منظوم کلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ147تا152)
اے خُدا تیرے لئے ہر ذرّہ ہو میرا فدا
مجھ کو دِکھلادے بہارِ دیں کہ مَیں ہوں اشکبار
اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف
نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بچار
ایک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے
بعد اس کے ظنّ غالب کو ہیں کرتے اختیار
باغ مُرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر
مَیں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار
مرہمِ عیسیٰ نے دی تھی محض عیسیٰ کو شفا
میری مرہم سے شفا پائے گا ہر مُلک و دیار
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب مَیں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمیدوار
جن میں آیا ہے مسیحِ وقت وہ مُنکر ہوئے
مر گئے تھے اِس تمنّا میں خواصِ ہر دیار
مَیں نہیں رکھتا تھا اِس دعویٰ سے اِک ذرّہ خبر
کھول کر دیکھو بَراہیں کو کہ تا ہو اِعتبار
مجھ کو بس ہے وہ خدا عہدوں کی کچھ پَروا نہیں
ہو سکے تو خود بنو مہدی بحکمِ کردگار
افترا لعنت ہے اور ہر مفتری ملعون ہے
پھر لعیں وُہ بھی ہے جو صادق سے رکھتا ہے نقار
ان نشانوں کو ذرہ سوچو کہ کس کے کام ہیں
کیا ضرورت ہے کہ دکھلاؤ غضب دیوانہ وار
مُفت میں ملزم خدا کے مت بنو اَے منکرو
یہ خدا کا ہے نہ ہے یہ مفتری کا کاروبار
یہ فتوحاتِ نمایاں یہ تواتر سے نشاں
کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا یہ مکّاروں کا کار
ایسی سُرعت سے یہ شہرت ناگہاں سالوں کے بعد
کیا نہیں ثابت یہ کرتی صِدقِ قولِ کردگار
کچھ تو سوچو ہوش کرکے کیا یہ معمولی ہے بات
جس کا چرچا کر رہا ہے ہر بشر اور ہر دیار
مِٹ گئے حیلے تمہارے ہو گئی حجّت تمام
اب کہو کس پر ہوئی اے منکرو لعنت کی مار
مت کرو بک بک بہت اُس کی دِلوں پر ہے نظر
دیکھتا ہے پاکی دِل کو نہ باتوں کی سنوار
کیسے پتھر پڑ گئے ہَے ہَے تمہاری عقل پر
دیں ہے منہ میں گرگ کے۔ تم گرگ کے خود پاسدار
ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دینِ احمدؐ پر تبر
کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور اُن کے وہ وار
کون سی آنکھیں جو اُس کو دیکھ کر روتی نہیں
کون سے دل ہیں جو اِس غم سے نہیں ہیں بے قرار
کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج
اِک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار
یہ مصیبت کیا نہیں پہنچی خدا کے عرش تک
کیا یہ شمس الدیں نہاں ہو جائے گا اب زیرِغار
جنگِ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا
دِل گھٹا جاتا ہے یا ربّ سخت ہے یہ کارزار
ہر نبی وقت نے اِس جنگ کی دی تھی خبر
کر گئے وہ سب دعائیں بادو چشمِ اشکبار
اَے خدا شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ
وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار
دِل نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل سوچ کر
اے مری جاں کی پناہ فوجِ ملائک کو اُتار
لشکرِ شیطاں کے نرغے میں جہاں ہے گھر گیا
بات مشکل ہو گئی قدرت دکھا اے میرے یار
آسماں پر شور ہے پر کچھ نہیں تم کو خبر
دن تو روشن تھا مگر ہے بڑھ گئی گرد و غبار
اِک نشاں ہے آنیوالا آج سے کچھ دن کے بعد
جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار
اِک نمونہ قہر کا ہوگا وہ رباّنی نشاں
آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار
ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیہِ ناشناس
اِس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دار و مدار
وحیِ حق کی بات ہے ہو کر رہے گی بے خطا
کچھ دِنوں کر صبر ہو کر متّقی اور بردبار
یہ گماں مت کر کہ یہ سب بد گمانی ہے معاف
قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار