یادِ رفتگاں

محترم خان صاحب… بی۔اے رفیق صاحب کی یاد میں

(آصف محمود باسط)

بی اے رفیق ایک ایسا نام تھا جو ربوہ کی علمی ادبی مجلسوں اور جماعتی حلقوں میں خاصا معروف تھا۔ کئی دفعہ سننے میں آیا، کئی دفعہ نظر انداز کیا ، کہ مجھے براہِ راست کوئی ربط یا تعلق محسوس نہ ہوسکا۔ پھر چونکہ ان کا قیام انگلستان میں تھا، سو ایک بُعد یہ بھی حائل رہا۔ یہ تجسس بھی کبھی نہ ہوا کہ ان صاحب نے اپنی ڈگری خلافِ رواج بطور لاحقہ لگانے کے، سابقہ کے طور پر کیوں چسپاں کررکھی ہے۔

ربوہ کے علمی ادبی ماحول کو چھوڑ کر باہر کی دنیا میں شب وروز کھپانے والے دوست میرے اس کرب میں ضرور شریک ہوں گے کہ ویسا ہمہ جہت ماحول انسان تلاش کرتا رہ جاتا ہے، مگر ملتا نہیں ہے۔ میں جب ربوہ چھوڑ کر لاہور چلا گیا تو سچ کہتا ہوں کہ پاک ٹی ہاؤس کی مجالس بھی ربوہ کی علمی و ادبی فضا کے آگے پانی بھرتی نظر آئیں۔

سو ربوہ کو چھوڑا تو یہ نام ، جس سے یوں بھی کبھی کوئی خاص تعلق نہ رہا تھا،میرے لیے معدوم ترہوگیا۔ کئی سال گزرگئے اور لندن میں وارد ہوا تو یہ نام گاہے گاہے سماعت سے ٹکرانے لگا۔ جماعتی خدمت کا موقع میسر آیا اور تاریخ کی کھوج کا پرانا مرض بیدار ہوا تو پہلی مرتبہ محترم بشیر احمد رفیق صاحب سے تعارف حاصل ہوا۔ کافی دیر یہ تعلق غائبانہ سا رہا۔ کچھ کتب نظر سے گزریں اور ان کی علمیت کا اعتراف دل میں پیدا ہونے لگا۔ پھر حضرت سر ظفراللہ خان صاحبؓ سے متعلق ان کی کچھ یادداشتوں پر مبنی تصنیف پڑھنے کا موقع ملا تو ان کے اندازِ بیان نے دل موہ لیا۔

پھر جب 2009ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایما پر مسجد فضل لندن کی تاریخ پر ایک دستاویزی پروگرام بنانے کا کام جاری تھا، تو یہ کام بی اے رفیق صاحب سے مشورہ کا متقاضی ہوا۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کے ان کے مشورے کے بغیر یہ کام نامکمل رہ جاتا، کہ مسجد فضل کی بہت سی تاریخ تو ان کے سینے میں محفوظ تھی۔

تو اس پروگرام کے سلسلہ میں ان سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ تب وہ مسجد فضل کے قریب ہی ویسٹ ہل روڈ پر مقیم تھے۔ان کے یہاں پہنچے تو بڑے تپاک سے استقبال کیا، پرتکلف چائے سے تواضع کی اور اپنے محبوب مشغلہ میں مگن ہوگئے۔ یہ محبوب مشغلہ کیاتھا؟ تاریخ کے واقعات کو بیان کرنا اور کرتے چلے جانا۔ ظاہر ہے کہ محبوب مشغلہ پہلے ہی روز معلوم نہیں ہوگیا تھا، بلکہ یہ تو بعد کی ملاقاتوں میں کھلا۔ مگر ہر ملاقات نے اس تاثر کو مضبوط تر کیا جو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ پر آپ کی تحریر کو پڑھ کرذہن پر نقش ہو گیا تھا۔ یعنی یہ کہ آپ کا اندازِ بیان قاری یا سامع کو پوری تحریر یا گفتگو کے دوران ہلنے نہیں دیتا تھا۔ آپ کو داستان گو کہوں تو اسے سوئے ادب خیال نہ کیا جائے، بلکہ اسے میری مجبوری خیال کر کے معاف کردیا جائے کیونکہ جو وہ کرتے تھے، اس کے لیے یہی اصطلاح موزوں ترین ہے۔ تاریخ کے ٹھوس حقائق کو ایک دلچسپ کہانی میں ڈھال کر پیش کرنے والے کو داستان گو نہ کہیں تو کیا کہیں، مؤرخ تو کتابوں تک ہی محدود ہو جایا کرتے ہیں۔

