اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی ۔ برکات و ثمرات (قسط نمبر 2)
مالی فراخی کا زبردست نسخہ
ضلع سرگودھا کے ہی چک نمبر 170/172 کے ایک احمدی دوست کا بھی ایسا ہی ایمان افروز واقعہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرا تعلق گائوں کے انتہائی غریب گھرانے سے تھا۔ گائوں کے لوگ اپنے گھروں میں سال بھر کی گندم ضرور ذخیرہ کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگے ہماری غربت کی یہ حالت تھی کہ ہم تو سال کی گندم تو دور کی بات دو مہینوں کی گندم بھی لے کر گھر میں رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ جب گھر سے آٹا ختم ہونے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کوئی سبب بنا دیتا۔ ایک دن میرے والد صاب نے مجھے کچھ پیسے دیے اور کہا کہ چکی سے ایک من آٹا لے آئو۔ میں پیسے لے کر گھر سے نکلا۔ چکی کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں سیکرٹری صاحب مال مل گئے اور مجھے کہنے لگے کہ آپ کا چندہ بقایا ہے اور سال ختم ہونے کو ہے۔ بقایا کی ادائیگی کا فکر کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے دل نے اُسی وقت فیصلہ کیا کہ میں ابھی اپنا بقایا اداکروں گا۔ میں نے سیکرٹری صاحب مال کو پوچھا کہ بتائیں ہمارا کتنا بقایا ہے؟ انہوں نے جو رقم بتائی وہ اتنی ہی تھی جو میں آٹا لینے کے لیے لے کر جا رہا تھا۔ میں نے جیب سے وہ رقم نکالی اور چندہ ادا کردیا۔ وہ کہتے ہی کہ چند لمحوں بعد مجھے خیال آیا کہ جب میں گھر جا کر اپنے والد صاحب کو بتائوں گا کہ آٹا لانے کی بجائے میں بقایا چندہ ادا کر آیا ہوں تو ہو سکتا ہے کہ والدصاحب اور باقی گھر والے پریشان ہوں اور ناراضگی کا بھی اظہار کریں۔ میں یہ سوچ کر اپنے ایک دوست کے گھر کی طرف چل پڑا کہ اس سے کچھ رقم لے کر آٹے کا انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ میں نے اپنے دوست کو ساری بات بتائی۔ وہ دوست یہ بات سن کر اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد باہر آیا اور مجھے کہنے لگا کہ آئو میرے ساتھ اندر چلو۔ اندر لے جا کر اُس نے ایک گندم کی بوری (گندم کی بوری میں ڈھائی من گندم ہوتی ہے) کی طرف اشارہ کیا کہ یہ لے جائو اور یہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ پہلا موقع تھا جب میرے دل میں چندے کی برکت کا احساس پید ا ہوا۔ میں نے سوچا کہ میں نے چند لمحے پہلے اپنے خدا کو ایک من گندم کے پیسے چندے میں دیے ہیں اور میرے مہربان خدانے فوری طور پر مجھے ڈھائی گنا زیادہ عطافرما دیا ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ تو ابتدا تھی۔ اس کے بعد تو ہر چڑھنے والا دن ہمارے لیے ایسی خیروبرکت لے کے طلوع ہوتا جو بیان سے باہر ہے۔ ہمارے دن پھرنے شروع ہوگئے۔ میں نے دودھ کا کام شروع کردیا اور اب اللہ تعالیٰ کا وہ احسان ہے کہ میرے گھر میں ضرورت کی ہر چیز موجود ہے اور کبھی کسی کمی کا احساس نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں گھر بنانے کی بھی توفیق عطافرماد ی ہے۔
لاہور کے ایک دوست مکرم حکیم طارق محمود صاحب سابق صدر شالامار ٹائون نے چندہ کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ ان کے دادا جان نے حکمت کا کام شروع کرنے کے لیے کسی سے کچھ قرض لیا۔ لیکن کام شروع کرنے سے پہلے اُس قرض والی رقم پر چندے کا حساب کرکے چندہ ادا کردیا اور باقی رقم سے کام کا آغاز کیا۔ حکیم صاحب کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرض والی رقم پر چندہ دینے کی برکت سے حکمت کے کام میں اس قدر برکت ڈالی اور ہاتھ میں ایسی شفا رکھ دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ قرض بھی اُتر گیا اور پھر ہمیں اپنا بڑا دواخانہ بنانے کی توفیق مل گئی اور اس وقت تقریباً 250؍ ادویات ہمارے دواخانے میں تیار ہو کر اندرون و بیرون ملک سپلائی ہوتی ہیں۔
زیورات کے لیے جمع کردہ رقم
چندے میں دینے کی برکت
