خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28؍جون 2019

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ مورخہ28؍جون 2019ء بمطابق 28؍ احسان 1398 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ، اسلام آباد۔(ٹلفورڈ، سرے) یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

حضرت زید بن حارثہؓ کے ذکر میں بعض مزید واقعات اور حوالے ہیں جنہیں آج میں پیش کروں گا۔ حضرت زید بن حارثہؓ ایک سریہ جو ربیع الآخر سن 6؍ ہجری میں بنو سُلَیْم کی طرف بھیجا گیا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ

ماہ ربیع الآخر 6؍ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام اورسابق متبنّٰی زیدبن حارثہؓ کی امارت میں چند مسلمانوں کوقبیلہ بنی سُلَیْم کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ قبیلہ اس وقت نجد کے علاقے میں بمقام جموم آباد تھا اورایک عرصہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بر سر پیکار چلا آتا تھا، سازشیں کرتا رہتا تھا، جنگوں کی کوشش کرتا تھا۔ چنانچہ غزوۂ خندق میں بھی اس قبیلہ نے مسلمانوں کے خلاف نمایاں حصہ لیا تھا۔ جب زید بن حارثہؓ اوران کے ساتھی جموم میں پہنچے جو مدینہ سے قریباً پچاس میل کے فاصلہ پر تھا تو وہاں کوئی نہیں تھا، خالی جگہ دیکھی مگر انہیں قبیلہ مُزَیْنَہ کی ایک عورت حلیمہ نامی جو مخالفین اسلام میں سے تھی اس نے اس جگہ کاپتہ بتا دیا جہاں اس وقت قبیلہ بنوسُلَیْم کاایک حصہ اپنے جانور، مویشی چرارہا تھا۔ چنانچہ اسی اطلاع سے فائدہ اٹھا کرزید بن حارثہؓ نے اس جگہ پرچھاپا مارا اور اس اچانک حملہ سے گھبرا کر اکثر لوگ تو اِدھر اُدھر بھاگ کرمنتشر ہوگئے مگر چند قیدی اورمویشی مسلمانوں کے ہاتھ آگئے جنہیں وہ لے کر مدینہ کی طرف واپس لوٹے۔ اتفاق سے ان قیدیوں میں حلیمہ کا خاوند بھی تھا اور گو کہ وہ جنگی مخالف تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیمہ کی اس امداد کی وجہ سے نہ صرف حلیمہ کو بلا فدیہ آزاد کر دیا بلکہ اس کے خاوند کو بھی احسان کے طور پر چھوڑ دیا اورحلیمہ اور اس کا خاوند خوشی خوشی اپنے وطن کوواپس چلے گئے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 669)

حضرت زید بن حارثہؓ کے ایک اَور سریہ ،جو جمادی الاولیٰ سن چھ ہجری میں عیص مقام کی طرف بھیجا گیا تھا ، اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ

زید بن حارثہؓ کواس مہم یعنی بنو سُلَیْم کی طرف جو سریہ گیا تھا اس سے واپس آئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ کے مہینہ میں انہیں ایک سو ستر صحابہ کی کمان میں پھر مدینہ سے روانہ فرمایا اور اس مہم کی وجہ اہل سِیَر نے یہ لکھی ہے کہ شام کی طرف سے قریش مکہ کاایک قافلہ آرہا تھا اور اس کی روک تھام کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستہ کوروانہ فرمایا تھا۔

یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ قریش کے قافلے عموماً ہمیشہ مسلح ہوتے تھے اور مکہ اور شام کے درمیان آتے جاتے ہوئے وہ مدینہ کے بالکل قریب سے گزرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی طرف سے ہر وقت خطرہ رہتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ قافلے جہاں جہاں سے گزرتے قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے جاتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں جس کی وجہ سے سارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف عداوت کی ایک خطرناک آگ مشتعل ہوچکی تھی اس لیے ان کی روک تھام ضروری تھی۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے کی خبرپاکر زید بن حارثہؓ کواس طرف روانہ فرمایا اوروہ اس ہوشیاری سے گھات لگاتے ہوئے آگے بڑھے کہ کسی کو پتہ نہ لگے اور عِیص کے مقام پر قافلے کو جا پکڑا ۔ عِیص ایک جگہ کانام ہے جو مدینہ سے چار دن کی مسافت پرسمندر کی جانب واقع ہے۔ چونکہ یہ اچانک حملہ تھا، اہل قافلہ مسلمانوں کے حملہ کی تاب نہ لاسکے اوراپنا سازوسامان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ زیدنے بعض قیدی پکڑ کراورسامانِ قافلہ اپنے قبضہ میں لے کر مدینہ کی طرف واپسی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 670)

یہ یاد رکھنا چاہیے ہر سریہ یا جو بھی جنگ ہوئی، جو بھی لشکر بھیجا گیا وہ اس لیے کہ کچھ نہ کچھ قافلوں کی طرف سے یہ خبر ہوتی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی سازشیں کر رہے ہیں یا کوئی منصوبہ بندی کر کے حملوں کی تجویز سوچ رہے ہیں۔ پھر حضرت زید بن حارثہؓ کے ایک اَور سریہ جو جمادی الآخرہ سن چھ ہجری میں طَرف مقام کی طرف بھیجا گیا تھا اس کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس کا حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی ذکر کیا ہے کہ

’’غزوہ بنولِحْیان کے کچھ عرصہ بعد جمادی الآخر 6؍ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کی کمان میں پندرہ صحابیوں کاایک دستہ طَرَف کی جانب روانہ فرمایا جو مدینہ سے چھتیس میل کے فاصلہ پر واقع تھا اوراس جگہ ان ایام میں بنوثَعْلَبَہ کے لوگ آباد تھے مگرقبل اس کے کہ زیدبن حارثہؓ وہاں پہنچتے اس قبیلہ کے لوگ بروقت خبر پا کر اِدھر اُدھر منتشر ہوگئے اورزیدؓ اوران کے ساتھی چند دن کی غیر حاضری کے بعد’’ کچھ دن وہاں قیام کیا اور پھر ‘‘مدینہ میں واپس لوٹ آئے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 680-681)

اور کوئی جنگ ونگ نہیں کی ، نہ ان کو تلاش کیا۔

پھر زید بن حارثہؓ کا ایک اَور سریہ ہے جو جمادی الآخرہ سن 6؍ ہجری میں حِسمٰی کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ

اسی ماہ جمادی الآخرہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کوپانچ سو مسلمانوں کے ساتھ حِسمٰی کی طرف روانہ فرمایا ، جومدینہ کے شمال کی طرف بنوجُذام کا مسکن تھا، وہ وہاں رہتے تھے۔ اس مہم کی غرض یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی جن کانام دِحْیَہ کلبیؓ تھا ، شام کی طرف سے قیصرروم کو مل کر واپس آرہے تھے اوران کے ساتھ کچھ سامان بھی تھا جوکچھ تو قیصر کی طرف سے خلعت وغیرہ کی صورت میں تھا اورکچھ تجارتی سامان تھا۔ جب دِحْیَہؓ بنوجُذام کے علاقہ کے پاس سے گزرے تو اس قبیلہ کے رئیس ھُنَیْد بن عارِض نے اپنے قبیلہ میں سے ایک پارٹی کواپنے ساتھ لے کر دِحْیَہ پر حملہ کردیا اورسارا سامان چھین لیا، تجارتی سامان بھی اور جو کچھ قیصر نے دیا تھا ۔ یہاں تک زیادتی کی کہ دحیہؓ کے جسم پربھی سوائے پھٹے ہوئے کپڑوں کے کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ جب اس حملہ کا علم بنوضُبَیْبکو ہوا جو قبیلہ بنوجُذام ہی کی ایک شاخ تھے اوران میں سے بعض لوگ مسلمان ہوچکے تھے تو انہوں نے بنوجُذام کی اس پارٹی کاپیچھا کر کے ان سے لوٹا ہوا سامان واپس چھین لیا اوردِحْیَہؓ اس سامان کو لے کر مدینہ واپس پہنچے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ یہاں آکر دِحْیَہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسارے حالات سے اطلاع دی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کوروانہ فرمایا اور دِحْیَہؓ کوبھی زیدؓ کے ساتھ بھجوا دیا۔ زیدؓ کا دستہ بڑی ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ دن کو چھپتا تھا اور رات کو سفر کرتا تھا اور یہ سفر کرتے ہوئے حِسمی کی طرف بڑھتے گئے اورعین صبح کے وقت بنوجُذام کے لوگوں کو جا پکڑا۔ بنوجُذام نے مقابلہ کیا، باقاعدہ جنگ ہوئی مگر مسلمانوں کے اچانک حملہ کے سامنے ان کے پائوں جم نہ سکے اورتھوڑے سے مقابلہ کے بعد وہ بھاگ گئے اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اورزید بن حارثہؓ بہت سا سامان اورمال مویشی اورایک سو کے قریب قیدی پکڑکر واپس آگئے۔مگر ابھی زیدؓ مدینہ میں پہنچے نہیں تھے کہ قبیلہ بنوضُبَیْبکے لوگوں کوجو بنوجُذام کی شاخ تھے زیدؓ کی اس مہم کی خبر پہنچ گئی اوروہ اپنے رئیس رِفاعہ بن زید کی معیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں جا کے کہا کہ یارسول اللہ! ہم مسلمان ہوچکے ہیں، جیسا کہ ذکر ہواان لوگوں نے تو سامان چھڑایا تھا۔ اورہماری بقیہ قوم کے لیے امن کی تحریرہوچکی ہے، (معاہدہ ہو چکا ہے کہ ان کو امن بھی ملے گا)توپھر ہمارے قبیلہ کواس حملہ میں کیوں شامل کیا گیا ہے۔ اس حملے میں ان کے قبیلے کے کچھ لوگ بھی شامل ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے مگرزیدؓ کو اس کا علم نہیں تھا اورپھر جو لوگ اس موقع پر مارے گئے تھے ان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار افسوس کااظہار کیا۔ اس پر رِفاعہ کے ساتھی ابوزید نے کہا یارسولؐ اللہ! جو لوگ مارے گئے ہیں ان کے متعلق ہمارا کوئی مطالبہ نہیں یہ ایک غلط فہمی کاحادثہ تھا جو ہو گیاکہ ہمارے جو معاہدے والے لوگ تھے جنگ میں ان کو بھی ملوث کر لیا گیا مگر جو لوگ زندہ ہیں اور جو سازوسامان زیدؓ نے ہمارے قبیلہ سے پکڑا ہے وہ ہمیں واپس مل جانا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ بالکل درست ہے اور آپؐ نے فوراً حضرت علیؓ کوزیدؓ کی طرف روانہ فرمایا اوربطور نشانی کے انہیں اپنی تلوار عطا فرمائی اورزیدؓ کو کہلا بھیجا کہ اس قبیلہ کے جو قیدی اوراموال پکڑے گئے ہیں، جو بھی مال تم نے پکڑا ہے وہ چھوڑ دو۔ زیدؓ نے یہ حکم پاتے ہی فوراً سارے قیدیوں کوچھوڑ دیا اور ان کا مال غنیمت بھی انہیں واپس لوٹا دیا۔

(ماخوز از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 681-682)

پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدوں کی پاسداری کا اسوہ تھا۔ یہ نہیں کہ پکڑ لیا تو ظلم کرنا ہے بلکہ غلط فہمی سے جو کچھ ہوا، بعض قبیلے شامل تھے اور ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ جان بوجھ کے بھی شامل ہوئے ہوں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو چھوڑ دیا اور ان کا مال و متاع بھی ان کو واپس کر دیا۔

پھر حضرت زیدؓ کے ایک اَور سریہ جو رجب 6 ہجری میں وادی القُریٰ کی طرف بھیجا گیا تھا اس کا ذکر بھی ملتا ہے۔

’’سریہ حِسمٰی کے قریباً ایک ماہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر زید بن حارثہؓ کووادی القُریٰ کی طرف روانہ فرمایا۔ جب زیدؓ کا دستہ وادی القُریٰ میں پہنچا تو بنوفَزارہ کے لوگ ان کے مقابلہ کے لیے تیار تھے۔ چنانچہ اس معرکے میں متعدد مسلمان شہید ہوئے اور خود زیدؓ کوبھی سخت زخم آئے مگر خدا نے اپنے فضل سے بچا لیا۔’’ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ‘‘وادی القُریٰ جس کا اس سریہ میں ذکر ہوا ہے وہ مدینہ سے شمال کی طرف شامی راستہ پرایک آباد وادی تھی جس میں بہت سی بستیاں آباد تھیں اوراسی واسطے اس کانام وادی القُریٰ پڑگیا تھا۔ یعنی بستیوں والی وادی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 682-683)

سریہ مُؤتَہ8؍ہجری میں ہوا۔ مُؤتَہبلقاء کے قریب ملک شام میں ایک مقام ہے۔ اس سریہ کے اسباب بیان کرتے ہوئے، وجوہات بیان کرتے ہوئے علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن عمیرؓ کو قاصد بنا کر شاہ بصریٰ کے پاس خط دے کر بھیجا۔ جب وہ مُؤتَہکے مقام پر اترے تو انہیں شُرَحْبِیْل بن عَمرو غَسَّانی نے شہید کر دیا۔ حضرت حارث بن عمیرؓ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور کوئی قاصد شہید نہیں کیا گیا۔ بہرحال یہ سانحہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت گراں گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا تو وہ تیزی سے جُرف مقام پر جمع ہو گئے جن کی تعداد تین ہزار تھی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب کے امیر زید بن حارثہؓ ہیں اور ایک سفید جھنڈا تیار کر کے حضرت زیدؓ کو دیتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ حارث بن عمیرؓ جہاں شہید کیے گئے ہیں وہاں پہنچ کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ہے نہیں تو ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور ان سے جنگ کریں۔ سریہ مُؤتَہجمادی الاول سن 8 ہجری میں ہوا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ 98-97 سریہ مؤتہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 34 زیدالحب بن حارثہ ؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ مُؤتَہ کے لیے حضرت زید بن حارثہؓ کو امیر مقرر فرمایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر زیدؓ شہید ہو جائیں تو جعفرؓ امیر ہوں گے اور اگر جعفرؓ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ تمہارے امیر ہوں گے۔ اور اس لشکر کو جَیْشُ الْاُمَرَاء بھی کہتے ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ مؤتۃ من أرض الشام حدیث 4261)(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 505 حدیث 22918 مسند ابو قتادہ انصاری ؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

