امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبران مجلس خدام الاحمدیہ Maryland امریکہ کی (آن لائن) ملاقات
دیکھیں، میں اتنا ہی جانتا تھا کہ جو بھی خلیفہ وقت فرمائیں ، میں نے اس کی اطاعت کرنی ہے۔ اور یہ کہ میں نے ان سے محبت کرنی ہے۔
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 19؍مارچ 2022ء کو ممبران مجلس خدام الاحمدیہ (Maryland) امریکہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ 15سے 25سال تک کے 245 ممبران مجلس خدام الاحمدیہ نے بیت الرحمٰن مسجد (Maryland) امریکہ سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا ۔ جس کے بعد حضور انور نے مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کی طرف سے تیار کردہ ایک موبائل ایپ MKA Salat کو لانچ فرمایا۔ صہیب اعوان صاحب نے اس ایپ کا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا کہ شعبہ تعلیم اور تربیت خدام الاحمدیہ امریکہ نے مل کر یہ ایپ بنائی ہے۔ اس میں خدام کے لیے ایک نصاب ہے جو کہ ایک خادم کی بنیادی دینی تعلیم سے لے کر تفصیلی معلومات کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اس میں جماعتی لٹریچر سے بھی حوالہ جات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ہستی باری تعالیٰ کے دس دلائل، اور ایپ میں مکمل کتاب بھی پڑھی جاسکے گی۔ جس کے بعد سوالات ہیں جن کو ایپ استعمال کرنے والے خدام حل کرسکیں گے۔ اس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی مجالس سوال و جواب بھی شامل ہیں۔ ہماری حضور انور سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ایپ کو کامیاب بنائے۔ آمین
اس پروگرام کی کامیابی کے لیے دعا کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا باعث بنے اور مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے لیے علم میں اضافے کا باعث ہو۔ (آمین)
بعد ازاں حضور انور نے صدر صاحب خدام الاحمدیہ سےاستفسار فرمایا کہ کیا اب کوئی کووڈ کی حفاظتی تدابیر نہیں ہیں؟ اس پر صدر صاحب نے عرض کیا کہ ماسک پہننے لازم نہیں ہیں اور معاشرتی فاصلہ بھی ختم ہو گیاہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے پاس تو ابھی بھی کچھ کووڈ کیسز ہورہےہیں اور میرے خیال میں یہ امریکہ میں بھی بڑھ رہے ہیں۔…تو یہ بہتر ہے کہ کووڈ کے حوالہ سے جو حفاظتی تدابیر ہیں ان کو استعمال کیا جائے اور کم از کم ماسک کا استعمال ضرور کیا جائے۔ حفاظتی تدابیر ضرور کرنی چاہیے اور یہی حکمت کا تقاضا ہے۔
بعد ازاں خدام کو دینی اور عصر حاضر کے مسائل کے حوالہ سے چند سوالات دریافت کرنے کاموقع ملا۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور انور کو خدا کی ہستی پر یقین کس طرح کامل ہوا؟ کیا کوئی واقعہ پیش آیا جس کے ذریعہ سے حضور کا یقین خدا کی ہستی پر پختہ ہوا؟
حضور انور نے فرمایا کہ اچھا۔ بڑا مشکل سوال ہے۔ جیساکہ میں نے اطفال کے سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ میری پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی کہ جہاں مجھے کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ موجود نہیں ہے۔ اور اس طرح میرے ذاتی تجربہ میں بھی چھوٹی عمر سے مجھے پتہ تھا کہ اپنی تمام ضروریات اور خواہشات کے حصو ل کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی جھکنا ہوگا اور اس سے یہ چیزیں مانگنی ہوں گی۔ اور جب میں بڑا ہوا 14-15 سال کا تو میں نے خود بھی تجربہ کیا،کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری مدد نہ کی ہوتی تو میں کامیاب نہ ہوپاتا، خواہ وہ سکول کا امتحان ہی ہو۔ اس سے میرے ایمان کو تقویت ملی۔ اس کے بعد بھی بہت سے واقعات پیش آئے۔ اپنی ماسٹرز کی ڈگری کے وقت مَیں بہت پریشان تھا اور بے چینی محسوس کر رہاتھا۔ اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے اطمینان بخشا اور مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام دکھایا اور اس سے مجھے اطمینان ملا۔ اور جو میں نے خواب میں دیکھا وہ بھی پورا ہوگیا تو اس سے بھی میرے ایمان کو تقویت حاصل ہوئی۔ تو بہت سے واقعات ہیں میرے تجربہ میں بچپن سے لےکر آج تک جن میں اللہ تعالیٰ اپنے نشان دکھا رہاہے۔
