خلافت

مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ وحدت اقوام کا آغاز اور خلافت کے ذریعہ اس کی تکمیل، خلافت احمدیہ اور جمعہ کی برکات

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

امام مہدی کے جمعہ کے دن نکلنے کی پیشگوئی اور اس کے ظہور کے مختلف پہلوؤں پر ایک طائرانہ نظر

اس جمعہ نے جماعت احمدیہ کی اندرونی زندگی کو متعدد جمعوں سے بھر دیا ہے دنیا میں عالمی معیاری وقت کے مطابق جب سورج ڈھلتا ہے تو جماعت احمدیہ کا سورج طلوع ہوتا ہے تمام آنکھیں ٹیلی ویژن کی سکرین پر جم جاتی ہیں۔سب ایک آواز اور ایک تصویر کے منتظر ہوتے ہیں کہیں دن، کہیں رات، کہیں صبح کی ٹھنڈی ہوائیں، کہیں تپتی دوپہریں، کہیں مرغزار، کہیں گلستان، کہیں نخلستان، کہیں برف زار، مگر سب کے دل ایم ٹی اے کی برقی لہروں کے ساتھ دھڑکتے ہیں خدا کا پیارا جب السلام علیکم کے ذریعہ ساری دنیا میں سلامتی کا پیغام دیتا ہے تو لاکھوں زبانوں سے وعلیکم السلام کا جواب فضا کو برکتوں سے بھر دیتا ہے

مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کا زمانہ جو اسلام کے عالمگیر غلبہ کا دَور ہے اس کا جمعہ اور اجتماع سے ایک خاص تعلق ہے اور ایسے ایسے حوالوں سے ہے کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے کیونکہ کسی انسان کے لیے اتنے مختلف اور نادر پہلو اکٹھےکرنا ممکن نہیں۔

1۔ سورہ جمعہ میں رسول کریمﷺ کی دو بعثتوں کا ذکر ہے۔ ایک اولین اور دوسری آخرین میں۔ هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْأُمِّيّٖين رَسُولًا مِّنْهُمْ…وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الجمعہ: 3تا4)وہ آخرین ابھی اولین سے نہیں ملے اس کی شرح میں احادیث میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ ایک فارسی النسل بروز کے ذریعہ آخرین میں ظہور فرمائیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ)اور اس زمانہ میں آخرین اپنی قربانیوں اور خدمات کے ذریعہ اولین سے مل جائیں گے۔ اجتماع اولین و آخرین کے لیے خدا کی طرف سے جو زمانہ مقرر کیا گیا وہ بھی حیرت انگیز ہے۔

2۔ ہماری اس دنیا یعنی ہمارے آدم سے شروع ہونے والی دنیا کی عمر احادیث کے مطابق7ہزارسال ہے۔ قرآن مجید کے اشارات اورروایات کے مطابق آدم کی پیدائش ہفتہ کے چھٹے روز جمعہ کو آخری حصے میں ہوئی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ276)جمعہ ہی کے دن ان کی توبہ قبول ہوئی۔ قرآنی شریعت کی تکمیل کا مژدہ عرفات کے مقام پر جمعہ کے دن سنایا گیااور اشاعت ہدایت کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی سات ہزار سالہ عمر میں سے چھٹے ہزار سال کے آخری حصے کا انتخاب کیا۔ چھٹے ہزارسال کےمکمل ہونے میں 11 سال رہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ کمال قدرت کہ یہ ہفتہ کے دنوں میں سے چھٹے دن جمعہ کے روزہوئی یعنی 14؍شوال 1250ھ کو۔ اور وہ پیشگوئی پوری ہوئی جوحضرت امام جعفر صادق نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر فرمائی تھی کہ ہمارا قائم اہل بیت یعنی امام مہدی جمعہ کے دن نکلے گا۔ (بحارالانوار جلد 52صفحہ 279۔ علامہ باقر مجلسی داراحیاء التراث العربی بیروت 1983ء)

3۔ خدا نے اس موعود کے ظہور کے لیے ہندوستان کا علاقہ چنا جہاں تمام مذاہب عالم کا اجتماع تھا اور وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَّمُوْجُ فِي بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا (الکہف: 100)کا نظارہ تھا۔ یعنی اس دن ہم ان میں سے بعض کو بعض پر موج در موج چڑھائی کرنے دیں گے اور صور پھونکا جائے گا اور ہم ان سب کو اکٹھا کردیں گے۔ ہندوستان میں مسلمان، ہندو، بدھ، آریہ سماج، دیو سماج، برہمو سماج، عیسائی، سکھ، جین مت، زرتشت ازم کے علاوہ بھی کئی مذاہب اور مکاتب فکر موجود تھے جو باہم برسرِ پیکار تھے بلکہ سب مل کر اسلام پر بے تحاشا حملے کر رہے تھے اسی لیے ہندوستان کو مذاہب کا اکھاڑہ کہا جاتا ہے۔ مذاہب کی اس جنگ کا منظر کہیں اور نہیں تھا۔

4۔ اس جمعہ کے زمانے میں خدا نے جس مامور کا انتخاب کیا اس میں سب نبیوں کی شانیں جمع کر دیں اور وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ(المرسلات: 12) کی پیشگوئی تھی یعنی جب رسول وقت مقررہ پر لائے جائیں گے۔ یعنی سب رسول ایک موعود وجود کے ذریعہ دنیا سے مخاطب ہوں گے جس کو خدا نے جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کا خطاب دیا۔ یعنی خداکا رسول نبیوں کے حلوں میں۔ (اربعین، روحانی خزائن جلد17 صفحہ354، 366)

حضورؑ نے اس کی وضاحت میں فرمایا: ’’اس وحی الٰہی کامطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہیں یاغیر اسرائیلی ان سب کے خاص واقعات یاخاص صفات میں سے اس عاجزکو کچھ حصہ دیاگیاہے اورایک بھی نبی ایسانہیں گزرا جس کے خواص یاواقعات میں سے اس عاجز کوحصہ نہیں دیاگیا۔ ہرایک نبی کی فطرت کانقش میری فطرت میں ہے…ہر ایک گذشتہ نبی کی عادت اورخاصیت اورواقعات میں سے کچھ مجھ میں ہے اورجو کچھ خداتعالیٰ نے گذشتہ نبیوں کے ساتھ رنگارنگ طریقوں میں نصرت اورتائید کے معاملات کئے ہیں ان معاملات کی نظیر بھی میرے ساتھ ظاہر کی گئی ہے اورکی جائے گی اوریہ امر صرف اسرائیلی نبیوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کل دنیامیں جو نبی گذرے ہیں ان کی مثالیں اوران کے واقعات میرے ساتھ اورمیر ے اندر موجود ہیں۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ116تا117)

5۔ اسی کو خدا نے مسیح بھی کہا، مہدی بھی کہا۔ اسے ہی امت محمدیہ میں امام قائم بھی کہا جاتا ہے۔ اسی کو ذو القرنین بھی کہا گیا ہے یعنی دو صدیوں والا۔ کیا یہ نشان نہیں کہ مسیح موعود کی زندگی میں اسلامی اور عیسائی کیلنڈر سمیت دنیا کی 32قوموں کی صدیاں تبدیل ہوئیں گویا خدا نے 32 صدیاں اس کی زندگی میں جمع کر دیں۔ (تفصیل حقائق الفرقان از حضرت خلیفۃ المسیح الاول جلد 3صفحہ 35)

6۔ خدا نے اس وجود کے ذریعہ رمضان میں شمس و قمر کو جمع کر کے کسوف خسوف کا ایک نادر نشان دکھایا۔ جس کے اشارے قرآن کریم میں اور تفاصیل احادیث رسول میں موجود ہیں۔ اسی کی زندگی میں خدا نے ایسے حالات پیدا کیے کہ اس کو ایک عرصہ تک نمازیں جمع کرنی پڑیں اور رسول اللہﷺ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ تُجْمَعُ لَہُ الصَّلوٰۃُ۔ (مسند احمد جلد 13صفحہ 281 حدیث نمبر 7903۔ امالی ابن بشران جلد1 صفحہ 19حدیث نمبر503)

اسی کے زمانے میں خدا نے ان سمندروں کو ملا دیا جس کے لیے قرآن کریم میں مدتوں پہلے پیشگوئی کی گئی تھی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ۔ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ۔ فَبِأَيِّ آلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ۔ يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ۔ (الرحمٰن: 20تا24)وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّهَذٰا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُورًا۔ (الفرقان: 54)

چنانچہ خدا نے ایک طرف مشرق میں بحیرہ قلزم اور بحیر ہ روم کو نہر سویز کے ذریعہ سے اور مغرب میں بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو نہر پانامہ کے ذریعہ سے ملا دیا۔

7۔ مسیح موعودؑ کےلیے خدا تعالیٰ نے متعدد زبانوں کے اجتماع سے اردو زبان تیار کی اور کئی سو سال کے ارتقا کے بعد مسیح موعود کے زمانے میں وہ اس مرحلہ پر پہنچ گئی کہ اس میں قرآن و حدیث کے معارف عمدگی سے بیان کیے جا سکتے تھے۔ اور کئی بزرگوں کو اس بارے میں پیشگوئیاں بھی عطا کر دیں کہ امام مہدی کے ذریعہ اس زبان میں علم و عرفان کے دریابہائے جائیں گے۔ جیسا کہ دلی کے مشہور ولی حضرت خواجہ میر درد کا ارشادہے: ’’اے اردو گھبرانا نہیں تو فقیروں کا لگایا ہوا پودا ہے خوب پھلے پھولے گی تو پروان چڑھے گی ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن حدیث تیری آغوش میں آکر آرام کریں گے بادشاہی قانون اور حکیموں کی طبابت تجھ میں آ جائے گی اور تو سارے ہندوستان کی زبان مانی جائے گی۔ ‘‘(میخانہ ٔدرد مرتبہ حکیم خواجہ سیدناصر نذیر فراق دہلوی مارچ1910ء جید برقی پریس)یہ وہ زبان ہے جو بہت آسانی کے ساتھ دوسری زبانوں کے الفاظ اور تراکیب اور اصطلاحات اپنے اندر جمع کر لیتی ہے۔ اسی لیے اس کا دامن مسلسل وسیع اور ترقی پذیر ہے۔

8۔ اسی زمانے میں سائنس اپنی ترقی کے ایک نئے دَور میں داخل ہوئی اور خدا نے انسانوں کو جمع کرنے کے لیے بےحد سامان مہیا فرما دیے۔ تمام سائنسی ایجادات قدم بقدم انسان کو ایک دوسرے کے قریب لانے پر مستعد ہو گئیں۔ خاص طور پر ذرائع رسل و رسائل اور نقل و حمل نے انقلاب برپا کر دیا جس کا ذکر سورت التکویر کی متعدد آیات میں ہے اور آج دنیا بڑی تیزی کے ساتھ ایک عالمی وحدت اور اجتماع کا نظارہ پیش کرنے لگی جسے گلوبل ولیج (Global Village)کہتے ہیں۔

امام مہدی کا نام جمعہ بھی ہے

یہ اور ایسی بے شمار وجوہ ہیں جن کی وجہ سے امام مہدی کا ایک نام جمعہ بھی رکھا گیا ہے۔ جس کی حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ کُل عالم کو ایک دین پر اکٹھا کیا جانا مقدر ہے۔ چنانچہ شیعہ بزرگان کے حوالے سے لکھا ہے کہ جمعہ امام مہدی کے مبارک ناموں میں سے ہے اور اس نام کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کو جمع کریں گے۔ حضرت امام علی تقی نے فرمایا. دن ہم ہیں۔ پھر فرمایا جمعہ میرا بیٹا ہے۔ یعنی روحانی بیٹا اور اسی کی طرف اہل حق اور صادق لوگ جمع ہوں گے۔ (النجم الثاقب صفحہ 465 مرزا حسین علی نوری طبرسی۔ انتشارات علمیہ اسلامیہ جنب نوروزخان)

خلافت احمدیہ کا ابتدائی دَوراور جمعہ کا خطبہ

وحدت اقوام اور عالمی اجتماع کی تخم ریزی حضرت مسیح موعودؑ نے کی جس نے خلافت احمدیہ کے دَور میں پھولنا پھلنا اور ایک شاندار درخت بننا تھا۔ چنانچہ خلفائے احمدیت نے اس جھنڈے کو اٹھایا اور سرپٹ دوڑنا شروع کر دیا۔ اس تاریخ ساز مہم میں بے شمار وسائل اور ذرائع کام میں لائے گئے مگر ایک بہت بڑا ہتھیار اور وسیلہ جمعہ کا خطبہ بنا۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات حیرت انگیز ہے کہ نیکی کے فروغ کے لیے جتنا فائدہ جماعت نے جمعہ کے ادارہ سے اٹھایا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

جب 1908ء میں خلافت احمدیہ کا آغازہوا تو امام وقت کا پیغام جماعت تک پہنچانے کے وسائل نہایت محدود تھے کوئی تنظیم نہیں تھی۔ مربی یا مبلغ نہیں تھے۔ عالمگیر جماعت احمدیہ کے امام کا اپنی جماعت سے رابطہ کا سب سے اہم اور آسان ذریعہ خطبہ جمعہ تھا۔ براہ راست سننے والے تو چند سو یا چند ہزار تھے۔ مگر الحکم یا الفضل کے ذریعہ وہ خطبہ شائع ہو کر احمدیوں کے پاس پہنچتا تھا۔ اور پھر مربیان حسب ضرورت اس کے تراجم کر کے احباب جماعت کو سناتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ تحریک جدید کے حوالے سے اپنے ایک خطبہ جمعہ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’جماعتوں کے سیکرٹریوں اور امراء کو چاہئے کہ وہ میرا یہ خطبہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں کیونکہ اس کے سوا میری آواز ان تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ ‘‘(خطبات محمود جلد 16صفحہ27)

چنانچہ متحدہ ہندوستان میں ہی نہیں بیرونی ممالک میں بھی حضورؓ کے خطبات کے تراجم کرکے سنائے جاتے تھے۔

افریقہ کے ایک مبلغ ’ابو لطفی‘لکھتے ہیں کہ ’’خاکسار ایک لمبا عرصہ مشرقی افریقہ میں رہا ہے۔ الفضل کے پیکٹ کا ہر ہفتے انتظار ہوتا تھا۔ اس سے احباب جماعت کو سیراب کرنے کے لئے ملفوظات، حضور کے خطبات اور مرکز کی اہم خبریں سواحیلی میں ترجمہ کرکے جماعت کے اخبار Mepenzi ya Mungu میں شائع کرتا تھا۔ افریقن احباب دور بیٹھے ہوئے اپنے آپ کو خلیفة المسیح کے قریب تصور کرتے۔ مجھ سے پہلے مولانا محمد منور صاحب کا بھی یہی طریق تھا۔‘‘(الفضل صدسالہ جوبلی نمبر صفحہ 57)

مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب کبابیر میں رہے۔ وہ حضورؓ کے خطبات کا عربی ترجمہ کرکے سناتے تھے اور احباب اس پر بہت خوش ہوتے تھے۔ (ایضاً صفحہ 63)

خلافت ثانیہ میں جب جماعتیں مزید پھیلنے لگیں تو الفضل نے باقاعدہ خطبہ نمبر شائع کرنا شروع کیا۔ اور ہفتے میں ایک دن خاص طور پر خلیفہ وقت کا خطبہ شائع کیا جاتا تھا۔ اسی لیے عام اخبار کی خریداری کے علاوہ اس خطبہ نمبر کی خریداری بڑھانے کے لیے خصوصی تلقین کی جاتی تھی۔ یہی خطبات بعد میں خطبات نور، خطبات محمود، خطبات ناصر، خطبات طاہر، اور خطبات مسرور کی شکل میں بیسیوں جلدوں میں معرض وجود میں آ چکے ہیں۔ ان خطبات جمعہ نے جماعت کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی جو محبت جگائی اور خلافت احمدیہ سے جو اطاعت اور وفا کے نمونے ظاہر کیے ان کا کسی قدر ریکارڈ الفضل کے صفحات میں محفوظ ہو چکا ہے۔ چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔

خطبہ جمعہ کی علمی اور روحانی برکات

جماعت احمدیہ کے شدید معاند مولوی ظفر علی خان صاحب نے خلافت ثانیہ میں لکھا تھا کہ قادیان کا تانگہ بان سیاسی شعور میں ہندوستان کے بڑے بڑے لیڈروں سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ وہ مرزا محمود احمد (خلیفة المسیح الثانیؓ ) کے خطبات سنتا ہے۔ یہ بات واقعی درست ہے اور ایک جم غفیر اس بیان کی تائید کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علم و عرفان اور روحانیت کا جو چشمہ خلفائے احمدیت کے خطبات جمعہ وغیرہ کی صورت میں جاری کیا ہے۔ وہ اپنی نوعیت کا بہت منفرد اور شیریں چشمہ ہے۔

٭…مکرم مجیب الرحمان صاحب ایڈووکیٹ جماعت احمدیہ کے بظاہر مذہبی علماء میں سے نہیں تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے دینی علوم پر انہیں گہری دسترس حاصل تھی اور بات کہنے کا ہنر بھی جانتے تھے۔ وہ اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ایک نشست میں کسی مسئلے پر رائے دینے کا اتفاق ہوا تو راجہ ظفر الحق جو خودذوق بھی رکھتے تھے اور اسلامی علوم میں دلچسپی رکھتے تھے بے ساختہ پوچھنے لگے کہ جتنے مسائل ہماری اس چھوٹی سی مجلس میں زیربحث آئے ہیں۔ ہمیشہ ہم نے عصری مسائل اور اسلام پر تمہاری معلومات کو نت نئی معلومات سے ہم آہنگ پایا ہے۔ آخر یہ تفصیلی مطالعہ کا وقت کہاں سے نکالتے ہو تو میں نے عرض کیا کہ مطالعہ کا وقت اور بھاری بھر کم کتب دیکھنے کا موقع تو نہیں ملتا۔ البتہ خلیفة المسیح کے خطابات یا الفضل کے مضامین سے بے شمار مواد مل جاتا ہے اور یہ صرف میرا تجربہ نہیں ہزاروں احمدیوں کا تجربہ ہے۔ ‘‘(الفضل صدسالہ جوبلی سوونیئر صفحہ 73)

٭…مکرم احسن اسماعیل صدیقی صاحب مرحوم گوجرہ کے رہائشی تھے۔ 1936ء میں تحریر کرتے ہیں: ’’یوں تو الفضل کا میں بے حد شائق ہوں۔ مگر جس دن الفضل کا خطبہ نمبر ملتا ہے۔ فرط مسرت سے جھومنے لگتا ہوں اور کسی ایسی جگہ کا متلاشی ہوتا ہوں۔ جہاں میرے مطالعہ میں کوئی چیز مخل نہ ہوسکے تاکہ میں چپ چاپ اپنے پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ کے مبارک منہ سے نکلے ہوئے جادو اثر الفاظ پڑھوں۔ بار بار پڑھوں اور ایک کیف کے سمندر میں ڈوب جاؤں !! میں نے ہرکارے کی آمد کے صحیح وقت کو معلوم کرنے کے لئے اپنے صحن کی دھوپ پر نشان لگا رکھا ہے۔ ہر پانچ منٹ کے بعد بے تابانہ اسے دیکھتا ہوں اور جونہی کہ دھوپ میرے مقررہ نشان پر آجاتی ہے۔ میں اپنے ڈرائنگ روم میں ہرکارے کے انتظار میں آبیٹھتا ہوں۔ میری ڈاک، عزیزوں کے خطوط، دوستوں کے محبت ناموں، چند ایک ادبی رسائل اور مختلف اخبارات پر مشتمل ہوتی ہے۔ مگر میری نظر ہمیشہ ایک چھوٹے سے تہہ شدہ اخبار پر پڑتی ہے۔ اس کا نام ’’الفضل‘‘ ہے۔ کھولتا ہوں اور اس میں ایسا کھو جاتا ہوں کہ باقی ماندہ ڈاک میری میز پر پڑی کی پڑی رہ جاتی ہے۔ !!

28؍مارچ 1936ء کو حسب معمول میں اخبار الفضل کا منتظر اپنے دروازے کے سامنے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا کہ کسی کے بوٹوں کی آواز سنائی دی، پیچھے مڑ کر دیکھا تو پوسٹ مین ڈاک کے تھیلے میں سے کچھ خطوط اور اخبارات وغیرہ نکال رہا تھا۔ یہ میری ڈاک تھی۔ سنبھالی اور ڈرائنگ روم کا دروازہ بند کرکے تمام ڈاک کو پہلے کی طرح میز پر بکھیر دیا۔ میری نظر سرخ رنگ سے لکھے ہوئے الفضل پر پڑی۔ یہ خطبہ نمبر تھا۔ اٹھایا اور پڑھنے لگ گیا ایک ایک لفظ دل میں کھبتا جارہا تھا اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ میرے سامنے کھڑے خطبہ ارشاد فرمارہے ہیں۔ جب میں خطبہ پڑھتے پڑھتے ان الفاظ پر پہنچا کہ آؤ ہم پھر اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جائیں اور اپنی سجدہ گاہوں کو۔ تو میری آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔ خطبہ کی آخری دعا، بڑی مشکل سے ختم کی اور اسی وقت اپنے رب کے حضور سجدہ کے لئے جھک گیا۔ (الفضل 7؍اپریل 1936ء)

حضرت مصلح موعودؓ کے یہ خطبات غیر احمدی مخالفین پر بھی خاص اثر ڈالتے تھے۔ حضورؓ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍جون1935ء میں فرمایا: ’’مجھے کل ہی ایک نوجوان کا خط ملا ہے۔ وہ لکھتا ہے میں احراری ہوں میری ابھی اتنی چھوٹی عمر ہے کہ میں اپنے خیالات کا پوری طرح اظہار نہیں کرسکتا۔ اتفاقاً ایک دن ’’الفضل‘‘کا مجھے ایک پرچہ ملا جس میں آپ کا خطبہ درج تھا میں نے اسے پڑھا تو مجھے اتنا شوق پیدا ہوگیا کہ میں نے ایک لائبریری سے لے کر ’’الفضل‘‘ باقاعدہ پڑھنا شروع کیا پھر وہ لکھتا ہے خدا کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں اگر کوئی احراری آپ کے تین خطبے پڑھ لے تو وہ احراری نہیں رہ سکتا۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ خطبہ ذرا لمبا پڑھا کریں۔ کیونکہ جب آپ کا خطبہ ختم ہوجاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دل خالی ہوگیا اور ابھی پیاس نہیں بجھتی۔ تو سچائی کہاں کہاں اپنا گھر بنالیتی ہے وہ چھوٹے بچوں پر بھی اثر ڈالتی ہے اور بڑوں پر بھی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍جون 1935ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 16صفحہ 361)

٭…ایک صاحب نے اپنے احمدی ہونے سے قبل اپنے ایک احمدی دوست کے نام درج ذیل خط لکھا: ’’الفضل اخبار نے میرے دل میں ایک خاص تبدیلی پیدا کردی ہے خاص کر خلیفہ صاحب کے خطبات بہت مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ ان سادے مگر مسحور کردینے والے خطبات کے بغور مطالعہ کے بعد زنگ آلودہ دلوں کی تسخیر یقینی اور لازمی امر ہے۔ اگر آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ضرور اس نیک دل اور روشن دماغ کی کرنیں گم گشتہ راہ لوگوں کے لئے ہدایت کا باعث ہوں گی۔ اگر آپ کے پاس بیعت فارم موجود ہوں تو ارسال کرکے ممنون فرمائیں ورنہ مرکز سے منگوانے کی تکلیف گوارا کریں۔‘‘(الفضل 24؍مئی 1936ء صفحہ 3)

٭…1940ء میں غیرمبائعین کے سابق منتظم مہمان خانہ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تفصیلی خط لکھا کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں تھا مگر بعض وجوہ سے میں نے آپ کی بیعت نہ کی اور لاہور چلا آیا۔ مگر حضورؓ کی عزت و احترام میرے دل میں موجود تھا۔ آہستہ آہستہ میں اہل لاہور سے دلبرداشتہ ہوگیا اور سیالکوٹ چلا گیا۔ وہاں اخبار الفضل روزانہ پڑھتا رہا اور اب میرے شکوک ختم ہوگئے ہیں۔ میں بیعت فارم پُر کرکے حضور کی خدمت میں ارسال کرتا ہوں۔ (الفضل 24؍مئی 1940ء)