صحیح بخاری میں بھی اس کا ذکر ہے مسند احمد بن حنبل میں بھی۔ روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت جعفرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ آپ زیدؓ کو مجھ پر امیر فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بات کو چھوڑو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ بہتر کیا ہے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ34۔ ذکر زید الحب۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سریہ مُؤتَہکا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،گو اس واقعہ کا کچھ تھوڑا سا ذکر میں چند ہفتے پہلے یا چند مہینے پہلے کے خطبوں میں بھی کر چکا ہوں۔ بہرحال دوبارہ کیونکہ حضرت زیدؓ کے حوالے سے بات ہو رہی ہے تو پھر ذکر کر دیتا ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ

اس سریہ کا افسر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ کو مقرر کیا تھا مگر ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا تھا کہ میں اس وقت زیدؓ کو لشکر کا سردار بناتا ہوں۔ اگر زید لڑائی میں مارے جائیں تو ان کی جگہ جعفرؓ لشکر کی کمان کریں۔ اگر وہ بھی مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ کمان کریں اور اگر وہ بھی مارے جائیں تو پھر جس پر مسلمان متفق ہوں وہ فوج کی کمان کرے۔ جس وقت آپؐ نے یہ ارشاد فرمایا اس وقت ایک یہودی بھی آپؐ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ میں آپؐ کو نبی تو نہیں مانتا لیکن اگر آپؐ سچے بھی ہوں تو ان تینوں میں سے کوئی بھی زندہ بچ کر نہیں آئے گا کیونکہ نبی کے منہ سے جو بات نکلی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے۔ گذشتہ چند مہینے پہلے جو ذکر ہوا تھا اس میں غالباً یہ ذکر تھا کہ یہودی حضرت زیدؓ کے پاس گیا اور ان کو یہ کہا۔ توبہرحال حضرت مصلح موعودؓ نے اس روایت کو اس طرح درج کیا ہے کہ وہ یہودی حضرت زیدؓ کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ اگر تمہارا رسول سچا ہے تو تم زندہ واپس نہیں آؤ گے۔ حضرت زیدؓ نے فرمایا کہ میں زندہ آؤں گا یا نہیں آؤں گا اس کو تو اللہ ہی جانتا ہے مگر ہمارا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور سچا رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ یہ واقعہ بالکل اسی طرح پورا ہوا۔ حضرت زیدؓ شہید ہوئے۔ ان کے بعد حضرت جعفرؓ نے لشکر کی کمان سنبھالی وہ بھی شہید ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے لشکر کی کمان سنبھالی وہ بھی شہید ہوئے اور قریب تھا کہ لشکر میں انتشار پھیل جاتا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کے کہنے سے جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ مسلمانوں کو فتح دی اور وہ خیریت سے لشکر کو واپس لے آئے۔

(ماخوذ از فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 405-406)

بخاری میں اس واقعہ کی روایت اس طرح ملتی ہے ۔حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زیدؓ نے جھنڈا لیا اور وہ شہید ہوئے۔ پھر جعفرؓ نے اسے پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر عبداللہ بن رواحہؓ نے جھنڈے کو پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے اور یہ خبر دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ فرمایا کہ پھر جھنڈے کو خالد بن ولیدؓ نے بغیر سردار ہونے کے پکڑا اور انہیں فتح حاصل ہوئی۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب الرجل ینعی الیٰ اھل المیت بنفسہ حدیث 1246)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا حال بیان کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ حضرت زیدؓ کے ذکر سے آغاز فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا اے اللہ! زیدؓ کی مغفرت فرما ۔اے اللہ! زیدؓ کی مغفرت فرما۔ اے اللہ! زیدؓ کی مغفرت فرما۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اے اللہ! جعفرؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ کی مغفرت فرما۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 34 زیدالحب بن حارثہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب حضرت زید بن حارثہؓ ، حضرت جعفرؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ شہید ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھ گئے۔ آپؐ کے چہرے سے غم و حزن کا اظہار ہو رہا تھا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب الجلوس عند المصیبۃ حدیث 3122)

طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ جب حضرت زیدؓ شہید ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اہل خانہ کے پاس تعزیت کے لیے تشریف لائے تو ان کی بیٹی اس حال میں تھی کہ اس کے چہرے سے رونے کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے۔ حضرت زید بن عبادہؓ نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! یہ کیا ہے؟ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو آ رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ ھٰذَا شَوْقُ الْحَبِیْبِ اِلٰی حَبِیْبِہٖ یہ ایک محبوب کی اپنے محبوب سے محبت ہے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 34 زیدالحب بن حارثہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت زیدؓ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ مُؤتَہ میں حضرت زید بن حارثہؓ کو امیر مقرر کیا اور دوسرے امیروں پر آپؓ کو مقدم رکھا۔ جب مسلمانوں اور مشرکوں کا آپس میں مقابلہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امراء پیادہ ہی لڑ رہے تھے۔ حضرت زیدؓ نے جھنڈا لیا اور قتال کیا اور دوسرے لوگ بھی آپؓ کے ساتھ مل کر قتال کر رہے تھے۔ لڑائی کے دوران حضرت زیدؓ نیزہ لگنے کی وجہ سے شہید ہو گئے اور شہادت کے وقت آپؓ کی عمر 55سال تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا کہ حضرت زیدؓ کے لیے مغفرت طلب کریں وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہو گئے ہیں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 33-34 زیدالحب بن حارثہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت اسامہؓ ، جو حضرت زید بن حارثہؓ کے بیٹے تھے ، بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یعنی حضرت اسامہؓ کو اور حسنؓ کو لیتے اور فرماتے کہ اے اللہ! ان دونوں سے محبت کر کیونکہ میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب ذکر اسامہ بن زید حدیث نمبر 3735)

حضرت جَبَلَہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوے کے لیے تشریف نہ لے جاتے تو آپؐ اپنا ہتھیار سوائے حضرت علیؓ کے یا حضرت زیدؓ کے کسی کو نہ دیتے۔

(کنز العمال جلد 13صفحہ 397باب فضائل الصحابہ حرف الزای زید بن حارثہؓ حدیث 37066 مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

حضرت جَبَلَہؓ پھر ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کجاوے تحفةً دیے گئے تو ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھ لیا اور دوسرا حضرت زیدؓ کو دے دیا۔

