عورت کی آدھی گواہی تصور کر کے حضرت عائشہؓ سے مروی احادیث کا کیا مقام ہے؟
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے جنگ جمل میں شہید ہونے والوں کے مقام کے بارے میں، عورت کی آدھی گواہی تصور کر کے حضرت عائشہؓ سے مروی احادیث کے مقام کے بارے میں نیز مخنث کی وراثت اور گواہی کے بارے میں مسائل دریافت کیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍ جنوری 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب: جنگ جمل کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی ساری کارروائی کے پیچھے ان مفسدوں اور شریر لوگوں کا ہاتھ تھا جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو قتل کرنے کے بعد مدینہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور یہ جنگ بھی انہی مفسدوں نے دو مسلمان گروہوں میں غلط فہمیاں پیدا کر کے اور کئی شرارتوں کو خود شروع کر کے بھڑکائی تھی۔ اُس زمانہ کی تاریخ اور ہمارے اِس زمانہ کے درمیان صدیوں کے پردے، بہت سی مشتبہ باتیں اور روایتیں حائل ہیں نیز کئی قسم کے شبہات جان بوجھ کر بھی اس میں داخل کیے گئے ہیں۔
لیکن دائمی حقیقت وہی ہے جسے قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ رسولﷺ اور حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ جیسے قابل رشک الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اور بعد میں آنے والوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں یہ دعا کرتے ہیں کہ
رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا۔
یعنی اے ہمارے ربّ! ہمیں بخش دے اور ہمارے اُن بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لائے کوئی کینہ نہ رہنے دے۔
پس ان شواہد کی موجودگی میں ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس جنگ میں منافقین کے شر اور دھوکے کا شکار ہوکر دونوں طرف سے شہید ہونے والے یقیناً معصوم لوگ تھے۔ جن کے بارے میں ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ ہم حَکم بن کر ان کے بارے میں کوئی فتویٰ جاری کریں کہ ان کا کیا مقام ہے۔
عورت کی گواہی کے متعلق یہ تصور درست نہیں کہ اس کی گواہی آدھی ہے۔ ایسے امور جن کا روز مرہ کےمعاملات میں عورتوں سے تعلق نہیں ہوتا اگر ان میں مجبوراًعورت کی گواہی لینی پڑجائے تو قرآن کریم نے ہدایت فرمائی ہے کہ گواہی دینے والی عورت کے ساتھ ایک دوسری عورت کو بھی شامل کر لیا جائے (چونکہ ان معاملات کا تعلق عورتوں سے نہیں ہے لہٰذا) اگر گواہی دینے والی عورت کسی وجہ سے بات بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد کروا دے۔ ورنہ گواہی اس اکیلی عورت ہی کی شمار ہو گی۔
اور جو معاملات خاص طور پر عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں ایک اکیلی عورت کی گواہی پر حضورﷺ نے پورے معاملہ کا فیصلہ فرمایا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں یہ روایت مروی ہے کہ حضرت عقبہ بن حارثؓ نے ایک خاتون سے شادی کی۔ اس پر ایک عام عورت نے آکر کہا کہ اس نے اس شادی میں بندھنے والے میاں بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ خاوند کے اس عورت سے دودھ پینے سے لاعلمی کے اظہار کے باوجود حضورﷺ نے ان میاں بیوی میں علیحدگی کروا دی۔
جہاں تک مخنث کے حصہ ٔوراثت کا تعلق ہے تو جس طرف کی علامتیں اس میں غالب ہوں گی، اسی کے مطابق اسے وراثت میں سے حصہ ملے گا۔ اگر اس میں مرد کی علامتیں غالب ہیں تو مردوں والا حصہ اسےملے گا اور اگر اس میں عورت کی علامات غالب ہوں تو اسے عورت تصور کر کے اس کے مطابق حصہ دیا جائےگا۔ اگر دونوں قسم کی علامتیں برابر ہوں تو حضرت امام ابوحنیفہؒ کا مسلک ہے کہ دونوں حصوں میں سے چھوٹا حصہ اسے ملے گا۔