مکرم پروفیسر عبدالباسط صاحب امیر ضلع ڈیرہ غازیخان نے بتایا کہ ان کی اہلیہ محترمہ نے اپنا زیور بنانے کی نیت سے ایک کمیٹی ڈالی۔ جب کمیٹی کی رقم ان کو ملی تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی اہلیہ صاحبہ کو کہا کہ میری حصہ جائیداد کی ادائیگی بقایا ہے اگر تم اپنی کمیٹی والی رقم مجھے اُدھار دے دو تو میں وہ ادائیگی کردوں گا اور تمہیں بعد میں زیور بنوا دوں گا۔کمیٹی سے ملنے والی رقم ایک لاکھ تھی اور میرا حصہ جائیداد بھی ایک لاکھ ہی قابل ادا تھا۔ اہلیہ صاحبہ نے مجھے وہ رقم دے دی اور میں نے اپنے سیکرٹری صاحب مال کو ادائیگی کردی۔ مکرم پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ میں اپنی اہلیہ صاحبہ کے ہمراہ موٹرسائیکل پر کہیں جا رہا تھا کہ میرے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے ایک جگہ موٹرسائیکل روک کر فون سنا۔ دوسری طرف سے آواز آرہی تھی کہ سرآپ باسط صاحب بول رہے ہیں۔ آپ کو مبارک ہو کہ آپ کا ایک لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ چونکہ پاکستان میں انعام نکلنے کی فون کالز پر بہت دھوکہ اور فراڈ ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے غصے کے ساتھ اُسے ڈانٹتے ہوئے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ مجھے یہ انعام نہیں چاہیے۔ دو تین دنوں کے بعد دوبارہ فون آیا اور اس میں بھی یہی پیغام تھا۔ میں نے پھر فون کرنے والے کو کہا کہ مجھے ایسا انعام نہیں چاہیے اور مجھے دوبارہ فون مت کرنا۔ شام کو میں مسجد گیا اور اپنے سیکرٹری مال مکرم کرامت صاحب سے اس بات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ امیر صاحب ہوسکتا ہے کہ آپ کا واقعی کوئی انعام نکلا ہو۔ انہوں نے میرے فون سے وہ نمبر نکالا تو معلوم ہوا کہ وہ پی۔ٹی۔سی۔ایل والوں کی طرف سے فون تھا۔ پی۔ٹی۔سی۔ایل والوں نے اس سال اپنی ایک پراڈکٹ ‘‘EVO’’ خریدنے والوں کے لیے پاکستان بھر کے لیے ایک لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا تھا جو بذریعہ قرعہ اندازی اس کے خریدار کو دیا جانا تھا۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بھی ‘‘EVO’’ خرید رکھی تھی۔ چنانچہ کرامت صاحب نے نیٹ پر چیک کیا تو واقعی قرعہ اندازی میں پورے پاکستان میں سے پہلا انعام ایک لاکھ روے میرے نام ہی کا نکلا ہوا تھا۔ ہم نے وہ انعام وصول کیا اور اس رقم پر چندہ کی ادائیگی کے بعد میں نے اپنی اہلیہ صاحب کو زیورات بنوا دیے۔
چندہ کی پیشگی ادائیگی پر
اللہ تعالیٰ کی عطا کا عجیب و غریب سلوک
اللہ تعالیٰ کی عطا کے انداز کس قدر نرالے ہیں اور وہ اپنے بندوں کی ادائوں سے خوش ہو کر ان کو کس طرح اور کس رنگ میں نوازتا ہے اس کا اندازہ ضلع لیہ کی ایک جماعت چک 430-431 میں ہونے والے اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ مکرم عبدالخالق سیال صاحب صدرجماعت نے خاکسار کو بتایا کہ ہماری جماعت کے ایک دوست نے پچھلے سال ماہ جولائی میں لازمی چندہ جات کے بجٹ تیار ہوتے ہی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنا پورے سال کا چندہ ابھی جولائی میں ہی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے سیکرٹری صاحب مال کو پورے سال کے چندے کی ادائیگی کردی۔ ان کے پیشگی چندہ ادا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جو پیار اور عطا کا سلوک فرمایا اس پر ہم سب گواہ بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے گیت بھی گاتے ہیں۔ صدرصاحب نے بتایا کہ پیشگی چندہ ادا کرنے والے اُس دوست نے کپاس کی فصل بوتے وقت اُس کے ساتھ مونگی کا بیج بھی کھیتوں میں ڈال دیا۔ کپاس اور مونگی دونوں پھیلنے والے پودے ہیں اور اسی لیے زمیندار ان کو بوتے وقت ان کے درمیان فاصلہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر پودے زیادہ گھنے ہوجائیں تو ان کا پھیلائو اور پھل متاثر ہوتاہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو پیشگی چندہ دینے والے ہمارے اس بھائی کے ساتھ کچھ ایسا معاملہ ہوا کہ ان کی مونگی کی فصل غیرمعمولی طور پر اچھی ہوئی اور علاقے کی باقی مونگی کی فصلوں سے پیشتر تیار بھی ہوگئی اور مارکیٹ میں پہلے آ جانے کی وجہ سے ان کو قیمت بھی بہت اچھی مل گئی اور اب ان کی کپاس کی فصل بھی علاقے میں دوسرے لوگوں سے اچھی نظر آرہی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں پیشگی چندہ ادا کرنے کا صلہ دوسرے لوگوں کی فصل سے پہلے ان کی فصل تیار کروا کر اور اچھی قیمت دلوا کر عطافرمایا۔
