اچھے کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے ہیں کہ وہ آپ کو قرب نصیب کرے تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کے دل میں اطمینان بھی پیدا کرتا ہے۔