خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍اپریل 2022ء
رمضان المبارک کی مناسبت سےتقویٰ کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کےبصیرت افروز ارشادات کا بیان
٭… رمضان اور روزوں کے فیض سے ہم تب ہی حصّہ پا سکیں گے جب ہم روزوں کے ساتھ اپنے تقویٰ کے معیار بھی بلند کرنے والے ہوں گے
٭…انسان پاک اور مطہر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں
٭…اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہےجسے وہ عطا ہوئی تو سب کچھ پاسکتا ہے
٭…اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اتقا کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خداتعالیٰ تم میں اور تمہارے غیر میں فرق رکھ دے گا
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍اپریل 2022ء بمطابق 22؍شہادت 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 22؍اپریل 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورت فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
آج کل ہم رمضان کے مہینےسے گزر رہے ہیں اور تقریباً دو عشرےختم ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزوں کا یہ مقصد بیان فرمایا ہے کہ روزے تم پر اس لیے فرض کیے گئے ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ پس رمضان اور روزوں کے فیض سے ہم تب ہی حصّہ پاسکیں گے جب ہم روزوں کے ساتھ اپنے تقویٰ کے معیار بھی بلند کرنے والے ہوں گے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے۔ کیا صرف نام کا روزہ رکھنا، سحری افطاری کرنایہ ہمیں روزے کی ڈھال کےپیچھے لےآئے گا؟ نہیں! بلکہ روزےکے لوازمات اور بنیادی مقصد یعنی تقویٰ کے حصول کو بھی دیکھنا ہوگا۔ ہم اپنے آپ کو مومن مسلمان کہتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرتﷺ کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے آپؐ کی پیش گوئی کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو مانا ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ اپنے اندر اسلام کی حقیقی روح قائم رکھنےکےلیے مسیح موعودؑ سے راہنمائی لیں۔ جب ہم تقویٰ کے متعلق آپؑ کے ارشادات دیکھتے ہیں تو ہمیں تقویٰ کے مضمون سے آگاہی ہوتی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:سنو! ایمان کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے۔ تقویٰ کیا ہے؟ ہرقسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا۔ یہ بات کہ تقویٰ کیا ہے اس وقت تک پتا نہیں چل سکتی جب تک ان باتوں کامکمل علم نہ ہو کہ کن باتوں سے اللہ نے روکا اور کن باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے لیے باربار قرآن شریف پڑھو۔ چاہیے کہ برے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائیدسے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو۔
پس اس رمضان میں جہاں ہم قرآن شریف پڑھ رہے ہیں تو اس سوچ سے پڑھنا چاہیے کہ اس کےاوامرو نواہی پر ہم غور کرتے جائیں۔ آپؑ نے اس بات کو بڑے زور سے بیان فرمایا ہے کہ جب تک انسان متقی نہیں بنتا اس کی عبادات اوردعاؤں میں قبولیت کا رنگ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ ۔یعنی بےشک اللہ تعالیٰ متقیوں کی عبادات قبول فرماتا ہے۔
فرمایا :یہ سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیوں کا ہی قبول ہوتا ہے۔ عیبوں اور برائیوں میں اگر مبتلا کا مبتلا ہی رہا تو تم ہی بتاؤ کہ اس نمازنے اس کو کیا فائدہ پہنچایا۔
حضرت مسیح موعودؑ کس قسم کا تقویٰ ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں اس کے متعلق آپؑ کے بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں جن سے ہماری راہنمائی ہوتی ہے۔ فرمایا :اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لیے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اٹھ گیا ہے۔ پاکیزگی اور طہارت عمدہ شے ہے۔ انسان پاک اور مطہر ہوتو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔ اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے۔جسے وہ عطا ہوتو سب کچھ پاسکتا ہے بغیر اس کے ممکن نہیں کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے۔ تقویٰ سے سب شے ہے، قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے۔ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ سے مراد یہی ہے کہ انسان اگرچہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرأت نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اوراسے خدا کی استعانت سےخیال کرتا ہے۔ فرمایا ایک اور آیت قرآن شریف میں ہے اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا…الخ۔ اس سےبھی مراد متقی ہیں۔ یعنی ان پر زلزلے آئے، ابتلا آئے آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو کرچکے ہیں اس سے نہ پھرے۔ وفا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھا۔ جب انہوں نے صدق و وفا دکھلائی تو اس کا اجر یہ ملا کہ تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یعنی اس پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حزن مت کرو۔ خداتمہارا متولی ہے۔