چندہ کی ادائیگی پریشانی سے نجات کا ذریعہ بن گئی
اللہ کی راہ میں مالی قربانی صرف مال میں اضافے اور برکت ہی کاذریعہ نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں انسان کو پریشانیوں اور مصائب سے بھی نجات ملتی ہے۔ مکرم شاہد احمد باجوہ صاحب انگریزی کے پروفیسر ہیں۔ یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب وہ گورنمنٹ کالج گوجرہ میں تھے۔ ان کا آبائی گائوں چک نمبر 312ج۔ب کتھووالی گوجرہ شہر کے قریب ہی ہے۔ ان کی رہائش اپنے گائوں میں تھی۔ ان کے گائوں میں کسی شخص کا قتل ہوگیا اور مخالفوں نے ان پر بھی قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگا دیا۔ مکرم باجوہ صاحب بتاتے ہیں کہ یہ بہت پریشان کن صورت حال تھی۔ ہر وقت تھانہ، کچہری اور … پنچایت میں پیشیاںچل رہی تھیں اور معاملہ دن بدن خراب سے خراب ترہوتا جارہا تھا۔ میں بالکل بے قصور تھا اور میرا اس قتل سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہ تھا۔ ایک دن اسی پریشانی میں جب رات کو بستر پر لیٹا تو میں نے سوچنا شروع کیا کہ جب میرا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں تو پھر یہ پریشانی مجھ پر کیوں وارد ہوگئی ہے؟ میں نے مختلف امور کا جائزہ لیا۔ تو ایک بات جو میرے ذہن میں بڑی شدت سے آئی وہ یہ تھی کہ تم اپنے چندہ جات میں سُست ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ اس خیال کا آنا ہی تھی کہ میں فوراً اپنے بستر سے اُٹھا اور سیدھا اپنے سیکرٹری صاحب مال کے گھر پہنچا اور اپنے بقایا جات سارے کے سارے ادا کردیے۔ چندہ جات کی ادائیگی کے کوئی ہفتہ دس دن بعد ہی وہ مخالف جو اعلانیہ کہتے پھر رہے تھے کہ شاہد باجوہ کو مزہ چکھادیں گے اور اب یہ ہمارے وار سے بچ نہیں سکے گا۔ خداتعالیٰ نے ان کو مجبور اور بے بس کردیا اور وہ خود میرے گھر آکر صلح کرنے پر راضی ہوگئے اور یوں چندہ کی ادائیگی میرے لیے عافیت کا باعث بن گئی۔
ادائیگی چندہ اورموسلادھار بارش
ضلع شیخوپورہ کے ایک گائوں چک گرمولا کے ایک احمدی دوست نے بتایا کہ ایک سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں خصوصاً چاول کی فصل بہت زیادہ متاثر ہورہی تھی اور نقصان کا اندیشہ تھا۔ میں نے اپنی چاول کی فصل کو پانی دینے کے لیے کسی سے 200روپے قرض لیا تاکہ ڈیزل لا کر ٹیوب ویل سے فصل کو پانی دے سکوں۔ ابھی وہ پیسے لے کر گھر کی طرف آہی رہا تھا، یہ جون کے آخری ایام تھے اور مالی سال ختم ہونے والا تھا کہ راستے میں ہی سیکرٹری صاحب مال مل گئے اور انہوں نے مجھے چندہ کا بقایا ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ میں نے وہ 200روپے اُسی وقت انہیں چندے میں دے دیے اور خداتعالیٰ کے حضور یوں دعا کی کہ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں یہ رقم اپنی چاول کی فصل کو پانی دینے کے لیے قرض لے کر آرہا تھا۔ اب یہ رقم تو میں نے تیرے لیے چندے میں پیش کردی ہے۔ تُو قادر ہے، تُومیری فصل کے لیے پانی کا انتظام خود سے فرما دے۔ اُسی دن عصر کے وقت ایک طرف سے کالی گھٹا اُٹھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے آسمان پر پھیل گئی اور پھر خوب زور کی موسلادھار بارش شروع ہوگئی اور صرف میری ہی نہیں بلکہ سارے گائوں کی فصلیں سیراب ہوگئیں۔
دکان جلنے سے بچ گئی
