الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
زبان کے آداب اور اس کی حفاظت
آنحضرتﷺ نے فرمایا: بعض دفعہ انسان بے خیالی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی کوئی بات کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے بے انتہا درجات بلند کرتا ہے اور بعض اوقات لاپرواہی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا کوئی کلمہ زبان سے نکال دیتا ہے جس کی وجہ سے جہنم میں جا گرتا ہے۔
یہ نکتہ حضرت مسیح موعودؑ نے یوں بیان فرمایا ہے ؎
بدبخت تر تمام جہاں سے وہی ہوا
جو ایک بات کہہ کے ہی دوزخ میں جاگرا
آنحضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے زبان پر قابو پالیا اس کے لیے امن وسکون اور خوشخبری ہے۔ نیز فرمایا کہ نیزوں کے زخم تو بھر جاتے ہیں مگر زبان کے لگائے زخم نہیں بھرتے۔
دراصل زبان کا عطیہ نوع انسان پر اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت اور احسان ہے جس کا صحیح استعمال کر کے ہم خدا تعالیٰ کے مقرب بن سکتے ہیں، اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوسکتے ہیں اور معاشرے کو جنت نظیر بناسکتے ہیں۔ زبان کے آداب اور اس کی حفاظت کے بارے میں مکرم ملک سعید احمد رشید صاحب کے قلم سے ایک تفصیلی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23، 24 و 29؍اگست 2013ء میں شامل اشاعت ہے۔ آئیے کوشش کریں کہ اس مضمون کے مندرجات کو ماہ رمضان میں اپنے پیش نظر رکھیں تاکہ یہ پاکیزگی ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بن جائے۔
حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضورﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ نجات کیسے ممکن ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی زبان کو روک کر رکھو۔
حضر ت معاذؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضورﷺ سے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا کام بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے اور دوزخ سے بچائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں نیکی کے دروازوں کے متعلق نہ بتاؤں۔ سنو روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو اس طرح بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو۔ رات کے درمیانی حصہ میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں سارے دین کی جڑ اور چوٹی بلکہ ستون نہ بتاؤں۔ فرمایا دین کی جڑ اسلام ہے۔ اس کا ستون نماز ہے۔ پھر فرمایا: میں تمہیں دین کا خلاصہ نہ بتاؤں۔ میں نے کہا: ہاں یا رسول اللہؐ۔ آپؐ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا: اسے روک کر رکھو۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ!کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس کا بھی ہم سے مواخذہ ہوگا؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ لوگ اپنی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیوں کی وجہ سے ہی تو اوندھے منہ جہنم میں گرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’زبان سے ہی انسان تقویٰ سے دُور چلا جاتا ہے، زبان سے تکبر کر لیتا ہے اور زبان سے ہی فرعونی صفات آجاتی ہیں اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعمال کو ریا کاری سے بدل لیتا ہے۔ اور زبان کا زیاں خطرناک ہے اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 281ایڈیشن 1988ء)
پس تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے
ڈرتے رہو عقوبت ربّ العباد سے
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے محمدؐ میرے بندوں سے کہہ دو کہ ہمیشہ وہ بات کیا کرو جو سب سے زیادہ احسن (یعنی اچھی اور نیک )ہو۔ (بنی اسرائیل: 54)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اس آیت کریمہ کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کی زبان کو بھی آزاد نہیں چھوڑا اس پر بہت سی پابندیاں عائد کی ہیں اور ایک مومن کا فرض قراردیا ہے کہ وہ صرف سچ ہی بولنے والا نہ ہو، صرف قولِ سدید کا ہی پابند نہ ہو بلکہ احسن قول کی پابندی کرنے والا ہواور حکمت یہ بیان کی کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو شیطان تمہارے درمیان فساد ڈال دے گا۔ … قول کے لحاظ سے احسن وہ ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے۔ …وہ قول جو شرک کی طرف لے جاتا ہے، وہ قول جو بدعت کی طرف لے جاتا ہے، وہ قول جو دہریت کی طرف لے جاتا ہے، وہ قول جو فساد کی طرف لے جاتا ہے، وہ قول جو باہمی جھگڑوں کی طرف لے جاتا ہے وہ قول احسن نہیں۔ احسن قول وہی ہے جو اللہ کی طرف لے جانے والا ہے۔ … قولِ احسن کے اصول پر کاربند ہوئے بغیر کوئی شخص خدا کے عباد میں شامل نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ (خطبات ناصرجلد دوم صفحہ 113تا 120)
آنحضرتﷺ فرماتے ہیں: جوشخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ نیکی اور بھلائی سے کوئی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔
نیز فرمایا: مومن طعنہ زنی کرنے والا، لعنت ملامت کرنے والا، فحش کلام اور زبان دراز نہیں ہوتا۔
٭… ایک نہایت ہی مکروہ خامی غیبت ہے یعنی کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں بیان کرنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ (الحجرات: 13)
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات مَیں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھایا کرتے تھے اور ان کی عزت سے کھیلا کرتے تھے۔ یعنی ان کی غیبت کیا کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’آنحضرتﷺ سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا کہ کسی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہوتو اسے برا لگے غیبت ہے اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تُو بیان کرتا ہے، تو اس کا نام بہتان ہے۔ … قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ (البلد: 18) مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کراسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے۔ دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اس وقت بیا ن کرنا چاہئے جب پہلے کم ازکم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ61-60 ایڈیشن 1988ء)
٭… پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور وہ جو لغو سے اعراض کرنے والے ہیں۔ (المومنون: 4)۔ لغویات کا تعلق زبان سے بھی ہے۔ مثلاً گپیں مارنا، فضول باتیں کرنا اور لغو مجالس لگانا، زبان درازی وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اہل جنت دوزخیوں سے پوچھیں گے کہ تم کو کیا چیز دوزخ میں لے گئی تو وہ جواب دیں گے۔ ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اورہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے، ہم لغو باتوں میں مشغول رہنے والوں کے ساتھ مشغول ہوجایا کرتے تھے۔ (المدثر: 43تا45)
آنحضورﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے سب سے زیادہ گنہگار فضول گو اور لایعنی باتیں کرنے والا ہوتا ہے۔
ایک حدیث ہے: جو زبان دراز اور باتونی ہوتے ہیں، اُن سے خطائیں بھی زیادہ سرزد ہوتی ہیں۔
یہ بھی فرمایا: اللہ تعالیٰ کو تمہاری تین باتیں ناپسند ہیں۔ -1قیل و قال یعنی فضول بیٹھ کر گپّیں مارنا اور فضول بولتے رہنا۔ -2کثرت سوال اور -3فضول خرچی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: مومن وہ ہیں جو لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں اور لغو تعلقات سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد21صفحہ197)
آنحضرتﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن مجھے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے اور سب سے زیادہ دُور اور مبغوض وہ لوگ ہوں گے جو منہ پھٹ اورمتکبر اور منہ پھلا پھلا کر باتیں کرنے والے ہوں گے۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا: انسان کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ لایعنی، بیکار اور فضول باتوں کو چھوڑ دے۔ نیز ایک حدیث میں ہے کہ جس نے خاموشی اختیار کی وہ نجات پاگیا۔
عمران بن حطّان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو مسجد میں تنہا بیٹھے دیکھ کر پوچھا کہ اے ابوذر! یہ کیسی تنہائی ہے؟ فرمانے لگے: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ بُرے ساتھی سے تنہائی بہتر ہے اور اچھا ساتھی تنہائی سے بہتر ہے اور اچھی بات خاموشی سے بہتر ہے اور خاموشی بُری بات سے بہتر ہے۔
٭…اللہ تعالیٰ نے شرک کے بعد تمام گناہوں کی جڑ جھوٹ کو قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔ (الحج: 31)
آنحضورﷺ فرماتے ہیں: جھوٹ انسان کو فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق وفجور جہنم کی طرف اور جو شخص جھوٹ بولے وہ آسمان پر کذاب لکھا جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جس قدر قول زور۔ (ملفوظات جلداول صفحہ281ایڈیشن 1988ء)
مزید فرماتے ہیں: ’’فی ا لحقیقت کذب کے اختیار کرنے سے انسان کا دل تاریک ہوجاتا ہے اور اندر ہی اندر اسے ایک دیمک لگ جاتی ہے۔ ایک جھوٹ کے لیے پھر اسے بہت سے جھوٹ تراشنے پڑتے ہیں کیونکہ اس جھوٹ کو سچائی کا رنگ دینا ہوتا ہے۔ اسی طرح اندر ہی اندر اس کے اخلاقی اور روحانی قویٰ زائل ہوجاتے ہیں اور پھر اسے یہاں تک جرأت اور دلیری ہوجاتی ہے کہ خدا تعالیٰ پر بھی افتراءکرلیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے مرسلوں اور ماموروں کی تکذیب بھی کردیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک اَظْلَم ٹھہر جاتا ہے۔ … یقیناً یادرکھو کہ جھوٹ بہت ہی بری بلا ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ245ایڈیشن 1988ء)
نیز فرمایا: ’’بہت سے لوگ دیکھے ہیں کہ رنگ آمیزی کرکے حالات بیان کرنے سے نہیں رُکتے اور اس کو کوئی گناہ بھی نہیں سمجھتے۔ ہنسی کے طور پر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ انسان صدیق نہیں کہلا سکتا جب تک جھوٹ کے تمام شعبوں سے پرہیز نہ کرے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ99ایڈیشن 1988ء)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ یہ نوید دیتا ہے: اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔ وہ تمہارے لیے تمہارے اعمال کی اصلاح کردے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ (الاحزاب: 71تا72)
قولِ سدید کامطلب ہے ایسا سچ جس میں کوئی ہیر پھیر، پیچیدگی اور مکرو فریب کا شائبہ تک نہ ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں: ’’سدید کے ایک معنی مستقیم بات کے بھی ہیں۔ یعنی وہ سیدھی بات جو خدا تعالیٰ کی رضا تک پہنچانے والی ہو۔ ‘‘ (خطبات ناصر جلد دہم صفحہ643)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص کامل مومن بننا چاہے اسے چاہیے کہ جھوٹ اور نفاق سے پرہیز کرے۔ (خطبات محمود جلد18 صفحہ128)
٭…زبان کی ایک اَور برائی الزام تراشی اور بہتان باندھنے کے حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ‘‘ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ 19)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جانتے ہو مفلس کون ہے؟ ہم نے عرض کیا جس کے پاس مال و دولت نہ ہو اور نہ کوئی سازوسامان ہو اور کوڑی کوڑی کا محتاج ہو۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں بلکہ میری اُمّت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز، روزہ، زکوٰۃ جیسے اعمال لے کرآئے گامگر اس نے کسی کو گالی دی ہوگی کسی پر تہمت لگائی ہوگی کسی کا ناحق مال کھایا ہوگا۔ کسی کا خون بہایا ہوگا، کسی کو مارا ہوگا پس ان مظلوموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس کے سر پر ڈال دیے جائیں گے اور اس طرح وہ جنت کی بجائے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور یہی شخص دراصل مفلس ہے۔
٭…حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں۔ …مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت بُرا قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو یہ سب برے کام ہیں۔ ‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودجلد4صفحہ 219)
