سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

یہ بھائی بھی جہاندیدہ تھا۔اپنے اس چھوٹے بھائی کے حالات سے بخوبی واقف تھا اورجب بھی کوئی مشکل ہوتی تو دعاکے لیے اپنے اسی بھائی سے درخواست کرتا

صاحبزادہ مرزا غلام قادرصاحب

(حصہ دوم۔آخری)

ایک امر قابل ذکر ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ عزیز و اقارب کی شدیدمخالفت اور سردمہری کے باوجود حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو صلہ رحمی کا کتنا خیال ہوتا تھا اور دوسری طرف اپنے قادر خداکی قدرتوں پر کتنا یقین تھا۔یہ سب پہلو ہم اس ایک واقعہ میں پائیں گے جو کہ صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی زندگی کا ایک نشان اورحصہ بن چکاہے۔

حضرت اقدسؑ اپنی تصنیف ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’105۔ ایک سو پانچواں نشان۔ ایک دفعہ میرے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی نسبت مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ان کی زندگی کے تھوڑے دن رہ گئے ہیں جو زیادہ سے زیادہ پندرہ دن ہیں بعد میں وہ یک دفعہ سخت بیمار ہو گئے یہاں تک کہ صرف استخوان باقی رہ گئیں اور اس قدر دُبلے ہو گئے کہ چارپائی پر بیٹھے ہوئے نہیں معلوم ہوتے تھے کہ کوئی اس پر بیٹھا ہوا ہے یا خالی چارپائی ہے۔ پاخانہ اور پیشاب اوپر ہی نکل جاتا تھا اوربیہوشی کا عالم رہتا تھا۔ میرے والد صاحب میرزا غلام مرتضیٰ مرحوم بڑے حاذق طبیب تھے انہوں نے کہہ دیا کہ اب یہ حالت یاس اور نو میدی کی ہے صرف چند روز کی بات ہے۔ مجھ میں اس وقت جوانی کی قوت موجود تھی اور مجاہدات کی طاقت تھی اور میری فطرت ایسی واقع ہے کہ میں ہر ایک بات پر خدا کو قادر جانتا ہوں اور درحقیقت اس کی قدرتوں کا کون انتہا پا سکتا ہے اور اُس کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں بجز اُن امور کے جو اس کے وعدہ کے برخلاف یا اُس کی پاک شان کے منافی اور اُس کی توحید کی ضد ہیں۔ اس لئے میں نے اس حالت میں بھی اُن کے لئے دعا کرنی شروع کی اور مَیں نے دل میں یہ مقرر کر لیا کہ اس دُعا میں مَیں تین باتوں میں اپنی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہوں۔

ایک یہ کہ مَیں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا میں حضرت عزت میں اس لائق ہوں کہ میری دعا قبول ہو جائے۔ دوسری یہ کہ کیا خواب اور الہام جو وعید کے رنگ میں آتے ہیں اُن کی تاخیر بھی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ تیسری یہ کہ کیا اس درجہ کا بیمار جس کی صرف استخوان باقی ہیں دعا کے ذریعہ سے اچھا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ غرض میں نے اِس بناء پر دعا کرنی شروع کی۔ پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ دعا کے ساتھ ہی تغیر شروع ہو گیا اور اس اثناء میں ایک دوسرے خواب میں مَیں نے دیکھا کہ وہ گویا اپنے دالان میں اپنے قدموں سے چل رہے ہیں اور حالت یہ تھی کہ دوسرا شخص کروٹ بدلتا تھا۔ جب دعا کرتے کرتے پندرہ دن گذرے تو اُن میں صحت کے ایک ظاہری آثار پیدا ہو گئے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چندقدم چلوں چنانچہ وہ کسی قدر سہارے سے اُٹھے اور سوٹے کے سہارے سے چلنا شروع کیا اور پھر سوٹا بھی چھوڑ دیا چند روز تک پورے تندرست ہو گئے اور بعد اس کے پندرہ برس تک زندہ رہے اور پھر فوت ہو گئے جس سےمعلوم ہوا کہ خدا نے اُن کی زندگی کے پندرہ(15) دن پندرہ سال سے بدل دئیے ہیں۔ یہ ہے ہماراخدا جو اپنی پیشگوئیوں کے بدلانے پر بھی قادر ہے مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ قادر نہیں۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 265تا267)