٭…مکرم ابن ایف آر بسمل صاحب لکھتے ہیں: ’’خلافت ثالثہ کے ابتدائی سالوں میں جنوری1967ء میں خاکسار کی سروس کا آغاز ہوا۔ خاکسار کے ایک غیر احمدی ساتھی انجینئر (جو خاکسار سے عمر میں 10، 15سال بڑے تھے)خاکسار کے پاس آئے اور الفضل دیکھ کر پڑھنے میں گم ہوگئے۔ حضرت خلیفةالمسیح الثالثؒ کا کوئی خطبہ تھا۔ کہنے لگے میں آپ کے دوسرے امام حضرت مصلح موعودؓ خلیفہ ثانی کے خطبے بھی پڑھتا رہا ہوں۔ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓکی پُرزور تحریرات بھی پڑھی ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ خلیفہ ثانی کے خطبے پڑھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ آج میں نے حضرت خلیفہ ثالثؒ کا خطبہ پہلی بار پڑھا ہے اور میری وہی کیفیت ہوئی ہے جو حضرت خلیفہ ثانی کا خطبہ پڑھ کرہوا کرتی تھی۔ خاکسار کے ایک احمدی دوست تھے انجینئر ابراہیم نصراللہ درانی مرحوم وہ بتایا کرتے تھے کہ میرے والد آغامحمد بخش صاحب ایم اے انگلش تو حضرت مصلح موعودؓ کے پُر زور خطبے پڑھ کر احمدی ہوئے تھے۔ انہیں یہ خیال آتا تھاکہ اگر اس موعود بیٹے کے اتنے پُر زور اور ایمان افروز اور ولولہ انگیز خطبے ہیں تو جس کا یہ بیٹا ہے ان کا کیا حال ہوگا!وہ کہتے تھے کہ والد صاحب برملا کہتے تھے کہ انہوں نے کسی اختلافی مسئلہ کا خیال نہیں کیا بلکہ ابتداء میں انہیں اختلافی مسائل کا پتہ بھی نہ تھا صرف خلیفہ ثانی کےپُرزور خطبات اور تحریرات سے وہ احمدی ہوئے اور آگے متقی نسل چھوڑی‘‘(الفضل 18؍جون 2013ء صفحہ 9)

خلفا ءکی تحریکات اور خطبہ جمعہ

خلفا٫کی مختلف تحریکوں کی کامیابی میں ان خطبات کا کیا کردار رہا اس کے متعلق احباب جماعت کے درج ذیل خطوط گواہی دیتے ہیں اور اس میں صرف تحریک جدید کے چندے کے لیے ان خطوط سے انتخاب کیا گیاہے۔

٭…ماسٹر چراغ الدین صاحب روپڑ سے لکھتے ہیں: سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ 30؍جون 1939ء جس میں چندہ تحریک جدید 15؍اگست تک پورا کرنے کا ارشاد ہے۔ جن دنوں پڑھا اس دوران میں جالندھر سے روپڑ تبدیلی ہوگئی۔ پچھلے ماہ کی تنخواہ تو خرچ ہوچکی تھی۔ اگلے ماہ کی تنخواہ آنے کی امید نہ تھی۔ کیونکہ نئے ضلع میں حساب نہ کھلا تھا۔ ادھر دل میں خطبہ پڑھتے ہی یہ عزم بالجزم کرلیا تھا۔ کہ جس طرح بھی ہو حضور کے ارشاد کی تعمیل میں 15؍اگست تک ضرور ادا کرنا ہے۔ آخر یہی دل میں آیا کہ کوئی زیور بطور امانت قادیان بھیج دیا جائے۔ جب تنخواہ ملے چندہ بھیج کر واپس منگوا لیا جائے اور اگر مرکز کو روپیہ کی فوری ضرورت ہوتو وہ زیور فروخت کردے۔ یہ طے کرکے میں نے اپنی بیوی سے کہا تو اس نے بخوشی جواب دیا کہ میرا زیور حاضر ہے۔ اسے فروخت کردیں۔ دوسرے دن قادیان زیور ارسال کرنا تھا کہ اچانک میرے افسر صاحب معائنہ کے لئے تشریف لائے اور وہ ساتھ تنخواہ بھی لے آئے۔ تنخواہ کی خبر سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ادا کیا کہ وقت پر غیب سے روپیہ بھیج دیا۔ (الفضل 16؍اگست1939ء)

٭…بابو محمد شفیع صاحب اوورسیر ضلع شیخوپورہ سے لکھتے ہیں: ’’چندہ تحریک جدید کی جلد ادائیگی کے لئے حضور کا خطبہ ملا۔ بے شک وعدے کے وقت تو ادائیگی کا وقت معین نہیں کیا تھا اور خیال تھا کہ سال کے آخر تک انشاء اللہ ادا کروں گا۔ مگر خطبہ پڑھ کر دل نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام خرچ بند کرو۔ گھر میں تنگی ہوتی ہے تو ہونے دو۔ مگر تحریک جدید کا چندہ قسط وار نہیں بلکہ یکمشت اسی مہینے کے اندر پورا کرو۔ تنخواہ ملنے میں دیر تھی اور ایک مہینے کی تنخواہ سے وعدہ پورا نہیں ہوتا تھا۔ بقایا کی فکر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے سفر خرچ کے بل کے ملنے کا سامان کردیا۔ 110روپے کی رقم محفوظ رکھ کر جماعت کے سیکرٹری صاحب کا انتظار ہونے لگا۔ وہ آج ملے الحمدللہ کہ میں تحریک جدید کے فرض سے سبکدوش ہوگیا۔ ‘‘

٭…ملک ستار بخش صاحب ضلع جھنگ لکھتے ہیں: ’’میں نے سال پنجم میں 75روپے کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی باقساط رقم ادا کرنے کا اقرار کیا۔ چنانچہ ہر مہینے قسط ادا کررہا ہوں۔ مگر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے خطبہ فرمودہ 5؍مئی کے ماتحت میں مجبور ہوگیا ہوں کہ بقیہ رقم یکمشت ادا کروں۔ ‘‘

٭…ڈاکٹر محمد عبداللہ خان صاحب صدر شاہ پور لکھتے ہیں: ’’میرا وعدہ 60 روپے سال پنجم اور 5 سال اول کا ہے۔ حضور کا خطبہ پڑھ کر پہلا کام میں نے یہ کیا کہ اپنی رقم سیکرٹری صاحب کو ادا کردی۔ ‘‘

٭…چودھری فضل الٰہی صاحب سب پوسٹ ماسٹر دیپالپور لکھتے ہیں: ’’زندگی کا اعتبار نہیں پہلے ہی کوتاہی نے بہت لمبا عرصہ ضائع کردیا۔ اس سے زیادہ میرے لئے اور کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ کہ عرصہ 5 سال سے حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے محروم ہوں۔ کیونکہ میں نے اپنے دل میں یہ عہد کیا تھا کہ جب تک سارا چندہ تحریک جدید کا ادا نہ کرلوں گا۔ حضور کی خدمت عالیہ میں عریضہ تحریر نہیں کروں گا۔ اب اتنا لمبا عرصہ ہوگیا ہے صبر کی طاقت نہیں رہی اور حضور کے خطبات 7؍اپریل اور 5؍مئی 1939ء میں نے پڑھے۔ آج قرض لے کر تحریک جدید سال اول، دوم، سوم، چہارم اور پنجم کا چندہ بھیج رہا ہوں۔ ‘‘

٭ صوبیدار شیر محمد خاں صاحب راولپنڈی لکھتے ہیں: ’’حضور کا خطبہ 7؍اپریل کا پڑھ لینے کے بعد میں نے دل میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ تنخواہ آتے ہی تحریک جدید کے وعدہ کی رقم 70 روپے ادا کردوں گا۔ چنانچہ اس عہد کے ساتھ تنخواہ ملنے پر یہ رقم ادا کردی ہے۔ ‘‘(الفضل 20؍مئی 1939ء)

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے 30؍جون 1939ء کے خطبہ میں مخلصین جماعت سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ہرجماعت اور ہر فرد کوشش کرے کہ اس کا وعدہ 15؍اگست تک سو فیصدی پورا ہوجائے۔ خان بہادر غلام محمد صاحب پنشنر قادیان نے۔/231روپے کا وعدہ سال پنجم کا کیا تھا۔ صاحب موصوف انتہائی کوشش کررہے تھے کہ وقت کے اندر وعدہ پورا کردیں۔ مگر بظاہر کامیابی نظر نہیں آتی تھی۔ آخر انہوں نے اپنی زمین کا ایک ٹکڑاڈیڑھ سو روپیہ گھاٹا ڈال کر فروخت کردیا اور روپیہ لے کر سیدھے تحریک جدید کے دفتر میں پہنچے۔ تا گھر میں اس وقت داخل ہوں جب کہ تحریک جدید کا چندہ داخل کرلیں۔ چنانچہ آپ نے اپنی رقم اور اپنی اہلیہ صاحبہ کی رقم سو فیصدی پوری کردی۔ (الفضل 17؍اگست 1939ء)

٭…ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب پیگاڈی اپنا وعدہ حضور کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حضور کی تحریک کے اعلان سے قبل بحالت تنگ دستی سوچا کرتا تھا کہ اب کے اعلان پر میں کیا لکھاؤں گا اور کہاں سے ادا کروں گا۔ مگر ہر دفعہ میرے مولا کریم نے احسان فرمایا۔ ہمیشہ پہلے سے زیادہ لکھانے اور میعاد کے اندر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکے دل سجدہ میں گر جاتا ہے۔ پس میں مجبور ہوں کہ چندہ پہلے کی نسبت زیادہ لکھا دوں اور مجھے میرا ایمان کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اسے ادا کردے گا۔ پس میں سابق بالخیرات ہونے کے شوق میں سال پنجم میں 346 روپیہ کا وعدہ اضافہ کے ساتھ حضور کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ ‘‘(الفضل 13؍جنوری 1939ء صفحہ 5)

٭…ڈاکٹر احمدالدین صاحب افریقہ سے لکھتے ہیں: سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ 30؍جون 1939ء 6؍اگست کو موصول ہوا میرا ارادہ اکتوبر کے آخر اور نومبر کے شروع میں چندہ ادا کرنے کا تھا۔ کیونکہ میں ابھی ابھی دارالامان میں ایک مکان تعمیر کرکے آیا تھا اور اس وجہ سے میرے پاس کچھ نہ تھا۔ مگر حضور اقدس کا خطبہ پڑھ کردل بہت بے قرار ہوا۔ آخر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ بہرحال 15؍اگست تک ادائیگی ہوجانی چاہئے۔ چنانچہ بندہ 335 شلنگ سال پنجم کے اور پچاس شلنگ سال اول کے دارالسلام بھیج رہا ہے۔ امید ہے کہ میری رقم 15؍اگست تک مرکز میں پہنچ جائے گی۔ (الفضل 25؍اگست 1939ء صفحہ 2)

٭…قریشی محمد عبداللہ صاحب سیکرٹری تحریک جدید فاضلکا سے لکھتے ہیں: ’’دو سال کا چندہ تحریک جدید ادا نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میں اس وقت بے کار تھا۔ مگر دل میں ہر وقت بے چینی لگی رہتی کہ افسوس ان سالوں میں میں نے کچھ ادا نہ کیا۔ مگر اپنی مجبوری پر چار آنسو بہا کر خاموش ہوجاتا۔ جب میں نے دیکھا کہ 15؍اگست کو مخلصین اپنے سابقہ سالوں کے بقائے اور سال پنجم کا چندہ ادا کرکے مخلصین کی صف اول میں کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہوجائیں گے۔ تو دل میں اک ہوک اٹھی کہ آہ میرے پاس اس وقت بوجہ بے کاری ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ میں کیا کروں۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنے اہل و عیال کو جنہیں میں نے اپنی بیکاری کی وجہ سے چار ماہ سے متواتر کچھ نہیں بھیجا تھا۔ بھیجنے کے لئے چھ روپے جمع کئے تھے۔ مگر عین اس وقت جب میں انہیں گھر روانہ کرنے والا تھا۔ آپ کا گرامی نامہ ملا۔ دل میں یہ تحریک ہوئی کہ صرف زبانی وعدہ کا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے کیا مطلب۔ یہی آزمائش کا وقت ہے۔ پس چھ روپے وہ اور چار روپے ایک دوست سے قرض لے کر دو سالوں کا چندہ بھیجوں۔ لیکن اب مجھے گزشتہ سالوں پر اضافہ کرنے کے لئے جسے میں ادا نہ کرسکا تھا۔ دس آنہ کی ضرورت تھی۔ اتفاق حسنہ سے ایک دوست کو اپنی دوچارپائیاں بنوانے کی ضرورت تھی۔ میں نے کہا کسی اور سے بنوانے کی کیا ضرورت ہے۔ میں بن دوں گا۔ آپ اتنی اجرت مجھے دے دیں۔ پس میں نے وہ دوچارپائیاں بن کر آٹھ آنے حاصل کئے اور دوآنہ کا اور اضافہ کر کے دس روپے دس آنے بھیج رہا ہوں۔‘‘(الفضل 5؍اگست 1939ء صفحہ 2)
٭…حضور خود فرماتے ہیں: ’’کئی سال ہوئے میں نے تحریک کی تھی کہ عورتوں کو تحریک کی جائے کہ وہ چندوں کی وصولی میں مدد کریں۔ اس پر ایک جماعت نے لکھا کہ ان کے ہاں ایک دوست تھے۔ جو بہت سست تھے۔ وہاں کے دوستوں نے جاکر ان کی بیوی سے کہا کہ اس دین کے کام میں آپ ہماری مدد کریں۔ اس دوست نے جب تنخواہ لاکر بیوی کو دی تو اس نے پوچھا کہ آپ چندہ دے آئے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ نہیں چندہ تو نہیں دیا سیکرٹری ملا نہیں تھا۔ پھر دے دوں گا۔ مگر بیوی نے کہا کہ میں تو ایسے مال کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہوں۔ جس میں سے خدا تعالیٰ کا حق ادا نہ کیا گیا ہو۔ میں تو نہ اس سے کھانا پکاؤں گی اور نہ کسی اور کام میں صرف کروں گی۔ مرد نے کہا چندہ میں صبح دے دوں گا۔ اس وقت دیر ہوچکی ہے رکھو۔ مگر بیوی نے کہا کہ پہلے چندہ ادا کر آؤ۔ پھر میں ہاتھ لگاؤں گی۔ اور اگر اس وقت جاکر ادا نہیں کرسکتے تو ابھی اپنے ہی پاس رکھو۔ اس پر وہ شخص اسی وقت گیا اور جاکر سیکرٹری سے کہا کہ پتہ نہیں تم لوگوں نے کیا جادو کردیا ہے۔ کہ میری بیوی تو روپیہ کو ہاتھ نہیں لگاتی۔ اور کہتی ہے کہ جب تک چندہ ادا نہ ہو۔ میں اسے خرچ ہی نہیں کروں گی۔ اسی وقت چندہ ادا کیا اور کہا کہ آئندہ تنخواہ کے ملنے کے دن ہی مجھ سے چندہ لے لیا کرو۔ تاگھر میں جھگڑا نہ ہو۔ ‘‘

٭…مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ سے لکھتے ہیں: ’’میں تحریک جدید کے چندہ کی اقساط فروری سے شروع کرکے مئی تک رقم پوری کردیتا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ امسال غیر معمولی اخراجات کے بار نے سر اٹھانے کی فرصت نہیں دی۔ حضرت اقدس کے خطبات نے طبیعت میں جوش پیدا کیا۔ مگر کوتاہی قسمت نے ارادہ کو فعل میں منتقل نہ ہونے دیا اور سابقوں کے ثواب سے محروم رکھا۔ اب سلسلہ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے عزم بالجزم کرلیا۔ کہ جب بعض خانگی ضروریات کے لئے قرض لے رکھا ہے تو سلسلہ کی خدمت کے لئے بھی کیوں قرض لے کر یک مشت نہ ادا کردوں۔ چنانچہ میں پرسوں انشاء اللہ تعالیٰ تحریک جدید کا چندہ ادا کردوں گا۔ ‘‘

