روزے صرف رمضان کے مہینہ میں ہی کیوں رکھوائے جاتے ہیں؟
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اس سوال کا جواب کہ روزے صرف رمضان کے مہینہ میں ہی کیوں رکھوائے جاتے ہیں۔ سارے سال پر ان کو کیوں نہ پھیلا دیا گیا یہ ہے کہ جب تک تواتر اور تسلسل نہ ہو صحیح مشق نہیں ہوسکتی۔ ہر مہینہ میں اگر ایک دو دن کا روزہ رکھ دیا جاتا تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا ایک وقت کے کھانے میں تو بعض اوقات سیر وغیرہ کے باعث بھی کھانا نہیں کھایا جاسکتا۔ مگر کیا ا سے بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے؟ حکومت بھی فوجیوں سے متواتر مشق کراتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہر مہینہ میں ایک دن ان کی مشق کے لئے رکھدے۔ غرض جو کام کبھی کبھی کیا جائے اس سے مشق نہیں ہو سکتی۔ مشق کے لئے مسلسل کام کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پورے ایک ماہ کے روزے مقرر فرما دیئے تاکہ مومنوں کو خداتعالیٰ کے لئے بھوکا پیاسا رہنے اور رات کو عبادت کیلئے اُٹھنے اور دن کو ذکرِ الہٰی اور قرآن کرنیکی عادت ہو اور ان کی روحانی صلاحیتیں ترقی کریں۔
غرض رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لے کر آتا ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور انسان جب چاہے ان سے حصہ لے سکتا ہے صرف مانگنے کی دیر ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندہ کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہاںبندہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر بعض دفعہ دوسروں کے دروازہ پر چلا جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگِ بدر کے بعد ایک عورت کو دیکھا کہ وہ پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر پھر رہی تھی۔ اُسے جو بچہ بھی نظر آتا وہ اُسے اُٹھا کر اپنے گلے سے لگا لیتی اور پیار کر کے چھوڑ دیتی۔ آخر اسی طرح تلاش کرتے کرتے اُسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ اُسے سے اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ اس عورت کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اللہ تعالیٰ کو اپنے گمشدہ بندہ کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔ سو اس رحیم و کریم ہستی سے تعلق پیدا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ ہر گھڑی رمضان کی گھڑی ہو سکتی ہے اور ہر لمحہ قبولیت دُعا کا لمحہ بن سکتا ہے۔ اگر دیر ہوتی ہے تو بندہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی اس کے احسانات میں سے ہی ہے کہ اس نے رمضان کا ایک مہینہ مقر ر کر دیا۔ تاکہ وہ لوگ جو خود نہیں اُٹھ سکتے ان کو ایک نظام کے ماتحت اُٹھنے کی عادت ہو جائے اور ان کی غفلتیں ان کی ہلاکت کا موجب نہ ہوں۔
پس یاد رکھو کہ روزے کوئی مصیبت نہیں ہیں ۔ اگر یہ کوئی دکھ کی چیزی ہوتی تو انسان کہہ سکتا تھا کہ میں دکھ میں کیوں پڑوں۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے روزے دکھوں سے بچانے اور گناہوں سے محفوظ رکھنے اور اللہ تعالیٰ کی لِقاء حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ اور گوبظاہر یہ ہلاکت کا باعث معلوم ہوتے ہیں ۔ کیونکہ انسان فاقہ کرتا ہے۔ جاگتا ہے۔ بے وقت کھانا کھاتا ہے جس سے معدہ خراب ہوجاتا ہے اور پھر ساتھ ہی اس کے یہ احکام بھی ہیں کہ صدقہ و خیرات زیادہ کرو۔ اور غرباء کی پرورش کا خیال رکھو۔ مگر یہی قربانیاں ہیں جو اُسے خداتعالیٰ کا محبوب بناتی ہیں۔ اور یہی قربانیاں ہیں جو قومی ترقی کا موجب بنتی ہیں۔
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 382-383)
٭…٭…٭