(کنز العمال جلد 13صفحہ 397باب فضائل الصحابہ حرف الزای زید بن حارثہؓ حدیث 37067 مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

پھر حضرت جَبَلَہؓ کی ہی روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو جبے ہدیہ کیے گئے، تحفہ کے طور پر پیش ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خود رکھ لیا اور دوسرا حضرت زیدؓ کو عطا فرمایا۔

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 3 صفحہ 241 کتاب معرفة الصحابة، ذکر مناقب زید الحب بن حارثہ، حدیث 4963 دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)

ایک اَور جگہ بیان ہوا ہے کہ حضرت زید بن حارثہؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محب کہا جاتا تھا۔ حضرت زیدؓ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرا محبوب وہ ہے جس پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی زیدؓ۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ ان پر انعام کیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادی کے ذریعہ ان پر انعام کیا۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 2 صفحہ 117زید بن حارثہ دا ر الکتب العلمیۃ بیروت 2010ء)

جنگ مُؤتَہ کے بارے میں مختلف تاریخ کی کتب میں جو درج ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگ مُؤتَہ کا بدلہ لینے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہت بڑا لشکر تیار فرمایا جو صفر گیارہ ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ روم کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گو جنگ مُؤتَہ کے بعد یہ جو لشکر تیار فرمایا تھا اس کا زید بن حارثہ سے براہ راست تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی شہید ہو چکے تھے لیکن فوج کی تیاری اور وجہ میں حضرت زید بن حارثہؓ کا ذکر بھی آتا ہے اس لیے یہ حصہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ کچھ حصے کا حضرت اسامہؓ کے ذکر میں بھی غالباً کچھ عرصہ پہلے ذکر ہو چکا ہے بہر حال حضرت اسامہ بدری صحابی نہیں تھے اس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن پہلے کیونکہ میں عمومی طور پر صحابہ کا ذکر کر رہا تھا اس میں ان کا ذکر ہو گیا تھا۔ بہرحال یہ لشکر جب تیار ہوا تو اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بلایا اور اس مہم کی قیادت آپؓ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا اپنے باپ کے شہید ہونے کی جگہ کی طرف جاؤ اور ملک شام کے لیے روانگی کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا جب روانہ ہو تو تیزی کے ساتھ سفر کرو اور ان تک اطلاع پہنچنے سے پہلے وہاں پہنچ جاؤ۔ پھر صبح ہوتے ہی اہل اُبنیٰ یعنی ملک شام میں بَلْقاء کے علاقے میں مُؤتَہ کے قریب ایک مقام جہاں جنگ مُؤتَہ ہوئی تھی وہاں پر حملہ کرو اور بَلْقاء، یہ ملک شام میں واقع ایک علاقہ ہے جو دمشق اور وادی القریٰ کے درمیان ہے۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت لوطؑ کی نسل میں سے بالق نام کے ایک شخص نے آباد کیا تھا۔ اور داروم کے بارے میں لکھا ہے کہ مصر جاتے ہوئے فلسطین میں غزہ کے مقام پر ایک مقام ہے بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت زیدؓ کا بدلہ لینے کے لیے ان جگہوں کو اپنے گھوڑوں کے ذریعہ سے روند ڈالو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ سے مزید فرمایا اپنے ساتھ راستہ بتانے والے بھی لے کر جاؤ اور وہاں کی خبر کے حصول کے لیے بھی آدمی مقرر کرو جو تمہیں صحیح صورت حال سے آگاہ کریں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں کامیابی بخشے تو جلد واپس لوٹ آنا۔ اس مہم کے وقت حضرت اسامہؓ کی عمر سترہ سال سے بیس سال کے درمیان تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہؓ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جھنڈا باندھا اور حضرت اسامہؓ سے کہا کہ اللہ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کرو جو اللہ کا انکار کرے اس سے جنگ کرو۔ حضرت اسامہؓ یہ جھنڈا لے کر نکلے اور اسے حضرت بُرَیْدَہؓ کے سپرد کیا۔ یہ لشکر جُرْف مقام پر اکٹھا ہونا شروع ہوا۔ جُرْف بھی مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے۔ اس لشکر کی تعداد تین ہزار بیان کی جاتی ہے۔ اس لشکر میں مہاجرین اور انصار میں سے سب شامل ہوئے۔ ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جیسے جلیل القدر صحابہ اور کبار صحابہ بھی شامل تھے لیکن ان کے لشکرکے سردار حضرت اسامہؓ کو مقرر فرمایا جو سترہ اٹھارہ سال کی عمر کے تھے۔

کچھ لوگوں نے حضرت اسامہؓ پر اعتراض کیا کہ یہ لڑکا اتنی چھوٹی عمر میں اولین مہاجرین پر امیر بنا دیا ہے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے۔ آپؐ نے اپنے سر کو ایک رومال سے باندھا ہوا تھا اور آپؐ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ آپؐ منبر پر چڑھے اور فرمایا کہ اے لوگو ! یہ کیسی بات ہے جو تم میں سے بعض کی طرف سے اسامہؓ کی امارت کے بارے میں مجھے پہنچی ہے۔ اگر میرے اسامہؓ کو امیر بنانے پر تم نے اعتراض کیا ہے تو اس سے پہلے اس کے باپ کو میرے امیر مقرر کرنے پر بھی تم اعتراض کر چکے ہو۔ پھر آپؐ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم وہ بھی اپنے اندر امارت کے اوصاف رکھتا تھا یعنی حضرت زید بن حارثہؓ اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی اپنے اندر امارت کے خواص رکھتا ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور یہ دونوں یقیناً ہر خیر کے حق دار ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا پس اس یعنی اسامہ کے لیے خیر کی نصیحت پکڑو کیونکہ یہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے۔ یہ دس ربیع الاول ہفتہ کا دن تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو دن پہلے کی بات ہے۔ وہ مسلمان جو حضرت اسامہ کے ساتھ روانہ ہو رہے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وداع کر کے جُرْف کے مقام پر لشکر میں شامل ہونے کے لیے چلے جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاکید فرماتے تھے کہ لشکر اسامہ کو بھجواؤ۔ اتوار کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درد اَور زیادہ ہو گیا اور حضرت اسامہؓ لشکر میں واپس آئے تو آپؐ بیہوشی کی حالت میں تھے۔ اس روز لوگوں نے آپؐ کو دوا پلائی تھی۔ حضرت اسامہؓ نے سر جھکا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بول نہیں سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے اور حضرت اسامہؓ کے سر پر رکھ دیتے تھے۔ حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا کر رہے ہیں۔ حضرت اسامہ لشکر کی طرف واپس آ گئے۔ سوموار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی برکت سے روانہ ہو جاؤ۔ حضرت اسامہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہو کر روانہ ہوئے اور لوگوں کو چلنے کا حکم دیا۔ اسی اثنامیں ان کی والدہ حضرت اُمِّ ایمنؓ کی طرف سے ایک شخص یہ پیغام لے کر آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری وقت دکھائی دے رہا ہے، طبیعت بہت زیادہ خراب ہو چکی ہے۔ یہ اندوہناک خبر سنتے ہی حضرت اسامہؓ حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ واپس آ گئے تو دیکھا کہ آپؐ پر نزع کی حالت تھی۔