مکرم محمد صدیق میمن صاحب مورو ضلع نوشہروفیروز کے رہنے والے ایک مخلص دوست ہیں۔ شاہی بازار مورو میں ان کی جنرل سٹور کی دکان ہے۔ ان کے بڑے بھائی مکرم محمدارشد میمن صاحب سابق امیر ضلع نے ایک بار مجھے بتایا کہ ایک دن میرا بھائی صدیق کسی جماعتی کام سے مورو سے باہر گیا ہواتھا۔ دکان پر ان کا بیٹا بیٹھا تھا جو قوت گویائی سے محروم تھا۔ میں اپنے گھر میں تھا کہ شہر میں شور پڑگیا کہ شاہی بازار میں آگ لگ گئی ہے۔ میں بھی گھر سے نکل کر بازار کی طرف بھاگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ بڑے زورکی آگ ہے جو ایک طرف سے دکانوں کو جلاتی ہوئی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ میں کچھ کر تو نہیں سکتا تھا صرف دعا ہی تھی۔ سو میں اپنے مولیٰ کے حضور گڑگڑانے لگا کہ اے میرے مالک تو جانتا ہے کہ میرا بھائی صدیق اپنے بیوی بچوں کی پرورش اسی دکان کی آمد سے کرتا ہے ۔ اس کا اور کوئی ذریعہ آمد نہیں ہے اور جہاں تک مجھے علم ہے وہ دکان کی آمد پر باقاعدگی سے اپنے چندہ جات ادا کرتا ہے۔ اگر آج اس کی دکان جل گئی تو اس کے لیے یہ نقصان برداشت کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ تو اپنے فضل سے رحم فرما اور نقصان سے بچالے۔ وہ کہتے ہیں آگ تھی کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور ہر چیز کو کھائے جارہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ آگے میرے بھائی کی دکان تک جا پہنچی۔ لیکن میرے مولیٰ کی قدرت نے ہمیں اور مورو کے سب لوگوں کو یہ ناقابل یقین نظارہ دکھایا کہ دکانوں کو جلاتی ہوئی آگ جب ہماری دکان کے قریب پہنچی تو ہماری دکان کو چھوڑ کر اس سے اگلی دکان کو جالگی۔ ہماری دکان کے دونوں اطرف دکانیں جل رہی تھیں اور اس آگ کے بیچ ہماری دکان بالکل محفوظ تھی۔ صرف دکان کے باہر والے بورڈ وغیرہ کا نقصان ہوا۔
چندے کی ادائیگی نے بڑے خرچ سے بچا لیا
مکرم چوہدری عبدالسلام صاحب وہاڑی شہر کے سابق صدرصاحب جماعت تھے۔ انہوں نے اپنا ذاتی واقعہ سنایا کہ جون کے آخری ایام تھے اور میرا اپنا لازمی چندہ ابھی ادا نہیں ہواتھا اور بظاہر ادائیگی کی صورت اور گنجائش بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ سیکرٹری صاحب مال نے جب ایک دن چندے کا مطالبہ کیا تو میں نے اُن سے بھی یہی عذر کیا کہ فی الحال تو ادائیگی مشکل نظرآرہی ہے۔ وہ کہتے ہیں اُسی شام ڈیرے (زمین) سے نوکر آیا کہ چوہدری صاحب ٹیوب ویل خراب ہوگیا ہے اور فصلوں کو پانی کی اشد ضرورت ہے۔ اگر فوری ٹھیک نہ ہوا تو فصلوں کو نقصان کا شدید اندیشہ ہے۔ چوہدری صاحب نے بتایا کہ میں نے نوکر سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو اس نے بتایا کہ موٹر سے کوئی آواز نہیں آرہی۔ لگتا ہے موٹر جل گئی ہے۔ میں نے نوکر کو تو واپس ڈیرے پر جانے کو کہا اور خود میں اپنے ایک دوست کے پاس گیا کہ اس سے کچھ قرض لے کر آئوں تاکہ ٹیوب ویل ٹھیک کرواسکوں۔ جب میں اپنے دوست کی طرف قرض مانگنے جارہا تھا تو مجھے ایک خیال آیا کہ عبدالسلام ابھی کل جب سیکرٹری صاحب مال نے چندہ مانگا تھا تو تم نے کہہ دیا تھا کہ فی الحال گنجائش نہیں ہے۔ اب موٹر خراب ہوئی ہے تو قرض مانگنے چل پڑے ہو۔ اگر دنیاوی کام کے لیے قرض لے سکتے ہو تو خدا کی خاطر بھی لے لو۔ وہ کہتے ہیں میں نے اپنے دوست کے گھر پہنچ کر اُس سے جو رقم قرض لی اُس میں چندے کے بقایا کو بھی شامل کر لیا اور گھر واپس آکر میں نے سیکرٹری صاحب مال کو بلایا اور سارے کا سارا بقایا ادا کر دیا۔ اگلی صبح جب مکینک کو لے کر میں ڈیرے پر پہنچا تاکہ ٹیوب ویل ٹھیک کروائوں تو مکینک نے بتایا کہ موٹر بالکل ٹھیک ہے اور صرف ایک تار نکل گئی تھی۔ اس لیے چل نہیں رہی تھی اور اس طرح چندہ کی ادائیگی سے اللہ تعالیٰ نے بڑے خرچ سے بچالیا اور چندپیسوں سے ہی ٹیوب ویل دوبارہ چلنے لگ پڑا۔
چندے کی برکت سے فصل کا محفوظ رہنا
