ایسی طلاق جس میں رجوع ہوسکے صرف دو مرتبہ ہو سکتی ہے
سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر میاں بیوی میں ان کی شادی کے عرصے میں تین دفعہ طلاق ہو جائے تو تیسری طلاق کے بعد صلح کی کیا صورت ہو گی؟اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 22؍جولائی 2019ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انورنے فرمایا:
جواب: قرآن کریم کا حکم
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن
بہت واضح ہے، جس کا مطلب ہے کہ ایسی طلاق جس میں رجوع ہو سکے، صرف دو مرتبہ ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ۔
یعنی ایسی دو طلاقوں کے بعد اگر خاوند اپنی بیوی کو تیسری طلاق دےدے تو اس تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کا اس بیوی سے صلح کرنے کا حق باقی نہیں رہتا۔ نہ عرصۂ عدت میں بغیر نکاح کے اور نہ ہی عدت کے ختم ہونے پر نکاح کے ساتھ وہ اس کے ساتھ خانہ آبادی کر سکتا ہے۔ جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح نہ کرے اور وہ خاوند اس عورت کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے طلاق دےدے۔
پس آپ کی بیان کردہ صورت میں اب ان میاں بیوی کے درمیان صلح کی کوئی گنجائش نہیں، جب تک کہ ان کے درمیان
حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ
والی شرط پوری نہ ہو۔