حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نمائندگان شوریٰ کی ذمہ داریاں

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ مارچ 2006ء)

جیسا کہ ہم جانتے ہیں جماعت میں مجلس شوریٰ کا ادارہ نظام جماعت اور نظام خلافت کے کاموں کی مدد کے لئے انتہائی اہم ادارہ ہے۔ اور حضرت عمر ؓ کا یہ قول اس سلسلہ میں بڑا اہم ہے کہ لَاخِلَافَۃَ اِلَّابِالْمَشْوَرَۃکہ بغیرمشورے کے خلافت نہیں ہے۔ اور یہ قول قرآن کریم کی ہدایت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے عین مطابق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے ہر اہم کام میں مشورہ لیا کرتے تھے۔ لیکن جیسا کہ آیت سے واضح ہے مشورہ لینے کا حکم تو ہے لیکن یہ حکم نہیں کہ جو اکثریت رائے کا مشورہ ہو اُسے قبول بھی کرنا ہے۔ اس لئے وضاحت فرما دی کہ مشورہ کے بعد مشورہ کے مطابق یا اُسے ردّ کرتے ہوئے، اقلیت کا فیصلہ مانتے ہوئے یا اکثریت کا فیصلہ مانتے ہوئے جب ایک فیصلہ کر لو، کیونکہ بعض دفعہ حالات کا ہر ایک کو پتہ نہیں ہوتا اس لئے مشورہ ردّ بھی کرنا پڑتا ہے۔ تو پھر یہ ڈرنے یا سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ایسا نہ ہو جائے، ویسا نہ ہو جائے۔ پھر اللہ پر توکل کرو اور جس بات کا فیصلہ کر لیا اس پر عمل کرو…۔

پس یہاں ممبران جماعت پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ صرف اپنی دوستی اور رشتہ داری یا تعلق داری کی وجہ سے ہی شوریٰ کے نمائندے منتخب نہیں کرنے بلکہ ایسے لوگ جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں، کیونکہ تم جس ادارے کے لئے یہ نمائندگان منتخب کرکے بھجوا رہے ہو یہ بڑا مقدس ادارہ ہے اور نظام خلافت کے بعد نظام شوریٰ کا ایک تقدس ہے۔ اس لئے بظاہر سمجھدار اور نیک لوگ جو عبادت کرنے والے اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں اُن کو منتخب کرنا چاہئے اور جب ایسے لوگ چنو گے تبھی تم رحمت کے وارث بنو گے ورنہ دنیادار لوگ تو پھر ویسے ہی اخلاق دکھائیں گے جیسے ایک دنیا دار دنیاوی اسمبلیوں میں، پارلیمنٹوں میں دکھاتے ہیں۔ پس افراد جماعت کی طرف سے اس امانت کا حق جو اُن کے سپرد کی گئی ہے اس وقت ادا ہو گا جب تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے شوریٰ کے نمائندے منتخب کریں گے…۔

آپ اپنی جماعتوں سے نمائندے چن کے اس لئے بھیج رہے ہیں کہ خلیفہ ٔوقت کو مشورہ دیں۔ اس لحاظ سے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ جو لوگ کھلی آنکھ سے ظاہرًانااہل نظر آ رہے ہوں ان کو اگر آپ چنیں گے تو وہ پھر شوریٰ کی نمائندگی کا حق بھی ادا نہیں کر سکتے۔ یا ایسے لوگ جو بلاوجہ اپنی ذات کو ابھار کر سامنے آنے کا شوق رکھتے ہیں وہ بھی جب شوریٰ میں آتے ہیں تو مشوروں سے زیادہ اپنی علمیت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ تو جماعتیں جب انتخاب کرتی ہیں تو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کو نہ چنیں۔ تو یہ ہے شوریٰ کے ضمن میں ذمہ داری افراد جماعت کی کہ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اپنے نمائندگان شوریٰ چنیں نہ کہ کسی ظاہری تعلق کی وجہ سے اور جس کو چنیں اس کے بارے میں اچھی طرح پر کھ لیں۔ اس کو آپ جانتے ہوں، آپ کے علم کے مطابق اس میں سمجھ بوجھ بھی ہو اور علم بھی ہو اور عبادت گزار بھی ہو۔ اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا بھی ہو۔