یہ شجاع آباد ضلع ملتان کا واقعہ ہے۔ مکرم چوہدری عبدالشکور صاحب سابق سیکرٹری مال ضلع ملتان نے بتایا کہ جماعت احمدیہ شجاع آباد کے صدر مکرم رانا سجاد احمد صاحب کے والد صاحب زمیندارہ کرتے تھے۔ کپاس کی فصل کے دن تھے۔ کپاس کی فصل پر اس سال …… امریکن سنڈی کا حملہ ہواتھا۔ جس سے کپاس کی فصل کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ ہمارے ان احمدی زمیندار کی کپاس کی فصل کے دائیں بائیں اور شمال جنوب میں چاروں طرف دوسرے لوگوں کی کپاس کی فصل تھی جو امریکن سنڈی کے حملے سے بہت بری طرح متاثر ہوچکی تھی لیکن ان کی کپاس کی فصل پر امریکن سنڈی کے حملے کا کوئی اثر نہ تھا اور خوب پھل دے رہی تھی۔ اردگرد کے لوگ ان کے پاس آکر پوچھتے تو وہ بڑے فخر کے ساتھ انہیں بتاتے کہ یہ حضرت مرزا صاحب پر ایمان لانے اور خدا کی راہ میں چندہ دینے کی برکت ہے۔
فصل آگ لگنے سے بچ گئی
چند سال پہلے کی بات ہے کہ جماعت احمدیہ کرتو ضلع شیخوپورہ کے صدر جماعت مکرم حامد علی بٹر صاحب نے بتایا کہ ہمارے ایک زمیندار بھائی فقیر حسین صاحب خدا کے فضل سے چندہ جات میں بہت باقاعدہ ہیں اور اپنی آمد کے مطابق چندہ جات کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اور اس کی بہت سی برکات انہیں حاصل ہوتی ہیں۔ صدرصاحب نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں زمیندار برسیم (لوسن) کی فصل کا بیج پکانے لگتے ہیں۔ یہ فصل بہت وسیع رقبے پر کاشت ہوتی ہے۔ گزشتہ سال جب برسیم کی فصل پک کر تیار ہوگئی تو کسی جگہ فصل کو آگ لگ گئی۔ اوپر سے تیز ہوا چل پڑی اور آگ میں شدت کے ساتھ ساتھ پھیلائو بھی بہت زیادہ تھا۔ سینکڑوں ایکڑ رقبہ پر کھڑی فصل جل کر خاک ہوگئی۔ اسی علاقے میں ہی مکرم فقیرحسین صاحب کی زمین بھی تھی اور کئی ایکڑ میں برسیم کی فصل پک کر تیار ہو چکی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ جب آگ مکرم فقیر حسین صاحب کی زمین اور فصل کے قریب پہنچی تو اچانک ہوا کا رُخ تبدیل ہوگیا اور ان کی فصل جلنے سے بچ گئی اور اس طرح وہ بہت بڑے نقصان سے محفوظ رہے۔
ڈوبی ہوئی رقم کی واپسی
ایک دفعہ خاکسار کو پیلووینس ضلع خوشاب دورے پر جانا ہوا۔ اجلاس عام میں احباب کو لازمی چندہ جات کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی۔ ایک دوست نے فوری طور پر اپنا سارا چندہ ادا کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد مکرم مربی صاحب پیلووینس کا خط موصول ہوا۔ جس میں انہوں نے چندے کی ادائیگی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی برکت کا ذکر کیا۔ مکرم مربی صاحب نے لکھا کہ چندہ کی ادائیگی کرنے والے دوست کی ایک کافی بڑی رقم پھنسی ہوئی تھی اور باوجود باربار کے مطالبہ کے ملنے کے کوئی آثار نظرنہیں آرہے تھے اور یہ رقم نہ ملنے کی وجہ سے انہیں اپنے مکان کی تعمیر بھی روکنی پڑگئی تھی۔ لیکن جب انہوں نے اپنے چندہ جات کی ادائیگی کردی تو اگلے ہی دن وہ ساری رقم انہیں واپس مل گئی اور وہ اپنے مکان کی تعمیر کے لیے ضروری سامان خریدنے چلے گئے۔
دریا میں گم ہوجانے والے بٹوے کا مل جانا
چندہ جات کی ادائیگی دیگر بے شمار برکات کے علاوہ ایمان و یقین میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے۔ کوٹ قیصرانی کے مکرم سردار وسیم احمد خان صاحب کا بڑا ہی ایمان افروز واقعہ ہے جو خاکسار کو مکرم امیر صاحب ضلع ڈیرہ غازی خان نے سنایا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سردار صاحب اپنی زمین پر جارہے تھے۔ ان کی زمین بیلے میں تھی۔ جہاں انہیں دریا میں سے گزرکرجانا پڑتا تھا۔ دریا میں سے گزرتے ہوئے ان کا بٹوا پانی میں گرگیا۔ جب وہ فارغ ہو کر واپس لوٹے تو گھر جانے کی بجائے سیدھے سیکرٹری صاحب مال کے ہاں گئے اور پوچھا کہ کیا میرا لازمی چندہ جات، تحریک جدید یا وقف جدید کا کوئی بقایا ہے اور جب سیکرٹری صاحب مال نے بتایا کہ سردار صاحب آپ کے سارے چندہ جات ادا شدہ ہیں اور آپ کا کوئی بقایا نہیں ہے تو سردار صاحب نے بڑے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہا کہ جب خدا کے فضل سے میں نے خدا کے سارے حق ادا کیے ہوئے ہیں تو پھرمیرا خدا میرا نقصان نہیں ہونے دے گا۔ سردار صاحب اس یقین کے ساتھ اپنے گھر چلے گئے اور اگلے ہی دن شام کو ایک آدمی ان کی کوٹھی پر آیا اور جب سردار صاحب کو ملا تو اس نے سردار صاحب کا بٹوا اپنی جیب سے نکال کر ان کو دیا۔ سردار صاحب نے حیران ہو کر اُسے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہ بٹوا تمہیں کہاں سے ملا ہے؟ اُس آدمی نے بتایا کہ میں ایک ماہی گیر ہوں۔ آج صبح میرے جال میں ایک بڑی مچھلی آئی۔ جب اس کا پیٹ چاک کیا تو اس میں سے یہ بٹوا نکلا۔ بٹوے میں آپ کی تصویر تھی۔ اس لیے آپ کی امانت آپ تک پہنچانے حاضر ہوگیا ہوں۔