اُس روز آپ نے مسجد فضل کی داستان جو سنائی تو مسجد فضل ایک سانس لیتا ہوازندہ وجود بن گئی۔ایک ایسا وجود جو قریب آٹھ دہائیوں سے لندن کے سینہ پر ایستادہ رہتے ہوئے ماہ و سال کی آمد و رفت کی گواہ بنی ہو۔ جہاں بہت سے نابغہ روزگار شخصیات آتی رہی ہوں۔ جو اپنی بنیاد رکھنے والے عظیم المرتبت مصلح موعودؓ کی ممنونیت میں محو رہتی ہو۔ جو اس میں نماز پڑھانے والے اماموں کو یاد کرتی ہو۔ جو اس بات پر خدا کی شکرگزاری کرتی ہو کہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک اس میں خلیفۃ المسیح نماز پڑھتے اور پڑھاتے رہے ہیں۔ یہی وہ مسجد ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے ہوں گے تو ان کے کمرے کی کھڑکی سے نکلنے والی روشنی کی شہادت اس نے پینتیس سال تک بڑی باقاعدگی سے دی ہو گی۔
سو پہلی ملاقات کا احوال اگرچہ بظاہر اسی قدر تھا کہ مسجد فضل اور اس کی تاریخ سے ایک گہری محبت پیدا ہوگئی، مگر اصل میں یہ بات یہیں تک محدود نہ تھی۔ وہ داستان گو پہلے آپ کے دل میں اپنی داستان کے مرکزی کردار کی محبت پیدا کرتا، اور جب دیکھ لیتا کہ محبت کی چنگاری سلگ اٹھی ہے، تو پھر اس کردار کے واقعات کی پنکھی جھل جھل کر اس انگارے کو دہکاتا اور یوں ایک انگارے سے دوسرااور دوسرے سے تیسرا سلگتا چلا جاتا، اور پھر اس الاؤ کے گرد سننے والا اور سنانے والادونوں خوب ہاتھ سینکتے اور داستان گوئی کی وہ مجلس جمتی کہ پہروں بیٹھے رہو تو اکتاہٹ نہ ہو۔ ہاں مصروفیات، کام، ذمہ داریاں اور دنیا کے دھندے اٹھنے پر مجبور کردیا کرتے۔ میں نے تو انہیں ہمیشہ ریٹائرڈ زندگی گزارتے ہی دیکھا۔ سو مجلس برخاست کرنے کی سبیل مجھ ہی کوکرنی پڑتی، اور ہمیشہ شرمندگی اور ملال کے ساتھ اجازت لے کر اٹھ آنا پڑتا۔ ورنہ وہ تو اپنی ایک دنیا میں رہتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ محفل سے سامعین کے اٹھ کر چلے جانے کے بعد وہ اس قدر کرتے ہوں گے کہ اپنے سلسلۂ خیال کو muteکردیتے ہوں گے، ورنہ یادداشتوں کی وہ نہر جو انہوں نے سالہا سال کے تجربات اور مشاہدات سے کھودی تھی، جاری و ساری رہتی ہوگی۔

جب کسی کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے بیٹھیں، تو اپنی کوتاہیوں کے بیان سے گھبرانا نہیں چاہیےورنہ اس کوتاہی سے وابستہ کسی بڑے آدمی کے بڑے پن کا کوئی پہلو مخفی رہ سکتا ہے۔اور یہ علمی بددیانتی کے مترادف ہوگا۔ بات آگے چلانے سے پہلے میں بھی یہاں ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو بی اے رفیق صاحب کے لیے دل میں بہت عزت اور احترام ہونے کے باوجود مجھے ان سے اپنا تعلق خودغرضی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ میں ان کے پاس صرف تب حاضر ہوا جب کوئی کام پڑا۔ جماعت احمدیہ برطانیہ کی تاریخ کے حوالہ سےکوئی پروگرام ریکارڈ کروانا ہے، کوئی انٹرویو کسی ڈاکومنٹری کے لیے ریکارڈ کرناہے، کسی مضمون کے سلسلہ کسی کھوئی ہوئی کڑی کا سراغ لگانا ہے تو مجھے بی اے رفیق صاحب کا خیال آتا۔ ٹیلی فون کرتا۔ شفقت بھرے (اور پشتون طرز میں ڈوبے) انداز میں ہمیشہ خیر مقدم کرتے۔ ملنے کے لیے وقت دیتے، ملتے، جب تک میرا جی چاہتا بیٹھا رہنے دیتے۔ مہمان نوازی میں بھی کمال کے آدمی تھے۔ سردی ہے تو کافی کا ضرور پوچھتے، گرمی میں موسم کے حساب سے مشروب اور ساتھ لوازمات کا اہتمام۔ کبھی گلہ نہ کیا کہ میاں! کام پڑتا ہے تو آنکلتے ہو، آگے پیچھے کبھی خیال بھی نہیں آتا۔ مگر ادارے اپنے آنے جانے والوں سے گلہ کہاں کیا کرتے ہیں۔ اداروں میں لوگ جاتے ہیں، استفادہ کرتے ہیں، اور پھر دوبارہ ادھر کا رخ تبھی کرتے ہیں جب دوبارہ کوئی کام پڑجائے۔ بی اے رفیق صاحب بھی اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے، سو گلہ کبھی نہ کیا۔ ہاں محبت سے یہ ضرور کہتے کہ میں تو فارغ ہی ہوتا ہوں، جب جی چاہے فون کر کے آجایا کریں۔مجھے اس محبت کا پاس تب بھی تھا، آج بھی ہے۔ تب ملال رہتا، اب حسرت ہے۔
خیر،ان خود غرضی کے لمحات میں مجھے مولانا صاحب سے جس قدر بھی استفادہ کا موقعہ ملا، اسے غنیمت جانتے ہوئےکچھ یادیں یہاں پیش کررہا ہوں۔

