حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شب و روز
’’کوئی لمحہ فارغ نہ جاتا تھا اور حضور کی پوری توجہ اور ساری کوشش وسعی تبلیغ و اشاعت ہی پر مرکوز تھی‘‘
27؍اپریل 1908ءصبح سات اور آٹھ بجے کے درمیان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مع اہل بیت و تمام خاندان قادیان سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ سفر آپ کی زندگی کا آخری سفر تھا۔ آپ کے ساتھ اس سفرمیں آپ کے بعض صحابہ بھی تشریف لے گئےجن میں حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (خلیفۃ المسیح الاول)اور حضرت مولوی سیدمحمد احسن صاحب امروہی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے۔آپ کی روانگی کے وقت بہت سے دوست آپ کو الوداع کہنے کی غرض سے جمع تھے۔ انہی عاشقان میں حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے جن سے مصافحہ کرتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام نے انتہائی شفقت سے فرمایا کہ ’’میاں عبد الرحمٰن آپ بھی ہمارے ساتھ ہی لاہور چلو‘‘۔ چنانچہ وہ بھی اس وفد کا حصہ بنے اور آپ علیہ السلام کے ان بابر کت آخری ایام کے چشم دید گواہ بن گئے۔(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 377)
اس وفد نے قادیان سے نکل کر بٹالہ کا رخ کیا جہاں سے دو روز بعد لاہور کا سفر طے کیا گیا۔ لاہور میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے احمدیہ بلڈنگز لاہور میں قیام فرمایاجہاں ابتدا میں خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر رہے مگر کچھ عرصے بعد سید محمد حسین شاہ صاحب کی طرف رہائش اختیار کر لی۔نماز کے لیے خواجہ صاحب کے مکان کی بالائی منزل کا بڑا دالان مخصوص کر دیا گیا اور وہیں حضور کا دربار بھی سجنے لگا۔میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ آپؑ کے لاہور پہنچتے ہی شہر میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی اور کثرت سے لوگ باوجود مخالفین کے شور کے حضور علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے آپ کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے۔ان آنے والوں میں خاص وعام، امیر و غریب، چھوٹا و بڑاہر قسم کا طبقہ شامل تھااور ہر ایک اپنے علم و مذاق کے مطابق سوالات کرتا اوربدلہ میں ان علم کے موتیوں سے حصہ پاتا جو حضور علیہ السلام ہر طرف بکھیرتے نظر آتےتھے۔ بیرونی جماعتوں سے بھی لوگ آپؑ کی صحبت سے مستفیض ہونے کےلیے آنے لگے۔ اس کثرت سے لوگ جمع تھے کہ ایک جلسہ کا سما ںہو گیا جس کے سبب حضرت اقدس کو لاہور میں لنگر کا التزام بھی کرنا پڑا۔ قرآن کریم کا درس کھلے میدان میں ہونے لگا۔ نمازوں کے بعد عموماً حضور کا دربار سجا کرتا اور مختلف علمی و اختلافی مسائل کا چرچا رہتا۔ انہی ایام میں ایک انگریز فلاسفرنے حضور اقدسؑ سے دو ملاقاتوں کا شرف حاصل کیا۔ اسی طرح شہزادہ محمد ابراہیم صاحب، جو کابل کے شاہی خاندان کے ممبر اور رؤسائے عظام میں سے تھے، کوبھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خطاب کے ذریعہ کھل کر تبلیغ فرمائی۔ شہزادہ صاحب اس خطاب سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کی تحریک پر لاہور اورمضافات کے اکابر و شرفاء کو دعوت دی گئی جہاں پر حضور علیہ السلام نے باوجودخرابیٔ صحت کے ایک فصیح و بلیغ، دلوں کو گرما دینے والی علم و معرفت سے بھرپورتقریر فرمائی۔ ان بڑی تقریروں کے علاوہ بھی کئی چھوٹے بڑےخطابات کے ذریعہ اس سفر میں آپ علیہ السلام نے حق کی آواز پہنچانے کی سعی فرمائی۔بعض مستورا ت بھی آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپؑ کے قیمتی وقت سے کچھ حصہ پایا تا آپ ان کو نصائح فرما سکیں۔ الغرض اس سفر کا ہر لمحہ دین کی خدمت اور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر وقف رہا۔ پس وہ شب و روز یونہی گزر گئے یہاں تک کہ حضور علیہ السلام کا وصال ہو گیا۔
