کیاموجودہ زمانے میں رجم کی سزا کانفاذکیا جاسکتا ہے؟
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں حال ہی میں کسی ملک میں رجم کی سزا کے نفاذ کا ذکر کر کے دریافت کیا ہے کہ کیا اس زمانہ میں بھی رجم کی سزا کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍مارچ 2019ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:اسلام کی تعلیمات جس میں سزائیں بھی شامل ہیں، کسی زمانہ یا ملک کے ساتھ مختص نہیں بلکہ عالمگیر اور دائمی ہیں۔ لیکن اسلامی سزاؤں کے بارے میں یہ بات ہمیشہ مدنظر رہنی چاہیے کہ ان کے عموماً دو پہلو ہیں ایک انتہائی سزا اور ایک نسبتاً کم سزا اور ان سزاؤں کا بنیادی مقصد برائی کی روک تھام اور دوسروں کےلیے عبرت کا سامان کرنا ہے۔
پس اگر زنا فریقین کی باہمی رضامندی سے ہو اور وہ اسلامی طریقۂ شہادت کے ساتھ ثابت ہو جائے تو فریقین کو سو کوڑوں کی سزا کا حکم ہے۔ لیکن جس زنا میں زبردستی کی جائے اور اس میں نہایت وحشیانہ مظالم کا جذبہ پایا جاتا ہو۔ یا کوئی زانی چھوٹے بچوں کو اپنے ظلموں کا نشانہ بناتے ہوئےاس گھناؤنی حرکت کا مرتکب ہوا ہو تو ایسے زانی کی سزا صرف سوکوڑے تو نہیں ہو سکتی۔ ایسے زانی کو پھر قرآن کریم کی سورۃ المائدہ آیت 34 اور سورۃ الاحزاب کی آیت 61تا 63 میں بیان تعلیم کی رو سے قتل اور سنگساری جیسی انتہائی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ لیکن اس سزا کا فیصلہ کرنے کا اختیار حکومت وقت کودیا گیا ہے اور اس تعلیم کے ذریعہ عمومی طور پر حکومت وقت کےلیےایک راستہ کھول دیا گیا۔