حضرت مسیح موعود علیہ السلام کالہام ’’پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہو گی‘‘کے متعلق حضور انور کا ارشاد
سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ بنگلہ دیش کے مربیان کی Virtualملاقات مورخہ 08؍نومبر 2020ء میں ایک مربی صاحب نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک الہام ہوا تھا کہ ’’پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہو گی‘‘اس بارے میں ہم حضور انور کی زبان مبارک سے کچھ سننا چاہتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارے میں درج ذیل ارشاد فرمایا:
جواب: اب ایک سو تیس سال ہوگئے دلجوئی کرتے کرتے، اب اہل بنگالہ کوئی کام کریں گے تو پھر دلجوئی ہو گی۔ اب کام کریں اور کام کر کے دکھائیں۔ اپنے اندر تقویٰ کا معیار بلند کریں، اپنے اندر خدمت دین کے شوق کا معیار بلند کریں اور پھر اسے عملی جامہ پہنائیں۔ اور ملک میں ایک انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
جتنی مخالفت ہوتی ہے، مخالفت تو ایک کھاد اور بیج کا کام دے رہی ہے، جماعت کا اتنا ہی تعارف ہو رہا ہے۔ جتنے احمدیوں کو مار پڑتی ہے اتنا ہی تعارف ہو رہا ہے۔ پاکستان میں احمدیوں کو مار پڑ رہی ہے تو اتنا باہر کی دنیا میں جماعت کا تعارف ہو رہا ہے، بلکہ اب ملک میں بھی ہو رہا ہے۔ پہلے تو پاکستان میں صرف شہروں میں جماعت کی مخالفت ہوتی تھی اور شہر والوں کو پتہ تھا، اب دیہاتوں میں اور چھوٹی چھوٹی جگہوں پربھی مخالفت ہوتی ہے، ہر جگہ پتہ لگ گیا ہے۔ اس تعارف ہونے کی وجہ سے باہر کی دنیا کو بھی پتہ لگ رہا ہے اور اندر بھی بعض نیک فطرت اور سعید فطرت لوگ ہیں، وہاں ان کو احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ہم تحقیق کریں کہ جماعت احمدیہ کیا چیز ہے؟اسلام کے بارے میں ان کے کیا خیالات ہیں ؟ اسلام کو یہ کیا سمجھتےہیں ؟ آنحضرتﷺ کا مقام ان کی نظر میں کیا ہے؟خدا تعالیٰ کے کلام کو یہ کس طرح مانتے ہیں ؟ جب وہ تحقیق کرتے ہیں تو پھر اس تجسس کی وجہ سےان کو پھر جماعت کے قریب آنے کا موقع ملتا ہے۔
تو یہ جو مخالفت ہےیہ تو آپ کےلیے کھاد کا کام دے رہی ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اور جب آپ قربانیاں دیں گے تو اس کے بعد دلجوئی بھی آپ کی کی جائے گی۔ اور اس کےلیے اللہ کے فضل سے آپ نے قربانیاں دی ہیں۔ مسجدوں میں بم بھی پھٹے، ہمارے مربی کی ٹانگ بھی ضائع ہوئی، زخمی بھی ہوئے، شہید بھی ہوئے۔ تو وقتاً فوقتاً ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اور میں اللہ تعالیٰ سے حالات کی بہتری کےلیے دعا بھی کرتا رہتا ہوں۔ فکر بھی رہتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دلجوئی کا مقام حاصل کرنے کےلیے آپ کو بھی کوشش کرنی پڑے گی۔
اس لیے ہر مربی اور معلم یہ عہد کرےکہ اس نے ڈرتے ڈرتے دن گزر کرنا ہے اور تقویٰ سے رات بسر کرنی ہے۔ اور احمدیت کا پیغام پہنچانے کی جو ذمہ داری اس پرڈالی گئی ہے، اس کوایک خاص ولولہ اور جوش سے ملک کے کونے کونے میں پھیلانا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے عملی نمونے دکھانے ہیں، اپنے اندر قناعت پیدا کرنی ہے۔ جو بھی تھوڑا بہت گزارہ ملتا ہے، اور جو بھی تھوڑی بہت سہولیات جماعت کی طرف سے ملتی ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے۔ اور ان کو بہت سمجھنا ہے۔ اور اپنی قربانی کے معیار کو بلند سے بلند تر کرتے چلے جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں بڑھنا ہے۔ اپنی راتوں کو زندہ کرنا ہے۔ ہر مربی اور معلم کا کام ہے کہ کم از کم ایک گھنٹہ تہجد کی نمازپڑھے۔ اپنے جائزے لیں کہ کیا آپ لوگ ایک گھنٹہ تہجد پڑھتے ہیں ؟کیا آپ لوگ رات کو اٹھ کے ایک گھنٹہ نفل میں اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کے دعا کرتے ہیں ؟ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرے اور جماعت کی ترقی کے سامان پیدا فرمائے۔
پھر قرآن کریم پہ تدبر اور غور کرنے کی عادت ڈالیں۔ صرف چند ایک بنے بنائے مضمون ہیں، ان کو پڑھنے سے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اپنے علم کو بڑھائیں، اور وسیع تر کرنے کی کوشش کریں۔ یہی چیز ہےجو آپ کےلیے آگے ان شاء اللہ کام بھی آئے گی اور آپ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئےدوسرے علماء سے بحث کرنے کے بھی قابل ہوں گے اور عوام الناس کو بھی بتانےکے قابل ہوں گے۔
ظاہری فقہ اور حدیث اور قرآن کی بعض تفسیریں تو بعض غیر احمدی علماء نے آپ سے زیادہ پڑھی ہوں گی اور وہ پڑھ کے اس کو بیان بھی کر سکتے ہیں لیکن آپ نے وہ حقیقت بیان کرنی ہے جو اس زمانہ کے حکم ا ور عدل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتائیں اور سمجھائی ہیں۔ اوروہی فقہ ہے جو ہم نے جاری کرنا ہے۔ وہی قرآن کریم کی تفسیر ہے، وہی حدیث کی تشریح ہے جو ہم نے دنیا کوبتانی ہے۔ اور اس کےلیے آپ کو محنت کرنی پڑے گی، اپنے علم میں اضافہ کرنا پڑے گا اور پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی ہو گی۔ اپنے علم میں اضافہ کےلیے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، اپنی روحانی ترقی کےلیے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ اور اس ملک میں جماعت احمدیہ کے پیغام کو پہنچانے کےلیے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ اور مخالفت کے دور ہونے کےلیے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ اپنے ملک کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کےلیے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ تو بہت ساری دعائیں ہیں جوانسان نے کرنی ہوتی ہیں، وہ آپ کریں۔ ایک جوش اور جذبے اور تڑپ سے یہ دعائیں کریں گے تو پھر دیکھیں کہ کس طرح ایک انقلاب آپ بنگلہ دیش میں لے آتے ہیں۔ اور پھر جب آپ پر تھوڑی بہت سختیاں بھی آئیں گی تو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان لوگوں نے سختیاں برداشت کی ہیں اب ان کی دلجوئی بھی کرو۔ تب یہ دلجوئی ہو گی۔