کیا سورۃ الحاقہ کی ایک آیت میں لفظ ’’اُذُنٌ‘‘سے مراد کان کی بجائے ریکارڈنگ مشین لی جا سکتی ہے؟
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں سورۃ الحاقہ کی ایک آیت کے لفظ ’’اُذُنٌ‘‘کے بارے میں تحریر کر کے راہنمائی چاہی کہ کیااس سے مراد ریکارڈنگ مشین ہے کیونکہ کان تو کسی بات کو محفوظ نہیں رکھتے بلکہ دل و دماغ محفوظ رکھتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10؍جنوری2021ءمیں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی:
جواب: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر میں سورۃ الحاقہ کی اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے’’تا کہ اس (واقعہ) کو تمہارے لئے ایک نشان قرار دیں اور سننے والے کان سنیں (اور دل اسے یاد رکھیں )‘‘
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس تشریحی ترجمے میں اس بات کو واضح فرما دیا ہے کہ کانوں کا کام صرف سننا ہےیاد رکھنے کا کام یا دل کرتا ہے یا دماغ کرتا ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرۃ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ایک جگہ حضورؓ کان اور آنکھ کے فنکشن کی وضاحت میں ایک نہایت لطیف نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب ہم کوئی آواز سنتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ یہ آواز باہر سے ہو کر آئی ہے۔ کیونکہ کان کا پردہ قدرتی طور پر اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہوا کا زور کان کے پردہ پر پڑتا ہے تو اس سے ایک حرکت پیدا ہوتی ہے۔ ارتعاش کی لہریں یعنی وائی بریشنز(VIBRATIONS)پیدا ہوتی ہیں اور یہی وائی بریشنز دماغ میں جاتی ہیں اور دماغ ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے۔ یہی وائی بریشن ہیں جو ریڈیو کے والوز میں پڑتی ہیں اور ریڈیو ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے۔ انسانی بناوٹ میں ریڈیو کان ہے اور اعصاب دماغی والوز ہیں۔ ان کے ذریعہ جو حرکات دماغ میں منتقل ہوتی ہیں وہ وہاں سے آواز بن کر سنائی دیتی ہیں۔ …اور جو کچھ تم دیکھتے ہو وہ بھی حرکات ہیں، جن کو آنکھیں شکل میں تبدیل کر ڈالتی ہیں۔ جو چیز تمہارے سامنے گڑی ہوتی ہے وہ تصویر نہیں ہوتی بلکہ وہ فیچرز (FEATURES) یعنی نقش ہوتے ہیں جو آنکھوں کے ذریعہ دماغ میں جاتے ہیں اور وہ انہیں تصویر میں بدل ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل ریڈیو سیٹ کے ذریعہ تصویریں بھی باہر جانے لگ پڑی ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 403)
پس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اس لطیف تفسیر کی روشنی میں میرے نزدیک سورۃ الحاقہ کی مذکورہ بالا آیت میں ایک قابل ذکر نشان کے یاد رکھنے کو کان کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ کان کے ذریعہ ہی آواز دل و دماغ تک پہنچ کر محفوظ ہوتی ہے۔ باقی اس آیت قرآنی میں لفظ کان سے ریکارڈنگ مشین مراد لینا آپ کی ایک ذوقی تشریح ہے، جو اگر قرآن و سنت اور احادیث کے خلاف نہیں تو اس تشریح میں کوئی حرج کی بات نہیں۔