پھر نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’عیب مت لگاؤ۔ اپنے لوگوں کے برے برے نام مت رکھو۔ بدگمانی کی باتیں مت کرو اور نہ عیبوں کو کرید کرید کر پوچھو۔ ایک دوسرے کا گلہ مت کرو۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد10۔ صفحہ 350)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: آج بھی لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ پہلے تو کرید کرید کر کسی سے پوچھتے ہیں کہ فلاں نیکی تم نے کی، نماز پڑھی، رقت طاری ہوتی ہے کہ نہیں۔ حوالہ دیا کہ جس کو رونا نہیں آیا اس کا دل سخت ہوگیا۔ تو یہ بالکل غلط چیز ہے۔ یہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے، انفرادی طور پر کسی کو پوچھنے کا حق نہیں۔ عموماً ایک نصیحت کی جاتی ہے جلسوں میں، خطبوں میں کہ اس طرح نماز پڑھنی چاہیے۔ (ماخوذ از خطبات مسرور جلد اول صفحہ 578)
٭…آنحضورﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کا تزکیہ فرمائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ آپؐ نے بڑے جلال سے تین بار ان کلمات کو دہرایا تو حضرت ابو ذرؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: 1۔ جو تکبر سے کپڑے گھسیٹتے ہیں۔ 2۔بات بات پر احسان جتاتے ہیں۔ 3۔جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سامان فروخت کرتے ہیں۔
٭… زبان کا ایک جرم چغل خوری بھی ہے۔ چغل خور لوگوں کو آپس میں لڑاتا اور بھڑکاتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے: چغل خور جنت میں ہرگز داخل نہ ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ایک دفعہ رسول کریمﷺ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں دو قبریں آئیں۔ آپؐ وہاں ٹھہر گئے اور فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ان قبروں کے مُردے ایسے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں پڑے ہوئے ہیں کہ جن سے بآسانی بچ سکتے تھے لیکن بچے نہیں۔ ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے اپنے آپ کو نہیں بچاتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔ تو چغلی بہت بڑا عیب ہے اس میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہارے سامنے کوئی کسی کے متعلق برا کلمہ کہے تو اسے روک دو اور کہہ دوہمیں نہ سناؤ بلکہ جس کا عیب ہے اسے جا کر سناؤ۔ پھر اگر کوئی بات سن لو تو جس کے متعلق ہواس کو جا کر نہ سناؤتاکہ فساد نہ ہو۔ (فرائض مستورات،انوارالعلوم جلد5صفحہ161)
اس حدیث کا منظوم ترجمہ حضرت اقدسؑ نے یوں فرمایا:
دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا
سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا
وہ اک زبان ہے عضوِ نہانی ہے دوسرا
یہ ہے حدیث سیّدنا سید الوریٰ
٭…حدیث ہے: جس نے زبان کی حفاظت کی اللہ نے اس کے عیوب کو ڈھانپ دیا۔ اس کی پردہ پوشی فرما دی۔
اسی طرح آپؐ نے فرمایا: انسان ایمان کی حقیقت کو پا نہیں سکتا جب تک اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جیسے قول زور۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے۔ یہ سخت غلطی ہے اگر کوئی ایسا سمجھے۔ … اس سے معلوم ہوا کہ زبان کا زیاں خطرناک ہے۔ اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔ پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو، نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو۔ ہر ایک بات کہنے سے پہلے سوچ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت اس کے کہنے میں کہاں تک ہے۔ جب تک یہ نہ سوچ لو مت بولو۔ ایسے بولنے سے جو شرارت کا باعث اور فساد کاموجب ہو نہ بولنا بہتر ہے۔ لیکن یہ بھی مومن کی شان سے بعید ہے کہ امر حق کے اظہار میں رُکے۔ اس وقت کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور خوف زبان کو نہ روکے۔ …زبان کو جیسے خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے اسی طرح امرِ حق کے اظہار کے لئے کھولنا لازمی امر ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلداول، صفحہ281-280 ایڈیشن 1988ء)
٭…حدیث مبارکہ ہے: کسی چیز میں جتنا بھی رفق اور نرمی ہو اتنا ہی یہ اس کے لیے زینت کا موجب ہوتا ہے اور جس سے رفق اور نرمی چھین لی جائے وہ اتنی ہی بدنما ہو جاتی ہے۔
نیز فرمایا: آگ ہر اُس شخص پر حرام ہے جو لوگوں کے قریب رہتا ہےیعنی نفرت نہیں کرتا، ان سے نرم سلوک کرتا ہے۔ ان کے لیے آسانی مہیا کرتا ہے اور سہولت پسند ہے۔