سفر کے ایام میں باوجود انتہائی مصروفیت کےحضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی عادت کے مطابق سیر کے لیے بھی باقاعدگی سے تشریف لے جاتے رہے۔ روزانہ بلکہ بعض مرتبہ صبح و شام دو وقتہ سیر فرمایا کرتے جس میں خاندان کی خواتین اور بچےبھی شامل ہوتے۔ بعض اوقات بعض صحابہ بھی ساتھ ہولیتے۔یہ سیر جہاں حضور علیہ السلام کے لیے ہوا خوری کاسبب بنتی وہاں آپ کے گھر والوں کو بھی آپ کے ساتھ چند قیمتی لمحات گزارنے کا موقع میسرآ جاتا جن سے وہ کچھ ہی روز میں ہمیشہ کے لیے محروم ہو جانے والے تھے۔آپؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعدد الہامات کے ذریعہ قربِ وفات کی خبردی جاچکی تھی۔ پس یقیناً ان قیمتی لمحات کی یاد یں پیچھے رہ جانے والوں کے لیے ان کی آخری سانسوں تک تسکین کے سامان مہیا کرتی رہی ہوں گی۔ تاہم سیر کے وقت بھی اکثر گفتگو عموماً دینی مسائل یا نظام سلسلہ کے متعلق ہی ہوتی۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حضور سیر کے دوران بظاہر خاموش تشریف فرما ہیں مگر لبوں کی حرکت سے یہ اندازہ ہوجا تا کہ آپ خدا کی حمد اور اپنے آقا پر درود و سلام بھیجنے میں مصرو ف ہیں۔(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 377تا393)
پس حضور علیہ السلام کے آخری سفر کا یہ ایک مختصر خلاصہ تھا۔ مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ’’کوئی لمحہ فارغ نہ جاتا تھا اور حضور کی پوری توجہ اور ساری کوشش وسعی تبلیغ و اشاعت ہی پر مرکوز تھی۔‘‘(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 394) اس ایک ماہ کے اندر ستائیس کے قریب مجالس اور تحریرات کے ذریعہ آپؑ نے علم و معرفت کے خزانے لٹائے۔انہی تحریرات میں پیغام صلح جیسی معرکہ آراتصنیف بھی شامل تھی۔ایک عام آدمی کو ایک کتاب لکھنے میں کئی ماہ بلکہ کئی برس لگ جاتے ہیں کجا یہ کہ دنیا کی تنبیہ کے لیے ایک زبردست کتاب تحریر فرمائی جائے اور وہ بھی چند دنوں میں باوجود انتہائی مصروفیت کے، یہ امر ایک معجزہ سے کم نہ تھا۔ مگر یہ معجزہ کہاں؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل تھا جو دن رات آپ علیہ السلام پر بارش کی طرح جاری و ساری تھا اور وہ دعائیں تھیں جو شب و روز آپ خدا کے حضور زمین پر کرتے اور عرش پر ان کو قبولیت عطا ہوتی۔اس دوران جو خطوط آپؑ نے لکھے وہ الگ تھے۔حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحبؓ فرماتے ہیں:’’ ایسا نظر آتا تھا کہ گویا حضور کی ساری زندگی کا نچوڑ اور سارے مقاصد اورسلسلہ کے اہم مسائل اور خصوصی عقائد کی تکمیل کا یہ سفر ایک مجموعہ اور خلاصہ تھا…حضور کی ساری ہی حیاتِ طیبہ، انفاس قدسیہ اور توجہات عالیہ جہاں خدا کے نام کے جلال کے اظہار،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت کے اثبات اور اس کی مخلوق کی بہتری و بہبودی کے لیے وقف تھیں وہاں خصوصیت سے حضور کی پاکیزہ زندگی کے یہ آخری ایام اَنْتَ الشَیْخُ المَسِیْحُ الَّذِی لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ کی سچی تفسیر اور مصدقہ نقشہ تھا۔‘‘(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 393تا394)
غرض یہ کہ یہی وہ تین امور ہیں جو آپ علیہ السلام کے اس آخری سفر کے علاوہ باقی زندگی کا بھی جزو تھے اور جن کے لیے آپ کے شب و روز وقف نظر آتے یعنی محبت الٰہی، عشقِ رسول اور خلق اللہ کی خدمت۔تاہم آپ کی وفات سے قبل یہ ایام جن پر اوپر روشنی ڈالی گئی ہے وہ اس وقتِ انتہا کی ہے جب سورج کی روشنی اور تپش عروج پر ہو مگر اس کی ابتدا تو صبح صادق سے ہوتی ہے جب کالی سنسان رات میں ایک سفید دھاری نمودار ہو جائے۔ پس اس سفر پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہےجس کا آغاز روشنی کی پہلی کرن سے ہوتا ہےمگر آہستہ آہستہ وہ پوری زمین و آسمان کو اپنے نور سے منور کر دیتا ہے۔وہ طاقت اس کو پہلے وقت سے عطا ہوتی ہے مگر رفتہ رفتہ دنیا والوں پر بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کچھ اسی طرز پر گزری۔