پس کیا خوش قسمت ہیں جن کا اللہ تعالیٰ ولی اور متکفل ہوجائے۔ پھر اس امر کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ مومن اور کافر کی کامیابی میں کیا فرق ہوتا ہے آپؑ فرماتے ہیں: یاد رکھو کہ کافر کی کامیابی ضلالت کی راہ ہے اور مومن کی کامیابی سے اس کےلیے نعمتوں کا دروازہ کھلتا ہے۔کافر کی کامیابی اس لیے ضلالت کی طرف لےجاتی ہے کیونکہ وہ اپنی محنت اور قابلیت کو خدا بنا لیتا ہےمگر مومن خدا کی طرف رجوع کرکے خدا سے ایک نیا تعارف پیدا کرتا ہے اور اس طرح ہر ایک کامیابی کے بعد اس کا خدا سے ایک نیا معاملہ شروع ہوجاتا ہے۔ فرمایا:اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا یعنی خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔
تقویٰ کی راہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ انسان کی تمام روحانی خوب صورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضا ہیں انہیں ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور حقوقِ عباد کی ادائیگی کرنا اس سے انسان میں روحانی خوب صورتی پیدا ہوجاتی ہے۔ قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوب صورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔
بدعات کے پھیلنے اورتقویٰ سے دوری کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ہزار ہا قسم کی بدعات ہر فرقے اور ہر گروہ میں اپنے اپنے رنگ میں پیدا ہوچکی ہیں۔ تقویٰ اور طہارت جو انسان کا اصل منشا اور مقصود تھا جس کے لیے آنحضرتﷺ نے خطرناک مصائب برداشت کیے وہ آج مفقود اور معدوم ہوگیا ہے۔ جیل خانوں میں جاکر دیکھو کہ جرائم پیشہ لوگوں میں زیادہ تعداد کن کی ہے۔
گھانا میں ہمارے ایک منسٹر تھے ایک میٹنگ میں کہا گیا کہ جیلوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے تو انہوں نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ مَیں احمدی ہوں اور ان مسلمانوں میں تم دیکھ لو کہ کوئی احمدی نہیں ہوگا یاہوں گے تو برائے نام ہوں گے۔ جب جائزہ لیا گیا تو یہی بات درست نکلی۔ پس حقیقی مومن اور حقیقی احمدی کی یہ نشانی ہے اور یہ بہت بڑا تبلیغ کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔
ہمیں اپنےاوراپنی نسلوں کے تقویٰ کے معیاروں کی کتنی فکر کرنی چاہیے اس کے متعلق حضورؑ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو انسان کو چاہیے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں دعا کا طالب رہے اور دوسرے اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ پر عمل کرے۔ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی تحدیث کرنی چاہیے اس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے۔
متقی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور دیا جاتا ہے۔ اس بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اتقا کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خداتعالیٰ تم میں اور تمہارے غیر میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے۔ فرمایا: قانونِ قدرت قدیم سے ایسا ہی ہے کہ سب کچھ معرفتِ کاملہ کے بعد ملتا ہے۔ خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑھ معرفتِ کاملہ ہے جسے یہ دی گئی اسے ہر ایک گناہ سے نجات دی گئی۔ پس ہمیں نجات کےلیے کسی خون، کسی صلیب یا کفارے کی ضرورت نہیں۔ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنےنفس کی قربانی ہے۔ ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔
ایک شخص حضرت مسیح موعودؑ کےپاس آیا اور اعتراض کیا کہ آپ نے مسیح موعود ہونےکا دعویٰ کیا ہے جبکہ آپ تو سیّد نہیں۔ ایک سیّد ایک امتی کی بیعت کس طرح کرسکتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا:خداتعالیٰ نہ محض جسم سے راضی ہوتا ہے نہ قوم سے۔ اس کی نظر ہمیشہ تقویٰ پر ہوتی ہے۔ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ۔ خدا کے حضور قومیت پرکوئی نظر نہیں اور کوئی شخص محض اعلیٰ خاندان سے ہونے کی وجہ سے نجات نہیں پاسکتا۔
پھر اپنی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ کیا دنیا میں ایسا ہوا ہے کہ چوبیس سال سے برابر ایک انسان رات کو منصوبہ بناتا ہے اور صبح کو خدا کی طرف لگا کر کہتا ہے کہ مجھے یہ وحی یا الہام ہوا اور خدا اس سے مؤاخذہ نہیں کرتا۔ متقی تو ایک ہی بات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہاں تو ہزاروں ہیں۔ زمانہ الگ پکار رہا ہے۔ احادیث منکم منکم کہہ رہی ہیں۔ سورت نور میں بھی منکم لکھا ہے۔ قساوت قلبی اور بہائم کی طرح جو زندگی بسر ہورہی ہے وہ الگ بتارہی ہے۔ صدی کے سر پر کہتے تھے کہ مجدد آتا ہے اب بائیس سال بھی ہوچکے۔ کسوف وخسوف بھی ہولیا۔ طاعون بھی آگئی، حج بھی بند ہوا۔ ان سب باتوں کو دیکھ کر اب بھی یہ لوگ نہیں مانتےتو ہم کیونکر جانیں کہ ان میں تقویٰ ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے مختلف زاویوں سے جو ہمیں نصائح فرمائی ہیں وہ بعض حوالے مَیں نے پیش کیے ہیں تاکہ ہمیں تقویٰ کے مطلب اور اس کی گہرائی کا علم ہو۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے ہم آپؑ کی جماعت میں شامل ہوکر تقویٰ کی حقیقی روح کو سمجھنے والے ہوں اور رمضان کے ان بقیہ دنوں میں جس حد تک ممکن ہو تقویٰ کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین