لڑکیاں سکول میں لڑکوں سے دوستی کیوں نہیں کر سکتیں؟
سوال: ایک سکول کی بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ اسلام میں عورت کو اپنے آپ کو ڈھانپنے کا حکم ہے لیکن ہم سکارف وغیرہ لے کر سر پر پردہ کیوں کرتے ہیں؟ لڑکیاں سکول میں لڑکوں سے دوستی کیوں نہیں کر سکتیں؟ اور کیا میں Halloween میں پری بن سکتی ہوں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 26؍جنوری 2021ء میں اس سوال کےجواب میں درج ذیل ارشاد فرمایا:
جواب: اسلام نے پردے کے بارے میں عورت اور مرد دونوں کو نہایت حکیمانہ تعلیم سے نوازا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ مومن مرد اور عورتیں دونوں اپنی نظریں نیچی رکھیں یعنی اپنی آنکھوں کو نامحرموں کو دیکھنے سے بچائیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردے میں رکھیں۔ اس کے بعد مومن عورتوں کو مزید تاکید فرمائی کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں اور اپنے پاؤں بھی اس طرح زمین پر نہ مارا کریں کہ جس سے ان کی زینت ظاہر ہو۔
اس مختصر لیکن نہایت جامع تعلیم میں پردے کے بارے میں ہر قسم کی تفصیل بیان فرما دی گئی ہے کہ ایک مومن عورت اپنی آنکھ، کان اور ستر کی جگہوں کی حفاظت کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھے کہ اس کا لباس نہ اتنا تنگ ہو کہ اس سے اس کےجسم کے اعضاء کی نمائش ہو اور نہ ہی اتنا ڈھیلا اور کھلا ہو کہ سینہ اور دوسری ستر کی جگہوں کی بے پردگی ہو رہی ہو۔
پاؤں زمین پر نہ مارنے کے حکم میں یہ بات سمجھا دی کہ ایک مومن عورت اس طرح کی اچھل کود سے بھی اجتناب کرے جس سے اس کی جسمانی ساخت کے اتار چڑھاؤ کا اظہار ہو۔ یا یہ کہ اگر پاؤں میں کوئی زیور (پازیب وغیرہ) پہنا ہوا ہے تو اس کی چھنکار سے لوگوں کی توجہ اس کی طرف ہو اور غیروں کی نظریں اس پر اٹھیں۔ یا اگر پاؤں پر مہندی یا نیل پالش وغیرہ لگا کر ان کاسنگھار کیا گیا ہے تو اس کی وجہ سے غیرمردوں کی نظریں اس پر اٹھیں۔ یہ سب باتیں پردے کے احکامات کے منافی ہیں۔
پس اسلام نے عورت کےلیے صرف سر پر سکارف لینا ہی کافی قرار نہیں دیا بلکہ یہ امور بیان کر کے پردے سے متعلقہ تمام لوازمات کو بھی خوب کھول کر بیان کر دیا کہ عورت نے کس طرح اپنے پردےکا خیال رکھنا ہے اور کس طرح خود کو ڈھانپنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پردے سے متعلقہ ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہوں اور ایسے موقع پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں۔ ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنیں۔ ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کےلئے عمدہ طریق ہے۔ ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پُرشہوات آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 341تا342)
حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: ’’قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غض بصر کریں۔ جب ایک دوسرے کو دیکھیں گےہی نہیں تو محفوظ رہیں گے۔ …
اسلامی پردہ سے یہ ہر گز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔ قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں۔ وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔ جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کےلیے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے، وہ بیشک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 405، مطبوعہ 2016ء)
جہاں تک لڑکیوں اور لڑکوں کی دوستی کی بات ہے تو اس میں بھی بنیادی حکمت عورت کی عفت کی حفاظت ہی ہے۔ انسان کے اپنی مخالف جنس کے ساتھ میل جول سے کئی قسم کی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اس لیے اسلام نے اس پہلو سے بھی محرم اور غیر محرم رشتوں کا امتیاز قائم کر کے مرد و عورت کے تعلقات کی حدود بیان فر ما دیں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اس بارے میں اپنے متبعین کوبڑی واضح تعلیم سے نوازا۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی نامحرم عورت سے تنہائی میں نہ ملے کیونکہ ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (سنن ترمذی کتاب الفتن)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضورﷺ کے اس ارشاد کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بسا اوقات سننے دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مردا ورعورت کے ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں۔ یہ گویا تہذیب ہے۔ انہی بد نتائج کو روکنے کے لیے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں۔ ایسے موقعہ پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد و عورت ہر دوجمع ہوں تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے۔ ان ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے۔ بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جار ہی ہے۔ یہ انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگی۔ اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 34-35ایڈیشن 1984ء)
Halloweenکی رسم جسے اب ایک Fun خیال کیا جاتا ہے، اس کی بنیاد شیطانی نظریات اور مشرکانہ عقائد پر ہے اور ایک چھپی ہوئی برائی ہے۔ ایک سچے مسلمان اور خصوصاً ایک احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر وہ کام جس کی بنیاد شرک پر ہو اگرچہ وہ Fun کے طور پر ہی ہو اسے اس سے بچنا چاہیے، کیونکہ اس قسم کی رسومات انسان کو مذہب سے دور لے جاتی ہیں۔ پھر اس تہوار کے موقع پر تفریح کے نام پر بچے لوگوں کے گھروں میں فقیروں کی طرح جو مانگتے پھرتے ہیں وہ بھی ایک احمدی بچہ کے وقار کے خلاف ہے۔ ایک احمدی کا اپنا ایک وقار ہوتا ہے اور اس وقار کو ہمیں بچپن سے ہی بچوں کے ذہنوں میں قائم کرنا چاہیے۔ ان باتوں کے علاوہ بھی اس رسم کے اور بہت سے معاشرتی بد اثرات نئی نسل پر ہو رہے ہیں۔
پس Halloweenکی رسم میں کسی احمدی کو شامل ہونے کی اجازت نہیں ،چاہے بھوت، چڑیل بننا ہو یا پری بننا ہو، کیونکہ یہ رسم ایک غلط اور مشرکانہ عقیدہ پر مبنی ہے۔