رمضان المبارک بچوں کی تربیت کے لیے بہترین وقت (قسط دوم۔ آخری)
رمضان اوربچپن کی یادیں
امۃ المصّور صاحبہ جماعت میونسٹر سے لکھتی ہیں: رمضان المبارک کا مہینہ ہمیشہ ہی اپنے ساتھ خیر اور برکتیں لے کر آتا ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ نے نیکیاں حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع رکھے ہیں۔ ان میں سے ایک قرآن کریم کا کثرت سے پڑھنا بھی ہے کیونکہ رمضان اور قرآن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
بچپن میں ربوہ میں رمضان گزارنے کے حوالے سے کچھ ذکر کرنا چاہوں گی۔ روزہ رکھنے کے بعد نمازفجر کی ادائیگی اور درس سننے کے لیےہم شوق سے مسجد مبارک جا تے تھے۔ محلہ کے درس میں لازمی شامل ہوتے۔ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد اقصیٰ جاتے۔ واپس آکر شدید گرمی کی وجہ سے چادر گیلی کرکے لے کر پنکھے کے نیچے لیٹ جاتےتاکہ ہوا ٹھنڈی لگے۔ دن میں بار بارقرآن کریم پڑھتے اپنی سہیلیوں سے مسابقت فی الخیرات کرتے ہوئےپو چھتے۔ کہ تم نے کتنا پڑھا ہے۔ نماز تراویح کے لیےسب سہیلیاں مل کر جاتیں۔ امی جان چاول بنا کر یا پلیٹ میں سموسے کھجور یا جلیبی رکھ کر دیتیں جو ہم ارد گرد گھروں میں جا کر دیتے۔ بہشتی مقبرہ میں دعا کے لیے لازمی جاتے۔ الغرض رمضان المبارک کا مہینہ اور ربوہ کا ماحول کوئی اور ہی دنیا تھی۔ اب آٹھ سال سے جرمنی میں رمضان گزارنے کا موقع مل رہا ہے۔
مجھے کورونا سے پہلے 2019ء کا رمضان یاد آرہا ہے جو باقی عبادات کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کے حوالے سے بہت ہی اچھا اور یاد گار گزرا۔ میرا بیٹا ماشاء اللہ حافظ قرآن ہے۔ ہمارے گھر سے مسجد 40منٹ کے فاصلے پر ہے اس کے ساتھ روزانہ نماز تراویح کے لیے جاتےہوئے قرآن سنتے جانا تاکہ اس کی دہرائی ہو جائے۔ اور اچھے طریق سے تراویح پڑھانے کی توفیق ملے۔
لجنہ اماء اللہ کے زیر انتظام یہ پروگرام تشکیل دیا گیا کہ جو ناصرات یا لجنہ اماء اللہ کی ممبرات قرآن کریم کا ایک یا اس سے زیادہ دَور مکمل کرنے کی توفیق پائیں گی ان کو اسناد اور تحائف دیے جائیں گے۔ سب بچیوں نے بہت ہی شوق سے قرآن پڑھنے کی طرف توجہ کی۔ اسی طرح کچھ ناصرات جو کسی وجہ سے قرآن کا پہلا دَور مکمل نہیں کر پا رہی تھیں جب رمضان میں ہر روز باقاعدگی سے قرآن پڑھا تو ا للہ کے فضل سے اُن کا بھی پہلا دَور مکمل ہوا۔ اسی طرح مسجد میں ہر ہفتہ، اتوار مربی صاحب کے ساتھ کسی نہ کسی بچے، بچی کی آمین کا اہتمام کیا جاتا۔ پورا رمضان بہت ہی پر رونق اور بابرکت گزرا۔ رمضان کے بعد ریجن کا مینا بازار رکھا گیا جس میں ناصرات کو قرآن کریم کا دَور مکمل کرنے پر اسناد اور تحائف دیے گئے۔ الحمدللہ۔
رمضان کیلنڈر
ڈاکٹر فضا مریم ضیاء جماعت ریننگن سے لکھتی ہیں: گزشتہ کئی سالوں کی طرح امسال بھی ہم نے رمضان المبارک سے بھر پور استفادہ کرنے کی کوشش کی۔ ایک معمہ جو ماں بننے کے بعد سے مجھے ہمیشہ الجھائے رکھتا تھا، کافی سوچ بچار کے بعد اس مرتبہ حل ہو گیا کہ چھوٹے بچوں کے لیے رمضان کو کس طرح دلچسپ بنایا جائے۔ لہٰذا اس آسان اور دلچسپ نسخے کو قارئین کی خدمت میں پیش کر رہی ہوں اس کے لیے درج ذیل اشیاء درکار ہیں :
٭…فیبرک فیلٹ شیٹ (Fabric felt sheet)یا فوم شیٹ(Foam sheet)
٭…گوند(Universal Glue)یاسوئی دھاگہ
فیلٹ شیٹ کا 800x18cmکا ایک ٹکڑا کاٹ لیں۔ جدت کے لیے آپ مختلف رنگوں کی مدد سے 9cmx10cmکے 2 عدد ٹکڑے کاٹ لیں۔ Patch workکا اس سائز کا پیس بھی بنا سکتے ہیں۔
30 چھوٹے ٹکڑوں کو جیبوں کی طرح بڑے ٹکڑے پر چسپاں کر دیں یا سوئی کی مدد سے سی دیں۔ اور ہر جیب پر ایک سے لے کر 30تک نمبر لکھ دیں۔
سب سے آخر میں 2 عدد 9cmx 10cmکے ٹکڑے سب سے نیچے جوڑ دیں اور اُن پر عید لکھ دیں۔
آپ کا رمضان کا کیلنڈر تیار ہے۔ اب ہر ایک جیب میں ایک کاغذ پر ایک یا ایک سے زائد دینی کام بچوں کی عمر کی مناسبت سے تحریر کر دیں مثلاً (1)4 مرتبہ درود شریف کا ورد کریں۔ (2)ایک لفظ ترجمۃ القرآن کا یاد کریں۔ (3)نیند سے بیداری کی دعا یاد کریں۔ (4)دادا، دادی، ، نانا، نانی کو فون کر کے ان کا حال دریافت کریں وغیرہ۔ اور ہر جیب میں بچوں کے لیے کوئی کھلونا یا چاکلیٹ وغیرہ انعام کے طور پر ڈال دیں۔ میرے بچے نہایت خوشی سے روزانہ رمضان میں ایک سرپرائز پاکٹ کھولتے رہے اور یوں وہ بھی رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کے حصے دار بن گئے۔ امید ہے کہ یہ نسخہ قارئین کے لیے بھی مفید ثابت ہو گا۔