ایک خادم نے عرض کی کہ میرا نام اجے ورشم ہے اور میں فلاڈیلفیا سے ہوں ۔ میں نے حال ہی میں احمدیت قبول کی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کی خاطر اور احمدیت کی خدمت کا بہت جذبہ رکھتا ہوں ۔ حضور کوئی نصیحت فرمادیں کہ میں کس طرح اس کو پورا کر سکتا ہوں؟
حضور انور نے فرمایا کہ سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اب آپ نے احمدیت قبول کرلی ہے تو پانچ وقت نماز کو ادا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اپنی نماز میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی راہنمائی فرمائے اور ہمیشہ ثابت قدم رکھے اور آپ کے ایمان کو تقویت عطا کرے۔ اگر آپ باقاعدگی سے اس طریق سے دعا کریں گےتو اس سے آپ کی مدد ہوگی اور آپ ایمان میں بڑھیں گے۔ دوسرے آپ کو چاہیے کہ قرآن کریم کو عربی میں پڑھنا سیکھنا شروع کردیں۔ اس وقت کے دوران آپ اس کا ترجمہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور قرآن کریم سے جان سکتے ہیں کہ ہمیں ہماری بہتری کے لیے کون سے احکامات دیے گئے ہیں۔ قرآن کریم میں اوامر و نواہی کون سے ہیں جن کو ہمیں اپنانا چاہیے یا ان سے بچنا چاہیے۔ تو اس طرح آپ اپنے ایمان کو اپنے علم کو بڑھاسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو بھی بڑھا سکتے ہیں اور جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گاآپ کو محسوس ہوگا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو رہے ہیں اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنے والے ہوں گے۔ اور اس طرح سے آپ کے دل میں اور ذہن میں جو جذبہ ہے اس کوآپ حاصل کر سکتے ہیں۔
حضور انور نے اس نومبائع خادم سے استفسار فرمایا کہ آپ کا تعلق اسلام سے پہلے کون سے مذہب سے تھا۔ مسلمان خاندان سےتھے؟ اس خادم نے عرض کی کہ جی نہیں ، میں اپنے گھر میں واحد مسلمان ہوں۔ میرے والد عیسائی تھے۔ اور اس طرح بچپن سے ہی مذہب میری زندگی میں شامل ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا فضل فرمائے۔
ایک دوسرے خادم نے سوال کیاکہ امریکہ میں نسلی امتیاز، نیشنلزم اور اقتصادی طور پر نا انصافیوں کی وجہ سے دن بدن حالات خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کس طرح احمدی مسلمان ان مسائل کے حل کرنے میں ایک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ بہت سے مغربی ممالک میں قدامت پسند لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ابھی روس اور یوکرائن کی جنگ کے دوران بھی یوکرائن میں بہت سے مہاجر لوگ رہتے ہیں، مثلاً ایشین، افریقن اور دوسری قوموں سے مہاجرین وہاں آئے ہوئے ہیں لیکن جب ایسے لوگ یورپین ممالک کی طرف آئے یا پولینڈ کی سرحدوں پر آئےتو انہیں کہا گیا کہ ہم صرف مقامی یوکرائنین لوگوں کو داخلے کی اجازت دیں گے غیر ملکیوں کو نہیں۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نسلی امتیاز وہاں بھی ہے۔ اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ تاہم ہماری ہیومینٹی فرسٹ وہاں موجود ہے اور وہ ان کا خیال رکھ رہی ہے۔ لیکن آپ کا سوال یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کو حل کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دیکھیں، اس معاملے میں عدل و انصاف کی ضرورت ہے یعنی کامل عدل و انصاف۔ اپنے ملک کے لوگوں کو بتائیں کہ و ہ امریکہ میں مقامی نہیں ہیں۔ بلکہ ریڈ انڈین امریکہ کے مقامی باشندے تھے۔ تو انہوں نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا، اور انہیں ملک کے اول درجہ کے شہری شمار نہیں کیا جاتا۔ گو کہ ان کو دعویٰ تو ہے مگر عملی طور پر ان کو بہت سے طریقوں سے ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہاہے۔ ان کو بتائیں کہ لمبے عرصہ کے لیے ایسا نہیں چلے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو افریقن لوگوں کو اپنے ملک میں لائےخواہ غلاموں کی صورت میں یا بطور مددگار کے یا کسی بھی صورت میں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیاہے۔ لہٰذا ان کی عزت ہونی چاہیے ان کو ان کے حقوق دیے جانے چاہئیں۔ اور انہیں کہیں کہ ان کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے۔ ورنہ ایک وقت آئے گا کہ بغاوت ہوگی۔ لوگ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور وہ خود ہی اپنے ملک کو برباد کر بیٹھیں گے۔ یہی وقت ہے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے رنگ و نسل کی برتری ظا ہر کریں ان کو انصاف سے پیش آنا چاہیے۔ اس طرح ہم لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ ہم تمہارے حقیقی ہمدرد ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنی سوچ کو بدلو اور اب باقی تمام قوموں کے ساتھ خوش اسلوبی سے رہو۔ اور امریکہ ایک بین الاقوامی ملک بن چکا ہے۔ وہاں جنوبی امریکن، ایشین، افریقن اور سفید فام لوگ رہتے ہیں تو اب ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور ملک میں خوش اسلوبی سے رہنا چاہیے۔ ورنہ ہم اپنی ہی قوم اور اپنے ہی ملک کو تباہ کرنے والے ہوں گے۔ تو یہ وہ پیغام ہے جو ہمیں ہر جگہ پھیلانا چاہیے۔ اور احمدیوں کو اس حوالہ سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ایک اور خادم نے سوال کیا کہ نوجوانی میں خلافت کے ساتھ منسلک رہنے کے لیے حضور انور نے کونسے ذرائع اختیار فرمائے؟
حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، میں اتنا ہی جانتا تھا کہ جو بھی خلیفہ وقت فرمائیں ، میں نے اس کی اطاعت کرنی ہے۔ اور یہ کہ میں نے ان سے محبت کرنی ہے۔ اور یہاں تک کہ میں اس کے لیے دعا بھی کیا کرتا تھا۔ جب بھی ایسا ہوتا کہ آج میری اپنے خلیفہ سے ملاقات ہوگی اور میں ان کے چہرے پر اپنے بارے میں کچھ آثار محسوس کرتا تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہےتو اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے اور اگر ان کے ذہن میں میرے بارہ میں کوئی شک ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو دور کردے۔ یہی طریق تھا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتا، جب بھی مجھے کچھ محسوس ہوتا تو میں اس کو اپنی غلطی مانتا نہ یہ کہ انہوں نے کوئی غلطی کی ہوگی۔ اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتا اور اللہ تعالیٰ میری دعا قبول کرتا۔ اور میں ہمیشہ یہی دیکھتا کہ اگلے روز یا کچھ دیر بعد اللہ تعالیٰ موقع پیدا کر دیتا کہ مجھے خلیفہ وقت سے غیر معمولی برکات نصیب ہوئی ہیں۔ تو آپ کو بھی دعا کرنی چاہیے۔
ایک دوسرے خادم نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لفظ متقی کی یوں تشریح فرمائی ہے کہ اس سے مراد وہ ہے جو خوف رکھتا ہو۔ میرا سوال یہ ہے کہ آیا یہ زیادہ اہم ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہو یا اللہ کی محبت یا آیا ان دونوں کی مختلف حیثیت ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کا ایک حصہ پڑھا ہے نہ کہ کوئی کتاب۔ (انہوں نے عرض کی کہ جی حضور یہ ملفوظات میں سے ایک اقتباس ہے)۔ آپؑ نے دیگر کتب، خطابات اور خطبات میں اس کی وضاحت فرمائی ہے اور تشریح فرمائی ہے کہ متقی کے کیا معنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے لوگوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ آپ کو اللہ کا خوف اس لیے ہو کہ آپ کو اس سے محبت ہے۔ آپ کو یہ خوف ہو کہ اگر آ پ سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ آپ سے خوش نہیں ہوگا۔ چنانچہ اس کی خوشی کے لیے آپ ہمیشہ اچھے اعمال بجالاتے ہیں۔ آپ محبت کے باعث اس سے ڈرتے ہیں۔ جیساکہ آپ اپنے والدین یا کسی بھی پیارے سے ڈرتے ہیں۔ یہ ان کے کسی ظالمانہ فعل کی وجہ سے نہیں ہے۔ وہ تو آپ سے پیار کرتے ہیں۔ اس دنیا میں کون ہے جو آپ سے آپ کی والدہ سے بڑھ کر پیار کرے؟لیکن آپ اپنی والدہ سے پھر بھی ڈرتے ہیں۔ آپ ان کے سامنے کوئی غلط کام نہیں کر سکتے۔ ٹھیک ہے۔ اسی طرح آپ کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ وہ سب سے زیادہ پیار کرنے والا اور خیال رکھنے والاہے۔ اور جب آپ اس سے ڈریں گے اور پیار کریں گے تب آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ سے کس طرح سلوک کرتا ہے اور اس طرح آپ بری چیزوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ پس آپ کا ڈر خدا تعالیٰ سے محبت پر مبنی ہونا چا ہیے۔ نہ اس وجہ سے کہ گویا وہ انسانوں پر ظلم کرتا ہے۔ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے اور آپ ملفوظات یا کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زیادہ مطالعہ کیا کریں۔ بلکہ آپ ’’مرزا غلام احمد اپنی تحریروں کی رو سے‘‘ سےبھی اس بارہ میں مزید حوالے نکال کر پڑھ سکتے ہیں۔
ایک اور خادم نے سوال کیا کہ ایک اچھا شوہر اور والد بننےکے لیے حضور کیا نصیحت فرما سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو خود بہت اخلاص اور اچھے طریقے سے پیش آنا ہوگا۔ یہ نہ سمجھیں کہ اس دنیا میں کوئی بھی بے عیب ہے۔ اگر میاں بیوی کو پتا ہو کہ ہر ایک میں کوئی نہ کوئی کمی پائی جاتی ہے تو انہیں ایک دوسرے کو گنجائش دینی چاہیے۔ اور ان کمیوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے ناراض ہونے یا لڑنے جھگڑنے کی بجائےآپ کو ہمیشہ ان کی خوبیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ پس ایک دوسرے کی برائیاں یا کمیاں تلاش کرنے کی بجائے آپ کو اچھائیاں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی واحد طریقہ ہے کہ آپ ایک اچھا شوہر بن سکتے ہیں اور آپ کو اپنے بچوں سے بہت نرمی سے پیش آنا چاہیے۔ آپ کو اچھے اخلاق والا بننا ہوگا۔ آپ کو ان کے سامنے اپنا نمونہ پیش کرنا ہوگا۔ اگر آپ پہلے اپنی بیوی اور پھر اپنے بچوں کے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں گے تب آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کے نقش قدم پر چلیں گے۔ اگر آپ خود کچھ اور کہیں گے اور انہیں کسی اور بات کی تلقین کریں گےتو وہ یہ کہیں گے کہ میرا شوہر یا میرا باپ ایک منافق ہے کہ وہ خود کچھ اور کرتا ہے اور ہمیں کچھ اور کرنے کو کہتا ہے۔ پس آپ کا قول اور فعل ایک ہونا چاہیے۔ یہ بات آپ کو ایک اچھی عائلی زندگی گزارنے میں مدد دے گی۔ اور یہ بات آ پ کے بچوں کی اچھی تربیت کا باعث بنے گی۔
ایک دوسرے خادم نے سوال کیا کہ رشیا اور یوکرائن کے حالات تیزی سے خرابی کی طرف جا رہے ہیں، ا یک احمدی کس طرح اپنے منتخب عہدیداران تک درست راہنمائی پہنچا سکتا ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ میری سٹیٹمنٹ اس لڑائی کے آغاز میں ہی آ گئی تھی۔ تو آپ کومیرا وہ پیغام اپنے سیاست دانوں اور لیڈرز تک پہنچا نا چاہیے۔ انہیں بتانا چاہیے کہ اس جنگ سے بچیں بصورت دیگر بہت بڑی تباہی ہوگی۔ دنیا کو کئی سال لگیں گے دوبارہ یہاں تک پہنچنے میں جہاں وہ آج کھڑی ہے۔ صرف یہی نہیں، میں اس سٹیٹمنٹ میں لکھ چکا ہوں کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس سے متاثر ہوں گی۔ اگر جنگ عظیم شروع ہوتی ہے تو وہ اگر نیوکلیئر ہتھیار نہ بھی چلائیں تو کیمیکل ہتھیار ضرور چلائیں گے جو ہماری آئندہ نسلوں پر بھی بہت برا اثر ڈالے گا۔ …اس لیے انہیں بتائیں۔ یہ پیغام تو پہلے سے موجود ہے،میری سٹیٹمنٹ بھی موجود ہے تو آپ اس پیغام کو پھیلائیں۔
ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے فرمایا کہ میں پچھلے تین ہفتوں سے امریکیوں کےساتھ ملاقاتوں سے لطف اندوز ہوا ہوں۔ اب یہ تیسرا ہفتہ ہے۔
صدر صاحب نے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی کہ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ حضور انور کی امیدوں پر پورا اترنے والی ہو۔ اس پر حضور انور نے فرمایا انشاء اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