٭…ملک غلام نبی صاحب اے، ڈی، آئی ضلع میانوالی لکھتے ہیں: ’’میرا ارادہ قسطوں سے ماہوار ادا کرنے کا تھا۔ مگر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات نے مجھے مجبور کیا کہ میں یکمشت ہی ادا کردوں۔ میرے پاس روپیہ نہ تھا۔ میں نے اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے رقم لینے کی تجویز کی چنانچہ میں 115/ روپیہ حضرت اقدس کے حضور بھیج رہا ہوں۔ اب میرا پانچ سال کا چندہ خدا کے فضل سے سوفیصدی پورا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ ‘‘

٭…مستری محمد رمضان صاحب پتوکی سے لکھتے ہیں: ’’حضور نے احسان فرمایاکہ خاکسار کو پانچوں سالوں کے چندہ میں شمولیت کی اجازت فرما دی۔ خاکسار نے دل میں یہ فیصلہ کررکھا تھا کہ تحریک جدید کا چندہ جون میں ارسال کردوں گا۔ کیونکہ بندہ کا ارادہ تجارت کے لئے یوپی میں جانے کا تھا۔ وہاں سے واپسی پر رقم ادا کرنے کا خیال تھا۔ خاکسار نے حضور کی منظوری کا خط اپنی اہلیہ صاحبہ کو سنایا اور کہا کہ حضور نے خاکسار کو تحریک جدید کے پانچوں سالوں میں شمولیت کی اجازت عنایت فرمادی ہے۔ اس پر اہلیہ نے کہا چونکہ حضور نے منظوری عطا فرما دی ہے۔ اس لئے یہ وعدہ جلد تر پورا کریں۔ سو خاکسار۔/ 26کی رقم جو پانچ سال کا چندہ ہے۔ بھیج رہا ہے۔ ‘‘

٭ ایک دوست لکھتے ہیں: ’’آپ نے ایک مضمون الفضل میں شائع کیا تھا۔ جس میں حضرت خلیفة المسیح الثانی کے یہ الفاظ بھی درج فرمائے کہ جو شخص تکلیف اٹھا کر اس خدمت (تحریک جدید) میں حصہ لے گا۔ میں اس کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود یہ دعا کرچکے ہیں کہ اے خدا وہ شخص جو تیرے دین کی خدمت میں حصہ لے۔ اس پر اپنے خاص فضلوں کی بارش نازل فرما اور آفات و مصائب سے اسے محفوظ رکھیو۔ میں نے یہ الفاظ پڑھے اور اپنی موجودہ تکلیف کی بناء پر دل میں ایک درد پیدا ہوا۔ کاش خدا تعالیٰ مجھے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کی ان دنوں توفیق دے۔ اور ان دعاؤں میں شامل فرمائے۔ الحمدللہ کہ اس نے اپنے فضل سے سامان کردیا اور میں اپنا وعدہ پورا کررہا ہوں۔ ‘‘

بلند پایہ تحریکات کا سرچشمہ

جماعت احمدیہ کا مرکز و محور خلافت کا بلند پایہ نظام ہے اور خلیفۂ وقت کے جماعت سے رابطہ کا سب سے بڑا اور مستقل ذریعہ خطبات جمعہ ہیں انہی خطبات میں جماعت کے تمام عظیم الشان منصوبوں کی بنیاد ڈالی گئی اور جماعت نے والہانہ انداز میں ان پر لبیک کہا اور نئی تاریخ رقم کردی۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ خلیفۂ وقت کی تمام اہم تحریکات ،دشمن کی تدابیر اور نقصان دہ پروگراموں کی اطلاع اور ان کے سدباب کے لیے تدبیر اور دعا کا سلسلہ جمعہ کو ہی شروع ہوتا ہے۔

آپ غور کیجئے جماعت کی ذیلی تنظیمیں خدام، انصار، اطفال جو جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ان کی بنیاد کا اعلان جمعہ کو ہی کیا گیا۔ (لجنہ کی بنیاد حضرت مصلح موعودؓ کے ایک خط کے ذریعہ رکھی گئی) اور عالمی طور پر ہر ملک کی الگ الگ صدارت کا نظام بھی جمعہ کو ہی جاری کیا گیا۔ تحریک جدید، تحریک وقف جدید، تحریک وقف نو، تحریک شدھی کا انسداد، تحریک تعلیم القرآن، وقف عارضی، دعوت الی اللہ، خدمت خلق، Humanity First، قیام مساجد، وقار عمل، نصرت جہاں سکیم، مریم شادی فنڈ، عملی اصلاح اور خود ایم ٹی اے کے متعلق بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان جمعہ کے دن ہوا۔ ایم ٹی اے کے کئی چینلز، نئی سکیموں اور بہت سی websitesکا اعلان اور launching جمعہ کے دن اور جمعہ کے خطبہ کے ذریعہ ہوا۔ بدری صحابہؓ کے حوالے سے خطبات پر ایم ٹی اے نے ایک موبائل ایپلیکیشناور ویب سائٹ بھی قائم کی جس کا افتتاح 8؍اپریل 2022ء کو جمعہ کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

جماعت پر ہونے والے اعتراضات خصوصاً وائٹ پیپر کا جواب خطبات جمعہ میں دیا گیا۔ مطبوعہ کتاب زھق الباطل۔ مباہلہ کا چیلنج بھی اور اس کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے افضال کا ذکر بھی جمعہ کو ہوا۔ خطبات جمعہ پر مشتمل خطبات کی سیریز ہی نہیں۔ بیسیوں اہم اور شاندار کتب شائع ہوچکی ہیں مثلاً تعمیر بیت اللہ کے 23مقاصد، قرآنی انوار، ذوق عبادت اور آداب دعا۔ خلیج کا بحران اور نظام جہان نو۔ خلفا٫کے بیان فرمودہ خطبات بعد میں الفضل اور دیگر رسائل میں شائع ہوتے ہیں اور ان کی بھی ایک مستقل افادیت ہے۔

عالمی خطبہ جمعہ، عالمی جلسہ اور عالمی دعائیں

خلفاءکی تحریکات کے ابتدائی قصص اس دَور کے ہیں جب خطبات کے ابلاغ کا واحد ذریعہ الفضل تھا۔ پھر ایم ٹی اے جاری ہوا اور خلیفۂ وقت Liveخطاب کرنے لگے اور جماعت کی دنیا ہی بدل گئی اب تو خدا نے ایسا فضل کیا ہے کہ براہ راست خطبہ سنتے ہیں اور لاکھوں احمدی ایک وقت میں یکجان ہو کر سنتے ہیں۔ ایسا نظارہ نہ فلک کی آنکھ نے پہلے دیکھا نہ آئندہ دیکھے گی۔ غیر بھی دیکھتے ہیں اور اپنے بنتے چلے جارہے ہیں اور وہ کلام پورا ہو رہا ہے: عن علی رضی اللّٰہ عنہ قال اذا قام قائم آل محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم جمع اللّٰہ لہ اھل المشرق والمغرب۔ (ینابیع المودہ جلد 3 صفحہ 90۔ از شیخ سلیمان بن ابراہیم طبع دوم مکتبہ عرفان بیروت)حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جب قائم آل محمد یعنی امام مہدی آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اہل مشرق و مغرب کو جمع کردے گا۔

یہاں پر اس دَور کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہجرت کر کے پاکستان سے لندن تشریف لے گئے۔ خطبات جمعہ کے ذریعہ امام وقت کا رابطہ جماعت سے کٹ گیا تو حضور نے جو ابتدائی کارروائیاں کیں ان میں سب سے اہم خطبات جمعہ کی کیسٹس کا نظام تھا۔ خطبہ جمعہ ریکارڈ ہوتا اور تمام دنیا کی جماعتوں کو بھجوا دیا جاتا۔ وہاں سے اس کی مزید کیسٹس کاپیاں ہوتیں، تراجم ہوتے اور احباب جماعت تک پہنچائے جاتے۔ اس کے لیے ایک بہت بڑا نظام قائم کیا گیا اور بہت جلد جماعت اس نظام کی برکات سے متمتع ہونے لگی۔ اس کے بعد ویڈیو کیسٹس کا دور شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کا نظام قائم ہونے تک بہت عمدگی سے یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی دور کا ذکر کرتے ہوئے امة الباری ناصر صاحبہ کہتی ہیں:

