مقام وعظمتِ خلافت (قسط دوم۔ آخری)
خلافت کے نظام کے دائمی رہنے کے لیے کوشش کرنی ہے تو پھر جماعت کے اندر وہ نمونے بھی مستقل مزاجی سے قائم رکھنے پڑنے ہیں تبھی وہ ترقیات بھی ملیں گی جو پہلے ملتی رہی ہیں
خلافت اب تاقیامت رہے گی!
کبھی کبھی کسی کے ذہن میں یہ خیال آجاتاہے کہ آیت استخلاف میں تو خلافت کاوعدہ مشروط وعدہ ہے کہ جب تک لوگ ایمان اور عمل صالح کی شرط پرقائم رہیں گے تب تک خلافت ان میں موجودرہے گی اور جب ایسے لوگ نہیں رہیں گے تو یہ نعمت اٹھا لی جائے گی جیساکہ خلافت راشدہ کے وقت میں ہوا کہ جب مسلمانوں نے اس نعمت کی ناقدری کی تووہ نعمت ان سے واپس لے لی گئی۔ اس وقت اس کے تفصیلی جواب کاموقع تونہیں البتہ اصولی طورپریہ لکھنا ضروری ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایساہی ہے کہ یہ وعدہ مشروط بالایمان اور مشروط بہ عمل صالح ہی ہے لیکن وہ لوگ جوخلافت احمدیہ کے جلد اختتام کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ لمبی تان کرسوئے رہیں اور ان کے خوابوں پرتوہم پابندی نہیں لگاناچاہتے لیکن خلافت کے ماننے والوں کے لیے یہ خوشخبری ہے کہ خلافت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بہت لمبی دیرتک چلی جانے والی ہے۔ ان شاء اللہ۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ہرچندکہ مسیح ابن مریم کے مثیل تھے، مسیح ناصری علیہ السلام سے مشابہت تامہ تھی لیکن اس کے باوجود مخالفین کوحسرت ہی رہی کہ اس مسیح کو صلیب پر چڑھادیں یاقتل ہی کرڈالیں۔ اس لیے مشابہت کے لیے ضروری نہیں ہواکرتا کہ سب کچھ ہی ویساہی ہوجیسامشبہ بہ میں ہوتاہے۔ اس لیے اب اگرکوئی مومن نہیں رہے گا یاعمل صالح پرکاربندنہیں رہے گا تو اس کو نظام خلافت سے اٹھاکرباہرپھینک دیاجائے گا لیکن خلافت کا یہ کارواں اب رواں دواں رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک ہزارسال تک تو اس خلافت کاسفریقینی ہے۔ ان شاء اللہ، کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام صرف اس ایک صدی کے مجدد نہیں تھے بلکہ اس ایک ہزارسال کے مجددتھے۔ اور جب آپؑ کازمانہ ایک ہزارسال تک ہوا تو خلیفۃ المسیح بھی یعنی خلافت بھی ایک ہزارسال تک توبہرحال جاری وساری رہے گی۔ اس آخری ہزارسال کے مجدد ہونے کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سرپر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطورِظل کے ہو کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدّد صدی بھی ہے اور مجدّد الف آخر بھی۔ اِس بات میں نصاریٰ اور یہود کو بھی اختلاف نہیں کہ آدم سے یہ زمانہ ساتواں ہزار ہے۔ اور خدا نے جو سورہ والعصرکے اعداد سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے۔ اور نبیوں کا اِس پر اتفاق تھا کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوگا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا ہوگا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اوّل تھا۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20صفحہ208)