ان کی وفات کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدسؑ کو پیش از وقت بتلادیا تھا چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :’’187۔نشان۔ میرے بڑے بھائی جن کا نام میرزا غلام قادر تھا کچھ مدّت تک بیماررہے جس بیماری سے آخر اُن کا انتقال ہوا جس دن اُن کی وفات مقدّر تھی صبح مجھے الہام ہوا کہ جنازہ۔اور اگرچہ کچھ آثار اُن کی وفات کے نہ تھے مگر مجھے سمجھایا گیا کہ آج وہ فوت ہو جائیں گے اور میں نے اپنے خاص ہم نشینوں کو اِس پیشگوئی کی خبر دے دی جو اَب تک زندہ ہیں۔ پھر شام کے قریب میرے بھائی کا انتقال ہو گیا۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 400)

٭…’’پندرہ برس کے بعد جب میرے بھائی کی وفات کا وقت نزدیک آیا۔ تو میں امرتسر تھا مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ اب قطعی طور پر ان کی زندگی کا پیالہ پُر ہوچکا اور بہت جلد فوت ہونے والے ہیں۔ میں نے وہ خواب حکیم محمد شریف کو جو امرتسر میں ایک حکیم تھے سنائی اور پھر اپنے بھائی کو خط لکھا کہ آپ امور آخرت کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ مجھے دکھلایا گیا ہے کہ آپ کی زندگی کے دن تھوڑے ہیں۔ انہوں نے عام گھر والوں کو اس سے اطلاع دے دی اور پھر چند ہفتہ میں ہی اس جہانِ فانی سے گذر ے۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 211تا212)

٭…’’-61اکسٹھواں نشان۔اپنے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی نسبت پیشگوئی ہے جس میں میرے ایک بیٹے کی طرف سے بطور حکایت عن الغیر مجھے یہ الہام ہوا اے عَمّی بازیٔ خویش کردی و مرا افسوس بسیار دادی۔ [ اے چچا! تو اپنی جان پر کھیل گیا اور مجھے بہت افسوس میں چھوڑ گیا۔(ترجمہ از تذکرہ صفحہ 90)]یہ پیشگوئی بھی اسی شرمپت آریہ کو قبل از وقت بتلائی گئی تھی اور اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ میرے بھائی کی بےوقت اور ناگہانی موت ہوگی جو موجب صدمہ ہوگی…اور بعد اس کے میرے پر کھولا گیا کہ یہ الہام میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے چنانچہ میرا بھائی دو تین دن کے بعد ایک ناگہانی طور پر فوت ہوگیا اور میرے اُس لڑکے کو اس کی موت کا صدمہ پہنچا‘‘۔(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22 صفحہ 233تا234)

٭…’’ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات سے ایک دن پہلے الہام ہوا۔ ’’جنازہ‘‘ اور میں نے اس الہام کی بہت لوگوں کو خبر دے دی چنانچہ دوسرے روز بھائی صاحب فوت ہوئے۔‘‘(نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 603)

٭…’’رات کو ایک اور عجیب الہام ہوا اور وہ یہ ہے قُلْ لِضَیْفِکَ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ قُلْ لِاَخِیْکَ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ۔

یہ الہام بھی چند مرتبہ ہوا۔ اس کے معنی …ہیں…جو تیرا مورد فیض یا بھائی ہے اس کو کہہ دےکہ میں…(تجھے) وفات دوں گا۔معلوم نہیں کہ یہ شخص کون ہے۔اس قسم کے تعلقات کے کم وبیش کئی لوگ ہیں۔ اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتےہیں جن میں اپنی نسبت اور بعض احباب کی نسبت۔ اُن کی عُسریُسر کی نسبت، اُن کے حوادث کی نسبت، ان کی عمر کی نسبت ظاہر ہوتا رہتا ہے‘‘ (مکتوبات احمدجلد اول صفحہ 582 مکتوب بنام میر عباس علی مورخہ20؍نومبر1883ء)

[نوٹ: حیاتِ احمد مرتبہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ جلد 2 نمبر2 صفحہ 224 پر یہ الہام واضح طور پر بالفاظ قُلْ لِضَیْفِکَ الخ درج ہے لیکن مکتوبات احمدجلد اول صفحہ 582 میں یہ لفظ ایسا صاف نہیں لکھا بلکہ کچھ ایسا لکھا ہے کہ لِضَیْفِکَ کی بجائے لِفَیْضِکَ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور ترجمہ کے الفاظ ’’مورد فیض‘‘ اس احتمال کو اور بھی قوت دیتے ہیں۔ گو ضَیْفکے معنے بھی موردِ فیض سمجھے جاسکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ انہی ایام میں حضورؑ کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی وفات ہوئی تھی۔( مرتب)]

