اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتابوں میں Complicated باتیں کیوں بیان کی ہیں اور سب کچھ آسان اور واضح انداز میں کیوں نہیں بتا دیا؟
سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتابوں میں Complicated باتیں کیوں بیان کی ہیں اور سب کچھ آسان اور واضح انداز میں کیوں نہیں بتا دیا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ بعد میں اختلافات ہونے ہیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 4؍فروری 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اصل میں اعلیٰ درجے کے ایمان کےلیے آزمائش شرط ہوتی ہے۔ اسی لیے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں ہدایت پانے والے اور کامیابی حاصل کرنے والے متقیوں کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ پس ایمان ہمیشہ اسی صورت میں مفید ہوتا ہے جب اس میں کوئی اخفاکا پہلو ہو۔ تا کہ مومن اور غیر مومن کا فرق واضح ہو سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اخفا کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’پیشگوئی میں کسی قدر اخفاء اور متشابہات کا ہونا بھی ضروری ہے اور یہی ہمیشہ سے سنت الٰہی ہے…اگر آنحضرتﷺ کے متعلق جو پیشگوئیاں تورات اور انجیل میں ہیں وہ نہایت ظاہر الفاظ میں ہوتیں …تو پھر یہودیوں کو آپ کے ماننے سے کوئی انکار نہ ہو سکتا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ ان میں متقی کون ہے جو صداقت کو اس کے نشانات سے دیکھ کر پہچانتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد نہم صفحہ 283، ایڈیشن 1984ء)