12؍ ربیع الاول کو پیر کے دن سورج ڈھلنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی جس کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر جُرْف مقام سے مدینہ واپس آ گیا اور حضرت بُرَیْدَہؓ نے حضرت اسامہ کا جھنڈا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر گاڑ دیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی گئی تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بُرَیْدَہؓ کو حکم دیا کہ جھنڈا لے کر اسامہؓ کے گھر جاؤ کہ وہ اپنے مقصد کے لیے روانہ ہو۔ یہ لشکر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا اب اس کو لے کر جاؤ۔ حضرت بُرَیْدَہؓ جھنڈے کو لے کر لشکر کی پہلی جگہ پر لے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمام عرب میں خواہ کوئی عام آدمی تھا یا خاص تقریباً ہر قبیلے میں فتنۂ ارتداد پھیل چکا تھا اور ان میں نفاق ظاہر ہو گیا تھا۔ اس وقت یہود و نصاریٰ نے اپنی آنکھیں پھیلائیں اور بڑے خوش تھے کہ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے اور بدلے لینے کی تیاریاں بھی کر رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور مسلمانوں کی کمی تعداد کے باعث ان مسلمانوں کی حالت ایک طوفانی رات میں بکرے کی مانند تھی، بہت مشکل حالت میں تھے۔ بڑے بڑے صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر فی الحال لشکر اسامہؓ کی روانگی متاخر کر دیں، ذرا لیٹ کر دیں، کچھ عرصہ کے بعد چلے جائیں تو حضرت ابوبکرؓ نہ مانے اور فرمایا کہ اگر درندے مجھے گھسیٹتے پھریں تو بھی میں اس لشکر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق بھجوا کر رہوں گا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جاری فرمودہ فیصلہ نافذ کر کے رہوں گا۔ ہاں اگر بستیوں میں میرے سوا کوئی بھی نہ رہے تو بھی میں اس فیصلے کو نافذ کروں گا۔ بہرحال آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو کما حقہ ٗقائم رکھا اور نافذ فرمایا اور جو صحابہ حضرت اسامہ کے لشکر میں شامل تھے انہیں واپس جُرْف جا کر لشکر میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو پہلے اسامہ کے لشکر میں شامل تھا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا تھا وہ ہرگز پیچھے نہ رہے اور نہ ہی میں اسے پیچھے رہنے کی اجازت دوں گا۔ اسے خواہ پیدل بھی جانا پڑے وہ ضرور ساتھ جائے گا۔ بہرحال لشکر ایک بار پھر تیار ہو گیا۔ بعض صحابہ نے حالات کی نزاکت کے باعث پھر مشورہ دیا کہ فی الحال اس لشکر کو روک لیا جائے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت اسامہؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس جا کر ان سے کہیںکہ وہ لشکر کی روانگی کا حکم منسوخ کر دیں تا کہ ہم مرتدین کے خلاف نبرد آزما ہوں اور خلیفۂ رسول اور حرم رسول اور مسلمانوں کو مشرکین کے حملے سے محفوظ رکھیں۔ اس کے علاوہ بعض انصار صحابہ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر اگر لشکر کو روانہ کرنے پر ہی مصر ہیں اگر یہی اصرار ہے تو ان سے یہ درخواست کریں کہ وہ کسی ایسے شخص کو لشکر کا سردار مقرر کر دیں جو عمر میں اسامہؓ سے بڑا ہو۔ لوگوں کی یہ رائے لے کر حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس حاضر ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ نے پھر اسی آہنی عزم کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اگر جنگل کے درندے مدینہ میں داخل ہو کر مجھے اٹھا لے جائیں تو بھی وہ کام کرنے سے باز نہیں آؤں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے بعض انصار کا پیغام دیا تو وہ سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ نے جلال سے فرمایا کہ اسے یعنی اسامہؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر مقرر فرمایا ہے اور تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں اسے اس عہدے ہٹا دوں۔ حضرت ابوبکرؓ کا حتمی فیصلہ سننے اور آپؓ کے آہنی عزم کو دیکھنے کے بعد حضرت عمرؓ لشکر والوں کے پاس پہنچے۔ جب لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو حضرت عمرؓ نے بڑے غصہ سے کہا کہ میرے پاس سے فوراً چلے جاؤ۔ محض تم لوگوں کی وجہ سے مجھے آج خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈانٹ کھانی پڑی ہے۔

جب حضرت ابوبکرؓ کے حکم کے مطابق جیشِ اسامہ جُرْف کے مقام پر اکٹھا ہو گیا تو حضرت ابوبکرؓ خود وہاں تشریف لے گئے اور آپؓ نے وہاں جا کر لشکر کا جائزہ لیا اور اس کو ترتیب دی اور روانگی کے وقت کا منظر بھی بہت ہی حیرت انگیز تھا۔ اس وقت حضرت اسامہؓ سوار تھے جبکہ حضرت ابوبکر ؓخلیفة الرسولؐ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت اسامہؓ نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! یا تو آپؓ سوار ہو جائیں یا پھر میں بھی نیچے اترتا ہوں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا۔ بخدا نہ ہی تم نیچے اُترو گے اور نہ ہی میں سوار ہوں گا اور مجھے کیا ہے کہ میں اپنے دونوں پیر اللہ کی راہ میں ایک گھڑی کے لیے آلود نہ کروں کیونکہ غازی جب قدم اٹھاتا ہے تو اس کے لیے اس کے بدلہ میں سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کو سات سو درجے بلندی دی جاتی ہے اور اس کی سات سو برائیاں ختم کی جاتی ہیں۔
حضرت ابوبکر ؓ کو مدینہ میں کئی کاموں کے لیے حضرت عمرؓ کی ضرورت تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں از خود روکنے کی بجائے حضرت اسامہؓ سے اجازت چاہی کہ وہ اگر بہتر سمجھیں تو حضرت عمرؓ کو مدینہ میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس رہنے دیں۔ حضرت اسامہؓ نے خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت عمرؓ کو مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔ اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ جب بھی حضرت اسامہؓ سے ملتے تو آپؓ کو مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الْأَمِیْرُ ۔ کہ اے امیر تم پر سلامتی ہو۔ حضرت اسامہؓ اس کے جواب میں غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْن کہتے تھے۔ کہ اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ آپؓ سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔

بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے آخر میں لشکر کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ تم خیانت کے مرتکب نہ ہونا، خیانت نہ کرنا۔ تم بدعہدی نہ کرنا۔ چوری نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا، جنگ میں مخالفین کے جو لوگ مر جائیں قتل ہو جائیں ان کی شکلیں نہ بگاڑنا۔ چھوٹی عمر کے بچے اور بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا۔ کھجور کے درخت کو نہ کاٹنا اور نہ ہی جلانا۔ کسی بھیڑ، گائے اور اونٹ کو کھانے کے سوا ذبح نہ کرنا۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ تم ضرور ایسی قوم کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجاؤں میں عبادت کے لیے وقف کر رکھا ہو گا تو انہیں چھوڑ دینا۔ تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جو اپنے برتنوں میں انواع و اقسام کے کھانے لائیں گے۔ تم اگر ان میں سے کھاؤ تو بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور تم ضرور ایسی قوم کے پاس پہنچو گے جنہوں نے درمیان سے اپنے سروں کو منڈوایا ہو گا لیکن چاروں طرف سے بالوں کو لٹوں کی مانند چھوڑا ہو گا پس تم ایسے لوگوں کو تلوار کا ہلکا سا زخم لگانا اور اللہ کے نام کے ساتھ اپنا دفاع کرنا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں طعن اور طاعون کی وبا سے محفوظ رکھے۔ اور پھر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہؓ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تمہیں کرنے کا حکم دیا ہے وہ سب کچھ کرنا۔

ان ساری باتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں حضرت ابوبکر نے حضرت اسامہؓ کو اسلامی آداب جنگ کی تاکید فرمائی،کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں ہونا چاہیے وہاں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپؓ کو اس لشکر کی فتح پر بھی یقین تھا اس لیے آپؓ نے فرمایا کہ تمہیں کامیابیاں ملیں گی۔ بہرحال یکم ربیع الآخر گیارہ ہجری کو حضرت اسامہؓ روانہ ہوئے۔ حضرت اسامہ اپنے لشکر کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہو کر منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے حسب وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شام کے علاقہ اُبْنٰی پہنچے اور صبح ہوتے ہی آپؓ نے بستی کے چاروں اطراف سے ان پر حملہ کیا۔ اس لڑائی میں جو شعار تھا، نعرہ تھا یَامَنْصُوْرُ اَمِتْ یعنی اے مددیافتہ! مار ڈال۔ اس لڑائی میں جس نے بھی مسلمان مجاہدوں کے ساتھ مقابلہ کیا وہ قتل ہوا اور بہت سے قیدی بھی بنائے گئے۔ اسی طرح بہت سا مال غنیمت بھی حاصل ہوا جس میں سے انہوں نے خُمس رکھ کر باقی لشکر میں تقسیم کر دیا، پانچواں حصہ رکھ کے باقی تقسیم کر دیا اور سوار کا حصہ پیدل والے سے دوگنا تھا۔ اس معرکے سے فارغ ہو کر لشکر نے ایک دن اسی جگہ قیام کیا اور اگلے روز مدینہ کے لیے واپسی کا سفر اختیار کیا۔

حضرت اسامہؓ نے مدینہ کی طرف ایک خوشخبری دینے والا روانہ کیا۔ اس معرکے میں مسلمانوں کا کوئی آدمی بھی شہید نہیں ہوا۔ جب یہ کامیاب اور فاتح لشکر مدینہ پہنچا تو حضرت ابوبکرؓ نے مہاجرین و انصار کے ساتھ مدینہ سے باہر نکل کر ان کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ حضرت بُرَیْدَہؓ جھنڈا لہراتے ہوئے لشکر کے آگے آگے چل رہے تھے۔ مدینہ میں داخل ہو کر لشکر مسجد نبویؐ تک گیا۔ حضرت اسامہؓ نے مسجد میں دو نفل ادا کیے اور اپنے گھر چلے گئے۔ متفرق روایات کے مطابق یہ لشکر چالیس سے لے کر ستر روز تک باہر رہنے کے بعد مدینہ واپس پہنچا تھا۔ جَیش اسامہؓ کا بھجوایا جانا مسلمانوں کے لیے بہت نفع کا موجب بنا کیونکہ اہل عرب یہ کہنے لگے کہ اگر مسلمانوں میں طاقت اور قوت نہ ہوتی تو وہ ہرگز یہ لشکر روانہ نہ کرتے۔ تو اس طرح جو کفار تھے وہ بہت ساری ایسی باتوں سے باز آ گئے جو وہ مسلمانوں کے خلاف کرنا چاہتے تھے۔

(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 145 تا 147 سریہ اسامہ بن زید مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)(ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد 3صفحہ291تا 294باب سرایا و بعوثہ/سریۃ اُسامۃ…… دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)(ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 199-200 سنۃ 11ھ ذکر انفاذ جیش اسامہ بن زید مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2006ء)(معجم البلدان جلد 1 صفحہ 579 ‘‘البلقاء’’جلد 2 صفحہ 483 ‘‘الداروم’’ جلد 2 صفحہ 149 ‘‘الجرف’’ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید سے حضرت اسامہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو حرف بہ حرف پورا کر دکھایا اورانتظام و انصرام کے لحاظ سے بھی اور معرکہ آرائی میں انتہائی کامیابی اور کامرانی کے لحاظ سے بھی اس مہم کو اعلیٰ ثابت کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا تھا کہ یہ بہترین سردار ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی قبولیت اور برکت نے ثابت کر دیا کہ حضرت اسامہؓ بھی اپنے شہید والد حضرت زیدؓ کی طرح نہ صرف یہ کہ سرداری کے اہل تھے بلکہ ان خواص اور اوصاف میں ایک بلند مقام رکھتے تھے اور یہ خلیفۂ وقت کا مضبوط عزم و ہمت اور بلند حوصلہ ہی تھا جس نے متعدد اندرونی اور بیرونی خطرات اور اعتراضات کے باوجود اس لشکر کو روانہ کیا اور پھر خدا نے کامیابی اور کامرانی سے نواز کر مسلمانوں کو پہلا سبق یہ سکھا دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب تمام برکتیں صرف اطاعت خلافت میں ہی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی سر الخلافة میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہوا ہے۔

(ماخوذ از سرالخلافۃ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 394 حاشیہ)

بہرحال اللہ تعالیٰ حضرت زید بن حارثہؓ اور پھر ان کے بیٹے حضرت اسامہ بن زیدؓ پر، جو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور محبوب تھے۔ ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔

نمازِ جمعہ کے بعد میں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ ہے مکرم صدیق آدم دُمبیا (Dumbia) صاحب کا جو آئیوری کوسٹ کے مبلغ تھے، ایک عرصے سے بیمار چلے آ رہے تھے۔ گذشتہ سال پراسٹیٹ (prostate)کا آپریشن بھی ہوا۔ اسی طرح گردوں کا بھی مسئلہ تھا، ڈائلیسز (dialysis)بھی ہوتے رہتے تھے۔ کافی عرصے سے علاج کے سلسلے میں آبی جان (Abidjan)ٹھہرے ہوئے تھے۔ گذشتہ دنوں اچانک زیادہ طبیعت خراب ہونے پر ملٹری ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں 14؍ جون کو آپ کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

