شان نزول اور اس کا تفسیر قرآن پر اثر
قرآن کریم کسی خاص شخص کے لیے نہیں آیا بلکہ ساری دنیا کے لیے آیا ہے اس کے محمد رسول اللہﷺ بھی مخاطب ہیں پھر قیامت تک آنے والے تمام لوگ بھی اس کے مخاطب ہیں
قرآن مجید کی تفا سیر میں ’شان نزول ‘ کے الفاظ بڑی کثرت سے استعمال ہوتے ہیں جن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت یا آیات کے کسی مجموعہ کے نزول کا پس منظر اور موقع کیا تھا؟
پُرانے مفسرین نے اپنی تفاسیر کی بنیاد اکثر اسی امر پر رکھی ہے کہ کوئی سورت یا آیت فلاں موقع پر نازل ہوئی تھی اس لیے اس کا یہ مطلب ہے اور اس کا مفہوم اسی مخصوص واقعہ یا مقام کی روشنی میں متعین کیا جاتا ہے جو روایات سے ثابت ہو۔
قرآن مجید کے متعلق دنیا بھر کے مسلمان مانتے ہیں کہ یہ ایک مکمل اور دائمی شریعت ہے۔ ایسا لائحہ عمل ہے جو بنی نوع انسان کی راہ نمائی کے لیے آ ئندہ ہر زمانے میں کافی ثابت ہوگا۔ چنانچہ کسی سورت یا آیت کو کسی ایک موقع کے لیے مخصوص قرار دینے سے یہ مجموعی اور دائمی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس طور پر ایک عام چیز کو خاص اور غیر محدود چیز کو محدود قرار دینا پڑے گا۔ مثلاً شانِ نزول کے مطابق جو آیات کسی خاص انسان یا گرو ہ کے لیے مخصوص قرار دے دی جائیں گی جن میں بعض بُری باتوں سے بچنے اور اچھی باتیں اختیار کرنے کا حکم ہے تو بعد میں آنے والا ہر قاری اس حصّہ قرآن کا اپنے آپ کو مخاطب نہ سمجھے گا بلکہ وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ ان آیات کے مخاطب بعض خاص لوگ تھے اور ان کا ہی فرض تھا کہ وہ ان آیات کے اوا مرو نواہی پر عمل کرتے۔ اس حصّہ کی تلاوت کرتے ہوئے گزر جائے گا۔ اس طرح قرآن کریم کا یہ عظیم الشان کام کہ وہ آئندہ ہر زمانے کے لیے بھی ہادی و راہنما ہے قریباً ختم ہو کر رہ جائے گا۔
شانِ نزول سے بعض مقامات پر قرآنی مطالب کے سمجھنے میں مددضرور ملتی ہے اور اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان الفاظِ قرآنی کا یہ مطلب ہو سکتا ہے لیکن یہ بہر صورت درست نہیں ہے کہ شانِ نزول کے ہوتے ہوئے وہ آیات اس موقع پر ہی چسپاں ہوتی ہیں بلکہ جہاں بھی ان آیات میں بعض خوبیوں اور صفات ِحسنہ یا نقائص اور بُری صفات کا ذکر ہوگا وہاں پر ان سے استفادہ کرنا ضروری ہوگا۔ اور خوبیوں اور صفات حسنہ کو اپنانا اور نقائص اور بُری باتوں سے اپنے آپ کو بچانا فرض ہوگا۔
اگر شانِ نزول قرآن مجید کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ایسا ہی ضروری امر تھا تو خود آ نحضرتﷺ اسی التزام سے جس التزام سے آپ نے قرآن مجید لوگوں کو سکھایا، حفظ کروایا اور اس کی تر تیب بیان کی شانِ نزول بھی بیان فر ما دیتے۔ لیکن خود آپؐ کا شانِ نزول کو بالا لتزام بیان نہ فر مانا ہی بتاتا ہے کہ آپؐ کے نزدیک شانِ نزول اتنی اہمیت نہ رکھتی تھی کہ اس کے بغیر قرآنی مطالب سے آ گاہی نہ ہو سکتی۔
واقعہ یہ ہے کہ شانِ نزول کے متعلق اکثر روایات بعض بزرگ صحابہؓ کے خیالات یا ان کے بعد آنے والے بزرگوں کے اپنے خیالات ہیں جنہوں نے اپنے اجتہاد اور قیاس سے یہ سمجھ لیا کہ فلاں آیت میرے متعلق یا فلاں شخص کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ اور فلاں آیت فلاں منافق یا کافر کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ اور یہ خیال ان کا اِس وجہ سے تھا کہ وہ مسائل جو اِن آیات میں بیان ہوئے تھے اتفاق سے وہ ان کو اس وقت درپیش تھے اور ان آیات کے نزول سے ان پر روشنی پڑ گئی اور مسئلہ حل ہو گیا۔