دنیاکی عمر سات ہزارسال کی تفصیلی بحث ایک اورجگہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحات 245تا253 میں بھی موجودہے۔ اوروہاں حضورعلیہ السلام قیامت کی ایک تشریح یہ بھی فرماتے ہیں: ’’یہ بھی یاد رہے کہ قیامت بھی کئی قسم پرمنقسم ہے اور ممکن ہے کہ سات ہزار سال کے بعد کوئی قیامت صغریٰ ہو جس سے دنیا کی ایک بڑی تبدیلی مراد ہو نہ قیامت کبریٰ۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ 251حاشیہ)
اسی امرکی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں: ’’حضرت مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آنحضرتﷺ کے ایک عظیم روحانی فرزند اور ایک عظیم خادم ہیں آپ کا زمانہ، آپ کی ماموریت سے قیامت تک ممتد اور مکان کے لحاظ سے ساری دنیا پر محیط ہے۔ اس لیے آپ کی کتب میں ہمیں وہ سارا مواد ملتا ہے یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ حضرت مہدی معہودو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں حضرت نبی اکرمﷺ کے جملہ ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کی تفسیر جابجا بیان فرمائی ہے۔ اس میں وہ مواد ہے جس میں کہیں تفصیل کے ساتھ اور کہیں اختصار کے ساتھ انسان کی معاشرتی، اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اور روحانی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے جو قیامت تک کسی نہ کسی وقت اورکسی نہ کسی شکل میں نوع انسان کے سامنے آنے والے تھے۔‘‘ (خطابات ناصر جلد اول صفحہ 533تا535)
امام کی چھ خوبیاں جن میں وہ سب سے ممتازہوتاہے
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے بیان فرمایا کہ میں امام الزمان ہوں اور درج ذیل قسم کی چھ علامات ایسی ہیں کہ جن کے ذریعہ میں سب سے ممتازہوں مقابلۃً میرے اندریہ تمام خوبیاں اورکمالات جمع ہیں اورمیں ان کامصداق ہوں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے بعد اپنے اپنے وقت کےامام انہیں خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اسی کے کمالات اور انوار لے کرآتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی تصنیف ضرورۃ الامام میں تفصیل کے ساتھ ان کاذکرفرمایاہے جن کاایک حصہ پیش خدمت کیاجاتاہے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں: ’’امام الزمان اس شخص کا نام ہے کہ جس شخص کی روحانی تربیت کا خداتعالیٰ متولی ہوکر اس کی فطرت میں ایک ایسی امامت کی روشنی رکھ دیتا ہے کہ وہ سارے جہان کی معقولیوں اور فلسفیوں سے ہر ایک رنگ میں مباحثہ کر کے ان کو مغلوب کرلیتا ہے وہ ہر ایک قسم کے دقیق در دقیق اعتراضات کا خدا سے قوت پاکر ایسی عمدگی سے جواب دیتا ہے کہ آخر ماننا پڑتا ہے کہ اس کی فطرت دنیا کی اصلاح کا پورا سامان لے کر اس مسافر خانہ میں آئی ہے اس لئے اس کو کسی دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا نہیں پڑتا۔ وہ روحانی طور پر محمدی فوجوں کا سپہ سالار ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر دین کی دوبارہ فتح کرے اور وہ تمام لوگ جو اس کے جھنڈے کے نیچے آتے ہیں ان کو بھی اعلیٰ درجہ کے قویٰ بخشے جاتے ہیں اور وہ تمام شرائط جو اصلاح کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ اور وہ تمام علوم جو اعتراضات کے اٹھانے اور اسلامی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے ضروری ہیں اس کو عطا کئے جاتے ہیں۔ اور بایں ہمہ چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کو دنیا کے بے ادبوں اور بد زبانوں سے بھی مقابلہ پڑے گا۔ اس لئے اخلاقی قوت بھی اعلیٰ درجہ کی اس کو عطا کی جاتی ہے اور بنی نوع کی سچی ہمدردی اس کے دل میں ہوتی ہے اور اخلاقی قوت سے یہ مراد نہیں کہ ہر جگہ وہ خواہ نخواہ نرمی کرتا ہے کیونکہ یہ تو اخلاقی حکمت کے اصول کے برخلاف ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جس طرح تنگ ظرف آدمی دشمن اور بے ادب کی باتوں سے جل کر اور کباب ہو کر جلد مزاج میں تغیر پیدا کر لیتے ہیں اور ان کے چہرہ پر اسعذاب الیمکے جس کا نام غضب ہے نہایت مکروہ طور پر آثار ظاہر ہو جاتے ہیں اور طیش اور اشتعال کی باتیں بے اختیار اوربے محل منہ سے نکلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ حالت اہل اخلاق میں نہیں ہوتی۔ ہاں وقت اورمحل کی مصلحت سے کبھی معالجہ کے طور پر سخت لفظ بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ لیکن اس استعمال کے وقت نہ ان کا دل جلتا نہ طیش کی صورت پیدا ہوتی ہے نہ منہ پر جھاگ آتی ہے ہاں کبھی بناوٹی غصّہ رعب دکھلانے کیلئے ظاہر کر دیتے ہیں اور دل آرام اور انبساط اور سرور میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اکثرسخت لفظ اپنے مخاطبین کے حق میں استعمال کئے ہیں جیسا کہ سور، کتے، بے ایمان، بدکار وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم نہیں کہہ سکتےکہ نعوذ باللہ آپ اخلاق فاضلہ سے بے بہرہ تھے کیونکہ وہ تو خود اخلاق سکھلاتے اور نرمی کی تاکید کرتے ہیں بلکہ یہ لفظ جو اکثر آپ کے منہ پر جاری رہتے تھے یہ غصہ کے جوش اور مجنونانہ طیش سے نہیں نکلتے تھے بلکہ نہایت آرام اور ٹھنڈے دل سے اپنے محل پر یہ الفاظ چسپاں کئے جاتے تھے۔ غرض اخلاقی حالت میں کمال رکھنا اماموں کیلئے لازمی ہے۔ اور اگر کوئی سخت لفظ سوختہ مزاجی اور مجنونانہ طیش سے نہ ہو اور عین محل پر چسپاں اور عندالضرورت ہو تو وہ اخلاقی حالت کے منافی نہیں ہے اور یہ بات بیان کر دینے کے لائق ہے کہ جن کو خداتعالیٰ کا ہاتھ امام بناتا ہے ان کی فطرت میں ہی امامت کی قوت رکھی جاتی ہے اور جس طرح الٰہی فطرت نے بموجب آیت کریمہ أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ(طٰہٰ:51)ہر ایک چرند اور پرند میں پہلے سے وہ قوت رکھ دی ہے جس کے بارے میں خداتعالیٰ کے علم میں یہ تھا کہ اس قوت سے اس کو کام لینا پڑے گا اسی طرح ان نفوس میں جن کی نسبت خداتعالیٰ کے ازلی علم میں یہ ہے کہ ان سے امامت کا کام لیا جاوے گا منصب امامت کے مناسب حال کئی روحانی ملکے پہلے سے رکھے جاتےہیں اورجن لیاقتوں کی آئندہ ضرورت پڑے گی۔ ان تمام لیاقتوں کا بیج ان کی پاک سرشت میں بویا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اماموں میں بنی نوع کے فائدے اور فیض رسانی کے لئے مندرجہ ذیل قوتوں کا ہونا ضروری ہے:
اول۔ قوت اخلاق۔ چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں اور سفلوں اور بدزبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے تا ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو اور لوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں۔ یہ نہایت قابل شرم بات ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رزیلہ میں گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرہ بھی متحمل نہ ہو سکے اور جو امام زمان کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ ادنیٰ بات میں منہ میں جھاگ آتا ہے۔ آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں وہ کسی طرح امام زمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس پر آیت إِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ(القلم:5)کا پورے طور پر صادق آ جانا ضروری ہے۔
دوم۔ قوت امامت ہے جس کی وجہ سے اس کا نام امام رکھا گیا ہے یعنی نیک باتوں اور نیک اعمال اور تمام الٰہی معارف اور محبت الٰہی میں آگے بڑھنے کا شوق یعنی روح اس کی کسی نقصان کو پسند نہ کرے اور کسی حالت ناقصہ پر راضی نہ ہو۔ اور اس بات سے اس کو درد پہنچے اوردکھ میں پڑے کہ وہ ترقی سے روکا جاوے یہ ایک فطرتی قوت ہے جو امام میں ہوتی ہے اور اگر یہ اتفاق بھی پیش نہ آوے کہ لوگ اس کے علوم اور معارف کی پیروی کریں اور اس کے نور کے پیچھے چلیں تب بھی وہ بلحاظ اپنی فطرتی قوت کے امام ہے۔ غرض یہ دقیقہ معرفت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ امامت ایک قوت ہے کہ اس شخص کے جوہر فطرت میں رکھی جاتی ہے جو اس کام کیلئے ارادہ الٰہی میں ہوتا ہے۔ اور اگر امامت کے لفظ کا ترجمہ کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ قوت پیشروی۔ غرض یہ کوئی عارضی منصب نہیں جو پیچھے سے لگ جاتا ہے بلکہ جس طرح دیکھنے کی قوت اور سننے کی قوت اور سمجھنے کی قوت ہوتی ہے اسی طرح یہ آگے بڑھنے اور الٰہی امور میں سب سے اول درجہ پر رہنے کی قوت ہے اور انہی معنوں کی طرف امامت کا لفظ اشارہ کرتا ہے۔
تیسری قوت بسطت فی العلم ہے جو امامت کیلئے ضروری اور اس کا خاصہ لازمی ہے۔ چونکہ امامت کا مفہوم تمام حقائق اور معارف اور لوازم محبت اور صدق اور وفا میں آگے بڑھنے کو چاہتا ہے۔ اسی لئے وہ اپنے تمام دوسرے قویٰ کو اسی خدمت میں لگا دیتا ہے اور رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طٰہٰ:115) کی دعا میں ہردم مشغول رہتا ہے اور پہلے سے اس کے مدارک اور حواس ان امور کے لئے جوہر قابل ہوتے ہیں۔ اسی لئے خداتعالیٰ کے فضل سے علوم الٰہیہ میں اس کو بسطت عنایت کی جاتی ہے اور اس کے زمانہ میں کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوتا جو قرآنی معارف کے جاننے اور کمالات افاضہ اور اتمام حجت میں اس کے برابر ہو اس کی رائے صائب دوسروں کے علوم کی تصحیح کرتی ہے۔ اور اگر دینی حقائق کے بیان میں کسی کی رائے اس کی رائے کے مخالف ہو تو حق اس کی طرف ہوتا ہے کیونکہ علوم حقہ کے جاننے میں نور فراست اس کی مدد کرتا ہے۔ اور وہ نور ان چمکتی ہوئی شعاعوں کے ساتھ دوسروں کو نہیں دیا جاتا وَذالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُپس جس طرح مرغی انڈوں کو اپنے پروں کے نیچے لے کر ان کو بچے بناتی ہے اور پھر بچوں کو پروں کے نیچے رکھ کر اپنے جوہر ان کے اندرپہنچا دیتی ہے اسی طرح یہ شخص اپنے علوم روحانیہ سے صحبت یابوں کو علمی رنگ سے رنگین کرتا رہتا ہے اور یقین اور معرفت میں بڑھاتا جاتا ہے…… طبابت کے رو سے بھی ہیئت کے رو سے بھی، طبعی کے رو سے بھی، جغرافیہ کے رو سے بھی اور کتب مسلمہ اسلام کے رو سے بھی اور عقلی بناء پر بھی اور نقلی بناء پر بھی اور امام الزمان حامی بیضۂ اسلام کہلاتا ہے۔ اور اس باغ کا خداتعالیٰ کی طرف سے باغبان ٹھہرایا جاتا ہے اور اس پر فرض ہوتا ہے کہ ہر ایک اعتراض کو دور کرے اور ہر ایک معترض کا منہ بند کر دے اور صرف یہ نہیں بلکہ یہ بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ نہ صرف اعتراضات دور کرے بلکہ اسلام کی خوبی اور خوبصورتی بھی دنیا پر ظاہر کردے۔ پس ایسا شخص نہایت قابل تعظیم اور کبریت احمر کا حکم رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے وجود سے اسلام کی زندگی ظاہر ہوتی ہے اور وہ اسلام کا فخر اور تمام بندوں پر خداتعالیٰ کی حجت ہوتا ہے اور کسی کیلئے جائز نہیں ہوتا کہ اس سے جدائی اختیار کرے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے ارادہ اور اذن سے اسلام کی عزت کا مربی اور تمام مسلمانوں کا ہمدرد اور کمالات دینیہ پر دائرہ کی طرح محیط ہوتا ہے۔ ہر ایک اسلام اور کفر کی کشتی گاہ میں وہی کام آتاہے اور اسی کے انفاس طیبہ کفرکش ہوتے ہیں۔…
چوتھی قوت عزم ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہے اور عزم سے مراد یہ ہے کہ کسی حالت میں نہ تھکنا اور نہ نوامید ہونا اور نہ ارادہ میں سست ہو جانا۔ بسا اوقات نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں کو جو امام الزمان ہوتے ہیں ایسے ابتلا پیش آجاتے ہیں کہ وہ بظاہر ایسے مصائب میں پھنس جاتے ہیں کہ گویا خداتعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا ہے اور ان کے ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور بسا اوقات ان کی وحی اور الہام میں فترت واقع ہو جاتی ہے کہ ایک مدت تک کچھ وحی نہیں ہوتی اور بسااوقات ان کی بعض پیشگوئیاں ابتلا کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں اور عوام پر ان کا صدق نہیں کھلتا اور بسا اوقات ان کے مقصود کے حصول میں بہت کچھ توقف پڑ جاتی ہے اور بسا اوقات وہ دنیا میں متروک اور مخذول اور ملعون اور مردود کی طرح ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک شخص جو ان کو گالی دیتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ گویا میں بڑا ثواب کا کام کر رہا ہوں۔ اور ہر ایک ان سے نفرت کرتا اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے اور نہیں چاہتا کہ سلام کا بھی جواب دے۔ لیکن ایسے وقتوں میں ان کا عزم آزمایا جاتا ہے۔ وہ ہرگز ان آزمائشوں سے بے دل نہیں ہوتے اور نہ اپنے کام میں سست ہوتے ہیں یہاں تک کہ نصرت الٰہی کا وقت آجاتا ہے۔
پانچویں قوت اقبال علی اللہ ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہے۔ اور اقبال علی اللہ سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ مصیبتوں اور ابتلاؤں کے وقت اور نیز اس وقت کہ جب سخت دشمن سے مقابلہ آ پڑے اور کسی نشان کا مطالبہ ہو۔ اور یا کسی فتح کی ضرورت ہو اور یا کسی کی ہمدردی واجبات سے ہو۔ خداتعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور پھر ایسے جھکتے ہیں کہ ان کے صدق اور اخلاص اور محبت اور وفا اور عزم لاینفکسے بھری ہوئی دعاؤں سے ملاء اعلیٰ میں ایک شور پڑ جاتا ہے اور ان کی محویت کے تضرعات سے آسمانوں میں ایک دردناک غلغلہ پیدا ہوکر ملائک میں اضطراب ڈالتا ہے۔ پھر جس طرح شدت کی گرمی کی انتہا کے بعد برسات کی ابتداء میں آسمان پر بادل نمودار ہونے شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح ان کے اقبال علی اللہ کی حرارت یعنی خداتعالیٰ کی طرف سخت توجہ کی گرمی آسمان پر کچھ بنانا شروع کر دیتی ہے اور تقدیریں بدلتی ہیں اور الٰہی ارادے اور رنگ پکڑتے ہیں یہاں تک کہ قضاء و قدر کی ٹھنڈی ہوائیں چلنی شروع ہو جاتی ہیں …اور امام الزمان کا اقبال علی اللہ یعنی اس کی توجہ الی اللہ تمام اولیاء اللہ کی نسبت زیادہ تر تیز اور سریع الاثر ہوتی ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے وقت کا امام الزمان تھا اور بلعم اپنے وقت کا ولی تھا جس کو خداتعالیٰ سے مکالمہ اور مخاطبہ نصیب تھا اور نیز مستجاب الدعوات تھا۔ لیکن جب موسیٰ سے بلعم کا مقابلہ آپڑا تو وہ مقابلہ اس طرح بلعم کو ہلاک کر گیا کہ جس طرح ایک تیز تلوار ایک دم میں سر کو بدن سے جدا کر دیتی ہے اور بدبخت بلعم کو چونکہ اس فلاسفی کی خبر نہ تھی کہ گو خدا تعالیٰ کسی سے مکالمہ کرے اور اس کو اپنا پیارا اور برگزیدہ ٹھہراوے مگروہ جو فضل کے پانی میں اس سے بڑھ کر ہے جب اس شخص سے اس کا مقابلہ ہوگا تو بے شک یہ ہلاک ہو جائے گا اور اس وقت کوئی الہام کام نہیں دے گا اور نہ مستجاب الدعوات ہونا کچھ مدد دے گا۔ اور یہ تو ایک بلعم تھا مگر میں جانتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اسی طرح ہزاروں بلعم ہلاک ہوئے جیسا کہ یہودیوں کےراہب عیسائی دین کے مرنے کے بعد اکثر ایسے ہی تھے۔
چھٹے کشوف اور الہامات کا سلسلہ ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ امام الزمان اکثر بذریعہ الہامات کے خداتعالیٰ سے علوم اور حقائق اور معارف پاتا ہے اور اس کے الہامات دوسروں پر قیاس نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہ کیفیت اور کمیّت میں اس اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں۔ اور ان کے ذریعہ سے علوم کھلتے ہیں اور قرآنی معارف معلوم ہوتے ہیں۔ اور دینی عقدے اور معضلات حل ہوتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی پیشگوئیاں جو مخالف قوموں پر اثر ڈال سکیں ظاہر ہوتی ہیں۔ غرض جولوگ امام الزمان ہوں ان کے کشوف اور الہام صرف ذاتیات تک محدود نہیں ہوتے۔ بلکہ نصرت دین اور تقویت ایمان کیلئے نہایت مفید اور مبارک ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ ان سے نہایت صفائی سے مکالمہ کرتا ہے اور ان کی دعا کا جواب دیتا ہے۔‘‘(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد 13صفحہ477تا 483)
خلافت سے انحراف کرنے والا فاسق اورجاہلیت کی موت مرتاہے
آیت استخلاف میں یہ صاف صاف ارشادخداوندی ہے کہ اس نعمت کی جوناشکری کرے گا، انکاروانحراف کرے گا اورناقدری کرے گا تو وہ خداکی نظرمیں فاسق قرارپائے گا۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’تفصیل اِس آیت[آیت استخلاف] کی یوں ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے پہلے ان لوگوں کو رُوئے زمین پر خلیفے مقرر کیا تھا جو ایماندار اور صالح تھے اور اپنے ایمان کے ساتھ اعمال صالح جمع رکھتے تھے اور خدا تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ تم میں سے بھی اے