متفرق شعراء
فقط اس کی ہے منزل جو نبھاتا آسماں سے ہے
یدِ مولیٰ ہی حبل اللہ کو لاتا آسماں سے ہے
خلیفہ بن نہیں سکتا وہ آتا آسماں سے ہے
زمانے! آ مقابل پر کبھی ایسی جبینوں کے
جو مٹی سے ملیں سو اِن کا ناطہ آسماں سے ہے
یہاں صدیوں کے مردے زندگی کا جام پی بیٹھے
وہاں کوئی مسیحا کو بلاتا آسماں سے ہے
ستارہ با ادب، بام فلک پر راج کرتا ہے
مگر ہر بے ادب کو وہ گراتا آسماں سے ہے
دیا جب بھی جلایا ہے کسی نے خلوتِ شب میں
وہ ظالم کے کئی سورج بجھاتا آسماں سے ہے
قمرؔ تُو ہے مسافر شام کا سو بھول نہ جانا
فقط اس کی ہے منزل جو نبھاتا آسماں سے ہے