اشیاء قسطوں میں فروخت کرنے کی صورت میں عام قیمت سے کچھ زیادہ لینا سود تو نہیں؟
سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ عام ضرورت کی اشیاءکی فروخت کے کاروبار میں اشیاءکی قیمت قسطوں میں ادا کرنے والوں سے عام قیمت سے کچھ زیادہ لینا سود تو نہیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 30؍مارچ 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: آپ اپنے کاروبار میں چیز خریدنے والوں کو اگر پہلے بتا دیں کہ نقد کی صورت میں اس چیز کی اتنی قیمت ہو گی اور اگر وہ اُسی چیز کی قیمت قسطوں میں ادا کریں گے تو انہیں اتنے پیسے زیادہ دینے پڑیں گےتو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ سود کے زمرے میں نہیں آتا۔ کیونکہ اس صورت میں آپ کو قسطوں میں چیزیں خریدنے والوں کا باقاعدہ حساب رکھنا پڑے گا اور ہو سکتا ہے کہ انہیں ان کی قسطوں کی ادائیگی کےلیے یاد دہانیاں بھی کروانی پڑیں، جس پر بہرحال آپ کا وقت صرف ہو گا اور دنیا وی کاموں میں وقت کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔ چنانچہ ملازمت پیشہ لوگ اپنے وقت ہی کی بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں۔