کبھی دیتے ہیں ہم کو حوصلہ ہمت بڑھاتے ہیں

کبھی اللہ کے وعدوں کی خوشخبری سناتے ہیں

کبھی آیات قرآنی کی تصویریں بناتے ہیں

قدیر و مقتدر قادر کا جلوہ بھی دکھاتے ہیں

خدا کے بعد وہ ہی آسرا ہیں جانتے کیسے؟

اگر خطبے نہ آتے تو یہ دن ہم کاٹتے کیسے؟

بہت گہری ہے ان کی سوچ اور وسعت نظر میں ہے

ہر اک لمحہ ترقی دین احمد کی نظر میں ہے

وہ ماضی سے سبق لیتے ہیں مستقبل نظر میں ہے

جماعت کے ہر اک ممبر کی بہبودی نظر میں ہے

جماعت متحد ہے اور منظم جانتے کیسے؟

اگر خطبے نہ آتے تو یہ دن ہم کاٹتے کیسے؟

اس جمعہ نے جماعت احمدیہ کی اندرونی زندگی کو متعدد جمعوں سے بھر دیا ہے دنیا میں عالمی معیاری وقت کے مطابق جب سورج ڈھلتا ہے تو جماعت احمدیہ کا سورج طلوع ہوتا ہے تمام آنکھیں ٹیلی ویژن کی سکرین پر جم جاتی ہیں سب ایک آواز اور ایک تصویر کے منتظر ہوتے ہیں کہیں دن، کہیں رات، کہیں صبح کی ٹھنڈی ہوائیں، کہیں تپتی دوپہریں، کہیں مرغزار، کہیں گلستان، کہیں نخلستان، کہیں برف زار، مگر سب کے دل ایم ٹی اے کی برقی لہروں کے ساتھ دھڑکتے ہیں خدا کا پیارا جب السلام علیکم کے ذریعہ ساری دنیا میں سلامتی کا پیغام دیتا ہے تو لاکھوں زبانوں سے وعلیکم السلام کا جواب فضا کو برکتوں سے بھر دیتا ہے جب سے خلیفہ وقت کے خطبات ایم ٹی اے پر نشر ہونا شروع ہوئے ہیں ایک آدھ کے سوا کوئی ناغہ نہیں ہوا حتی کہ ایک خلیفہ نے آخری خطبہ دیا اور اگلا جمعہ نئے خلیفہ نے پڑھایا۔ اس جمعہ کی عید نے عید الفطر اور عید الاضحی کی خوشیوں کو بھی دو چند کر دیا ہے ہر طرف پھیلی دھند میں وہ ٹھنڈی چاندنی احمدیوں کی قوت اور سہارا ہے۔

جلسہ سالانہ تو جمعوں کا اجتماع ہے۔ انگلستان کا مرکزی جلسہ تو شروع ہی جمعہ کے دن ہوتا ہے جہاں 2سو ملکوں کے پرچم ایک ساتھ لہراتے ہیں اور پھر 3 دن زمان و مکان کی پابندیوں سے آزاد ہو کر لاکھوں احمدی جذب و شوق کے عالم میں جلسے میں شریک رہتے ہیں۔ اور امام جعفر صادق (وفات 148ھ)کا وہ قول پورا ہوتا ہے کہ ینادی مناد من السماء اول النہار یسمعہ کل قوم بالسنتھم۔ (بحارالانوار جلد52 صفحہ 289)دن کے اول حصہ میں ایک منادی پکارے گا جسے ہر قوم اپنی اپنی زبان میں سنے گی۔ مزید فرماتے ہیں: ان المؤمن فی زمان القائم و ھو بالمشرق لیری اخاہ الذی فی المغرب و کذا الذی فی المغرب یری اخاہ الذی فی المشرق۔ (بحارالانوار جلد52صفحہ 391)مومن جو امام قائم کے زمانہ میں مشرق میں ہوگا اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مغرب میں ہوگا اور اسی طرح جو مغرب میں ہوگا وہ اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مشرق میں ہوگا۔

عالمی نعرے، عالمی دعائیں اس کیفیت میں اور بھی اضافہ کرتی ہیں۔ کتنے نکاح ہیں جن کا اعلان ایم ٹی اے پر live کیا گیا، کتنے جنازے ہیں جو ایم ٹی اے پر پڑھائے گئے۔ کتنی نظمیں اور ترانے اور عقیدت کے نغمات ہیں جو زمین کے مختلف خطوں سے لندن میں کھڑے امام کی نذر کیے جاتے ہیں یہ عجیب اور لاثانی مناظر جمعہ ہی کی برکت ہیں۔

الغرض حضرت مرزا غلام احمدؑ تمام قوموں کا موعود بن کر تمام نبیوں کی شانیں لے کر محمد مصطفیٰﷺ کی غلامی کا تاج سر پر رکھے، آپؐ کی سیرت اور برکات کو اپنے اندر جمع کر کے جمعہ کا نام پا کر جمعہ کے دن پیدا ہوا۔ جمعہ کے زمانے میں طلوع ہوا۔ خدا نے اس کے لیے اپنے بے شمار زمینی اور آسمانی نشان جمع کر دیے۔ اس نے آخرین کو اولین کے ساتھ ملا دیا اور وحدت اقوام کے لیے خدا نے انسانوں کو جمع کرنے کے سارے ذرائع اس کے ہمراہ کیے۔ اس نے تخم بویا اور انسان خدا کی توحید پر جمع ہونے لگے۔ مشرق و مغرب اکٹھے ہونے لگے۔ اس کے بعد اس کی خلافت اسی جمعیت کے لیے کوشاں ہے۔ دنیا نفرتوں کی آماجگاہ ہے۔ امت مسلمہ تفریق کا شکار ہے۔ مگر احمدی ساری دنیا میں جمع کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ 213ممالک میں ایک دل ایک جان ایک کالم ایک امام ایک خلیفہ ایک آواز۔ کیا ایسا منظر تاریخ نے اس سے پہلے کبھی دیکھا؟ یہ سب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ہی برکت ہے جو خدا کے ساتھ مقام جمع میں اور قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ کے مصداق ہیں۔ آج خلافت کے ذریعہ قومیں اکٹھی ہو رہی ہیں۔ ہر سال لاکھوں بے خدا لوگ خدا کے در پر جمع ہو رہے ہیں۔ چپے چپے پر مسجدیں بنا کر ایک معبود کے آگے سر جھکا رہے ہیں۔ 76 زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کر کے اقوام عالم کو ایک کتاب پر جمع کر رہے ہیں۔ اور رسول اللہﷺ کے جلوے دکھا کر ایک اکیلے ہادی کی عظمت کے ترانے گا رہے ہیں۔

اس نعمت کی قدر کریں

ہمارے بزرگ جو مرکز سلسلہ سے دور رہتے تھے اس بات کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے کہ کب مرکز جانے کا کوئی موقع ملے اور وہ خلیفۂ وقت کی زیارت کریں اور اس کے پاک کلمات سے مستفید ہوں۔ اس کا خطبہ جمعہ سنیں، جلسہ سالانہ، اجتماعات، مجلس شوریٰ اور دیگر مرکزی پروگراموں میں تو شمولیت لازمی ہوتی تھی۔ کسی تقریب شادی میں شرکت یا جنازہ کی مشایعت کے لیے مرکز آنا بھی ضروری تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہانے ڈھونڈتے تھے۔