مجھے یہ احساس تو ہوچکا تھا کہ بی اے رفیق صاحب کا اسلوبِ بیان بہت ہی دلنشین اور دلکش ہے، اور جیسا کہ اوپر بیان ہوگیا کہ جب تک چاہو دامِ شنیدن بچھاکر بیٹھے رہو اور ان کی انمول یادوں کو سمیٹتے رہو۔ مگر ایک دن معلوم ہوا کہ یہ دوسری صفت دودھاری ہے۔ ہوا یوں کہ جب پہلی مرتبہ آپ کا انٹرویو ریکارڈ کرنے پہنچے اور پہلا سوال پوچھا، تو موصوف نے اس کا جواب عطا کرنا جو شروع کیا تو قریب پینتیس منٹ کے گزرگئے۔ جس پروگرام میں ان کا جواب بطور انٹرویو کے شامل کرنا تھا، اس پروگرام کا اپنا دامن فقط تیس منٹ تک محدود تھا۔ اب یہ سمجھ نہ آئے کہ اس چھوٹی سی جھولی میں اتنا بڑا جواب کیونکر ڈالیں گے۔ احترام کے ہاتھوں خاموش بیٹھے سنتے رہے، یہ سوچ کر کہ جب ذرا توقف فرمائیں گے تو کچھ لگی لپٹی سی گزارش کرنے کی کوشش کروں گا۔ ساتھ یہ بھی کہ ہر بات نہایت خوبصورت، نہایت علم افزا، اور حد درجہ بصیرت افروز۔ جب یہ چشمۂ رواں کہیں نہ تھما، اور کیمرہ مین بھی دو چار مرتبہ کمر سیدھی کرنے کے لیے پہلو بدلنے لگا، تو ایک ایسے ثانیے میں کہ جب انہوں نے سانس درست کرنے کے لیےدو جملوں کے بیچ میں ایک ہلکا سا وقفہ لیا، توجھجکتے جھجکتے عرض کی کہ خان صاحب! بہت ہی عمدہ جواب عنایت فرمایا ہے۔ اب اسی جواب کو اگر صرف پانچ منٹ میں بیان کرنا ہو تو کیسے کریں گے؟زیرک تو تھے ہی۔ فوراً مختصر جواب ریکارڈ کروانا شروع کردیا (یعنی نسبتاً مختصر)۔ بعد میں کہنے لگے کہ جس طرح چاہتے ہوں بتادیا کریں۔ انہوں نے نہ صرف یہ حجاب اٹھا دیا بلکہ ہر دفعہ اس چھوٹ سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی دیتے رہےاور میرے اس دخل در ‘‘معقولات’’ پر کبھی برا نہ منایا۔ ہمیشہ کہتے کہ جماعت کا کام ٹھیک ہونا چاہیے، اس لیے کھل کے روکا کریں اور بتادیا کریں کہ ضرورت کس قدر ہے تا کہ اسی کےمطابق بات کروں۔

حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی ابتدا ہی سے خاکسار کو ہدایت رہی کہ جن لوگوں نے پروگرام میں شرکت کرنی ہو ان کے ساتھ میٹنگ کیا کرو، ان کے جوابات ان سے سن لیا کرو اور اگر بہت طویل جواب ہو تو بتا دیا کرو۔ اس حکم نے میرے بہت سے مسائل حل کردیے ورنہ بزرگانِ سلسلہ جنہیں پروگراموں میں مدعو کیا جاتا،ان کے جوابات پروگرام سے پہلے سننے کی فرمائش کرنا مجھ غریب کے لیے کہاں ممکن تھا۔ بی اے رفیق صاحب کے ساتھ جب بھی میٹنگ کی درخواست کی، ہمیشہ اپنے گھر مدعو کرلیا، کہ آجائیں، ساتھ چائے بھی پئیں گے اور گفتگو بھی ہوجائے گی۔ خود مجھے بھی یہی طریق بھاتا تھا کہ دفتر میں پانچ منٹ تک بھی تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہر طرف کچھ نہ کچھ ہوجو رہا ہوتا ہے۔ پس ایسی دعوت پر ہمیشہ حاضرہوجاتا رہا۔ مگر ایک موقع پر ان سے گزارش کی کہ ساتھ دوسرے شرکا سے بھی بات کرنی ہے تو خان صاحب نے بلاتامل ان احباب کو بھی مدعو کرلیا۔ پھر چائے چلی، بزرگان کی گفتگو سننے کا موقع ملا، لطیفے سنائے گئے، تاریخ کے گلی کوچوں کی سیر کی گئی۔ اور ہاں، میٹنگ بھی ہوگئی۔

