خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 18؍ فروری 2022ء
آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے …میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہاکہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ اس وقت میں گیارہ سال کا تھا، آج میں پینتیس سال کا ہوں مگر آج بھی مَیں اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں
سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ہر سال ہم 20؍فروری کوپیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے جلسے بھی کرتے ہیں ا ور اس دن کو یاد بھی رکھتے ہیں۔ ایک بیٹے کی پیدائش کی یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعودؑ نے دشمنوں کے اسلام پر اعتراضات کے جواب میں اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر کی تھی کہ دشمنان اسلام کہتے ہیں کہ اسلام کوئی نشان نہیں دکھاتا۔ آپؑ نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر کہتا ہوں کہ ایک بڑا نشان اسلام کی صداقت کا جو میرے ذریعہ سے پورا ہوگا وہ میرے ایک بیٹے کی پیدائش ہے جو لمبی عمر پائے گا۔ اسلام کی خدمت کرے گا…اس وقت میں حضرت مصلح موعودؓ کے اپنے الفاظ میں آپ کی ابتدائی زندگی کیسی تھی اور آپ کی صحت کا کیا حال تھا اور آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کیا سلوک تھا، اس بارے میں چند حوالے پیش کروں گا۔
سوال نمبر3: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مصلح موعودؓ کی بچپن میں بیماری کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ خود ہی فرماتے ہیں کہ بچپن میں میری صحت نہایت کمزور تھی۔ پہلے کالی کھانسی ہوئی اور پھر میری صحت ایسی گر گئی کہ گیارہ بارہ سال کی عمر تک مَیں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور عام طور پر یہی سمجھا جاتارہا کہ میری زیادہ لمبی عمر نہیں ہو سکتی۔ اِسی دوران میں میری آنکھیں دُکھنے آگئیں اور اِس قدر دُکھیں کہ میری ایک آنکھ قریباً ماری گئی۔ آپؓ نے فرمایا کہ ابھی بھی بہت کم نظر آتا ہے۔ پھر جب میں اور بڑا ہوا تو متواتر چھ سات ماہ تک مجھے بخار آتا رہا۔ اور سِل اور دِق کا مریض مجھے قرار دیا گیا۔ یعنی ٹی بی کا مریض بتایا گیا۔
سوال نمبر4: حضرت مصلح موعودؓ کی سکول سے غیرحاضری اورپڑھائی کی بابت حضرت مسیح موعودؑ کو شکایت کرنے پرآپؑ نے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: فرمایا: لاہور کےماسٹر فقیر اللہ صاحب ہیں، فرماتے ہیں کہ ہمارے سکول میں حساب پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ میرے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے پاس شکایت کی کہ یہ پڑھنے نہیں آتا اور اکثر سکول سے غائب رہتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں ڈرا کہ شاید حضرت مسیح موعودؑ ناراض ہوں گے مگر حضرت مسیح موعودؑ فرمانے لگے کہ ماسٹر صاحب اِس کی صحت کمزوررہتی ہے ہم اتنا ہی شکر کرتے ہیں کہ یہ کبھی کبھی مدرسہ میں چلا جاتاہے اور کوئی بات اِس کے کانوں میں پڑجاتی ہے۔ زیادہ زور اس پر نہ دیں۔ فرماتے ہیں کہ بلکہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے حساب سکھا کر اسے کیا کرنا ہے۔ کیا ہم نے اِس سے کوئی دکان کرانی ہے؟
سوال نمبر5: علوم ظاہری وباطنی سے پُرکیے جانے کی بابت حضرت مصلح موعودؓ نے کیا رؤیا دیکھا؟
جواب: فرمایا: آپؓ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیے جانے کے بارے میں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے علوم سکھائے، فرماتے ہیں کہ میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک گھنٹی بجی ہے اور اس میں سے ٹَن کی آواز پیداہوئی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک تصویر کے فریم کی صورت اختیار کر گئی۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ اس فریم میں سے ایک تصویر نمودار ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد تصویر ہلنی شروع ہوئی اور پھر یکدم اس میں سے کود کر ایک وجود میرے سامنے آگیا اور اس نے کہا میں خدا کا فرشتہ ہوں اور تمہیں قرآن کریم کی تفسیر سکھانے کے لیے آیا ہوں۔ میں نے کہا سکھاؤ۔ تب اس نے سورت فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کردی۔ وہ سکھاتا گیا، سکھاتا گیا اور سکھاتا گیا۔ یہاں تک کہ جب وہ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ تک پہنچا تو کہنے لگا کہ آج تک جتنے مفسر گزرے ہیں ان سب نے صرف اِس آیت تک تفسیر لکھی ہے لیکن میں تمہیں اِس کے آگے بھی تفسیر سکھاتا ہوں۔ چنانچہ اس نے ساری سورت فاتحہ کی تفسیر مجھے سکھا دی۔ اِس رؤیا کے معنی درحقیقت یہی تھے کہ فہمِ قرآن کا ملکہ میرے اندر رکھ دیا گیا ہے۔
