Eyebrow Pluckingاور Body Waxingکے بارہ میں اسلامی تعلیم
سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ ایک مربی صاحب نے Eyebrow Pluckکرنے کو ناجائز اور زنا کے برابر قرار دیا ہے۔ اس بارے میں نیز Body Wax کرنے کے بارے میں راہ نمائی کی درخواست ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 16؍جنوری 2021ءمیں اس بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں:
جواب: احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن کے حصول کی خاطرجسموں کو گودنے والیوں، گدھوانے والیوں، چہرے کے بال نوچنے والیوں، سامنے کے دانتوں میں خلا پیدا کرنے والیوں اور بالوں میں پیوند لگانے اور لگوانے والیوں پر لعنت کی ہے جو خدا کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب اللباس)
اسلام کا ہر حکم اپنے اندر کوئی نہ کوئی حکمت رکھتا ہے۔ اسی طرح بعض اسلامی احکامات کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے، اگر اس پس منظر سے ہٹ کر ان احکامات کو دیکھا جائے تو حکم کی شکل بدل جاتی ہے۔ آنحضورﷺ کی جب بعثت ہوئی تو دنیا میں اور خاص طور پر جزیرۂ عرب میں جہاں مختلف قسم کے شرک کا زہر ہر طرف پھیلا ہوا تھا وہاں مختلف قسم کی بے راہ رویوں نے بھی انسانیت کو اپنے پنجہ میں جکڑا ہوا تھا اور عورتیں اور مرد مختلف قسم کی مشرکانہ رسوم اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا تھے۔
مذکورہ بالا امور کی ممانعت پر مبنی احادیث میں دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے۔ ایک یہ کہ ان کاموں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی مقصود ہو اور دوسرا صرف حسن کا حصول پیش نظر ہو۔
ان دو نوں باتوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پہلی بات یعنی خدا تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی جہاں معاشرتی برائیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے وہاں مشرکانہ افعال کی بھی عکاسی کرتی ہےچنانچہ بالوں میں لمبی گوتیں لگا کر سر پر بالوں کی پگڑی بنا کر اسے بزرگی کی علامت سمجھنا، کسی پیر اور گرو کی نذر کے طور پر بالوں کی لٹیں بنا نا یا بودی رکھ لینا، چار حصوں میں بال کر کے درمیان سے استرے سے منڈوا دینا اور اسے بچوں کےلیے باعث برکت سمجھنا۔ اسی طرح برکت کےلیے جسم، چہرہ اور بازووغیرہ پر کسی دیوی، بت یا جانور کی شکل گندھوانا۔ یہ سب مشرکانہ طریق تھے اور ان کے پیچھے زمانہ جاہلیت میں مذہبی توہمات کا رفرما تھے۔
دوسری بات یعنی حسن کےحصول کی خاطر ایسا کرنا، بعض اعتبار سے معاشرتی بے راہ روی اور فحاشی کو ظاہر کرتی ہے۔ جائز حدود میں رہتے ہوئے انسان کااپنی خوبصورتی کےلیے کوئی جائز طریق اختیار کرنا منع نہیں۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھے اچھا لگتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے کپڑے اچھے ہوں، میری جوتی اچھی ہو، تو کیا یہ تکبر میں شامل ہے؟ اس کے جواب میں حضورﷺ نے فرمایا یہ تکبر نہیں، تکبر تو حق کا انکار کرنے اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم کتا ب الایمان باب تَحْرِيمِ الْكِبْرِ وَبَيَانِهِ)
اسی طرح یہ امر بھی ثابت ہے کہ اُس زمانے میں بھی بچیوں کی جب شادی ہوتی تھی تو انہیں بھی اس زمانے کے طریق کے مطابق بناؤ سنگھار کر کے تیار کیا جاتا اور خوبصورت بنایا جاتا تھا۔