تو بیان یہ کررہا تھا کہ بی اے رفیق صاحب سے اکثر ملاقاتیں برطانیہ میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کے حوالہ سے ہوئیں۔ فوراً انگلی تھام کر تاریخ کے مطلوبہ گوشہ میں جانکلتے اور اس کی خوب سیر کرواتے۔ ان میں سے اکثر ان کی اپنی یادداشتیں ہوتیں۔ یعنی ان کی آپ بیتی کہہ لیں۔ اور سننے والے کو معلوم ہوتا کہ ان پر کیا کچھ نہیں بیتا۔ لندن میں ان کے قیام کا بیشتر حصہ بطور امام مسجد فضل گزرا۔ یعنی بطورمبلغ انچارج اور امیر جماعت (جب تک یہ دو نوں ذمہ داریاں الگ نہ ہوگئیں)۔ اس عرصہ میں انہوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ جیسی کسی بھی مبلغ کو گزارنی چاہیے۔ کہیں روٹری کلب کی رکنیت ہے، تو کہیں ہائیڈ پارک میں تقریرکا سلسلہ ہے۔ کہیں اخبارات میں مضامین لکھے جارہے ہیں، تو کہیں مسجد فضل میں کسی بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد ہے جس میں شامل ہونے کے لیے دعوتِ عام اخبارات میں شائع ہو رہی ہے۔ برطانوی وزیروں سفیروں سے تعلقات ہیں، تو پاکستانی ہائی کمیشن کے اعلیٰ اہلکار بلکہ اعلیٰ ترین اہلکار یعنی ہائی کمیشنر ذاتی دوست بنا ہوا ہے۔رسالہ مسلم ہیرالڈ جاری کرنے کا بھی دلچسپ واقعہ سناتے کہ انہیں جب یہ خیال سوجھا کہ جماعتی تعلیمات پر مبنی ایک رسالہ شائع ہونا چاہیے تو انہوں نے مرکز کو تجویز لکھ بھیجی۔ جواب ملا کہ مرکز تو اخراجات نہیں اٹھا سکتا، خود اخراجات اٹھا سکیں تو شائع کرلیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کا نام لے کر حامی بھر لی، اور اشتہارات لینے کا سلسلہ شروع کیا۔رسالہ چل نکلا۔ اس کے لیے مواد جمع کرنا، شمارہ مرتب کرنا، ٹائپ کرنا اور کروانا، پھر پرنٹر کے پاس لے جانا، اور شائع ہوجانے کے بعد اس کی پبلسٹی اس سطح کی کہ خود میں نے وہ خطوط بعد میں دیکھے ہیں جن میں ممالک کے سفارتخانے، یونیورسٹیاں، لائبریریاں تقاضا کررہی ہیں کہ ہم چیک ارسال کرتے ہیں، آپ رسالہ ہمارے نام جاری کردیں۔ابتدائی رسالوں میں پاکستانی ہواباز کمپنی پی آئی اے کے اشتہارات دیکھ کر خان صاحب موصوف کے وسیع تعلقات اور حلقۂ احباب کا اندازہ ہوتا ہے۔

یہ سب تو ذاتی حیثیت میں کیا، مگر ساتھ جماعتی لٹریچر کی اشاعت، مرکز سے طبع شدہ لٹریچر کا حصول، اس کی ترسیل، تبلیغی سرگرمی، نئے مراکز کا قیام اور جانے کیا کیا کچھ، یعنی جماعت کی خدمت بھی بھرپور۔ یہ یقیناً ہمارے مبلغین اور واقفینِ زندگی کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔(چھوٹا منہ بڑی بات تو شاید ہےہی، مگر یہ کہنے کی جرات کرتے ہوئے راقم کا اولین مخاطب راقم خود ہے)۔

یہاں ایک بات برطانیہ میں مقیم احمدیوں کی خاص توجہ کے لیےعرض کرتا چلوں(اور ان کے لیے بھی جو لندن آنے اور مسجد فضل کی زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں)۔ سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد فضل میں قیام کے ایام میں جب نماز پڑھتے اور پڑھاتے تھے تو اس باعث اس مسجد کی طرف رجوعِ جہاں ہونا اور اس کا مرجعِ خواص ہونا طبعی بات تھی۔اس لیے مغرب اور عشاء کی نمازوں پر بالخصوص اس قدر حاضری ہوجاتی کہ مسجد پُر ہوجانے کے بعد نمازیوں کے لیے محمود ہال میں انتظام کرنا پڑتا۔ یہ ہال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی ایما پر تعمیر کروایا گیا۔ اس وقت بی اے رفیق صاحب امام مسجد فضل تھے اور یوں اس کی تعمیر کا انتظام و انصرام موصوف ہی کے ذمہ تھا۔ جو داستان اس سے وابستہ تھی، وہ ظاہر ہے کہ بہت طویل تھی، مگر اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب خان صاحب موصوف نے مرکز سے ہال کی تعمیر کی اجازت حاصل کر لی توجس بینک نے اس ہال کی تعمیر کے لیے مارگیج دینے کی حامی بھری تھی ، اور جس پر انحصار کرتے ہوئے آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے اجازت حاصل کی تھی،اس مالیاتی ادارے نے بوجوہ مارگیج دینے سے انکار کردیا۔ کہا کرتے تھے کہ مجھے سخت تشویش لاحق ہوئی کہ اب کس منہ سے بتاؤں کہ وہ سب خواب و خیال کی بات ہوکر رہ گئی۔ اسی روز حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحبؓ تشریف لائے تو خان صاحب موصوف کی پریشانی کو بھانپ گئے اور وجہ دریافت فرمائی۔ انہوں نے ساری بات بیان کردی۔ حضرت چوہدری صاحبؓ نے فرمایا کہ میں وہی رقم بطور قرض دے دیتا ہوں، آپ معاہدہ لکھ لیں اور تعمیر کی تیاری شروع کریں۔ کہتے تھے کہ میں نے فوراً مرکز کو تبدیلیٔ حالات سے مطلع کیا اور متبادل انتظام پر رہنمائی چاہی۔ اجازت مل گئی۔ معاہدہ لکھ لیا گیا کہ حضرت چوہدری صاحبؓ اس قدر رقم بطور قرض دیں گے، اور یہ رقم فلاں فلاں وقت تک ، فلاں طرز پر واجب الادا ہوگی، اور معاہدہ شام کو حضرت چوہدری صاحبؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضرت چوہدری صاحبؓ نے فرمایا کہ ہم کل صبح اس معاہدہ پر دستخط کرلیں گے اور آپ کو رقم بھی مہیا کردوں گا۔ اگلی صبح حضرت چوہدری صاحبؓ ناشتے کی میز پر تشریف لائے تو چہرہ پر سخت پریشانی کے آثار تھے۔ استفسار پر فرمایا کہ میں نے ساری رات اس بارے میں سوچا۔ دل سے آواز آئی کہ ظفراللہ خان، تجھے اللہ نے یہ مالی کشائش دی تھی تو کون سے معاہدے لکھ کر دی تھی، کہ تُو معاہدے کر کے اسی کی راہ میں دے رہا ہے۔ لہذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں یہ ساری رقم بطور عطیے کے دوں گا اور کچھ بھی واپس نہ لوں گا۔ شرط یہ ہے کہ میری زندگی میں کسی کو معلوم نہ ہو کہ یہ رقم میں نے دی ہے۔ہاں، حضرت صاحبؒ سے اجازت لے لیں کہ اگر اس میں ایک چھوٹا کمرہ میں اپنے لیے رکھ لوں کہ جب لندن آؤں تو اس میں قیام کرلیا کروں، لیکن صرف اجازت مل جانے کی صورت میں ۔

یہ واقعہ بیان کردینا دو وجوہات کی بنا پر ضروری معلوم ہوا۔ ایک تو اس لیے کہ ہم جو اللہ کے فضل سے ایک عرصہ تک محمود ہال میں نماز ادا کرنے کی توفیق پاتے رہے، تو آج اسلام آباد میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اقتدا میں کیے ہوئے کسی سجدے میں،کسی دعا میں ہمیں حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحبؓ کا خیال آجائے، اور ان کے لیے دل سے دعا نکل جائے۔ اور ان کے لیے بھی جنہوں نے اس کی تعمیر کا انتظام و انصرام سنبھالا۔

