حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ فرماتے ہیں:
جب تسلسل کے ساتھ استغفار اور گناہوں سے بچنے کی کوشش ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اُس استغفار کی وجہ سے مومن نظارہ کر رہا ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں سے فیض پا رہا ہو تو پھر وہ نجات پا گیا۔ پھر اس کو آگ کس طرح چھو سکتی ہے۔ پس یہ رمضان کے تین عشرے جو بیان ہوئے ہیں یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور اعمال سے مشروط ہیں۔ صرف رمضان کا مہینہ یا سحری اور افطاری کے درمیان کھانا نہ کھانا انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت مغفرت اور آگ سے نجات کا حقدار نہیں بنا دیتا۔ پس جب خداتعالیٰ اپنے بندے کو ان باتوں کے حاصل کروانے کے لئے رمضان کے مہینے میں ایک خاص ماحول پیدا فرماتا ہے، شیطان کو جکڑ دیتا ہے اور دعائیں سننے کے لئے اپنے بندوں کے قریب ہو جاتا ہے تو پھر اِن کے حصول کی بندوں کو زیادہ سے زیادہ کوشش بھی کرنی چاہئے۔
… خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جنہوں نے رمضان کے ان گزرے دنوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے فائدہ اٹھایا۔ …جب انسان عاجز ہو کر اس کی طرف جھکتا ہے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس طرح کوئی بھی تم پر رحم نہیں کرتا جس طرح مَیں کرتا ہوں۔ جو شخص مجھے ڈھونڈے گا وہ مجھے پائے گا۔ پس اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے، مغفرت کے حصول کے لئے اسے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ بھی اعلان کر رہا ہے کہ جو تلاش میں آئے گا عام حالات میں بھی لیکن خاص طور پر ان دنوں میں، وہ میرا دروازہ کھلا ہوا پائے گا۔ مَیں چھپا ہوا نہیں، سامنے ہوں اور دروازہ بھی کھلا ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ ستمبر 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍ اکتوبر 2008ء صفحہ 5)