صدیق آدم صاحب 1950ء میں آئیوری کوسٹ کے ایک گاؤں لوسنگے میں پیدا ہوئے تھے۔ 1977ء کے قریب احمدیت میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ سات بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ پھر 1981ء میں زندگی وقف کرنے کے بعد علم حاصل کرنے کے لیے آپ نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ پاکستان کے لیے پیدل سفر کا آغاز کیا۔ تقریباً ایک سال تک سفری صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد 1982ء میں ربوہ پہنچے اور جامعہ احمدیہ میں تعلیم کا آغاز کیا۔ جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 86-1985ء میں آپ کی آئیوری کوسٹ واپسی ہوئی اور پھر وفات تک مسلسل تیس سال سے زائد عرصہ مغربی افریقہ کے مختلف ممالک میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق پائی۔

ان کی پاکستان کے سفر کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہتے ہیں کہ 1977ء میں جب خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے گھانا کا دورہ کیا تو حضرت خلیفة المسیح کی زیارت نے ان کی روح میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ بالکل کایا پلٹ دی۔ آئیوری کوسٹ پہنچ کر پاسپورٹ بنوایا اور پھر کہتے ہیں خلیفة المسیح کی زیارت کے لیے اپنے ایک دوست کے ساتھ پاکستان کے سفر کے لیے کوشش کرنی شروع کر دی۔ اسی دوران مالی کے ایک نوجوان عمر معاذ صاحب جو وہاں آجکل ہمارے مبلغ ہیں ،مسجد آبی جان میں آئے اور اپنی ایک رؤیا کی بنا پر احمدیت قبول کی اور پھر کچھ دنوں بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے شہر کو دیکھنے اور خلیفة المسیح کی ملاقات کی شدید خواہش کا اظہار کیا۔ بہرحال اس طرح ان تینوں نے پاکستان کے سفر کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ 20؍اگست 1981ء کو انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ آئیوری کوسٹ سے روانہ ہو کر سفر کی پہلی منزل پہ گھانا پہنچے۔ وہاں وہاب آدم صاحب امیر مشنری انچارج سے ملاقات کی۔ دعاؤں کے بعد یہ ٹوگو سے بینن کو عبور کرتے ہوئے نائیجیریا کے شہر لیگوس (Lagos)پہنچے۔ وہاں مشن میں قیام کے بعد کیمرون کے لیے روانہ ہوئے۔ مشنری انچارج نائیجیریا نے بھی اپنی دعاؤں کے ساتھ ان کو رخصت کیا، کچھ مالی مدد بھی کی۔ پھر کیمرون سے ہوتے ہوئے چاڈ میں داخل ہوئے۔ چاڈ میں وہاں ان کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں لیکن بہرحال صبر اور حوصلے کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔ چاڈ سے آگے سفر جاری رکھنا تقریباً ناممکن تھا لیکن خدا تعالیٰ نے ایک خواب کے ذریعہ ان کی رہنمائی فرمائی کہ فوج میں شامل ہو جائیں۔ چنانچہ انہوں نے لیبیا کی فوج میں شامل ہونے کی کوشش کی اور اس موقع پر خدا تعالیٰ نے غیبی امداد کی اور ناممکن کو ممکن بنایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لیبیا کی گورنمنٹ نے ان سب کو ملک بدر کر دیا لیکن مسبب الاسباب خدا نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ نہ صرف یہ کہ ملک بدر ہونے کا حکم نامہ کینسل ہو گیا بلکہ لیبیا کی فوج میں بطور رضا کار شامل ہو کر لبنان میں تقریباً آٹھ ماہ سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ جب جنگ ختم ہوئی تو انہوں نے اپنے انچارج سے پاکستان جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ تو اس نے کہا کہ کچھ عرصہ مزید ہمارے پاس ٹھہر لو اس کے بعد انٹرنیشنل پاسپورٹ بنوا کر آپ کو امریکہ بھجوا دوں گا۔ آپ پاکستان جانے کے بجائے امریکہ چلے جائیں تو ان لوگوں نے شکریہ کے ساتھ یہ پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر لی اور عرض کیاکہ ہم تعلیم کی غرض سے پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے نے ویزا دینے سے انکار کر دیا لیکن خدا تعالیٰ نے ان کے انچارج کے ذریعہ کراچی تک کے ایئر ٹکٹ مہیا کر دیے جو ان کا فوج کا انچارج تھا اور یوں 27؍ نومبر 1982ء کو یہ پاکستان جانے کے لیے ایئر پورٹ پہنچے۔ نصرت الٰہی کا نظارہ پھر سے دیکھنے کو ملا۔ انچارج نے ان کا تعارف ایک پولیس اہلکار سے کرایا کہ یہ اسلامی تعلیم کے لیے پاکستان جا رہے ہیں۔ ان کی ہر ممکن مدد کی درخواست ہے۔ چنانچہ اس پولیس اہلکار نے ان کی بے حد مدد کی۔ رات جہاز دمشق سے روانہ ہو کر صبح کراچی ایئر پورٹ پر پہنچ گیا۔ اب یہ کراچی تو پہنچ گئے لیکن ویزے کی پریشانی تھی۔ دعاؤں کے بعد پھر ایئر پورٹ پولیس کے سامنے پاسپورٹ رکھ دیے۔ سوال و جواب ہوئے۔ تعلیم کے لیے پاکستان آنا اپنا مقصد بیان کیا تو پولیس اہلکار نے مہر لگا کر پاسپورٹ پر دستخط کر دیے۔ پھر پوچھا کہ کہاں جانا ہے انہوں نے کہا کہ ربوہ جانا ہے تو اس نے کہا تو کیا تم قادیانی ہو؟ پہلے اس کے کہ مزید کوئی منفی خیالات اس کا ارادہ بدل دیتے اور وہ مہر کو کینسل کر دیتا اس کے ایک ساتھی نے کہا کہ قادیانی ہیں تو کیا ہوا تعلیم کے لیے آئے ہیں جانے دو۔