دین کی محبت اور غیرت کا جذبہ تو اللہ تعالیٰ نے پہلے دن سے آپ کے دل میں کو ٹ کوٹ کر بھررکھا تھا پھر جیسے جیسے وقت گزرا اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جوش نشوو نما پاتا رہا یہاں تک کہ بالآخر ایک مکمل شکل اختیار کر کےپوری دنیا میں انقلابِ عظیم برپا کرنے کا ذریعہ بنا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا بچپن بے شمار معاشرتی آلودگیوں کے باوجود معجزانہ طورپراللہ تعالیٰ کے فضل سےانتہائی درجہ کا پاک اور مقدس تھا۔ آپ کو چھوٹی عمر میں قادیان اور اس کے مضافات کے علاوہ ہوشیارپور وغیرہ تک بھی کئی مرتبہ سفر پر جانے کاموقع ملا۔ اور جہاں بھی گئے تمام بچوں سے ممتاز اور منفرد نظر آئے۔ سنجیدگی، تنہاپسندی اور گہرے غور و فکرکی عادت آپ کی شخصیت کا بچپن سے خاصہ تھا۔ موضع بہادر حسین ضلع گورداسپور کے ایک شخص کی گواہی ہے کہ’’ایک مرتبہ آپ اپنے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کے گاؤں آئے تھے۔ یہ گاؤں ان کی جاگیر تھا۔ مرزا غلام قادر صاحب ہمارے ساتھ کھیلتے اور جو جو کھیلیں ہم کرتےوہ بھی کرتے مگر مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام نہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتے اور نہ شوخی وغیرہ کی باتیں کرتے بلکہ چپ چاپ بیٹھے رہتے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 51)اسی طرح آپ علیہ السلام کے ایک ہم عمر ہندو کی شہادت ہے کہ ’’میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے، میں اور وہ ہم عمر ہیں اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں اب بھی وہی ہیں۔ سچا امانت دار اور نیک۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پرمیشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کر کے زمین پر اتر آیا ہے اور پرمیشور اپنے جلوے دکھا رہا ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 51)
عبادت کا ذوق و شوق بھی بچپن سے آپؑ کے دل میں قائم تھا۔ چنانچہ ابھی آپؑ کی عمرانتہائی چھوٹی تھی کہ ایک روز آپ علیہ السلام اپنی ہم سن لڑکی سے کہنے لگےکہ’’نا مرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے‘‘۔(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 53)اسی طرح قرآن مجید سے بھی عشق تھا اور انتہائی کثرت سے مطالعہ فرمایا کرتے۔ حتیٰ کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس زمانے میں ہم نے آپ کو جب بھی دیکھا قرآن ہی پڑھتے دیکھا۔چنانچہ پٹیالہ کے ایک غیر احمدی تحصیلدار منشی عبد الواحد صاحب (جو کثرت سے حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے پاس قادیان میں آتے تھے)کی شہادت ہے کہ’’حضور چودہ پندرہ سال کی عمر میں سارا دن قرآن شریف پڑھتے تھے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب فرماتے کہ یہ کسی سے غرض نہیں رکھتا سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 64)
قرآن کریم کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ آپ اپنا وقت دوسری دیگر دینی کتب پڑھنے میں بھی صرف فرماتے۔ چنانچہ ابتدائی زمانہ کے متعلق حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضور قرآن مجید کے علاوہ بخاری،مثنوی رومی اور دلائل الخیرات، تذکرۃ الاولیاء ،فتوح الغیب اور سفر السعادت پڑھتے اور کچھ نوٹ بھی لیا کرتے تھے۔ مگر بہر حال اکثر توجہ قرآن مجید کے مطالعہ کی طرف تھی۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی یہ بھی روایت ہے کہ’’آپ کے پاس ایک قرآن مجید تھا اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو‘‘۔(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 64تا65)
