صداقتِ اسلام اور ذرائع ترقیٔ اسلام (قسط نمبر 1)
(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ،فرمودہ 22؍فروری 1920ءبمقام بندے ماترم ہال (امرتسر)
مذہب کی غرض
میرا مضمون آج صداقتِ اسلام پر ہے کہ اسلام کی صداقت کے کیا ثبوت ہیں اور اس وقت اسلام سے تعلق رکھنے والوں کی ترقی کے کیا ذرائع ہیں۔کسی مذہب کی صداقت پر غور کرنے سے پہلے یہ نہایت ضروری امر ہے کہ ہم دیکھیں کہ مذہب کی غرض کیا ہے؟ کیونکہ جب تک یہ معلوم نہ ہو ممکن ہے کسی مذہب کی صداقت پر بحث کرتے ہوئے کہیں کے کہیں نکل جائیں اور جس چیز کو صداقت کا ثبوت سمجھیں وہ اس سے کوئی تعلق ہی نہ رکھتی ہومثلاً جب کوئی شخص مکان خریدنے کے لئے جائے تو اس کی یہ غرض نہیں کہ اچھے بیل بوٹے اسے نظر آئیں یا یہ نہیں ہوتی کہ مکان کے اندر کوئی خاص قسم کا حوض بنا ہؤا ہو۔ بلکہ اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان اس کے اندر سردی و گرمی کی تکلیف سے بچ سکے، اپنے مال کی حفاظت کر سکے اور اس کے تعلقات خاندانی میں کوئی دوسرا مخل نہ ہوسکے۔ یہ مکان کی غرض ہوتی ہے اور مکان خریدنے کے وقت اسی کو دیکھا جائے گا۔ اگر یہ پوری ہوجائے تو خرید لیا جائے گا اور اگر یہ نہ پوری ہو گی تو ہم کبھی خریدنے کے لئے تیار نہ ہوں گے۔ کیا اگر چھت تو نہ پڑی ہو لیکن دیواروں پر بیل بوٹے بنے ہوں تو اس مکان کو لینے کے لئے ہم تیار ہوجائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ اس سے مکان کی غرض پوری نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب ہم مذہب کی صداقت کے متعلق غور کرنے لگیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس بات کو سوچیں کہ مذہب کی غرض کیا ہے؟ تاکہ پھر یہ دیکھ سکیں کہ کون سا مذہب اس کو پورا کرتا ہے اور جو پورا کرے گا وہی مذہب سچا اور قابل قبول ہوگا۔پس چونکہ جب تک مذہب کی غرض معلوم نہ ہوجائے اس وقت تک سچے مذہب کی شناخت نہیں ہوسکتی اس لئے صداقت مذہب پر بولنے سے قبل ہر لیکچرار کا فرض ہے کہ مذہب کی غرض بیان کر دے تاکہ سامعین میں سے ہر ایک کو معلوم ہوسکے کہ لیکچرار کے نزدیک مذہب کی غرض کیا ہے؟ اور وہ دیکھ سکے کہ مذہب کی جو غرض وہ سمجھا ہوا تھا وہ صحیح نہیں۔ یا یہ کہ لیکچرار نے جو بتائی ہے وہ صحیح نہیں اور اس کےلیکچر کی بناء بنائے فاسد علی الفاسد ہوگی۔
پس آج مَیں مذہب کی صداقت کے دلائل بیان کرنے سے پہلے یہ بیان کروں گا کہ مذہب کی غرض کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہیئے کہ اسلام جو عربی زبان میں نازل ہؤا ہے اس میں مذہب کی غرض معلوم کرنا نہایت آسان ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کو خدا تعالیٰ نے یہ خصوصیت دی ہے کہ اس کے تمام الفاظ اپنے اندر معانی رکھتے ہیں۔ باقی دنیا کی کسی زبان کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے۔ اَور زبانوں میں مثلاً اُردو میں جس کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوتا ہے اسے ماں اور جس کے نطفہ سے پیدا ہوتا ہے اسے باپ کہتے ہیں مگر ان الفاظ سے بچہ کے پیدا ہونے کے متعلق کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی۔ اگر ماں کی بجائے لفظ ’’پانی‘‘ رکھ دیا جاتا تو وہ بھی ایسا ہی ہوتا جیسا کہ یہ ہے۔ مگر عربی میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں جو نام رکھا جاتا ہے وہ خود بتاتا ہے کہ اس کا کیا کام اور اس کی کیا غرض ہے۔ عربی میں ماں کو اُمّ کہتے ہیں اور اس کے معنی جڑھ کے ہیں۔ جس طرح شاخیں جڑھ سے پیدا ہوتی ہیں اسی طرح بچہ ماں سے پیدا ہوتا ہے اور گویا بچہ ماں کی شاخ ہوتا ہے۔ اب اگر ماں کی بجائے ’’لاں‘‘ یا ’’شاں‘‘ رکھ دیا جاتا تو کوئی حرج نہ تھا۔ مگر ’’اُمّ‘‘ کے لفظ کی جگہ کوئی اور لفظ رکھنے سے وہ غرض نہ ظاہر ہوسکتی جو اس سے ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح ’’اُمّ‘‘ کے معنی ہیں وہ چیز جس کے پیچھے پیچھے چلیں اور چونکہ بچہ ماں کے پیچھے چلتا ہے اس لحاظ سے بھی ’’اُمّ‘‘ ماں کو کہتے ہیں کہ بچہ ہر دُکھ اور ہر تکلیف کے وقت اسی کی طرف راغب ہوتا ہے تو یہ معنی جو لفظ ’’اُمّ‘‘ میں پائے جاتے ہیں اَور کسی لفظ میں نہیں پائے جاتے۔ یہی حال عربی کے تمام الفاظ کا ہے۔ پس اس زبان میں مذہب کے لئے جو لفظ رکھا گیا ہے اسی میں مذہب کی غرض بھی پائی جاتی ہے۔ مذہب کے معنی رستہ، سبیل، طریق، منہاج اور شریعت بھی ہیں۔ پس عربی زبان کے لحاظ سے وہ قواعد جو انسان کو اخلاقی طور پر نہ جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیں۔ ان کا نام مذہب ہے۔ اب رہا یہ کہ وہ قواعد کہاں پہنچاتے ہیں؟ اس کی نسبت سب مذاہب متفق ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہستی ہے جس تک پہنچانا مذاہب کا فرض ہے۔ اس کے سوا مذہب کی اور کوئی غرض نہیں۔ مذہب کی غرض تجارت کے قواعد بتانا نہیں کہ جس مذہب کے لوگوں میں تجارت زور شور کی ہو ان کا مذہب سچا سمجھ لیا جائے۔مذہب کی غرض دولت نہیں کہ جن لوگوں کے پاس مال زیادہ ہو ان کے مذہب کو سچا کہا جائے۔ مذہب کی غرض حکومت نہیں کہ جن لوگوں کے پاس ملک زیادہ ہوں ان کے مذہب کو درست سمجھ لیا جائے۔ بلکہ مذہب کی غرض یہ ہے کہ وہ ایک ایسی سڑک بتا دے جس پر چل کر انسان خداتعالیٰ تک پہنچ جائے۔ پس جو مذہب اس غرض کو پورا کرتا ہے وہ سچا ہے اور جو نہیں پورا کرتا وہ سچا مذہب نہیں ہے۔
کیا اسلام مذہب کی غرض کو پورا کرتا ہے؟
اب جبکہ ہمیں پتہ لگ گیا کہ مذہب کی غرض یہ ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اسلام کی صداقت اس سے ثابت ہوتی ہے اور کیا اسلام کوئی ایسا رستہ پیش کرتا ہے جس پر چل کر اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائیں؟ یا ایسی تعلیم دیتا ہے کہ جو دل کو تو بھاتی اور اچھی لگتی ہو مگر خدا تعالیٰ تک نہ پہنچاتی ہو؟ اگر اسلام کی تعلیم خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچاتی تو خواہ اس کی صداقت کی کیسی ہی دلیلیں کیوں نہ دی جائیں ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اسلام انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتا ہے تو ہر ایک عقلمند اور سمجھدار انسان کو ماننا پڑے گا کہ اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہےاور سچا مذہب ہے۔
ہر ایک مذہب میں کچھ نہ کچھ خوبیاں پائی جاتی ہیں
اس اصل کے بعد میں تمہیدی طور پر ایک اور بات بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ کسی مذہب کے سچا ثابت کرنے سے یہ نہیں ثابت ہوجاتا کہ باقی مذاہب بالکل بیہودہ اور ان کی ساری کی ساری تعلیم لغو ہے۔ ہمارے ملک میں بہت بڑا فساد اسی وجہ سے برپا ہوتا ہے کہ ہرمذہب کے لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ صرف ہمارا ہی مذہب سچا ہے اور باقی تمام مذاہب سر تاپا جھوٹے ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں کوئی بھی خوبی نہ ہو۔ اگر یہ بات ہے کہ کسی مذہب کی ہر ایک بات جھوٹی اور لغو ہے اور اس میں کوئی بھی خوبی ایسی نہیں ہے جو انسان کے دل کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور عقلمند لوگ اس پر چل رہے ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ ہر ایک مذہب میں کچھ نہ کچھ خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ پس کسی مذہب کو سچا ثابت کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ باقی کسی مذہب میں کوئی خوبی نہیں۔ بلکہ یہ ہیں کہ وہ کون سا مذہب ہے جس میں سب سے زیادہ خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ورنہ یوں تو کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس میں قطعاً کوئی خوبی نہ پائی جاتی ہو۔ خواہ کوئی کتنا ہی ابتدائی مذہب ہواس میں بھی ضرور کوئی نہ کوئی خوبی ہوگی۔ آسٹریلیا کے لوگوں کا مذہب یا امریکہ کے بعض علاقوں کے لوگوں کے مذہب کو بہت ابتدائی سمجھا جاتا ہے ان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خوبیاں ہیں۔ مثلاً یہ کہ کسی سے بدی نہ کرو، شراب نہ پیئو، بھائیوں سے محبت کرو، مخلوق سے نرمی کے ساتھ پیش آؤ، صدقہ دو۔ پس جب ان مذاہب میں بھی ایسی تعلیم پائی جاتی ہے تو جن مذاہب کو متمدن لوگ مانتے ہیں ان کے متعلق یہ کہنا کہ ان میں کوئی خوبی نہیں اس سے بڑھ کر اور کیا نادانی ہوسکتی ہے۔
پس کسی مذہب کی صداقت پر غور کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر ایک مذہب میں کچھ نہ کچھ خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ہاں دیکھنا یہ چاہیئے کہ سب سے زیادہ خوبیاں کون سے مذہب میں پائی جاتی ہیں۔ بعض مذاہب والے کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں لکھا ہے کہ کسی پر ظُلم نہ کرو۔ اس لئے ہمارا مذہب سچا ہے۔ ہم کہتے ہیں کوئی ایسا مذہب تو دکھاؤ جس نے کہا ہو کہ ظُلم کرو۔ اسی طرح بعض مذاہب والے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں لکھا ہے لوگوں سے محبت کرو۔ ہم کہتے ہیں یہ خوبی ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ کون سا مذہب ہے جس میں لکھا ہے کہ لوگوں سے عداوت کرو۔ اگر کوئی نہیں تو پھر کس طرح مان لیں کہ صرف تمہارا ہی مذہب سچا ہے۔ پھر کوئی کہے کہ ہمارے مذہب میں لکھا ہے کہ صدقہ کرو اس سے ثابت ہوا کہ ہمارا مذہب سچا ہے۔ ہم کہیں گے کہ وہ کون سا مذہب ہے جو کہتا ہے کہ کبھی صدقہ نہ کرو۔ سارے کے سارے مذاہب ایسے ہیں جو یہی تعلیم دیتے ہیں پھر صرف تمہارے مذہب کو کیونکر سچا مان لیا جائے۔
کسی مذہب کی سچائی کس طرح ثابت ہوسکتی ہے؟
کسی مذہب کے سچا ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں چند اخلاقی باتیں دکھا دی جائیں کیونکہ اس لحاظ سے تو تمام کے تمام مذاہب قریباً یکساں ہیں۔ پس اگر کسی مذہب کی سچائی ثابت ہوسکتی ہے تو اس طرح کہ اس میں ایسی تعلیم دی گئی ہو جس سے خدا تعالیٰ تک انسان پہنچ سکتا ہو اور خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہو اور یہ تعلیم اپنی تفصیلات میں بھی صحیح اور درست ہو۔ یوں تو بعض مذاہب ایسے ہیں کہ وہ اُصول کے رنگ میں اچھی تعلیم کے ساتھ متفق ہیں لیکن ان کی فروعات اور تفصیلات میں جا کر بڑا فرق پڑ جاتا ہے اور ان کی تعلیم صحیح اور درست نہیں ثابت ہوسکتی۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