شیطان کا چاروں شانے چت ہونا اور ادائیگی چندہ کی غیر معمولی برکتیں
دیگر نیکیوں کی طرح مالی قربانی سے بھی روکنا شیطان کا خاصہ ہے۔ مالی قربانی سے روکنے کے لیے شیطان دل میں ایسے اندیشے اور خدشے پیدا کرتا ہے جو بظاہر یقینی اور حقیقی ہوتے ہیں اور ان وسوسوں سے سوائے خدا تعالیٰ کی خاص مہربانی کے بچنا ممکن نہیں۔
کراچی کے مکرم حیدرالدین ٹیپو صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لاہور میں رہتے تھے۔کرائے کے مکان میں۔ دل میں خواہش تھی کہ اپنا مکان ہو اور اس مقصد کے لیے وہ تھوڑی تھوڑی رقم بچا کر اپنی والدہ صاحبہ کے پاس جمع کرتے جاتے تھے۔ یہ رقم دس ہزار تک پہنچی تو ایک دن سیکرٹری تحریک جدید ان کے گھر آئے اور کہا کہ ہمارے حلقے کے تحریک جدید کے چندے میں کچھ کمی ہے۔ آپ اپنی خوشی سے جتنا ادا کرسکتے ہیں کردیں۔ ٹیپو صاحب کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ آپ نے اَور جن دوستوں سے چندہ لینا ہے ان کی طرف سے ہو آئیں آخر میں میری طرف آجائیں۔ جتنی کمی ہوگی، وہ میں ادا کردونگا۔ کچھ دیر کے بعد سیکرٹری صاحب تحریک جدید دوبارہ آئے اور کہنے لگے کہ 10,000روپے ابھی تک کم ہیں۔ ٹیپو صاحب کہتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ میں ابھی آپ کو لادیتا ہوں۔ ہم لوگ اوپر والی منزل پر رہتے تھے۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا اور والدہ صاحبہ سے کہا کہ میری جمع شدہ رقم مجھے دے دیں۔انہوں نے رقم دیتے ہوئے مجھے دو تین مرتبہ کہا کہ تم نے تو یہ رقم مکان کے لیے جمع کی تھی۔ اب کس مقصد کے لیے مانگ رہے ہو۔ لیکن میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا اور رقم لے کر سیڑھیاں اُترنے لگا۔ جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو میرے اور شیطان کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ شیطان نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ اگر تم نے یہ رقم چندے میں دے دی تو پھر تمہارا مکان کیسے بنے گا؟ میں شیطان کی بات سنی ان سنی کرتا سیڑھیاں اُترتا جارہا تھا۔ ہر سیڑھی پر شیطان کے حملے میں شدت پیدا ہوتی جارہی تھی اور مجھ پر بھی خدا کا خاص فضل ہی رہا کہ میں پوری قوت کے ساتھ اس کے حملے کو ناکام بناتے ہوئے تیزی سے سیڑھیاں اُترتا جارہا تھا۔ نیچے پہنچ کر میں نے مکان کے لیے جمع کی ہوئی 10,000 روپے کی رقم تحریک جدید کے چندے میں سیکرٹری صاحب تحریک جدید کے ہاتھ میں تھمائی تو عین اُسی وقت میرے کان میں آواز آئی ‘‘ٹیپو تیرا مکان بن گیا۔’’
موصوف کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے غیرمعمولی حالات پیدا فرمادیے کہ واقعی مجھے میری سوچ سے بھی بڑا اور خوبصورت گھر تھوڑے ہی وقت میں مل گیا۔ اس مالی قربانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے موصوف کے کاروبار میں بہت غیرمعمولی برکت عطا فرمائی اور انہیں غیرمعمولی مالی قربانیوں کی توفیق بھی نصیب ہوئی۔