اسی طرح مرزا اسماعیل بیگ صاحب کی روایت ہے کہ بعض اوقات آپ علیہ السلام کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مجھے بلاتے اور دریافت کرتے کہ ’’سنا تیرا مرزا کیا کرتا ہے، میں کہتا تھا کہ قرآن دیکھتے ہیں۔اس پر وہ کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے۔ پھر یہ پوچھتے کہ رات کو سوتا بھی ہے ؟میں جواب دیتا کہ ہاں سوتے بھی ہیں اور اٹھ کر نماز بھی پڑھتے ہیں۔ اس پر مرزا صاحب کہتے کہ اس نے سارے تعلقات چھوڑ دئے ہیں‘‘۔(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 65) دراصل آپ کے والد صاحب کو آپ کی بہت فکر رہتی اور کوشش ہوتی کہ آپ کہیں نوکری کرلیں۔ بہت دفعہ یہ بھی فرماتے کہ میرے بہت سے تعلقات ہیں تمہیں کہیں نوکر لگا دیتا ہوں مگر اس پر بھی آپ کا جواب یہی ہوتا کہ ’’میں تو نوکر ہو گیا ہوں‘‘۔ گو والد صاحب کی فرمانبرداری کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ آپ کے سامنے ادب سے پیش ہوتے اور اس بات کا بھی اظہار کرتے کہ گو دنیاوی کاموں میں دل نہیں مگر والد صاحب کی فرمانبرداری بھی آپ پر لازم ہے۔ چنانچہ اسی فرمانبرداری کی وجہ سے آپ نے ایک لمبا عرصہ سیالکوٹ میں باوجود خواہش نہ ہونے کے ملازمت کی۔
حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’باوجود اس کے کہ آپ دنیا سے ایسے متنفر تھے آپ سُست ہرگز نہ تھے بلکہ نہایت محنت کش تھے اور خلوت کے دلدادہ ہونے کے باوجود مشقت سے نہ گھبراتے تھے اور بارہا ایسا ہوتاتھا کہ آپ کو جب کسی سفر پر جانا پڑتا تو سواری کا گھوڑا نوکر کے ہاتھ آگے روانہ کردیتے اور آپ پیادہ پابیس پچیس کوس کا سفر طے کرکے منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے ‘‘۔(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام از حضرت مرزابشیر الدین محمود احمدؓ، صفحہ 16)
دراصل دنیا سے آپؑ کی بے رغبتی دین سے محبت کے باعث تھی اور خلوت نشینی اختیار کرنے کا بڑا سبب خدا کی عبادت اور اس کے دین کی خدمت تھی۔ خلوت نشینی کا تمام وقت انہی کاموں میں صرف ہوتا۔چنانچہ آپ علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں:’’مَیں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ان کے اعتراضوں پر غور کرتارہا ہوں میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے جو عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرکرتے ہیں ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے‘‘۔(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 62تا63)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آپ علیہ السلام کو بچپن سے عشق تھاجو وقت کے ساتھ اور بھی بڑھتا گیا۔ ان اعتراضات کا جمع کرنا بھی اسی مقصد سے تھا تا اپنے قلم کے ذریعہ ان تمام اعتراض کرنے والوں کا قلع قمع کردیں۔ آپ علیہ السلام اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں:
تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ
تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے
تیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ
اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225)
اس عشق کا اظہار اس طریق پر بھی ہوتا کہ آپ کے وقت کا ایک بڑا حصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے میں صرف ہوتا۔ اس حوالہ سے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پردرود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اسی رات میں نےخواب میں دیکھا کہ خدا کےفرشتے آبِ زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان پر لئے آتے ہیں اور ایک نے ان (فرشتوں )میں سے کہا کہ یہ وہی برکتیں ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔(سیرت طیبہ صفحہ 46)
کثرت سے درود شریف پڑھنے کی یہ عادت بھی آخر تک قائم رہی اور ذاتی نمونہ کے علاوہ آپ نے ہمیشہ اپنی جماعت کے احباب کو بھی درود شریف کثرت سے پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ایک مرتبہ ایک صاحب نے دریافت کیا کہ حضور درود شریف کس قدر پڑھنا چاہیے؟تو جواباً فرمانے لگے:’’تب تک پڑھنا چاہیے کہ زبان تر ہو جائے۔‘‘(سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم صفحہ 156)