Berchach.GG سےسندس سید نے بتایا کہ انہوں نے بھی جب ان کا بیٹا دوسال کا تھا اسی طرز کا رمضان کیلنڈر تیار کیا تھا۔
گزشتہ سال انہوں نے اپنے میاں کی مدد سے خالی ڈبے سے اپنے بچوں کے لیے مسجد تیار کی اور اس میں ان کے چھوٹے چھوٹے جائے نماز بھی بچھائے۔ جس میں بچے نماز ادا کرتے رہے جبکہ بیٹا اسی میں بیٹھ کرقاعدہ پڑھتا تھا۔
Neu.Isenburg سے ایک بچی سیدہ مریم مرزا نےبتایا کہ انہوں نے اپنی دواڑھائی سال کی بیٹی کے لیے رمضان کے تیس دن کے حساب سے ایک کیلنڈربنایا جس پر رمضان مبارک لکھا اور چھوٹے چھوٹے پیکٹ سے بنا کر لٹکائے۔ جن میں مختلف چھوٹی چھوٹی چیزیں شامل تھیں۔
٭…٭…٭
رمضان اور ہماری صحت
رمضان جہاں ہماری روحانی تربیت کا ذریعہ ہے وہیں ہماری جسمانی صحت کے لیے بھی بےحد مفید ہے۔ اس میں اگر ایک مسلمان کوشش کرے تو بہت سی بری عادات سے نجات حاصل کرسکتاہے۔
اس کے علاوہ اگر ہم رمضان میں چند امور کا خیال رکھ لیں مثلاً ہم کیا کھا رہے ہیں اور کتنا کھا رہے ہیں اور پھر پورا سال اس کے مطابق دھیان رکھیں تو ہم صحت مند زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
قارئین کی دلچسپی کے لیےچند ایک امور درج ذیل ہیں۔
کھجور کا استعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اورافطاری کے لیے ایک بہترین غذا ہے کیونکہ کھجور جسمانی طاقت کے لیےمیگنیزیم، پوٹاشیم اورقدرتی شکر مہیا کرتی ہیں۔
افطاری کے وقت اس بات کا خیال رکھیں کے بہت زیادہ تلے ہوئے اور میٹھے کھانوں کا استعمال نہ کریں۔ کیک، پیسٹری کی بجائے تازہ پھلوں کی چاٹ کے ذریعے قدرتی شکر کاحصول آپ کا وزن بڑھنے نہیں دےگا۔
اسی طرح بازاری جوس، کوک سپرائٹ کی بجائےتازہ پانی۔ دودھ اور ملک شیک کا استعمال بھی قدرتی شکر اور غذائی اجزا مہیا کرتے ہیں۔
اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جو بھی کھائیں وہ نشاستہ دار کھانوں کا توازن مہیا کرے جس میں پھل اور سبزیاں، دودھ سے بنے کھانوں اور پروٹین سے بھرپور کھانے جیسے گوشت، مچھلی، انڈے اور پھلیاں، سبزیاں اور دالیں، چاول، چپاتی اور دہی ہوسکتے ہیں۔
ہلکی پھلکی ورزش کی پابندی بھی صحت کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہےجیسے صبح کی نماز کے بعدتازہ ہوا میں ٹہلنے کے لیے جانا۔
بچوں کو روزہ رکھنے کی مشق کرائی جائے
سیدنا حضرت مرز ا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’یہ امریاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیاہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یاتیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بیوقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے ۔کیونکہ یہ عمرنشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت ان کوروزہ کی ضرور مشق کرانی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے۔ اور ہرسال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمرہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اس عمر میں توصرف شوق ہوتاہے۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگریہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمرایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہئے کہ بچوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضروررکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کوبھی اس پراعتراض نہ کرنا چاہئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا توآئندہ نہیں رکھ سکے گا۔
اسی طرح بعض بچے خَلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں توبتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتاہوں ایسے بچے روزوں کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتاہے لیکن اگروہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پرظلم کرے گا اور نہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پرآپ ظلم کرے گا۔ اسی طرح اگرکوئی چھوٹی عمرکابچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ ا س پرطعن کریں تو وہ اپنی جان پرظلم کریں گے۔ ‘‘
(تفسیر کبیراز حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرہ زیر آیت 185)
٭…٭…٭