کہاں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی 1970ء کی یہ پاک خواہش کہ احمدیہ ریڈیو سٹیشن قائم کیا جائے اور کہاں 2022ء جب ایم ٹی اے انگلیوں پر دستیاب ہے۔ حضور کے خطبہ جمعہ کے علاوہ ہفتہ بھر میں درجنوں پروگرام آرہے ہوتے ہیں اور کسی احمدی کے لیے کوئی دقت یا عذر باقی نہیں رہا۔ لیکن وہ نعمت جو سہل الحصول ہوجائے انسان بعض دفعہ اس کی پوری طرح قدر نہیں کرتا۔ اسی لیے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گذشتہ عرصے میں بار بار ایم ٹی اے سے استفادہ کی بھرپور تحریک کی ہے۔ یہاں تک فرمایا کہ ہم اس پر ایک بھاری رقم خرچ کررہے ہیں۔ اس لیے غیر تو استفادہ کر کے قریب آرہے ہیں۔ مگر بعض اپنے اس سے محروم ہیں۔ جو قابل فکر بات ہے۔

فرمایا: اگر آپ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے منسلک کر لیں گے تو ہر احمدی کا علم بھی بڑھے گا۔ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کا علم بھی بڑھے گا۔ اس لیے میں بار بار کہا کرتا ہوں کہ ایم ٹی اے پر جو ہم اتنا خرچ کرتے ہیں تو ہر احمدی کو روزانہ کچھ وقت مقرر کر کے اس کا کوئی نہ کوئی پروگرام ضرور سننا چاہیے۔ (الفضل یکم نومبر 2013ء )

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ایک انگریز … جو تقریباً باقاعدہ جمعے کے خطبے سنتا ہے، اور شام کو دوبارہ ریکارڈنگ آتی ہے تو گھر والوں کو یا اس کی جب بیوی پوچھے تو کہتا ہے کہ میں فرائیڈے سرمن (Friday Sermon) سن رہا ہوں۔ وہ عیسائی ہے اور باتوں کا اثر لیتا ہے… اس نے بعض خطبات کے مضمون بیان کئے کہ یہ بڑی اچھی وقت کی ضرورت ہے۔ جو خطبات بھی آتے ہیں وہ صرف جماعت کے لئے وقت کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کے لئے وہ فائدہ مند ہو جاتے ہیں۔ ‘‘(خطبات مسرور جلد2صفحہ 727)

’’جو خطبہ جمعہ آتا ہے۔ میں نے کچھ واقعات بھی سنائے کہ کس طرح ایک شخص نے کہا کہ میرے ہر سوال کا جواب مل گیا اور میری تربیت ہوتی رہی۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا کے کونے کونے میں جو خطبے کا پیغام پہنچتا ہے یہ بھی سنیں۔ کہیں دن ہے، کہیں رات ہے، لیکن خلافت کی آواز خطبہ جمعہ کے ذریعہ سے ہر جگہ بیک وقت پہنچ رہی ہے۔ دنیا کے اس عظیم براعظم میں گزشتہ خطبہ جو میں نے دیا وہ تمام دنیا نے دیکھا اور سنا۔ یہ خوبصورتی آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے نظام کے ساتھ وابستہ کر کے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمائی ہے۔ خطبہ میں دنیا کے حالات کے مطابق رہنمائی ہوتی ہے اور یہ رہنمائی بھی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور اُس کے فضل سے ہوتی ہے۔ مختلف موضوعات ہیں جن پر خطبات دئیے جاتے ہیں۔ دنیا کے مسائل ہیں، اُن کے لئے دعاؤں کی تحریک ہے یہ سب اجتماعی عبادت ہے۔ اس کا نظارہ آج جماعت احمدیہ کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ ‘‘(الفضل یکم نومبر 2013ء)

نیوزی لینڈ کے جلسہ سالانہ کے خطاب میں حضور نے 2013ء میں فرمایا: ’’اس دور میں اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے جیسی نعمت سے ہمارے لئے زندگی بہت آسان کر دی ہے۔ تمام دن ایم ٹی اے پر ایسے پروگرام نشر ہوتے ہیں جو ہمارے ازدیاد علم کا باعث ہوتے ہیں اور اعلیٰ ترین اخلاقی اور روحانی معیارکی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح Alislam .org پر ایک کلک کی دوری پر ہزاروں کتب پڑی ہیں۔ لہٰذا جو پہلی بات میں آپ سے کہنا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے مربوط کر لیں۔ کم ازکم آپ کو میرے خطبات، تقاریر اور میرے دیگر پروگرام دیکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ پروگرام صرف دیکھنا ہی کافی نہیں بلکہ ان پروگرامز کو followکریں اور جو بھی آپ ان پروگراموں سے سیکھیں، اسے عملی رنگ دینے کی کوشش کریں۔ کوشش کریں کہ آپ کے تقویٰ اور نیکی کے معیار بلند ہوں۔‘‘(الفضل 5؍دسمبر 2013ء)

جلسہ نیوزی لینڈ میں لجنہ سےفرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہم پر احسان عظیم کرتے ہوئے ہمیں ایم ٹی اے اور جماعتی ویب سائٹس کی صورت میں ایک نعمت سے نوازا ہے۔ آپ سب کو میرے تمام پروگرام دیکھنے چاہئیں تاکہ آپ کو ہمیشہ حقیقی رہنمائی ملتی رہے اور آپ کو پتہ چلتارہے کہ خلیفہ وقت آپ سے کیا توقعات رکھتاہے۔ پروگرام دیکھ کر آپ کو خلیفہ وقت کے ارشادات اور نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ خلیفہ وقت سے جو کچھ بھی سیکھیں اس کو جذب کرنے والی بنیں اور ایسے پروگرام بنائیں جو آپ کے اندر مثبت تبدیلیاں پیداکرنے میں ممد ثابت ہوں۔ اس طرح جماعت احمدیہ کے اتحاد کی خوبصورتی اورامتیازہمیشہ قائم رہے گا۔ ہر احمدی خلیفہ وقت کے ارشادات کو دوسروں تک پہنچانے والا بنے گااور اس کے ذریعہ آپ کے سارے کام بابرکت ہوجائیں گے اور آپ کاخلافت کے ساتھ تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتاچلاجائے گا۔ ‘‘(الفضل 4؍دسمبر 2013ء)

سنگاپور میں 8ممالک کے مربیان کی میٹنگ میں حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ خلیفة المسیح کے جو خطبات ہیں ان کے نوٹس بنا کر جماعت کو پہنچایا کریں۔ آپ میں سے ہر ایک کے حلقہ کی تمام جماعتوں کو پہنچنے چاہئیں۔ حضور انور نے ہدایت فرمائی آپ کا پروگرام جو MTA پر ہر مہینہ آتا ہے اور خطبہ جمعہ کا مکمل ترجمہ آتا ہے۔ اپنی ساری جماعتوں کو کہیں کہ وہ یہ ترجمہ سنا کریں اور آپ سب لوگ اپنے نوٹس بھی بنایا کریں۔ کئی مربیان ایسے ہیں جو ہر خطبہ پر نوٹس بناتے ہیں اور پھر سارا ہفتہ ان نوٹس کے مطابق اپنے درسوں اور اجلاسات میں تلقین کرتے رہتے ہیں۔ (الفضل26؍اکتوبر2013ء)

سرینام کے ابتدائی احمدی محترم حسینی بدولہ صاحب تھے۔ 1994ء میں سرینام میں ایم ٹی اے کا اجرا ہوا تو آپ نے کئی دفعہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں ایک ایسا بوسٹر لگوانا چاہتا ہوں کہ سرینام میں ہر گھر میں ایم ٹی اے دیکھا جاسکے اور میں اس کام کے لیے پورا خرچ دیتا ہوں۔ (الفضل18؍نومبر2013ء)

ایسی پاک تحریکات ہر جگہ احمدیوں کے دلوں میں ٹھاٹھیں مارتی رہتی ہیں۔ پس خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی ایم ٹی اے سے ضرور وابستہ کریں کہ یہ ایک عظیم انقلاب کی تمہید ہے۔ جمعہ تو مسلمانوں کی عید ہے اور وہ جمعہ جو خدا کا خلیفہ پڑھا رہا ہو اور ساری دینا میں ایک ہی وقت میں دیکھا جا رہا ہو اور اس کی پشت پر پیشگوئیاں کھڑی ہوں جس کے ذریعہ عظیم الشان انقلابات پیدا ہو رہے ہیں وہ کیسا با برکت اور موعود جمعہ ہے اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اس کی برکات اور بھی روشن کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button