پس جس حسن کے حصول پر حضورﷺ نے لعنت کا انذار فرمایاہے، اس کا یقیناً کچھ اور مطلب ہے۔ چنانچہ جب ہم اس حوالے سے ان احادیث پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ ان باتوں کی ممانعت کے ساتھ حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ بنی اسرائیل اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی عورتوں نے اس قسم کے کام شروع کیے۔ (صحیح بخاری کتاب اللباس) اور پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضورﷺ کی بعثت کے وقت یہود میں فحاشی عام تھی اور اس وقت مدینہ میں خصوصاً یہود کے علاقے میں فحاشی کے کئی اڈے موجود تھے، جن میں ملوث خواتین، مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی خاطر بناؤ سنگھار کےلیے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی تھیں، اس لیے رسول خداﷺ نے ان کاموں کی شناعت بیان فرما کر مومن عورتوں کو اس وقت اس سے منع فرما دیا۔
پس ان چیزوں کی ممانعت میں بظاہر یہ حکمت نظر آتی ہے کہ ان کے نتیجے میں اگر انسان کی جسمانی وضع قطع میں اس طرح کی مصنوعی تبدیلی واقع ہو جائے کہ مرد و عورت کی تمیز جو خدا تعالیٰ نے انسانوں میں پیدا کی ہے وہ ختم ہو جائے، یا اس قسم کے فعل سے شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے اس کی طرف میلان پیدا ہونے کا اندیشہ ہو یا ان امور کو اس لیے بجا لایا جائے کہ اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پیدا کیا جائے تو یہ سب افعال ناجائز اور قابل مواخذہ قرار پائیں گے۔
حضورﷺ نےان برائیوں کے اس پس منظر میں جہاں اُس وقت مومن عورتوں کو ان کاموں سے منع فرمایا وہاں تکلیف یا بیماری کی بنا پر جائز حد تک اس کا استثنابھی فرمایا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ النَّامِصَةِ وَالْوَاشِرَةِ وَالْوَاصِلَةِ وَالْوَاشِمَةِ إِلَّا مِنْ دَاءٍ۔(مسند احمد بن حنبل)یعنی میں نے حضورﷺ کو عورتوں کو موچنے سے بال نوچنے، دانتوں کو باریک کرنے، مصنوعی بال لگوانے اور جسم کو گودنے سے منع فرماتے ہوئے سنا۔ ہاں کوئی بیماری ہو تو اس کی اجازت ہے۔
اسلام نے اعمال کا دارو مدارنیتوں پر رکھا ہے۔ لہٰذا اس زمانے میں پردہ کے اسلامی حکم کی پابندی کے ساتھ اگر کوئی عورت جائز طریق پر اور جائز مقصد کی خاطر ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر ان افعال کے نتیجے میں کسی برائی کی طرف میلان پیدا ہویا کسی مشرکانہ رسم کا اظہار ہو یا اسلام کے کسی واضح حکم کی نافرمانی ہو، مثلاً اس زمانے میں بھی خواتین اپنی صفائی یا ویکسنگ وغیرہ کرواتے وقت اگر پردہ کا التزام نہ کریں اوردوسری خواتین کے سامنے ان کے ستر کی بے پردگی ہوتی ہو تو پھر یہ کام حضورﷺ کے اسی انذار کے تحت ہی شمار ہو گا۔ اور اس کی اجازت نہیں ہے۔
پھر اس ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے فتنہ اور فساد کو قتل سے بھی بڑا گناہ قرار دےکر فساد کو روکنے کا حکم دیا ہے۔ بعض ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ رشتے اس لیے ختم کر دیے گئے یا شادی کے بعد طلاقیں ہوئیں کہ مرد کو بعد میں پتا چلا کہ عورت کے چہرے پر بال ہیں۔ اگرچند بالوں کوصاف نہ کیا جائے یا کھنچوایا نہ جائے تو اس سے مزید گھروں کی بربادی ہو گی۔ ناپسندیدگیوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اور آنحضورﷺ کا اس حکم سے یہ مقصود بہرحال نہیں ہو سکتا کہ معاشرے میں ایسی صورت حال پیدا ہو کہ جس کے نتیجے میں گھروں میں فساد پھیلے۔ ایسے سخت الفاظ کہنے میں جو حکمت نظر آتی ہے وہ یہی ہے کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور یہ باتیں چونکہ دیوی، دیوتاؤں وغیرہ کی خاطر اختیار کی جاتی تھیں یا ان کے نتیجے میں فحاشی کو عام کیا جاتا تھا، اس لیے آپ نے سخت ترین الفاظ میں اس سے کراہت کا اظہار فرمایا ہے اور اس طرح مشرکانہ رسوم و عادات اور فحاشی کی بیخ کنی فرمائی ہے۔