دوسری وجہ یہ کہ یہاں بی اے رفیق صاحب کی اس محبت کا ذکر بھی آجائے جو آپ کو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ سے تھی۔ یہ میں اپنا مشاہدہ بیان کررہا ہوں سو غلطی کا امکان تو ہوگا، مگر مجھے یقین ہے کہ خلفاء کے بعد آپ کے دل میں جو محبت سرفہرست تھی، وہ حضرت چوہدری صاحبؓ کی محبت تھی۔ گہری محبت۔ بہت وقت ساتھ گزارا۔ جب جب حضرت چوہدری صاحبؓ لندن میں ہوتے(جو کہ وہ اکثر ہوتے) تو اسی کمرے میں قیام فرماتے جو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اجازت سے محمود ہال کی بالائی منزل پر حاصل کیا تھا۔ ساتھ والے فلیٹ میں (یعنی اسی محمود ہال کی بالائی منزل پر،اس کمرے سے متصل) محترم خان صاحب موصوف سکونت پذیر تھے۔ ناشتہ اور کھانا حضرت چوہدری صاحبؓ کے ساتھ ہی تناول کرنے کا موقع میسر آتا اور ان مواقع پر حضرت چوہدری صاحبؓ کی شفقت اور محبت کے مورد بنتے، اور وہ موتی سمیٹتے جو بعد میں آپ نے حضرت چوہدری صاحبؓ پر اپنی کتاب میں بھی آویزاں کیے اور ان کے علاوہ بھی گاہے گاہے ان کی چمک دکھلایا کرتے۔حضرت چوہدری صاحب ؓ کے ذکر پر آنکھوں میں ایک خاص محبت نظر آتی، اور یوں سننے والے میں بھی اس محبت کا کچھ حصہ منتقل ہوجایا کرتا۔ یہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ محتر م بی اے رفیق صاحب کا یہ خاص طریق تھا کہ کہانی کے مرکزی کردار کی محبت پہلے سامع کے دل میں پیدا کی جائے، پھر اس کے بعد اس محبت کے سہارے سامع کے علم میں اضافہ کا بہت سا سامان پیدا کیا جائے۔ اس سامان میں سے وہ جو اٹھالے،اٹھالے۔جو مال وہ نہ اٹھا پائے، تو خان صاحب موصوف کو معلوم تھا کہ اس جنس کے خریدار بہت ہیں۔ ضائع نہ جائے گی۔کمال یہ تھا کہ انہوں نے کبھی نرخ نہ بڑھایا، اور ہمیشہ علم ودانش کی ارزانی کو ترجیح دی۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضرت چوہدری صاحبؓ جماعت احمدیہ برطانیہ کی تعلیم و تربیت میں ذاتی دلچسپی لیتے، اس لیے یہ ملاقاتیں صرف کھانے کی میز تک محدود نہ تھیں، بلکہ بی اے رفیق صاحب نے کئی حوالوں سے اس دُرِّنایاب سے فیض پایا۔اب ریٹائرڈ زندگی جن جذبوں کے سہارے بسر ہورہی تھی، ان جذبات میں حضرت چوہدری صاحبؓ کی محبت سرداربلکہ سپہ سالار کی حیثیت رکھتی تھی۔

اب ان کے ریٹائر ڈہونے کی بات چلی ہے تو وضاحت کرتا چلوں کہ ریٹائرمنٹ سے عموماً فراغت مراد لے لی جاتی ہے، مگر میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ بی اے رفیق صاحب خود کو مصروف رکھنے کی کوئی نہ کوئی سبیل بنا لیا کرتے۔ اپنی کتاب ‘‘چند خوشگوار یادیں’’ انہوں نے انہی ایام میں مرتب کی جنہیں لوگ فراغت میں گزارکر رخصت ہو جایا کرتے ہیں۔اپنی ویب سائٹ بھی بنا رکھی تھی جہاں اپنی یادداشتیں انگریزی زبان میں مرتب کررہے تھے، بلکہ مرتب کرتے چلے جا رہے تھے۔ اجل نے آنہ لیا ہوتا تو یہ سلسلہ یقیناً اب بھی جاری ہوتا۔شب وروز گھر ہی میں بسر ہوتے۔ میں نے تو جب انہیں دیکھا، ریٹائرڈ زندگی ہی گزارتے دیکھا، مگر کبھی یہ نہیں دیکھا کہ ملنے کے لیے حاضرہوا ہوں تو خان صاحب شب خوابی کے شکن آلود لباس میں بیٹھے ہوں۔ بڑے وضع دار بزرگ تھے۔ صاف ستھرا لباس، جو اکثر مغربی وضع کا ہوتا، ہمیشہ استری شدہ، صاف ستھرا ۔رنگوں کا انتخاب یا تو سوچ سمجھ کر کرتے یا پھر آپ کی جمالیاتی حِس خود، بلاارادہ یہ انتخاب کرلیا کرتی۔ہمیشہ جرابیں اور جوتے پہنے ہوئے۔ خط بنا ہوا، بال سنورے ہوئے۔ پھر گفتگو کمال کی۔ یہ سب کچھ تھا جو آج جب ان کی یاد آتی ہے تو ایک نہایت نستعلیق بزرگ ذہن پر ابھرتا ہے۔

