بچیوں کےبعض تربیتی امور کے متعلق ماؤں اور لجنہ اماء اللہ کو نصائح
سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ کینیڈا کی Virtual ملاقات مورخہ 16؍اگست 2020ء میں تربیت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ممبران عاملہ کو توجہ دلاتے ہوئے درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نےفرمایا:
جواب:ماؤں کے ذریعہ تربیت کریں کہ جو آجکل کی یہاں بچیاں پڑھ رہی ہیں ان کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ ہونے چاہئیں۔ اور ان کا یہاں جو باہرنکل کے، یونیورسٹیز میں جا کے، کالجز میں جا کے Exposure ہے اس کے ساتھ اگر مائیں پوری طرح تعلیم یافتہ نہیں ہیں تو پھر وہ آپ لوگوں سے مدد لیں۔ لیکن اس کے باوجود لڑکیوں کے ساتھ تعلق رکھیں۔ اور لڑکیوں کی تربیت یہ کریں کہ وہ جیسی مرضی تعلیم حاصل کریں لیکن جو دین کو دنیا پہ مقدم رکھنے کا عہد ہے، اس کو سامنے رکھیں کہ وہ کیا ہے؟صرف دنیا میں ہی نہ پڑ جائیں۔ یہاں ان کو یہ بھی Realizeکروانا چاہیے کہ یہاں آ کے اللہ تعالیٰ نے جو دنیاوی لحاظ سے فضل کیے ہیں ان دنیاوی فضلوں پر اللہ تعالیٰ کے شکرانے کا صحیح اظہار یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دین سے Attachہوا جائے۔ یہ اکثر لڑکوں میں بھی ہوتا ہے اس لیے پھر ماؤں کی تربیت اس لحاظ سے بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ پندرہ سال تک یا کم از کم تیرہ چودہ سال تک لڑکے بھی ماؤں ہی کے زیر اثر ہوتے ہیں (اس لیے مائیں لڑکوں کی بھی اس حوالے سے تربیت کریں )۔ پھر ماؤں کی تربیت کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ یہ جو مردوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے یہ بھی آپ لوگوں نے ہی کرنی ہے۔ مردوں میں بھی تربیت میں کمی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جیسا مرضی کام کرتے رہیں اور عورتیں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ان کی بھی ذمہ داری ہے۔ لیکن آپ لوگوں نے تربیت کے لحاظ سے اس چیلنج کو بھی لینا ہے کہ لڑکوں میں، چھوٹی عمر کے اطفال جو ہیں ان کی بھی تربیت ایسے کریں کہ جب وہ خدام میں شامل ہوں تو وہ جماعت سے Attach ہوں۔ اسی طرح بچیاں جب ناصرات سے لجنہ میں آئیں تو وہ جماعت سے Attach ہوں۔ یہاں کے ماحول کا جو اثر ہے، کیونکہ کھلی تعلیم دی جاتی ہےاور بعض کھلے سوال کیے جاتے ہیں۔ اس پر آپ لوگوں نے ان کو کھل کے جواب دینے ہیں۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ آپ ایک Survey کریں اور ایک سوالنامہ بنا کر بھیجیں۔ ہر مجلس میں جائے۔ اور لڑکیوں کو کہیں کہ بیشک اپنا نام نہ لکھو اور تمہارے ذہن میں کسی بھی قسم کے جو سوال دین کے بارے میں ہیں یا دنیا کے بارے میں ہیں اور دین اور دنیا کے فرق کے بارے میں ہیں یا کچھ شبہات ہیں، وہ بیشک ظاہر کر دو۔ پھر لجنہ کےLevel پر مختلف Forums پر ان کے جواب دینے کی کوشش کریں۔ ا ور یہاں مجھے بھیجیں۔ یہاں بھی ہم کوئی پروگرام بنا سکتے ہیں۔ ایم ٹی اے میں بھی اس کے جواب دے سکتے ہیں۔ پھر آپ کے وہاں ایم ٹی اے سٹوڈیو بن چکا ہے، وہاں آپ لوگ ایم ٹی اے کے ساتھ Coordinateکر کے ایک پروگرام بنا سکتے ہیں۔ اور لجنہ ایک پروگرام بنائے اور بغیر نام لیے ان سوالوں کے جواب دے کہ آجکل یہ یہ Issue اٹھتے ہیں یا یہ یہ سوالات دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہماری بعض بچیوں کے ذہن بھی Pollute ہو رہے ہیں۔ ان کے ذہنوں کو ہم نے کس طرح صاف کرنا ہے۔ تو اس طرح کے بعض سوال ہیں کہ آپ کھل کے ایم ٹی اے پر Discussکر سکتے ہیں اور بعض ہیں جو نہیں کر سکتے، ان کو Personal Level پر جا کے ان کے جواب دینے پڑیں گے۔ پھر بعض بغیر ناموں کے سوال آئیں گے تو ان کو انٹر نیٹ پر اس طرح رکھیں، کوئی ایسا Forum بنائیں جہاں تربیت کےلیے ایسے سوالوں کے جواب دیے جا سکیں۔ تو آجکل اس زمانہ میں یہ بہت بڑے چیلنجز ہیں جو میڈیا نے، لوگوں نے شبہات پیدا کرنے کےلیے ڈال دیے ہوئے ہیں۔ پھرSo- calledتعلیم کے نام پر اپنے آپ کو زیادہ ہی پڑھی لکھی سمجھ کے سمجھتی ہیں کہ شاید اسلام کی تعلیم بڑی Backwardsتعلیم ہے۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم سے زیادہ اس زمانہ میں کسی بھی مذہب کی کو ئی تعلیم ایسی نہیں ہےجو ماڈرن ہو اور جو زمانہ کے حساب سے اپنے آپ کو Adjustکرنے والی ہو۔