اب مَیں نمائندگان سے بھی چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ شوریٰ کی نمائندگی ایک سال کے لئے ہوتی ہے۔ یعنی جب شوریٰ کا نمائندہ منتخب کیا جاتا ہے تو اس کی نمائندگی اگلی شوریٰ تک چلتی ہے جب تک نیا انتخاب نہیں ہو جاتا۔ صرف تین دن یا دو دن کے اجلاس کے لئے نہیں ہوتی۔ شوریٰ کے نمائندگان کے بعض کام مستقل نوعیت کے اور عہدیداران جماعت کے معاون کی حیثیت سے کرنے والے ہوتے ہیں اس لئے مستقلاً اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا جماعت کو اپنے نمائندے ایسے لوگوں کو چننا چاہئے جو ان کے نزدیک ایک تو سمجھ بوجھ رکھنے والے ہوں۔ ہر میدان میں ہر ایک ماہر نہیں ہوتا، کوئی کسی معاملے میں زیادہ صائب رائے رکھنے والا ہوتا ہے یا مشورہ دے سکتا ہے، کوئی کسی معاملے میں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عبادت گزار ہونا چاہئے اور حقیقی عبادت گزار ہمیشہ تقویٰ پر قدم مارنے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرے۔ اور جہاں قرآن اور سنت کے مطابق واضح ہدایات نہ ملتی ہوں وہاں وہ اپنی سمجھ اور علم کو خدا سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کہنے کا یہ مطلب ہے کہ جب نمائندگان کو افراد جماعت اس حسن ظنی کے ساتھ منتخب کرتے ہیں تو جو نمائندگان شوریٰ ہیں ان پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی اس ذمہ داری کوادا کریں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جماعت کے افراد نے آپ پر حسن ظن رکھتے ہوئے قرآن کریم کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہوئے آپ کو منتخب کیا ہے کہ تُؤَدُّواالْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا(النساء:59)کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔ خدا کرے کہ اکثریت نمائندگان جو وہاں شوریٰ میں آئے ہوئے ہیں ان کا انتخاب اسی سوچ کے ساتھ ہوا ہو اور کسی خویش پروری یا ذاتی پسند کی وجہ سے نہ ہوا ہو۔…

پس ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک امانت ہے جس کی ادائیگی کا آپ کو حق ادا کرنا ہے۔ اس نمائندگی کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں کہ تین دن کے لئے ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں کچھ باتیں سن لیں کچھ دوستوں سے مل لئے اور بس، صرف اتنا کام نہیں ہے، ان کا بڑاوسیع کام ہے۔

پھر نمائندگان یہ بھی یاد رکھیں کہ جب مجلس شوریٰ کسی رائے پر پہنچ جاتی ہے اور خلیفۂ وقت سے منظوری حاصل کرنے کے بعد اس فیصلے کو جماعتوں میں عملدر آمد کرنے کے لئے بھجوا دیا جاتا ہے۔ تو یہ نمائندگان کا بھی فرض ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں اور اس پر نظر رکھیں کہ اس فیصلے پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا اور اس طریق کے مطابق ہو رہا ہے جوطریق وضع کرکے خلیفہ وقت سے اس کی منظوری حاصل کی گئی تھی۔ یا بعض جماعتوں میں جا کر بعض فیصلے عہدیداران کی سستیوں یا مصلحتوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اگر تو ایسی صورت ہے تو ہر نمائندہ شوریٰ اپنے علاقے میں ذمہ دار ہے کہ اس پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کرے اپنے عہدیداران کو توجہ دلائے، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ان کے معاون کی حیثیت سے کام کرے۔ ایک کافی بڑی تعداد عہدیداران کی نمائندہ شوریٰ بھی ہوتی ہے۔ وہ اگر کسی فیصلے پر عمل ہوتا نہیں دیکھتے تو اپنی عاملہ میں اس معاملے کو پیش کرکے اس پر توجہ دلائیں۔ نمائندگان شوریٰ چاہے وہ انتظامی عہدیدار ہیں یا عہدیدار نہیں ہیں اگر اس سوچ کے ساتھ کئے گئے فیصلوں کی نگرانی نہیں کرتے اور وقتاً فوقتاً مجلس عاملہ میں نتائج کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ نہیں لیتے تو ایسے نمائندگان اپنا حق امانت ادا نہیں کر رہے ہوتے۔ اور اگر یہاں اس دنیا میں یا نظام جماعت کے سامنے، خلیفۂ وقت کے سامنے اگر بہانے بنا کر بچ بھی جائیں گے تو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ ضرور پوچھے جائیں گے جو اپنی امانتوں کا حق ادا نہیں کرتے۔

پس اس اعزاز کو کسی تفاخر کا ذریعہ نہ سمجھیں۔ بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے اور بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر باوجود توجہ دلانے کے پھر بھی مجلس عاملہ یا عہدیداران توجہ نہیں د یتے اور اپنے دوسرے پر وگراموں کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اور شوریٰ کے فیصلوں کو درازوں میں بند کیا ہوا ہے، فائلوں میں رکھا ہوا ہے تو پھر نمائندگان شوریٰ کا یہ کام ہے کہ مجھے اطلاع دیں۔ اگر مجھے اطلاع نہیں دیتے تو پھر بھی امانت کا حق ادا کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ اس وجہ سے مجرم بھی ہیں۔ جب بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے، کسی رنجش کی بنا پر کوئی فرد جماعت اگر کوئی خط لکھتا ہے تو پھر جب بات سامنے آتی ہے اور جب بعض کاموں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، یاتحقیق کی جاتی ہے تو پھر یہی عہدیداران اور نمائندگان لمبی لمبی کہانیوں کا ایک دفتر کھول دیتے ہیں۔ امانت کی ادائیگی کا تقاضا تو یہ تھا کہ جب کوئی غلط بات یا سستی دیکھی تو فوراً اطلاع کی جاتی۔ اور اگر مقامی سطح پر یہ باتیں حل نہیں ہو رہی تھیں تو اُس وقت آپ باتیں پہنچاتے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button