چنانچہ جب ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کردیا اور لوگ غصے میں کھڑے ہوگئے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو اور پانی کا ایک ڈول بہا دو۔ تمہیں آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ تنگی کرنے والا اور سختی سے پیش آنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا۔
حضرت اُم معبدؓ رسول کریمﷺ کی شخصیت کو یوں بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ دُور سے دیکھنے میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ خوبصورت تھے اور قریب سے دیکھنے میں انتہائی شیریں زبان اور عمدہ اخلاق والے تھے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اس روایت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: دیکھ کے ہی پتہ لگ جاتا تھا کہ یہ شخص نرم خُو، نرم دل ہے۔ جو حسن دُور سے دیکھنے پر ہر ظاہری حسن کوماند کر دیتا تھا، یہ صرف ایسا حسن نہیں تھا جو دُور سے ہی حسین نظر آتا ہو اور واسطہ پڑنے پر کچھ اَور نکلےبلکہ اس حسین چہرے سے جب ملاقات کا موقع پیدا ہوتا تھا تو آپؐ کے اعلیٰ اخلاق، آپؐ کی نرم اور میٹھی زبان اس حسن کو چار چاند لگادیا کرتے تھے اور حضرت اُمّ معبدؓ نے آنحضرتﷺ کے خلق کا یہ بڑا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے۔ (ماخوذ از خطبات مسرور جلد سوم صفحہ 111)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ؎
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزباں ہے
جس دل میں یہ نجاست بیت الخلاء یہی ہے
نیز فرماتے ہیں: ’’حکمت کی باتیں دلوں کو فتح کرتی ہیں لیکن تمسخر اور سفاہت کی باتیں فساد کرتی ہیں جہاں تک ممکن ہوسکے سچی باتوں کو نرمی کے لباس میں بتاؤ۔ …بدی کا جواب بدی سے نہ دو، نہ قول سے نہ فعل سے تاخدا تمہاری حمایت کرے۔ … اگر پاک علم کے وارث بننا چاہتے ہو تو نفسانی جوش سے کوئی بات منہ سے مت نکالو کہ ایسی بات حکمت اور معرفت سے خالی ہوگی۔ ‘‘ (نسیم دعوت،روحانی خزائن جلد19 صفحہ 365)
نیز فرمایا: ’’کسی سے جھگڑا مت کرو، زبان بند رکھو، گالیاں دینے والے کے پاس سے چپکے سے گزر جاؤ گویا سنا ہی نہیں …۔ بڑا ہی عقلمند اور حکیم وہ ہے جو نیکی سے دشمن کو شرمندہ کرتا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ نرمی اور رفق سے معاملہ کرو۔ اپنی ساری مصیبتیں اور بلائیں خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ یقینا ًسمجھو اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ ہر شخص کی شرارت پر صبر کرتا ہے اور خدا پر اسے چھوڑتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرے گا۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 5، صفحہ131)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: سخت کلامی اور درشتی بہت بڑا عیب ہے۔ بہت لوگ ہیں جو اپنے بھائی کے احساسات کا خیال نہیں رکھتے۔ ذرا ذرا سی بات پر گالی دے دیتے ہیں یا سخت کلامی سے پیش آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر کسی سے کوئی مطالبہ کریں گے تو سختی سے۔ ان میں نرمی، محبت اور آشتی نہیں ہوگی۔ حالانکہ رسول کریمﷺ فرماتے ہیں کہ لڑائی، دنگااور فساد ایسی ناپسندیدہ باتیں ہیں کہ جہاں یہ ہوتی ہیں وہاں سے خد اتعالیٰ کی برکتیں جاتی رہتی ہیں۔
تم ہر ایک کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔ لیکن اگر ایک درشتی کرتا ہے تو دوسرے کو چاہئے کہ نرمی اختیار کرے۔ اس طرح درشتی کرنے والا خود بخود شرمندہ اور نادم ہوگا۔ ورنہ اگر دوسرا بھی درشتی کرے گا اور اس طرح بات بڑھے گی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں کا ایمان جاتا رہے گا اور دونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ … بعض لوگ نمازیں پڑھیں گے، دوسرے فرائض ادا کریں گے، دین کے کاموں میں حصہ لیں گے، لیکن گندی گالیاں بھی دیں گے اور فساد پھیلائیں گے۔ اس طرح اپنے آپ کو تباہ کریں گے اور دوسروں کو اشتعال دلا کر ان کی بھی عاقبت خراب کریں گے۔ تمہیں چاہئے کہ نرمی کی عادت ڈالو تاکہ خدا تعالیٰ بھی تمہارے سے نرمی سے پیش آئے۔ ورنہ اگر تم خدا تعالیٰ کی مخلوق پر درشتی کرتے ہوتوتم بھی اپنے آپ کو اس بات کا حق دار بناتے ہو کہ خدا تعالیٰ تم پر بھی درشتی کرے۔ اکثر لوگ اپنا رعب داب جمانے کے لیے سختی کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقی رعب سختی سے نہیں بلکہ نرمی سے پڑتا ہے۔ (ماخوذ از اصلاح نفس، انوار العلوم جلد5، صفحہ437-436)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں: صبر کے ایک معنی یہ ہیں کہ زبان کو قابو میں رکھا جائے۔ زبان زیادہ تر اس وقت بے قابو ہوتی ہے جس وقت ایک دوسری بے قابو زبان اندھا دھند وار کر رہی ہوتی ہے۔ لیکن ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (طٰہٰ: 131) صبر سے کام لینا کیونکہ جب تم زبان کو قابو میں رکھو گے تو آسمان سے کئی زبانیں تمہارے حق میں کھلیں گی اور فرشتے آئیں گے جو ان دکھوں، گالیوں اور ان سختیوں کا جواب دیں گے۔ لیکن اگر تمہاری زبان بے قابو ہوگئی تو پھرتم فرشتوں کی مدد سے محروم ہوجاؤ گے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زبان کو قابو میں رکھنے کے لیے یہ نسخہ استعمال کرو۔ سَبِّحْ بِحَمْْدِ رَبِّکَ تم اپنی زبان کو اس وقت اپنے رب کی حمد اور اس کی تسبیح میں لگادو۔ لَعَلَّکَ تَرْضٰی تاکہ تم خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرو۔ (ماخوذ از خطبات ناصر جلددوم صفحہ 510)
نیز فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زبان ہمیں اس لئے عطا کی ہے کہ ہم اِس کو ذکر الٰہی کرنے کا ذریعہ بنائیں … اس لئے کہ جو ذکر زبان سے کیا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتا ہے۔ (خطبات ناصر جلد دوم صفحہ913)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ذکرالٰہی زبان کو ناپاکی سے بچانے کے لئے متبادل خوبی ہے اس لئے ذکر سے اپنے منہ کو معطر رکھیں تو بدیاں، گالی گلوچ، فحش کلامی خود بخود دُور ہونی شروع ہوجائے گی۔ محض آپ کسی کو کہیں گے کہ گالیاں نہ دو تو وہ اس بری عادت کو نہیں چھوڑے گا لہٰذا اسے ذکرالٰہی اور درود شریف کی طرف توجہ دلائیں۔ اسے کہیں کہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرنے کی کوشش کیا کرو اور آنحضرتﷺ پر درود بھیجا کرو اور سوچ سمجھ کر ایسا کیا کرو۔ جس شخص کو یہ عادت پڑنی شروع ہو جائے گی تو جس قدر یہ عادت راسخ ہوگی اسی قدر فحش کلامی کی عادت ختم ہوتی چلی جائے گی۔ (خطبات طاہر جلد دوم صفحہ412)
مزید فرمایا: تربیت کا دوسرا پہلو نرم اور پاک زبان کا استعمال اور دوسرے کا ادب کرنا ہے۔ … وہ سارے جھگڑے جو ایک دوسرے سے تعلقات میں پیداہوتے ہیں ان میں جھوٹ کے بعد سب سے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ بعض لوگوں کو نرم خوئی کے ساتھ کلام کرنا نہیں آتا، ان کی زبان میں درشتگی پائی جاتی ہے، ان کی باتوں اور طرز میں تکلیف دینے کا ایک رجحان پایا جاتا ہے جس سے بسا اوقات وہ باخبر ہی نہیں ہوتے۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ 24نومبر1989ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’یاد رکھیں اگر کبھی کسی سے اختلاف ہو بھی جائے تو چاہے وہ اپنا ہو یا غیر، زبان پر ہرگز گالی نہیں آنی چاہئے۔ ایک احمدی کی زبان ہمیشہ پاک اور صاف ہونی چاہئے کیونکہ گالی آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں، آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ‘‘ (مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم صفحہ110)
نیز فرمایا:۔ فضول گفتگو سے اجتناب کریں آپس کی گفتگو میں دھیما پن اور وقار قائم رکھیں۔ سخت گفتگو، تلخ گفتگو سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ محبت اور بھائی چارے کی فضا بھی اسی طرح پیدا ہوگی۔ (خطبات مسرور جلد دوم صفحہ542)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: زبان کی تہذیب کا ذریعہ صرف خوف الٰہی اور سچا تقویٰ ہے۔ (ملفوظات جلد3صفحہ112 ایڈیشن 1988ء)
نیز فرمایا: انسان اپنی باتوں سے ایسا ہی پہچانا جاتا ہے جیسے کہ درخت اپنے پھلوں سے۔ (تفسیر حضرت اقدسؑ جلد 4صفحہ216)
یہ بھی فرمایا: جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آجاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ گندہ دہن اور بے لگا م کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بےنصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ104 ایڈیشن 1988ء)
………٭………٭………٭………