اوپر بی اے رفیق صاحب کی مجالس کا ذکر آیا ہے تو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جسے بذلہ سنجی کہتے ہیں، وہ اس کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ ذیابیطس کے مریض تھے۔ جب چائے کے ساتھ لوازمات رکھے جاتے تو میٹھا بہت اصرار کرکے کھلاتے اور کہتے کہ آپ کھائیں گے میں بھی اسی بہانے کچھ میٹھاکھا لوں گا۔ ایک مرتبہ بتانے لگے کہ شوگر لیول بہت گِر گیا تھا۔ سب پریشان ہوگئے۔ عرض کی کہ خان صاحب، آپ تو شوگر کاخاصا خیال بھی رکھتے ہیں، پھر کیسے ہوگیا؟ کہنے لگے کہ بھئی! اسی بہانے حلوہ وغیرہ کھانے کا موقع بن جاتا ہے۔بتایا کرتے کہ جب انہیں ذیابیطس کا مرض لاحق ہوا اور معالجین نے تشخیص کر کے انہیں اس سے اطلاع دی تو انہوں نے بڑے تاسف اور افسردگی سے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ سے ذکر کیا۔ حضرت چوہدری صاحبؓ نے فرمایا کہ دیکھو! ذیابیطس ایک گھوڑا ہے۔ اسے سدھا لو گے تو تم اس پر سواری کروگے، اگر نہیں تو یہ تم پر سواری کرے گا۔ معلوم ہوتا تھا کہ محترم خان صاحب مرحوم نے عمر بھر تو شاید اس گھوڑے کو سدھائے رکھا، مگر آخر میں آکر یہ گھوڑا خاصا بدک گیا تھا۔

ایک بھرپور زندگی گزارتے ہوئے محترم خان صاحب مرحوم کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔ کہتے ہیں کہ کوہ پیمائی میں کوہ پیما کو نشیب کی طرف نہ دیکھنا چاہیے، بلکہ نظر بلندی کی طرف ہی رکھنی چاہیے۔ اپنی زندگی کے پہاڑی سلسلہ میں سیر کرواتے ہوئےچوٹی سے چوٹی پر لے جانا، اور نشیب کی طرف نہ خود نظر کرنا، نہ دوسرے کو کرنے دینا، محترم خان صاحب مرحوم کا ایک خاص وصف تھا۔

مجھے کسی اور معاملہ پر تحقیق کرتے ہوئے اچانک وہ تصاویر ملیں جو ڈیورنڈ لائن کھینچے جانے کے وقت لی گئی تھی۔ اس میں برطانوی حکومت کے وفد کے ساتھ امیرِ کابل کے وفد کی تصاویر بھی تھیں۔ ان میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ بھی تھے۔ وہ تصویر جو ہمیشہ مدھم بلکہ بہت ہی مدھم سی دیکھی ہوئی تھی، میرے سامنے تھی۔ صاف، ستھری، نمایاں۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے ان تصاویر کی نقول حاصل کیں اور حسبِ معمول، سب سے پہلے حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو کر پیش کردیں۔ ان تصاویر کے اچانک،بلاتلاش حاصل ہو جانے کو میں اتفاق کہنے پر راضی نہیں کہ خاکسار کو تحقیق کے دوران جو کچھ بھی ملا، وہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا اور توجہ کے طفیل ملا۔

اسی روز معلوم ہوا کہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب مرحوم و مغفورنے جب حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی یہ تصاویر تاریخ احمدیت میں شائع فرمائیں، تواس پر محترم بشیر احمد رفیق صاحب نے اختلاف کیا اوراپنا نکتۂ نظرالفضل میں پیش کیا کہ کن کن وجوہات کی بنا پر یہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی تصویر نہیں ہوسکتی۔ میں پہلی فرصت میں بی اے رفیق صاحب سے وقت لے کر ان کے یہاں جانکلا اور ان سے گزارش کی کہ اپنے موقف سے مجھے بھی آگاہ کریں۔ ان کے پاس وہ رقعہ محفوظ تھا جو انہوں نے الفضل کو ارسال کیا تھا۔ وہ ڈھونڈ لائے اور مجھے دکھایا۔ اگرچہ مجھے ان کے اختلاف سے آج بھی اتفاق نہیں، مگر ان کے نڈر، دلیر اور صائب الرائے ہونے پر رشک ضرور ہے۔ تاریخ سے محبت کا تقاضا ہے کہ جہاں اختلاف ہو، اسے بیان کیا جائے تاکہ تحقیق کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے۔ اس تصویر پر مزید تحقیق کا وہ دروازہ آج بھی کھلا ہے جو ان دونوں مرحوم بزرگان نے کھولا تھا۔اللہ دونوں بزرگان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ کیسے علم دوست اور تحقیق سے محبت کرنے والے تھے !

