نفس اور روح کی وضاحت
سوال: ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ کیا نفس اور روح ایک ہی چیز ہے؟ نیز خطبہ عید کے حوالے سے دارقطنی میں مندرج ایک حدیث کہ حضورﷺ نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے، جو چاہے سننے کےلیے بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے چلا جائے، تحریر کر کے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ حدیث درست ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 20؍اکتوبر 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات تحریر فرمائے:
جواب: قرآن کریم میں روح اور نفس کے الفاظ مختلف جگہوں پر مختلف معانی میں آئے ہیں۔ روح کا لفظ کلام الٰہی، فرشتوں، حضرت جبرائیل، انبیاء اور اس روح کے معانی میں بیان ہوا ہے جو بحکم الٰہی ایک خاص وقت پر انسانی قالب میں نمودار ہوتی ہے۔ جبکہ نفس کا لفظ جان، سانس، شخص، ذی روح چیز، دل، ہستی اور شعور وغیرہ کےلیے استعمال ہوا ہے۔
لغوی اعتبار سے روح کا لفظ اس چیز کےلیے بولا جاتاہے جس کے ذریعہ نفوس زندہ رہتے ہیں۔ یعنی زندگی۔ اسی طرح روح کا لفظ پھونک، وحی و الہام، جبرائیل، امر نبوت، خدا تعالیٰ کے فیصلہ اور حکم کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ نیز جسم کے مقابل پر ایک چیز جو حیوان کو باقی چیزوں سے ممتاز کرتی اور انسان کو باقی حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے اورجو انسان کو با خدا بنا دیتی ہےاسے بھی روح کہا جاتا ہے۔
جبکہ نفس کا لفظ لغوی اعتبار سے جسم، شخص، روح، جسم اور روح کا مجموعہ انسان، عظمت، عزت، ہمت، ارادہ، ، خود وہی چیز اور رائے وغیرہ کےلیے بولا جاتا ہے۔
قرآ ن کریم اور احادیث کے مطالعہ سے نفس اور روح میں ایک فرق یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نفس پر قابو پانے، اس کی اصلاح کرنے اور اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ایک حد تک قدرت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے نفس کی تین حالتیں ( امارہ، لوامہ اور مطمئنہ) بیان فرمائی ہیں۔ نیز حدیث میں آتا ہے کہ بہادر وہ نہیں جو کُشتی میں مدمقابل کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ جبکہ روح کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے اور انسان کو اس پر قدرت نہیں دی۔ جیسا کہ فرمایا:
قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل: 86)
یعنی تو کہہ دے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اسی طرح اسلام نے روح کے بارہ میں سوالات کرنے کو بھی پسند نہیں فرمایا۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عربی تصنیف نور الحق میں سورت النبا کی آیت
یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا۔ (آیت39)
کی تفسیر میں روح کے معانی بیان فرماتے ہوئے ساتھ نفس کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، نیز حضور علیہ السلام کے اس ارشاد سے دونوں کا فرق بھی بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس آیت میں لفظ روح سے مراد رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کی جماعت مراد ہے جن پر روح القدس ڈالا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہم کلام ہوتے ہیں …اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو روح کے لفظ سے یاد کیا یعنی ایسے لفظ سے جو انقطاع من الجسم پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اس لیے کیا کہ تا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ مطہر لوگ اپنی دنیوی زندگی میں اپنے تمام قوتوں کی رو سے مرضات الٰہی میں فنا ہو گئے تھے اور اپنے نفسوں سے ایسے باہر آ گئے تھے جیسے کہ روح بدن سے باہر آتی ہے اور نہ ان کا نفس اور نہ اس نفس کی خواہشیں باقی رہی تھیں اور وہ روح القدس کے بلائے بولتے تھے نہ اپنی خواہش سے اور گویا وہ روح القدس ہی ہو گئے تھے جس کے ساتھ نفس کی آمیزش نہیں۔ پھر جان کہ انبیاء ایک ہی جان کی طرح ہیں …وہ اپنے نفس اور اپنے جنبش اور اپنے سکون اور اپنی خواہشوں اور اپنے جذبات سے بکلی فنا ہو گئے اور ان میں بجز روح القدس کے کچھ باقی نہ رہا اور سب چیزوں سے توڑ کے اور قطع تعلق کر کے خدا کو جا ملےپس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس آیت میں ان کے تجرد اور تقدس کے مقام کو ظاہر کرے اور بیان کرے کہ وہ جسم اور نفس کے میلوں سے کیسے دور ہیں پس ان کا نام اس نے روح یعنی روح القدس رکھا تا کہ اس لفظ سے ان کی شان کی بزرگی اور ان کے دل کی پاکیزگی کھل جائے اور وہ عنقریب قیامت کو اس لقب سے پکارے جائیں گے تا کہ خدا تعالیٰ لوگوں پر ان کا مقام انقطاع ظاہر کرے اور تا کہ خبیثوں اور طیبوں میں فرق کر کے دکھلا دے اور بخدا یہی بات حق ہے۔ ‘‘(نور الحق حصہ اوّل صفحہ 73، 74 ایڈیشن اوّل)
جہاں تک خطبہ عید کے سننے سے رخصت پر مبنی حدیث کا تعلق ہے تویہ حدیث جسے آپ نے دارقطنی کے حوالے سے اپنے خط میں درج کیا ہے، سنن ابی داؤد میں بھی روایت ہوئی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ حضورﷺ نے خطبہ عید کے سننے کی اس طرح تاکید نہیں فرمائی جس طرح خطبہ جمعہ میں حاضر ہونے اور اسے مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کی تاکید فرمائی ہے۔ اسی بنا پر علماء و فقہاء نے خطبہ عید کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ حضورﷺ نے عید کےلیے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قرار دیا ہے اور اس کی یہاں تک تاکید فرمائی کہ ایسی خاتون جس کے پاس اپنی اوڑھنی نہ ہو وہ بھی کسی بہن سے عاریۃً اوڑھنی لے کر عید کےلیے جائے۔ اور ایام حیض والی خواتین کو بھی عید پر جانے کی اس ہدایت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں۔