بعض آیات کے شانِ نزول میں اختلاف ہونا بھی اِس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ آیات کسی ایک خاص موقع کے لیے نازل نہیں ہوئی تھیں ورنہ شانِ نزول کی روایات میں اختلاف نہ ہوتا۔ مثلاً سورۃ الماعون کے متعلق مفسرین کو اس حد تک اختلاف ہے کہ بعض اسے ابو جہل کے متعلق بتاتے ہیں تو بعض ولید بن مغیرہ کے متعلق۔ بعض نے اسے عاص بن وائل کے متعلق بتایا ہے اور بعض نے عمر بن عا ئذ کے متعلق۔ اور اسی طرح بعض نے ابو سفیان اور دوسرے عمائدِ قریش کا نام لیا ہے۔ اِس اختلاف سے ظاہر ہے کہ یہ ان بزرگ راویوں کے اپنے خیالات اور اجتہادات تھے اور ان کے خیال کے مطابق اِس سورت کی جو تفسیر جس شخص کے حالات سے زیادہ مطابقت رکھتی تھی انہوں نے اس کو اسی سے متعلق کر دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سورت ہر اس شخص کے متعلق ہوگی جو تکذیب دین کرتا ہو، مسکینوں اور یتیموں کی خبر گیری نہ کرتا ہو اور نمازوں کی ادائیگی میں غفلت سے کام لیتا ہو۔ اور ریاکاری کی بُری عادت میں مبتلا ہو اور معمولی معمولی خیر سے بھی لوگوں کو محروم رکھتا ہو۔ اس طور پر معنی کرنے سے تفسیر میں جو عموم پیدا ہوتا ہے وہ اس سورت کو کسی ایک شخص کے ساتھ وابستہ کر دینے سے نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے بعض اکابر مفسرین نے شانِ نزول کی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کیا کہ تفسیر قرآن اسی کی روشنی میں کی جائے۔
چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدّث دہلوی اپنی بلند پایہ تصنیف ’’الفوزا لکبیر فی اصول التفسیر‘‘ میں فر ماتے ہیں: (ترجمہ)’’عام مفسرین نے مجادلہ احکام کی ہر آیات کو کسی خاص قصّہ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے حالانکہ یہ بات ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قرآن پاک کا نزول انسانی نفوس کی اصلاح اور تہذیب کے لیے ہوا ہے نیزباطل عقائد کی تردید اور فاسد اعمال کے ازالہ کے لیے ہوا ہے۔ پس ان کی موجودگی ہی ان آیات کے نزول کا موجب ہے ایسا ہی آخرت اور عذاب سے متعلقہ آیات وعظ و نصیحت کے لیے اُتری ہیں انہیں محض کسی خاص واقعہ سے مخصوص کر دینا درست نہیں وغیرہ۔‘‘(الفوز الکبیر صفحہ 2)
ہمارے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کے جس جس مقام کی تفسیر اپنی کتب میں تحریر فرمائی ہے اس سے بات عیاں ہو جاتی ہے کہ آپؑ بھی کسی شان ِنزول سے تفسیر کو پابند نہیں سمجھتے تھے۔ ہاں قرآنی مفہوم کو سمجھنے کے لیے ایک مدد اس سے ضرور حاصل کرتے تھے لیکن تفسیر کا کلیۃً مدار شانِ نزول پر نہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی جو شان اورعظمت اور اس کے معانی و مفاہیم کی جو وسعت آپؑ کی کتب پڑھ کر معلوم ہوتی ہے وہ ان تفاسیر سے ہر گز معلوم نہیں ہو سکتی جو شانِ نزول کی پابندی سے لکھی گئی ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تفسیر کبیر میں اس مسئلہ کو خوب واضح فر مایا ہے۔ شانِ نزول کے متعلق مختلف مواقع پر کافی مفصل و مضبوط بحث کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ قرآن کی عظمت و اہمیت اور عموم اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم قرآنی مطالب کو شانِ نزول کی باہم مخالف و متناقض روایات کی نذر نہ کر دیں۔ چنانچہ آپؓ فر ماتے ہیں: ’’اس زمانہ کے مسلمان علماء میں یہ عام مرض ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھی جائے اور انہیں کہا جائے کہ اس سے یہ مضمون نکلتا ہے تو وہ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ واہ ہمارے ساتھ اس کا کیا تعلق ؟ اس کا تو شانِ نزول یہ ہے اور یہ آیت فلاں شخص سے تعلق رکھتی ہے۔ گویا جس طرح کشتی کو کسی کیلے یا درخت سے باندھ دیا جاتا ہے وہ اس آیت یاسورۃ کو کسی منافق یا مومن یا مہاجر یا انصاری یا عیسائی یا یہودی کے ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ حالا نکہ قرآن کریم کسی خاص شخص کے لئے نہیں آیا بلکہ ساری دنیا کے لئے آیا ہے۔ اس کے محمد رسول اللہﷺ بھی مخاطب ہیں۔اور تمام مسلمان اور عیسائی اور یہودی اور مجوسی وغیرہ بھی مخاطب ہیں۔ پھر قیامت تک آنے والے تمام لوگ بھی اس کے مخاطب ہیں۔ زید یا بکر کے ساتھ اس کی کسی آیت یا سورۃ کو مخصوص قرار دینا قطعی طور پر غلط بات ہے۔ بلکہ مَیں تو اس بات کو بھی جائز نہیں سمجھتا کہ قرآن کریم کوصرف محمد رسول اللہﷺ سے مخصوص قرار دیا جائے۔ اگر قرآن صرف محمد رسول اللہﷺ کو مخاطب کر کے کوئی بات کہتا تو وہ وہیں ختم ہو جاتی اور باقی دنیا اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکتی۔ حالانکہ قرآن کریم قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہﷺ کو مخاطب کر کے فر ماتا ہے اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ۔ اب کیا محمد رسول اللہﷺ کے سوا کسی کو اصحاب الفیل کے واقعہ پر غور نہیں کرنا چاہیے؟ پس مَیں تو محمد رسول اللہﷺ کے ساتھ بھی کسی سورۃ یا آیت کے شان نزول کو مخصوص قرار دینا جائز نہیں سمجھتا کجا یہ کہ یہ قرار دیا جائے کہ کوئی سورۃ یا آیت کسی منافق یا کسی مومن یا کسی کافر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم میں بار بار اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہﷺ کے متعلق فر ماتا ہے کہ ہم نے تم پر قرآن نازل کیا ہےمگر اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن ہمارے لئے نازل نہیں ہوا۔جیسے اُن پر نازل ہوا ہے ویسے یہ ہمارے لئے نازل ہوا ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کو اگر ہم پر فضیلت حاصل ہے تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی نیکی اور آپ کے تقویٰ اور آپ کے عرفان اور آپ کےروحانیت کے اعلیٰ مقام کو دیکھتے ہوئے آپؐ کو اس غرض کے لئے چُن لیا کہ آپﷺ پر اپنا کلام نازل کرے اور آپﷺ کو اس کا پہلا مخاطب قرار دے۔ پس آپﷺ کی جو روحانی اور اخلاقی اور دماغی فضیلت تھی اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اپنا کلام آپﷺ پر پہلی دفعہ نازل کیا۔ لیکن جب وہ نازل ہو گیا تو اس کے بعد میرے لئے اس تفسیر [ تفسیر کبیر] کے پڑھنے والوں کے لئے اور باقی سب دنیا کے لئے وہ ویسا ہی ہو گیا جیسے وہ محمد رسول اللہﷺ کے لئے تھا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 10صفحہ141تا142)
روایات اور شانِ نزول کی ہر حال میں پابندی نہ کرنے کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم کی برکت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے فیض سے فیضیاب ہونے والوں با لخصوص حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے قرآن مجید کو دنیا کے سامنے ایک نہ ختم ہونے والے خزانے اور سدا بہار خوشنما باغ کی صورت میں پیش کیا ہے جس کا سایہ آج بھی تمام دنیا کو اپنی پناہ میں لے کر نئے نئے پیدا ہونے والے جھگڑوں، فسادات، بے چینیوں اور بد امنیوں سے محفوظ کر سکتا ہے۔ اور آئندہ بھی ہر زمانے کے مسائل کا مکمل و کافی حل اس سے ہی مل سکے گا۔
٭…٭…٭