بندے کو سزا و جزا دینےکا اللہ تعالیٰ کا کیا فائدہ ہے؟
سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ اگر ہم اچھے کام کریں گے تو جنت کا وعدہ ہے اور اگر بُرے کام کریں گے تو جہنم میں جانا پڑے گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا کیا فائدہ ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 4؍فروری 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضورانورنے فرمایا:
جواب: بنیادی طور پر یہ سوال ہی درست نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کی ہر گز یہ تعلیم نہیں کہ انسان جنت کی لالچ سے نیکیاں بجالائے یا جہنم کے خوف سے بُرائیوں سے بچے۔ ایسا ایمان جو کسی لالچ یا کسی خوف سے ہو وہ کمزور ایمان ہوتا ہے۔ مخلوق کا اپنے خالق سے ایسا مضبوط تعلق ہونا چاہیے جو بہشت کی طمع یا دوزخ کے خوف سے پاک ہو۔ بلکہ اگر فرض کر لیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی انسان اپنے رب کی عبادت میں، اس کی محبت اور اطاعت میں ذرہ بھر بھی فرق نہ آنے دے۔ اسی لیے قرآن وحدیث میں خالق اور مخلوق کے تعلق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو اختیار کر کے اس کا حقیقی عبد بنے اور اس کے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول پیش نظر ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس مضمون کو کئی جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ہمارابہشت ہمارا خدا ہےہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 21)
پس اللہ اور بندے کا تعلق، عاشق اور معشوق والا تعلق ہے۔ کوئی عاشق اپنے معشوق سے یہ نہیں کہتا کہ میں تجھ پر اس لیے عاشق ہوں کہ تو مجھے اتنا روپیہ یا فلاں فلاں شے دےدے۔ ہر گز نہیں۔ اس کا عشق تو ہر قسم کے طمع اور لالچ سے پاک ہوتا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان باتوں سے اللہ تعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ ہر قسم کے فائدہ یا نقصان سے پاک ذات ہے۔ اس نے انسان کو یہ تعلیم انسان ہی کے فائدہ کےلیے دی ہے۔ اسی لیے وہ فرماتا ہے کہ ’’جو شخص شکر کرتا ہے اس کے شکر کا فائدہ اسی کی جان کو پہنچتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو یقیناً اللہ بے نیاز ہے (اور) بہت صاحب تعریف ہے۔‘‘
(سورۂ لقمان: 13)
یہ سوال ایسا ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ ایک ماں کے اپنے بچےکو دودھ پلانے اور بچہ کے بیمار ہونے پر اسے کڑوی دوائی پلانے میں اس ماں کا کیا فائدہ ہے؟ یا ایک استاد کے پڑھائی کرنے والے شاگرد کوپاس کرنے اور پڑھائی نہ کرنے والے شاگرد کو فیل کرنے میں اس استاد کا کیا فائدہ ہے؟
پس جس طرح ان امور میں ماں اور استاد کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں بلکہ اس بچہ اور شاگرد کا فائدہ اور نقصان ہے اسی طرح اللہ اور بندہ کے معاملہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں بلکہ الٰہی احکامات کی بجا آوری میں انسان کا فائدہ اور ان احکامات کی حکم عدولی میں انسان ہی کا نقصان ہے۔