سوال نمبر6: حضرت مصلح موعودؓ نےہستی باری تعالیٰ پرایمان کے حوالے سے کونسی دعا بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: جب میں گیارہ سال کا ہوا اور انیس سو سال نے دنیا میں قدم رکھایعنی انیس سو عیسوی نے دنیا میں قدم رکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں؟ اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلے پر سوچتا رہا۔ آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے …میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہاکہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ اس وقت میں گیارہ سال کا تھا، آج میں پینتیس سال کا ہوں مگر آج بھی مَیں اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ میں آج بھی یہی کہتا ہوں خدایا!تیری ذات کے متعلق مجھے کوئی شک پیدا نہ ہو۔ ہاں اس وقت میں بچہ تھا اب مجھے زیادہ تجربہ ہے۔ اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔
سوال نمبر7: حضرت مصلح موعودؓ کے خداتعالیٰ اور احمدیت کی سچائی پریقین کے حوالے سے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا(آپؓ )فرماتے ہیں کہ میں گیارہ سال کا تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے یہ توفیق عطا فرمائی کہ میں اپنے عقیدے کو ایمان سے بدل لوں …یہ سوال میرے سامنے آیا کہ کیا محمدﷺ خدا تعالیٰ کے سچے رسول تھے اور کیا مَیں ان کو اس لیے سچا مانتا ہوں کہ میرے ماں باپ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ سچے ہیں یا مَیں ان کو اس لیے سچا مانتا ہوں کہ مجھ پر دلائل کی رو سے یہ روشن ہو چکا ہے کہ واقع میں آنحضرتﷺ راستباز رسول ہیں۔ جب یہ سوال میرے سامنے آیا تو میرے دل نے کہا اب مَیں اس امر کا بھی فیصلہ کر کے رہوں گا۔ اس کے بعد قدرتی طور پر خدا تعالیٰ کے متعلق میرے دل میں سوال پیدا ہوا اور مَیں نے کہا یہ سوال بھی حل طلب ہے کہ آیا مَیں خداتعالیٰ کو یونہی عقیدے کے طور پر مانتا ہوں یا سچ مچ کی حقیقت مجھ پر منکشف ہو چکی ہے کہ دنیا کا ایک خدا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کے سوال پر بھی مَیں نے غور کرنا شروع کیا اور میرے دل نے کہا کہ اگر خدا ہے تو محمدﷺ سچے رسول ہیں اور اگر محمدﷺ سچے رسول ہیں تو حضرت مسیح موعودؑ بھی سچے ہیں اور اگر حضرت مسیح موعودؑ سچے ہیں تو پھر احمدیت بھی یقیناً سچی ہے اور اگر دنیا کا کوئی خدا نہیں پھر ان میں سے کوئی بھی سچا نہیں …اپنی عمر کے لحاظ سے چھوٹی عمر تھی مَیں اس سوال کا کوئی معقول جواب نہ دے سکا مگر پھر بھی مَیں غور کرتا چلا گیا یہاں تک کہ میرا دماغ تھک گیا۔ اس وقت مَیں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔ اس دن بادل نہیں تھے۔ اب اللہ تعالیٰ آپ کو اس طرح سکھانا چاہتا تھا۔ کہتے ہیں آسمان جو نہایت مصفیٰ تھا اور ستارے نہایت خوش نمائی کے ساتھ آسمان پر چمک رہے تھے۔ ایک تھکے ہوئے دماغ کے لیے اس سے زیادہ فرحت افزا اور کون سا نظارہ ہو سکتا ہے۔ مَیں تھکا ہوا تھا۔ آسمان دیکھتا رہا۔ ستاروں کو انجوائے کر رہا تھا۔ تو مَیں نے بھی ان ستاروں کو دیکھنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ میں ان ستاروں میں کھو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پھر میرے دماغ کو تروتازگی حاصل ہوئی تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ کیسے اچھے ستارے ہیں مگر ان ستاروں کے بعد کیا ہو گا؟ میرے دماغ نے اس کا یہ جواب دیا کہ ان کے بعد اَور ستارے ہوں گے پھر میں نے کہا ان کے بعد کیا ہو گا؟ اس کا جواب بھی میرے دل نے یہی دیا کہ اس کے بعد اَور ستارے ہوں گے۔ پھر میرے دل نے کہا اچھا تو پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ میرے دماغ نے پھر یہی جواب دیا کہ ان کے بعد اَور ستارے ہوں گے۔ مَیں نے کہا اچھا تو پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کا بھی وہی جواب میرے دل اور دماغ نے دیا کہ کچھ اور ستارے ہوں گے۔ تب میرے دل نے کہا کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے ستارے ہوں۔ کیا یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہو گا۔ اگر ختم ہو گا تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہی وہ سوال ہے جس کے متعلق اکثر لوگ حیران رہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم جو کہتے ہیں کہ خدا غیرمحدود ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ اور ہم جو کہتے ہیں کہ خدا ابدی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ آخر کوئی نہ کوئی حد تو ہونی چاہیے۔ یہی سوال میرے دل میں ستاروں کے متعلق پیدا ہوا اور مَیں نے کہا کہ آخریہ کہیں ختم بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔ ا گر ہوتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہے اور اگر ختم نہیں ہوتے تو یہ کیا سلسلہ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ جب میرا دماغ یہاں تک پہنچا تو میں نے کہا خدا کی ہستی کے متعلق محدود اور غیر محدود کا سوال بالکل لغو ہے…پھر اگر وہ محدود ہے تو اس کے بعد کیا ہے اور اگر کہیں کہو کہ یہ غیر محدود ہیں تو اگر ستاروں کی غیر محدودیت کا انسان قائل ہو سکتا ہے توخدا تعالیٰ کی غیر محدودیت کا کیوں قائل نہیں ہو سکتا؟ تب میرے دل نے کہا کہ ہاں واقع میں خدا موجود ہے…دوسری جگہ آپؓ نے فرمایا کہ اس دلیل سے جب خدا تعالیٰ کا وجود مجھ پر ثابت ہو گیا تو پھر آنحضرتﷺ کی صداقت اور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت بھی مجھ پر واضح ہو گئی۔
سوال نمبر8: حضرت مصلح موعودؓ کےتشحیذ الاذہان میں مضمون لکھنے پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے کیا نصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا: (آپؓ فرماتے ہیں )اس رسالے کو روشناس کرانے کے لیے جو مضمون میں نے لکھا جس میں اس کے اغراض و مقاصد بیان کیے گئے وہ جب شائع ہوا تو حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے حضور اس کی خاص تعریف کی اور عرض کیا کہ یہ مضمون اس قابل ہے کہ حضورؑ اسے ضرور پڑھیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے مسجد مبارک میں وہ رسالہ منگوایا اور غالباً مولوی محمد علی صاحب سے وہ مضمون پڑھوا کر سنا اور تعریف کی لیکن اس کے بعد جب میں حضرت خلیفہ اولؓ سے ملا۔ پہلے تو حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے تعریف کر دی تھی لیکن بعد میں ذاتی طور پر پھر فرمایا کہ میاں تمہارا مضمون بہت اچھا تھا مگر میرا دل خوش نہیں ہوا اور فرمایا کہ ہمارے وطن میں ایک مثل مشہور ہے کہ اونٹ چالیس کا اور ٹوڈا بتالیس۔ یعنی ایک اونٹ کی قیمت کم ہے اورٹوڈے کی، اس کے بچے کی اس سے دو روپے زیادہ ہے۔ تم نے یہ مثل پوری نہیں کی۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں …میرے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھ کر حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا: شاید تم نے اس کا مطلب نہیں سمجھا۔ فرمایا کہ ہمارے علاقے کی مثال ہے کہ کوئی شخص اونٹ بیچ رہا تھا اور ساتھ اونٹ کا بچہ بھی تھا جسے اس علاقے میں ٹوڈا کہتے ہیں۔ کسی نے اس سے قیمت پوچھی تو اس نے کہا کہ اونٹ کی قیمت تو چالیس روپے ہے مگر ٹوڈے کی بیالیس روپے ہے۔ اس نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ ٹوڈا اونٹ بھی ہے اور بچہ بھی ہے۔ اسی طرح تمہارے سامنے حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف براہین احمدیہ موجود تھی۔ جب یہ تصنیف کی گئی تو اس وقت آپؑ کے سامنے یعنی حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے کوئی ایسا اسلامی لٹریچر موجود نہ تھا مگر تمہارے سامنے یہ موجود تھی اور امید تھی کہ تم اس سے بڑھ کر کوئی چیز لاؤ گے، اس سے فائدہ اٹھاؤ گے۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں مامورین سے بڑھ کر علم تو کوئی کیا لا سکتا ہے۔ (یہ سوال نہیں تھا۔ ) سوائے اس کے کہ ان کے پوشیدہ خزانوں کو نکال نکال کر پیش کرتے رہیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ کا مطلب یہ تھا کہ بعد میں آنے والی نسلوں کا کام یہی ہوتا ہے کہ گذشتہ بنیاد کو اونچا کرتے رہیں۔
سوال نمبر9: حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ حضرت مصلح موعودؓ کو پڑھانے کے لیے کیا طریق اختیارفرماتے تھے؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا ہے۔ آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور اِس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اِس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں۔ اِس لیے آپ کا طریق تھا کہ آپؓ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے میاں ! میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ۔
سوال نمبر10: حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مصلح موعودؓ کی بینائی ضائع ہوجانے کےخدشہ پرصحت یابی کے لیے کیا طریق اختیارفرمایا؟
جواب: فرمایا: آپ اپنی صحت کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں ککرے پڑ گئے تھے۔ اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف ککروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اِس کی بینائی ضائع ہو جائے گی۔ اِس پر حضرت مسیح موعودؑ نے میری صحت کے لیے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعودؑ نے میرے لیے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپؑ نے کتنے روزے رکھے۔ بہرحال تین یا سات روزے آپؑ نے رکھے۔ جب آخری روزے کی افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لیے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم مَیں نے آنکھیں کھول دیں اور مَیں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔
سوال نمبر11: حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مصلح موعوؓد کو پڑھائی کی بابت کیا ہدایت فرمائی؟
جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ بار ہا مجھے صرف یہی فرماتے تھے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لو یعنی حضرت خلیفہ اولؓ سے پڑھ لو۔ اِس کے علاوہ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لوکیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔
سوال نمبر12: حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی کن کن بیماریوں کا ذکرفرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؓ فرماتے ہیں …بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا۔ بےشمار بیماریاں تھیں۔ چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یاساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا۔ پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی تھی۔ ریڈآئیو ڈائیڈ آف مرکری (MERCURY)کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی۔ اِسی طرح گلے پر اِس کی مالش کی جاتی کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی۔ غرض آنکھوں میں ککرے، جگر کی خرابی، عظم طحال (تلی کی بیماری) کی شکایت پھر اِس کے ساتھ بخار کا شروع ہونا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا۔
سوال نمبر13: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت مصلح موعودؓ کی پہلی تقریر پرحضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی پسندیدگی کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؓ فرماتے ہیں کہ…جلسہ کا موقع تھا۔ بہت سے لوگ جمع تھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ بھی موجود تھے۔ میں نے سورت لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور پھر اس کی تفسیر بیان کی۔ میری اپنی حالت اس وقت یہ تھی کہ جب میں کھڑا ہوا تو چونکہ اس سے پہلے میں نے پبلک میں کبھی لیکچر نہیں دیا تھا اور میری عمر بھی اس وقت صرف اٹھارہ سال کی تھی۔ پھر اس وقت حضرت خلیفہ اولؓ بھی موجود تھے اور انجمن کے ممبران بھی تھے اور بہت سے اَور دوست بھی آئے ہوئے تھے اس لیے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور کون نہیں۔ تقریرآدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ جاری رہی۔ جب میں تقریر ختم کر کے بیٹھا تو مجھے یاد ہے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے کھڑے ہو کر فرمایا۔ میاں ! میں تم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی۔ میں تمہیں خوش کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ واقعی اچھی تھی۔
سوال نمبر14: قرآنی علوم میں مقابلے کی بابت حضرت مصلح موعودؓ نے دنیا کو کیا چیلنج دیا؟
جواب: فرمایا: ’’میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اِس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو مَیں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ لیکن کوئی نہیں آیا مقابلہ پر۔ ’’لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔ خدا نے مجھے علمِ قرآن بخشا ہے اور اِس زمانہ میں اُس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے۔ خدا نے مجھے اِس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہﷺ اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔‘‘