بھائی کادعاکی درخواست کرنا

یہ بھائی بھی جہاندیدہ تھا۔اپنے اس چھوٹے بھائی کے حالات سے بخوبی واقف تھا اورجب بھی کوئی مشکل ہوتی تو دعاکے لیے اپنے اسی بھائی سے درخواست کرتا۔چنانچہ حضرت اقدس ؑ بیان فرماتے ہیں کہ ’’سردار حیات خاں (جج)ایک دفعہ کسی مقدمہ میں معطل ہوگیا تھا۔ میرےبڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے مجھے کہا کہ ان کے لئے دعا کرو۔ میں نے دعا کی تو مجھے دکھا یا گیا کہ یہ کرسی پر بیٹھا ہوا عدالت کررہا ہے۔ مَیں نے کہا کہ یہ تو معطل ہوگیا ہے۔ کسی نے کہا کہ اُس جہان میں معطل نہیں ہؤا۔ تب مجھے معلوم ہؤا کہ یہ بحال ہوجائے گا چنانچہ اس کی اطلاع دی گئی اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر بحال ہوگیا۔‘‘(الحکم جلد6 نمبر32 مورخہ10؍ستمبر1902ء صفحہ 6 کالم نمبر 3 و تذکرہ صفحہ 26)

ایک اور موقع پرآپؑ نے اپنے بھائی کے لیے دعاکی۔چنانچہ فرماتے ہیں:’’مرزا اعظم بیگ سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے ہمارے بعض بے دخل شرکاء کی طرف سے ہماری جائیداد کی ملکیت میں حصہ دار بننے کے لئے ہم پر نالش دائر کی اور ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنی فتح یابی کا یقین رکھ کر جواب دہی میں مصروف ہوئے۔میں نے جب اس بارہ میں دعا کی تو خدائے علیم کی طرف سے مجھے الہام ہوا کہ

اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآ ئِکَ

پس میں نے سب عزیزوں کو جمع کرکے کھول کر سنادیا کہ خدائے علیم نے مجھے خبر دی ہے کہ تم اس مقدمہ میں ہرگز فتح یاب نہ ہوگے۔ اس لئے اس سے دست بردار ہوجانا چاہئے۔ لیکن انہوں نے ظاہری وجوہات اور اسباب پر نظر کرکے اور اپنی فتح یابی کو متیقن خیال کرکے میری بات کی قدر نہ کی اور مقدمہ کی پیروی شروع کردی اور عدالت ماتحت میں میرے بھائی کو فتح بھی ہوگئی لیکن خدائے عالم الغیب کی وحی کے بر خلاف کس طرح ہوسکتا تھا۔ بالآخر چیف کورٹ میں میرے بھائی کو شکست ہوئی اور اس طرح اس الہام کی صداقت سب پر ظاہر ہوگئی۔‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 590تا591)

ایک اور خواب

’’دیکھا کہ مرزا غلام قادر صاحب میرے بڑے بھائی نہایت سفید لباس پہنے ہوئے میرے ساتھ جارہے ہیں اور کچھ باتیں کرتے ہیں۔ ایک شخص ان کی باتیں سنکر کہتا ہے کہ یہ کیسی فصیح بلیغ گفتگو کرتے ہیں۔ گویا پہلے سے حفظ کرکے آئے ہیں۔ فقط

فرمایا۔ ہمارا تجربہ ہے کہ جب کبھی ہم اپنے بھائی صاحب کو خواب میں دیکھتے ہیں اس سے مراد کسی مشکل کام کا حل ہونا ہوتا ہے…غلام قادر سے خدائے قادر کی قدرت کی طرف اشارہ ہے۔‘‘( بدر جلد 1 نمبر25 مورخہ22؍ستمبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر33 مورخہ24؍ستمبر1905ء صفحہ1۔تذکرہ صفحہ 480)

جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ کی کوئی اولاد نہ تھی۔جو دو بچے پیدا ہوئے وہ چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگئے تو انہوں نے حضرت صاحبؑ سے درخواست کرکے ان کے بیٹے یعنی اپنے بھتیجے مرزا سلطان احمدصاحب کو اپنے پاس رکھ لیا۔اورجب مرزا غلام قادرصاحب کی وفات ہوئی تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب تمہارے تایا (مرزا غلام قادر صاحب یعنی حضرت صاحب کے بڑے بھائی ) لاولد فوت ہوگئے تو تمہاری تائی حضرت صاحب کے پاس روئیں اور کہا کہ اپنے بھائی کی جائیداد سلطان احمد کے نام بطور متبنّٰےکے کرا دو وہ ویسے بھی اب تمہاری ہے اور اس طرح بھی تمہاری رہے گی۔چنانچہ حضرت صاحب نے تمہارے تایا کی تمام جائداد مرزا سلطان احمد کے نام کرا دی۔خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے متبنّٰی کی صورت کس طرح منظور فرمالی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا یہ تو یونہی ایک بات تھی ورنہ وفات کے بعد متبنّٰےکیسا۔ مطلب تو یہ تھا کہ تمہاری تائی کی خوشی کے لئے حضرت نے تمہارے تایا کی جائداد مرزا سلطان احمد کے نام داخل خارج کرا دی اور اپنے نام نہیں کرائی۔کیونکہ اس وقت کے حالات کے ماتحت حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ ویسے بھی مرزا سلطان احمد کو آپ کی جائیداد سے نصف حصہ جانا ہے اور باقی نصف مرزا فضل احمد کو۔پس آپ نے سمجھ لیا کہ گویا آپ نے اپنی زندگی میں ہی مرزا سلطان احمد کا حصہ الگ کر دیا۔‘‘(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر24)

خاکسار نے یہ روایت اس لیے درج کی ہے کہ عموماً یہ لکھاجاتاہے اور اس وقت کے سرکاری کاغذات میں بھی یہ ہے کہ مرزا سلطان احمدصاحب ،مرزا غلام قادرصاحب کے متبنیٰ تھے۔اس کی اصل توجیہ اور وضاحت مندرجہ بالاروایت سے بخوبی ہوسکتی ہے۔

صاحبزادہ مرزا غلام قادرصاحب کی اہلیہ محترمہ یعنی ’’تائی صاحبہ‘‘جب بیاہ کر آئیں تو وہ بڑی بہوتھیں،حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہ 1867ء میں وفات پاچکی تھیں۔اور بڑی بہو ہونے کے ناطے اب گھر کا سارا نظم ونسق ان کے ہاتھ میں تھا۔حضرت اقدسؑ کی دنیاداری کے دھندوں سے نفور اور عدم دلچسپی کے باعث جائیداد کا سارا انتظام وانصرام آپ کے بھائی صاحب اور بھاوجہ/تائی صاحبہ کے ہاتھ میں چلا گیا اور پھر ایک لمبے عرصےتک اس گھرانے کی طرف سے مخالفت اور تکلیفوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہواجو کہ جماعت کی تاریخ کا ایک حصہ بن چکاہے۔ہرجگہ اوربار بار ان واقعات کا ذکر کرنا کوئی ضروری بھی نہیں۔ہاں اپنے مقام پر ان واقعات کا ذکر کیاجائے گا وہ بھی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اخلاق فاضلہ کےاظہار اور ثبوت کے طور پر کہ ایسے مواقع پر آپؑ کا ردعمل کیاہوتاتھا۔بہرحال جہاں اس گھرانے کا عمل ہماری جماعت کی تاریخ کا حصہ ہے وہاں حضرت اقدسؑ کا کمال صبر اور قناعت اورصلہ رحمی جیسے اخلاق کا جو اظہار ہوتا رہا وہ بھی اسی تاریخ کا حصہ بن گیا۔اور آپؑ کا یہی صبر ہی تھا ،اور یقیناً اسی صابر اور عبدشکور کی دعائیں ہی تھیں کہ بڑے بھائی کی یہ نشانی محترمہ تائی صاحبہ بالآخر احمدیت کی آغوش میں آگئیں اور حرمت بی بی سے، حضرت حرمت بی بی صاحبہ کہلا کر بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ خاص میں ابدی آرام فرمارہی ہیں۔

تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں رازدار

اب ہم دوبارہ اس بابرکت ولادت با سعادت کے واقعات کی تفصیل کی طر ف پلٹتے ہیں وہ پیدائش کہ جس کی بابت خود عرش کا خدا فرماتاہے’’لَولَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ‘‘ کہ’’اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو آسمانوں کو پیدا نہ کرتا‘‘ (تذکرہ صفحہ 556) یہ لوگ وجہِ تخلیقِ کائنات ہوتے ہیں۔اور ہرقسم کی برکات ارضی وسماوی انہی بابرکت وجودوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button