عبادات کا یہ سلسلہ جاری و ساری تھا کہ آپ علیہ السلام کو اپنے والد صاحب کی خواہش پر ملازمت کی غرض سے سیالکوٹ جانا پڑا۔وہاں کے ماحول نے بھی آپ کی دین کی محبت اور اس کے لیے اپنا وقت وقف رکھنے کی عادت میں خلل نہ آنے دیااور اس عرصہ کے دوران بھی آپ کا اکثر وقت عبادت الٰہی اور خدمت دین میں ہی صرف ہوتا رہا۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ’’دفتری فرائض کی سر انجام دہی تو دفتری اوقات میں ہوتی تھی باقی پورا وقت آپ کاتلاوت قرآن مجید، عبادت گزاری، شب بیداری، خدمت خلق اور تبلیغِ اسلام ایسے اہم دینی مہمات میں گزرتا تھا…کچہری سے فارغ ہو کر واپس اپنی قیام گاہ پر تشریف لاتے تو دروازہ بند کرلیتے اور قرآن شریف کی تلاوت اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ آپ کے اس طریقِ مبارک سے بعض متجسس طبیعتوں کو خیال پیدا ہوا کہ یہ ٹوہ لگانا چاہیے کہ آپ کواڑ بند کر کے کیا کرتے ہیں؟ چنانچہ ایک دن ’’سراغ رسان‘‘گروہ نے آپ کی ’’خفیہ سازش ‘‘ کو بھانپ لیا یعنی انہوں نے بچشم خود دیکھا کہ آپ مصلیٰ پر رونق افروز ہیں قرآن مجید ہاتھ میں ہے اور نہایت عاجزی اور رقت اور الحاح و زاری اور کرب وبلا سے دست بدعاہیں کہ ’’یا اللہ تیرا کلام ہے مجھے تو تو ہی سمجھا ئے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 84تا85)
مائی حیات بی بی صاحبہ بنت فضل دین صاحب مرحوم کی روایت ہے کہ ’’میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزاصاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں اور یہاں تک روتے کہ زمین تر ہو جاتی ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 85)
سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران باوجود خلوت نشینی کے آپ علیہ السلام نےاپنے اندر غرباء اورمساکین کی خدمت کے جذبہ کو قادیان کی طرح اجاگر رکھااور’’جو تنخواہ لاتے اس میں سے معمولی سادہ کھانے کا خرچ رکھ کر باقی رقم سے محلہ کی بیواؤں اور محتاجوں کو کپڑے بنوا دیتے یا نقدی کی صورت میں تقسیم فرمادیتے۔علم ِطب میں آپ کو کافی درک تھا اور آپ اس سے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچانے سے کبھی دریغ نہیں فرماتے تھے‘‘۔(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 85)
سیالکوٹ میں کچھ عرصہ ملازمت کر کے آپ علیہ السلام اپنے والد صاحب کے ارشاد پر واپس قادیان آگئے۔آپ علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ سیالکوٹ کی ملازمت آپ کے لیے قید سے کم نہ تھی۔پس واپس آکراپنا پورا وقت خدا کی عبادت اور دین کی خدمت میں صرف کرنے کی آزادی حاصل ہوئی۔ انہی ایام کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’حضرت والد صا حب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہواکہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا۔اور اس نےیہ ذکر کرکےکہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئےرکھنا سنت خاندان نبوت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجا لاؤں۔سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا…غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کرسکتا۔خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا۔اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے۔چنانچہ بعض گزشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہو ئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیا ء اس امت میں گزرچکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ ﷺ مع حسنین وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنھا کو دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ بیداری کی ایک قسم تھی۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 128تا129)
غرض یہ کہ حضور علیہ السلام کی زندگی کے ابتدائی دَور کا بڑا حصہ خدا تعالیٰ کی عبادت، قرآن کریم کی غور و تدبر سے تلاوت،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام بھیجنے اور دیگر دینی کتب کے مطالعہ میں گزرا۔ اس کا ایک بڑا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ آپؑ کے دل میں دین کی غیر ت کی جوشمع جل رہی تھی وہ مزید نشو ونما پاتی چلی گئی اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے یہ فیصلہ فرمایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے جو اسلام کے خلاف تلوار نکالے کھڑے تھے۔ آپؑ کے دل میں دین کے لیے جو تڑپ پیدا ہو چکی تھی اس حوالے سے حضرت مولوی فتح دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کے ابتدائی زمانے کے متعلق بیان فرماتے ہیں:’’میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اکثر حاضر ہوا کرتا تھا اور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتاتھا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بےقراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ سے دوسرے کونہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں جیسے کہ ماہی بےآب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدتِ درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ میں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت میں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ حالت جاتی رہی۔صبح میں نے اس واقعہ کا حضور علیہ السلام سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’میاں فتح دین !کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جوجو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آرہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے اور یہ اسلام ہی کا درد ہے جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے۔‘‘(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 29)
پس یہاں سے آپؑ کی زندگی کے اگلے دَور کا آغاز ہوا جس میں اسلام کے دفا ع کے لیے آپؑ نے قلم اٹھایا۔ اس کا آغازاخبارات میں چند مضامین اورآپؑ کی پہلی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘سے ہوا جبکہ اختتام ’’پیغام صلح‘‘پر۔ اس عرصے میں 80سے زائدکتب تحریر فرمائیں، سینکڑوں اشتہار چھاپے، لاکھوں خطوط لکھے۔ بہت سے مباحثوں میں حصہ لیا۔اس سے کئی زیادہ خطابات فرمائے ۔خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر خلوت نشینی کو ترک فرمایا اور لاکھوں مہمانوں کے میزبان بنے۔قادیان جیسے بیابان جنگل میں لنگر کا التزام فرمایا۔اللہ تعالیٰ کے حکم پر ایک جماعت کی بنیاد رکھی جن کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے دن رات پیش کیے۔ اخبارات ورسائل جاری فرمائے۔سلسلہ کی ترقی کے لیے ایک نظام قائم فرمایا۔غرض یہ کہ اپنی زندگی کا کوئی لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیا اور ہر ایک پل دین کی خدمت کے لیےپیش کر دیا۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور علیہ السلام فرمانے لگے:’’میرا تو خیال ہے پاخانہ پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے۔ اور فرمایا: کوئی مشغولی اور تصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے، مجھے سخت ناگوار ہے۔ اور فرمایا: جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کر لیتا ہوں۔ جب تک وہ کام نہ ہو جائے۔ فرمایا: ہم دین کے لئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں۔بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہئے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبد الکریم سیالکوٹی صاحب ؓ،صفحہ 28)
دین کی راہ میں جیسا کہ فرمایا کہ کسی روک کو پسندنہ فرماتے۔اسی طرح نہ کوئی عذر آپ کے کام میں خلل آنے دیتا۔ چنانچہ ایک دفعہ جب سخت گرمی پڑی تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے ایک مضمون لکھا جس میں گرمی کا اظہار کرتے ہوئے اور گرمی کے سبب کام نہ کرسکنے کی معذرت کرتے ہوئے یہ الفاظ بھی لکھ دیے کہ’’گرمی ایسی سخت ہے کہ اس کے سبب سے خدا کی مشین بھی بند ہوگئی ہے۔اس میں مولوی صاحب مرحوم نے اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شدت گرمی کے سبب کام چھوڑ دیا ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ مضمون سنا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو غلط ہے ہم نے تو کا م نہیں چھوڑا۔‘‘(ذکر حبیب صفحہ 126)
اسی طرح دین کی تڑپ آپ کے دل میں اس حد تک تھی کہ جب کسی دینی کام میں مصروف ہوتے تو گو یا اس میں محو ہو جاتےاور ارد گرد کی کچھ خبر نہ ہوتی۔ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں:’’میں نے دیکھا کہ حضرت اقدس نازک سے نازک مضمون لکھ رہے ہیں یہاں تک کہ عربی زبان میں بے مثل فصیح کتابیں لکھ رہے ہیں اور پاس ہنگامہ قیامت بر پا ہے۔بے تمیز بچے اور سادہ عورتیں جھگڑ رہی ہیں…مگر حضرت یوں لکھے جارہے ہیں اور کام میں یوں مستغرق ہیں کہ گویا خلوت میں بیٹھے ہیں…میں نے ایک دفعہ پوچھا۔ اتنے شور میں حضور کو لکھنے میں یا سوچنے میں ذرا بھی تشویش نہیں ہوتی۔ مسکرا کر فرمایا: ’’میں سنتا ہی نہیں !تشویش کیا ہو اور کیونکرہو‘‘(سیرت حضرت مسیح موعود صفحہ 23)
تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ گوحضور علیہ السلام کی خواہش یہی تھی کہ ہر لمحہ دین کی خدمت میں گزر جائے، آپ کسی بھی صورت دیگر ذمہ داریوں سے غافل نہ تھے بلکہ آپ ان کو بھی دین کی خدمت کا حصہ اور خدا کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ آپؑ کے وقت کا ایک حصہ اپنے اہل و عیال کی طرف اپنی ذمہ داری نبھانے میں صرف ہوا۔ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرد کو گھر کے کاموں میں اپنی اہلیہ کا ہاتھ بٹانا چاہیے کیونکہ یہ سنت ہے۔اسی طرح حضرت ام المومنینؓ پرجب کبھی بیماری کا حملہ ہو تا تو آپ ہر طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہمدردی او رخدمت کرنا ضروری سمجھتے اور اپنے عمل سے آپؑ نے یہ تعلیم دی کہ بیویوں کے کیا حقوق ہیں۔جس طرح پر وہ ہماری خدمت کرتی ہیں ان کا حق ہے کہ ان کے ساتھ احسان کا سلوک کیا جائے۔ حضرت اماں جان ؓکی ہرضرورت پوری کرنے کے لیے سعی فرماتے۔
یہی اصول آپؑ نے بچوں کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں قائم فرمایا۔دین کے نہ ختم ہونے والے کاموں کے ساتھ ساتھ آپؑ اپنے بچوں کے لیے بھی اپنا وقت نکالتے۔چنانچہ بچوں کو کہانیاں سنایا کرتے تھے جن میں ان کی تربیت کو مد نظر رکھتے۔ بچوں کے بچپنے سے کبھی تنگ نہ آتے بلکہ اکثر اوقات بچے آپؑ کے ارد گرد جمع ہو جایا کرتے اور کھیلتے یا آپؑ کو کہانیاں سناتے اور آپؑ بغیر تنگ آئے گھنٹوں ان کی یہ باتیں سنتے۔آپ کس حد تک بچوں کے ساتھ صبر و حوصلہ سے پیش آتے، اس حوالہ سے روایت ہے:’’آپ کی قدیمی عادت ہے کہ دروازے بند کرکے بیٹھا کرتے ہیں ایک لڑکے نے زور سےدستک بھی دی اور منہ سے بھی کہا ہے ابا بواکھول آپ وہیں اٹھے ہیں اور دروازہ کھولا ہے کم عقل بچہ اندر گھسا ہے اور ادھر ادھر جھانک تانک کر الٹے پاؤں نکل گیا ہے۔حضرت نے معمولاً دروازہ بند کرلیا ہے۔ دوہی منٹ گزرے ہوں گے جو پھر موجود اور زور زور سے دھکے دے رہے ہیں اور چلا رہے ہیں ابا بوا کھول،آپ پھر بڑے اطمینان سے اور جمیعت سے اٹھے ہیں اور دروازہ کھول دیا ہے۔بچہ اب کی دفعہ بھی اندر نہیں گھستا ذرا سرہی اندر کرکے اور کچھ منہ میں بڑبڑا کے پھر الٹابھاگ جاتا ہے۔حضرت بڑے ہشاش بشاش بڑے استقلال سے دروازہ بند کرکے اپنے نازک اور ضروری کام پر بیٹھ جاتے ہیں۔کوئی پانچ ہی منٹ گزرے ہیں تو پھر موجود اور پھر وہی گرما گرمی اور شور اشوری کہ ابا بوا کھول اور آپ اٹھ کر اسی وقار اور سکون سے دروازہ کھول دیتے ہیں اور منہ سے ایک حرف تک نہیں نکالتے کہ تو کیوں آتا اور کیا چاہتا ہے اور آخر تیرا مطلب کیا ہے جو بار بار ستاتا اور کام میں حرج ڈالتا ہے۔میں نے ایک دفعہ گنا کوئی بیس دفعہ ایسا کیا اور ان ساری دفعات میں ایک دفعہ بھی حضرت کے منہ سے زجر وتوبیخ کا کلمہ نہیں نکلا۔‘‘(سیرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ صفحہ33تا34)