2016ء میں جلسہ سالانہ یوکے منعقد ہونے لگا تواسے جماعت احمدیہ یوکے کا پچاسواں جلسہ سالانہ قرار دیا گیا۔ بعض احباب کو اختلاف تھا کہ 1966ء سے قبل بھی دو جلسے منعقد ہوئے تھے، لہذا یہ پچاسواں نہیں بلکہ باونواں جلسہ سالانہ ہے۔جب حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کے انتظامات کامعائنہ فرمارہے تھے، تو احمدیہ آرکائیو اینڈ ریسرچ سنٹر کی نمائش میں بھی تشریف لائے۔ ازراہ شفقت خاکسار کو حکم دیا کہ اس اختلاف کی کیا حقیقت ہے، مجھے صبح تک رپورٹ دو۔ یہ شام قریب سات بجے کا وقت تھا۔ ارشاد ملتے ساتھ ہی خاکسار حدیقۃ المہدی سے لندن شعبہ آرکائیو کے دفتر کی طرف روانہ ہوا۔ قانونی حد میں رہتے ہوئے جتنی تیز کار چلائی جاسکتی تھی، چلائی کیونکہ وقت بہت کم تھا۔ کوئی اندازہ نہ تھا کہ کہاں اور کیسے تلاش کیا جائے گا۔ مگر ساتھ یہ یقین بھی تھا کہ جب بھی حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا ارشاد موصول ہوا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محبوب کے صدقہ کام کو ہمیشہ آسان فرمادیا ہے۔ گاڑی کی رفتار سے زیادہ تیز ذہن دوڑانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ کیا کروں گا، کہاں سے شروع کروں گا؟ یہاں سے……نہیں وہاں سے……وغیرہ۔ اسی ادھیڑ بُن میں بی اے رفیق صاحب کا خیال آیا۔ انہیں راستہ سے ہی فون ملایا تاکہ ان کا نکتۂ نظر معلوم ہوسکے۔ انہوں نے بتایا کہ پوری طرح تو یاد نہیں مگر پہلے کچھ جلسے ہوئے تھے، اور غالباً فلاں فلاں سن میں ہوئے تھے۔ ان کا شکریہ ادا کیا کہ کچھ اندازہ تو ہوا کہ وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں کہ looking for a needle in a haystack کا سرا کہاں سے پکڑا جائے۔ دفتر پہنچا۔ تلاش شروع کردی۔ 1966 ءسے پہلے کے تمام اخبارات دیکھے۔ صبح سے کچھ پہلے رپورٹ تیار کی کہ صرف دو جلسے ہوئے، مختلف سالوں میں، تسلسل نہ تھا اور جلسہ کی بھی کوئی باقاعدہ صورت نہ تھی۔ بطور ایک institution جلسہ سالانہ یوکے کا قیام 1966 ء ہی میں ہوا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ آخری فیصلہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ہی کا ہوگا کہ یہ جلسہ پچاسواں ہے یا باونواں۔ افتتاحی خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ کو، یعنی 2016ء کے جلسہ کو برطانیہ کا پچاسواں جلسہ قراردیا، اور یہ مسئلہ جو تاریخی لحاظ سے اہم تھا، احسن ترین رنگ میں اپنے انجام کوپہنچا۔

اس بھگڈر میں جب مَیں نے بی اے رفیق صاحب کو فون کیا تو یہ اگست کے وسط کی بات ہے۔ فون بند کرتے وقت میں نے شکریہ ادا کیا اور عرض کی کہ جلسہ کے بعد ملاقات کے لیے حاضر ہوں گا۔ تقریباً دو ماہ بعد وسط اکتوبر میں محترم مولانا بشیر احمد رفیق صاحب، کا انتقال ہوگیا۔ میں جو بے غرض ان کے پاس حاضر نہ ہوا کرتا تھا، اور اس کا ملال رکھا کرتا تھا،اس حسرت مبتلا ہوکر رہ گیا۔اب توکام پڑنے پر بھی ملاقات کا امکان ختم ہوگیا۔ اس حسرت پر اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔ مگر حسرت و یاس کے احساس کو مٹانے کے لیے ایک بات یہاں عرض کرنا ضروری ہے۔ جب محترم خان صاحب کی وفات کےبعد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں مرحوم کا ذکر خیر فرمایا، تو اس ذکرِ خیر کا بیشتر حصہ خان صاحب مرحوم کی خودنوشت سوانح عمری ‘‘چند خوشگوار یادیں’’ پر مبنی تھا۔یہ بھی ایک انوکھا اعزاز ہے کہ ان سے متعلق کوائف اور دیگر معلومات انہی کی خودنوشت سے بیان فرمائی گئیں۔یوں اس داستان گو کی زندگی کی داستان کو خلافت کی نظرِ شفقت اور مہرِ تصدیق حاصل ہوجانا، اس دنیا میں ان کا آخری، اور سب سےبڑا اعزاز بن گیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پیاروں میں جگہ دے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button