ایک دفعہ خاکسار نے کراچی دورہ کے دوران انہیں تحریک کی کہ آپ اس سال لازمی چندہ جات میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ادائیگی کرنے والے ہوں۔ انہوں نے اسی وقت چیک بک منگوا کر ایک بڑی رقم ادا کردی اور کہا کہ اگر اس سے زائد رقم کسی اور کی طرف سے آپ کو موصول ہو تو اب یہ آپ کے ذمہ ہے کہ مجھے اطلاع کردیں تاکہ میں مزید ادائیگی کردوں۔ مجھے یاد ہے کہ 29؍جون کو کسی اَور دوست نے انہیں فون کیا اور انہوں نے اسی وقت مزید رقم ادا کردی۔ اس طرح وہ اس سال پاکستان بھر میں سب سے زیادہ لازمی چندہ جات ادا کرنے کی توفیق پانے والے فرد بن گئے۔ اس کے نتیجے میں انہیں جو غیرمعمولی مالی برکات ملیں اس کا بیان بھی ٹیپو صاحب کی زبانی سنیئے۔وہ کہتے ہیں کہ ہماری فیکٹری کی ایک بہت بڑی رقم (ادا کردہ چندہ سے تین چار گنا بڑی)کسی سرکاری محکمے میں پھنسی ہوئی تھی۔ کئی دفعہ کوشش کے باوجود نہیں مل رہی تھی۔ چندے کی ادائیگی کے بعد میں نے ایک بار پھر اس رقم کی واپسی کے لیے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ساری کی ساری رقم ہمیں واپس مل گئی۔
شیطان کے ہر حملے کا پسپا ہونا اور قرض کی رقم کی فوری واپسی
دو سال قبل پیش آنے والا یہ واقعہ حیرت انگیز اور ناقابل یقین لگتا ہےجومنڈی بہائوالدین کے ضلعی دورہ کے دوران ایک جماعت رجوعہ میں پیش آیا۔ اس دورے میں مکرم شاہد احمد طور صاحب ضلعی سیکرٹری مال اور مکرم ملک امان اللہ صاحب مربی ضلع خاکسار کے ہمرا تھے۔ ایک جماعت میں اجلاس عام میں احباب جماعت کو لازمی چندہ جات کے بقایاجات جلد ازجلد اور جنہیں توفیق ہو، انہیں فوری اداکرنے کی تحریک کی تو اجلاس میں موجود تقریباً سب دوستوں نے کچھ نہ کچھ چندہ ادا کردیا۔ صرف ایک دوست ایسے تھے جنہوں نے مسجد میں بیٹھے ہوئے نہ ہی کوئی ادائیگی کی اورنہ ہی ادائیگی کا کوئی وعدہ۔ اجلاس ختم ہونے پر جب ہم لوگ مسجد کے اندرونی دروازے سے باہر نکل رہے تھے تو انہوں نے اپنی جیب سے 5000 روپے کا ایک نوٹ نکالااور میرے ساتھ کھڑے سیکرٹری صاحب مال مقامی کو پکڑاتے ہوئے کہنے لگے کہ میرا سالانہ چندہ 12,000 روپے ہے۔ اس وقت نومبر کا مہینہ ہے اور اب تک 5000 روپے چندہ بنتا ہے، یہ وصول کرلیں۔ ابھی وہ دوست سیکرٹری صاحب مال کو وہ رقم پکڑا ہی رہے تھے کہ مسجد کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔ ہمارے پاس ان چندہ دینے والے صاحب کا بیٹا بھی کھڑا تھا، وہی باہر گیا اور چند منٹ بعد جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں کافی زیادہ رقم تھی جو اس نے اپنے والد صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ ابا جی! ساتھ والے گائوں کا فلاں (کسی کا نام لیا) غیراحمدی آدمی آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میں نے آپ کے والد صاحب کی قرض کی رقم واپس کرنی تھی۔ میں آپ کے گھر سے ہو کر آگیا۔ یہ رقم اپنے والد صاحب کو دے دو اور میرا بتا دینا۔
ان صاحب (جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے غالباً ان کا نام چوہدری اعجاز وڑائچ ہے) نے اپنے بیٹے سے رقم لے کر بغیر گنے اس میں سے 7000 روپے الگ کرکے سیکرٹری صاحب مال کو دیے اور کہا جب اللہ تعالیٰ نے رقم بھجوا دی ہے تو پھر میں پورے سال کا چندہ ابھی اسی وقت ادا کررہا ہوں۔ میں بھی ان کے پاس ہی کھڑا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ خاکسار نے موصوف سے سوال کیا کہ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ مسجد میں بیٹھے ہوئے آپ کے سامنے تقریباً سب دوستوں نے چندہ ادا کیا اور آپ مسجد میں خاموش بیٹھے رہے لیکن مسجد کے دروازے سے باہر نکلتے وقت آپ نے سیکرٹری صاحب کو 5000 روپے چندہ ادا کردیا۔ یہ کیا قصہ ہے اور پھر یہ جو رقم آپ کو ملی ہے اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ میری یہ بات سن کر موصوف ہنس پڑے اور کہنے لگے۔ جب ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ نے مالی قربانی کی تحریک کی اور مسجد میں بیٹھے دوسرے لوگ چندہ ادا بھی کررہے تھے تو اس وقت میرے اندر ایک جنگ لگی ہوئی تھی۔ ایک زبردست مقابلہ ہورہا تھا۔ میں بھی اسی وقت چندہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ اتفاق سے اس وقت میری جیب میں 5000روپے کا صرف ایک ہی نوٹ تھا۔ میں نے چندہ دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اسی وقت شیطان نے میرے کان میں سرگوشی کی ‘‘چوہدری صاحب آپ کی جیب میں صرف 5000 روپے ہیں جو آپ چندہ میں دینے کا سوچ رہے ہیں لیکن آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر یہ رقم آپ نے چندہ میں دے دی تو جب آپ مسجد سے باہر جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی دوست آپ سے اپنی کسی ضرورت کے لیے کچھ قرض مانگ لے۔ آپ کی چونکہ جیب خالی ہونی ہے۔ اس لیے آپ اُسے معذرت کرلیں گے کہ اس وقت تو میری جیب خالی ہے ورنہ میں تمہیں ضرور قرض دے دیتا۔ چوہدری صاحب آپ تو سچ کہہ رہے ہوں گے لیکن آپ کا وہ دوست آپ کی بات تسلیم نہیں کرے گا اور آپ کے متعلق یہ خیال کرے گا کہ قرض نہ دینے کے لیے آپ نے جھوٹ بول دیا ہے۔آپ گائوں کے معزز آدمی ہیں اور آپ کی جیب میں کچھ نہ کچھ رقم ضرور ہونی چاہیے۔ چندے کا کیا ہے ابھی تو مالی سال کا پانچواں مہینہ ہے اور ابھی مزید 7 ماہ پڑے ہیں۔ یہ چندہ آپ بعد میں بھی ادا کرسکتے ہیں۔ مکرم موصوف نے بتایا کہ شیطان کی اس دلیل میں مجھے وزن لگا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ چندہ بعد میں ادا کروں گا اور یہ سوچ کر میں نے اپنی جیب سے اپنا ہاتھ باہر نکال لیا۔
موصوف نے کہا کہ آپ نے مالی قربانی کی برکات کے مزید واقعات سنائے تو پھر میرے دل میں جوش پیدا ہوا کہ مجھے بھی آج ہی اپنا چندہ ادا کردینا چاہیے اور میں نے دوبارہ اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا کہ پھر شیطان آدھمکا اور دوبارہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ ‘‘چوہدری صاحب! آپ بھی بچوں کی طرح ضد کرنے لگ پڑے ہیں۔ جیب کوبالکل خالی کرنا کسی طور درست نہیں ہوتا۔ اگر اس وقت آپ یہ رقم چندہ میں دے جائیں گے توہوسکتا ہے جب گھر جائیں تو کوئی مہمان آجائے یا خدانخواستہ گھر میں کوئی اچانک بیمار ہو جائے۔ ایسے میں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے یہ رقم بچا کر رکھ لیں۔ چندہ بعد میں ادا ہوجائیگا۔’’
موصوف نے کہا مجھے پھر شیطان کی بات وزنی لگی اور میں نے پھر اپنا ہاتھ جیب سے نکال لیا۔ اجلاس ختم ہوا اور سب دوستوں کے ساتھ مَیں بھی اُٹھا۔ جب مسجد کے اندرونی دروازے تک پہنچا تو بجلی کی طرح ایک خیال میرے دل میں آیا اور مجھے یوں لگا کہ جیسے مجھے کرنٹ لگا ہو۔ وہ خیال یہ تھا کہ
‘‘اعجاز تم مشرک کب سے بن گئے ہو۔ تم 5000 روپے کے ایک نوٹ پر بھروسہ کررہے ہو کہ وہ تمہاری عزت کی بھی حفاظت کرے گا اور تمہاری ضرورتوں کو بھی پورا کرےگا۔ لیکن آسمان وزمین کے قادر و مالک خدا پر تمہارا توکّل نہیں ہے۔’’
موصوف کہتے ہیںکہ میں اس خیال سے کانپ اُٹھا۔ مسجد کے اندرونی دروازے کے قریب کھڑے کھڑے میں نے اپنے خدا سے معافی مانگی اور اُسی وقت جیب میں موجود 5000روپے چندے میں دینے کا ارادہ کرکے نکالے اور سیکرٹری صاحب مال کو دے دیے اور اس کے بعد جو ہوا وہ تو آپ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا لیکن اس کے پیچھے جو کہانی ہے وہ بڑی دلچسپ اور ایمان افروز ہے۔ موصوف نے بتایا کہ جب میں سیکرٹری صاحب مال کو 5000 روپے چندے کی رقم پکڑا رہا تھا۔ میں نے بڑے مان کے ساتھ اپنے مالک خدا سے یہ عرض کی کہ اے باری تعالیٰ بہت دفعہ سنا ہے کہ تو اپنی قدرت سے اپنے بندوں کے لیے معجزات کھاتاہے۔ آج میرے لیے بھی کوئی معجزہ دکھا جو میرے لیے ازدیادِایمان کا باعث ہو اور میرے رحیم و کریم خدا نے میری لاج رکھ لی کہ ابھی میرے دیے ہوئے چندہ کی رسید بھی نہیں کٹی تھی کہ مسجد کا بیرونی دروازہ کھٹکا اور رقم آگئی۔ اس رقم کا قصہ یہ ہے کہ میں زمیندارا کرتاہوں اور اپنے ڈیرے پر کچھ جانور بھی رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال قریبی گائوں کا ایک غیرازجماعت آدمی مجھ سے ایک گائے خرید کرلے گیا۔ 25,000روپے اس کی طرف بقایا رہ گئے تھے۔ بہت دفعہ اس سے تقاضا کیا لیکن ہمیشہ ایک ہی جواب ملتا کہ ابھی گنجائش نہیں ہے۔ جونہی بندوبست ہوا، ادا کردوں گا۔ لیکن آپ لوگ بھی گواہ ہیں کہ ادھر میں نے چندہ کی نیت سے اپنی جیب خالی کی اور اُدھر خدا نے ادا کردہ رقم سے 5گنا رقم اُسی وقت میری جیب میں ڈال دی۔
٭…٭…(باقی آئندہ)…٭…٭