اسی طرح آپؑ کا کچھ وقت غرباء اور مرضیٰ کی خدمت میں بھی صرف ہوا کرتا اور اس کو بھی آپ دین کی خدمت کا حصہ قرار دیا کرتےتھے۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ بیان فرماتے ہیں:’’ایک دفعہ بہت سی گنواری عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں اتنے میں اندر سے بھی چند خدمت گار عورتیں شربت شیرہ کے لئے برتن ہاتھوں میں لئے آنکلیں۔اور آپ کو دینی ضرورت کے لئے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا۔میں بھی اتفاقاً جا نکلا کیا دیکھتا ہوں حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دنیوی ڈیوٹی پر چُست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اورکسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں اورکوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا اور ہسپتال جاری رہا۔فراغت کے بعد میں نے عرض کیا حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہےاور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے۔اللہ اللہ کس نشاط اورطمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھتا ہو ں جو وقت پر کام آجاتی ہیں اور فرمایا یہ بڑا ثواب کا کام ہے مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پروانہ ہو نا چاہیئے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ مولانا عبدالکریم سیالکوٹی رضی اللہ صفحہ34تا35)
اس کے ساتھ ساتھ وہ صحابہ جومختلف علاقہ جات سے آپ کے حضور حاضر ہوتے آپ ان کی مہمان نوازی فرماتے اور کسی لحاظ سے ان کی خاطر تواضع میں کمی نہ آنے دیتے۔ اس کے لیے بھی آپؑ اپنا قیمتی وقت نکال کر ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی سعی فرماتے۔ مہمانوں کا آپ کو کس حد تک خیال رہتا اس حوالہ سےحضور علیہ السلام ایک حکایت سنایا کرتے تھے:’’ایک درخت کے نیچے ایک مسافر کو رات آگئی۔ جنگل کا ویرانہ اور سردی کا موسم۔ درخت کے اوپر ایک پرندے کا آشیانہ تھا۔ نرومادہ آپس میں گفتگو کرنے لگے یہ غریب الوطن آج ہمارا مہمان ہے اور سردی زدہ ہےاس کے واسطے ہم کیا کریں؟سوچ کر ان میں صلاح قرار پائی کہ ہم اپنا آشیانہ توڑ کر نیچے پھینک دیں اور وہ اس کو جلا کر آگ تاپے۔چنانچہ انہوں نے کہا کہ یہ بھوکا ہے اس کے واسطے کیا دعوت تیار کی جائے اور تو کوئی چیز موجود نہ تھی۔ ان دونوں نے اپنے آپ کو اس آگ میں گرا دیا۔ تا کہ ان کے گوشت کے کباب ان کے مہمان کے واسطے رات کا کھانا ہو جائے۔ اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کی ایک نظیر قائم کی۔‘‘(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 282بحوالہ حکایات شیریںصفحہ27)
پس جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ در اصل حضورؑ کی زندگی کا ہر لمحہ دین کی خدمت کے لیے وقف تھا پھر آپ نے دن رات وہی کیا جس سےآپؑ خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔ دن رات محنت کی اور دین کی خدمت کی۔ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیا اور حقیقی طور پر خدا کی مشین کے طور پر کام کرتے رہے مگر ہمیشہ تمام انحصار اللہ تعالیٰ کے فضل پر کیا اور دعا پر اکتفا کیا۔اپنی سعی پر کسی قسم کا فخر محسوس نہ کیااور عاجزی اور انکساری کی ایک نئی مثال قائم فرمائی۔چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔آپؑ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں۔ ستر سال کے قریب عمر سےگزر چکے ہیں۔ موت کا وقت مقرر نہیں۔ خدا جانے کس وقت آجائے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی ہے۔ ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے۔رہی سیف سو اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں۔لہٰذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا ئے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنادے۔‘‘(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ، صفحہ 109تا110)
٭…٭…٭