بہرحال کہتے ہیں کہ ربوہ پہنچنے کا اور خلیفة المسیح سے ملنے کا اتنا ان کو شوق تھا، بڑے جذبات سے مغلوب تھے کہ ان کو یہ خیال ہی نہیں گیا کہ یہاں کراچی میں پتاکر لیں کہ جماعت ہے تو کہاں ہے اور کوئی ممبر ہے تو اس سے مل لیں تا کہ آسانیاں پیدا ہو جائیں۔ بجائے جماعت سے رابطہ کرنے کے سیدھے ریلوے سٹیشن پہنچے اور وہاں سے ربوہ کے لیے ریل کا ٹکٹ طلب کیا۔ وہاں بھی ریلوے میں ٹکٹ دینے والا کوئی لالچی شخص اور متعصب تھا ۔اس نے کہا احمدیوں کو ہم ٹکٹ نہیں دیتے اور دو گھنٹے کی بڑی بحث کے بعد آخر دوگنا کرایہ لے کر ٹکٹ دینے پر راضی ہو گیا لیکن ٹکٹ بھی پھر ایسی گاڑی کا دیا جو سست ترین گاڑی تھی اور چوبیس گھنٹے ان کو لگےکراچی سے ربوہ پہنچتے ہوئے ۔ بہرحال خلیفة المسیح الثالثؒ کی زیارت کا ان کو شوق تھا تو بڑے کٹھن سفر کے بعد ربوہ پہنچے۔ ربوہ پہنچ کر دارالضیافت میں گئے۔ بہرحال ان کو نہیں پتا تھا کہ کیا ہو چکا ہے لوگوں کی زبان پر بار بار خلیفة المسیح الرابع کے الفاظ سن کر ان کو تشویش ہوئی اور پھر رابطہ کرنے پر علم ہوا کہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی تو وفات ہو چکی ہے اور اب حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ خلافت کے مقام پر متمکن ہیں۔ بہرحال پھر 1982ء میں ان کی ملاقات ہوئی۔ جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ جامعہ سے تعلیم مکمل کر کے واپس آئیوری کوسٹ روانہ ہوئے اور پھر وہاں سےجماعت کے ذریعہ مختلف ممالک میں ان کی پوسٹنگ ہوتی رہی ۔ 87ء سے 91ء تک آئیوری کوسٹ میں۔ 91ء سے 92ء تک نائیجر میں۔ 92ء سے 94ء تک بینن میں۔ 94ء سے 96ء تک ٹوگو میں اور 96ء سے وفات تک پھر آئیوری کوسٹ میں رہے۔

باسط صاحب مبلغ آئیوری کوسٹ لکھتے ہیں کہ صدیق آدم صاحب خلافت کے سچے عاشق اور سلسلہ کے مخلص خادم تھے۔ کہتے ہیں لمبا عرصہ ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے دیکھا کہ دعا گو، تہجد گزار، صاحب رؤیا تھے۔ خوابوں کی تعبیر کا بھی بڑا ملکہ تھا اور اکثر اپنے جاننے والوں کو ان کی خوابوں کے مطالب بیان کیا کرتے تھے۔ باقاعدہ اپنی ماہانہ رپورٹ یہاں مرکز میں بھی بھجواتے اور مجھے بھی خط لکھتے تھے، دعائیہ خطوط بھی لکھتے تھے اور اردو زبان میں خطوط لکھا کرتے تھے یہ ان کی عادت تھی۔ بڑے نیک اور وقت کی پابندی کا احساس کرنے والے تھے۔ ذمہ داری کا احساس تھا۔ ہمیشہ وقت کی پابندی کرتے اور جو کام بھی سپرد کیا جاتا وقت کے اندر ختم کرنے کی کوشش کرتے۔ لمبے سفروں کے دوروں سے کبھی نہیں گھبراتے تھے۔ تبلیغ بڑے دلنشین انداز میں کرتے تھے۔ فتنۂ دجال اور اس کے ظہور اور علامات اور موجودہ دور کی خرابیوں کا ذکر کر کے امام مہدی کے ظہور کا تذکرہ کرتے۔ سننے والے آپ کے اندازِ بیان کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اور اکثر اوقات انہوں نے لکھا ہے کہ تبلیغ میں کامیابی ہوتی تھی۔ نارتھ ریجن میں ان کے تبلیغی دَوروں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہزاروں پھل عطا فرمائے۔ اپنے پاکستان کے سفر کا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا یہ بڑا ذکر کیا کرتے تھے، اور احمدیت کی صداقت کے طور پر یہ نشان پیش کیا کرتے تھے کہ کس طرح دور دراز ملکوںمیں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلطان نصیر عطا فرمائے ہیں جو اس راہ میں قربانی پیش کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں نوازتا اور اپنے پیارے مہدی کی تائید اور نصرت فرماتا ہے۔ مرحوم کا انداز بیان ‘جولا زبان’ جو وہاں بولی جاتی ہے ان بولنے والوں کے لیے خاص کشش کا باعث تھا۔ ریڈیو کے ذریعہ لائیو پروگرام بھی پیش کرتے تھے اور بڑے اعلیٰ قسم کے ان کے پروگرام ہوتے تھے، بڑے پسند کیے جاتے تھے۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی اولاد کو بھی صبر اور حوصلہ بھی عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دوسرا جنازہ جو ہے وہ میاں غلام مصطفیٰ صاحب، میرک ضلع اوکاڑہ کا ہے جو 24؍ جون کو 83؍ سال کی عمر میں وفات پا گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم پیدائشی احمدی تھے اور عبادت کا خاص شوق تھا۔ باجماعت نمازیں ادا کرنے والے، تہجد گزار تھے۔ اپنی مسجد میں فجر کی اذان خود دیا کرتے تھے۔ ساری فیملی کو نماز فجر پہ اٹھاتے اور آخری وقت تک اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ رمضان کے روزے رکھتے رہیں۔ تبلیغ کا بے حد شوق تھا۔ ہر ملنے والے کو کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کا پیغام پہنچاتے تھے۔ انتہائی ملنسار، بہت نیک اور مخلص انسان تھے۔ خلافت سے عقیدت کا تعلق تھا۔ خطباتِ جمعہ باقاعدگی سے سنتے۔ بچوں کو بھی اس کی تاکید کرتے۔ مرکزی مہمانوں کی خدمت اور مالی قربانی میں ہمیشہ پیش پیش رہتے اور ان کو تھرپارکر میں پیاسوں کے لیے پانی کا کنواں لگوانے کی بھی توفیق ملی۔ وصیت کا حساب اپنی زندگی میں مکمل کیا ہوا تھا۔ چند سال پہلے اپنا مکان بھی جماعت کو پیش کرنے کی ان کو توفیق ملی اور خودمسجد میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنے لگے ۔ اور یہ مکان جو ہے مربی ہاؤس کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ غلام مرتضیٰ صاحب مربی سلسلہ برونڈی کے والد تھے جو اس وقت میدان عمل میں مصروف ہیں اور والد کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکے اور اس سے پہلے اپنی والدہ کی وفات پر بھی نہیں جا سکے تھے۔ بڑے صبر اور حوصلے سے غلام مرتضیٰ صاحب نے ان دونوں صدموں کو برداشت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا صبر اور حوصلہ بڑھائے اور وفا کے ساتھ اپنا وقف نبھانے کی توفیق بھی عطا فرماتا رہے۔

آپ کے ایک پوتے قاسم مصطفیٰ صاحب اور ایک نواسے محمد سفیر الدین صاحب بھی مربی ہیں۔ اسی طرح ایک پوتے بلال احمد واقف نَو ہیں اور اس سال ڈاکٹر بن کر میدان عمل میں جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے، درجات بلند فرمائے۔ غلام مرتضیٰ صاحب مربی جو پردیس میں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں مصروف ہیں اور اس وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا جنازے میں شامل نہیں ہوسکے انہیں صبر اور حوصلے سے صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے۔ جمعے کے بعد ان شاء اللہ دونوں کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button