مسلمانو ایسے لوگوں کو جو انہیں صفات حسنہ سے موصوف ہوں اور ایمان کے ساتھ اعمال صالح جمع رکھتے ہوں خلیفے کرے گا پس منکم کا لفظ زائد نہیں بلکہ اس سے غرض یہ ہے کہ تا اسلام کے ایمانداروں اور نیکوکاروں کی طرف اشارہ کرے کیونکہ جبکہ نیکو کار اور ایماندار کا لفظ اِس آیت میں پہلی امتوں اوراِس اُمت کے ایمانداروں اور نیکوکاروں پر برابر حاوی تھا پھر اگر کوئی تخصیص کا لفظ نہ ہوتا تو عبارت رکیک اور مبہم اور دُور از فصاحت ہوتی اور منکم کے لفظ سے یہ جتانا بھی منظور ہے کہ پہلے بھی وُہی لوگ خلیفےمقرر کئے گئے تھے کہ جو ایماندار اور نیکو کار تھے اور تم میں سے بھی ایماندار اور نیکو کار ہی مقرر کئے جائیں گے…کیونکہ آیت کے صاف اور سیدھے یہ معنی ہیں کہ اللہ جلّ شانہ ٗخلیفوں کے پیدا ہونے کی خوشخبری دے کر پھر باغیوں اور نافرمانوں کو دھمکی دیتا ہے کہ بعد خلیفوں کے پَیدا ہونے کے جب وہ وقتًا فوقتًا پَیدا ہوں اگر کوئی بغاوت اختیار کرے اور ان کی اطاعت اور بیعت سے مُنہ پھیرے تو وُہ فاسق ہے…اور واضح ہو کہ اس آیت کریمہ سے وہ حدیث مطابق ہے جو پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ من لم یعرف امام زمانہٖ فقد مات میتۃ الجاھلیۃ۔ جس شخص نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ جاہلیت کی موت پرمر گیا یعنی جیسے جیسے ہر یک زمانہ میں امام پیدا ہوں گے اور جو لوگ اُن کو شناخت نہیں کریں گے تو ان کی موت کفارکی موت کے مشابہ ہو گی۔‘‘(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد6صفحہ333تا334)
کبھی کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ زبان سے تو انکارنہیں ہوتا لیکن عمل سے اور اظہارسے بغاوت اورنافرمانی کی بُوآرہی ہوتی ہے۔ اورکبھی کبھی کوئی ایسافقرہ یابات کردی جاتی ہے کہ جوچھوٹی سی یامعمولی سمجھ لی جاتی ہے۔ لیکن انجام کے اعتبارسے وہ بھی بہت بڑی اور بہت زہرناک ہوجایاکرتی ہے۔ اس لیے بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہواکرتی ہے۔ نبی اکرمﷺ کے عہدمبارک میں کیاہواتھا؟ یہی ناں کہ ایک موقع پرجب مال غنیمت کی تقسیم کے وقت نبی اکرمﷺ نے دوسروں کوسب کچھ دے دیااور انصارکوکچھ نہ دیا تو غیرمحتاط کلام کرتے ہوئے کچھ انصاری نوجوانوں نے تقسیم کے انتظام پراعتراض کردیا کہ انصاف نہیں کیاگیااور خون توہماری تلواروں سے ٹپک رہاہے اور اموال دوسروں کودیے گئے۔ پھربےشک جب انصارکے بزرگوں تک بات پہنچی توانہوں نے معذرت اور ندامت کا اظہارکرتے ہوئے معافی بھی مانگی لیکن صرف یہ ایک بات کرنے کی وجہ سے یہ قوم کی قوم بعدمیں آنے والے بہت سے انعامات سے ہمیشہ ہمیش کے لیے محروم ہوگئی۔ اس لیے کبھی بھولے سے بھی اپنی زبان سے کوئی بات نہیں نکالنی چاہیے کہ جومقام خلافت کے ادب واحترام کے منافی ہو۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی تحریرات وارشادات میں متعدد جگہ پر اسی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایاہے کہ الطریقۃ کلہاادب۔ کہ ہرامرمیں، ہرپہلوسے سب کچھ ادب کامتقاضی ہے۔ اوّل وآخرادب ہی ادب ہوتو بات بنتی ہے۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ خلیفہ کامقام بہت ہی ارفع واعلیٰ ہوتاہے۔ وہ اس وقت کے لوگوں میں سے، تمام ترلوگوں میں سے سب سے زیادہ متقی ہوتاہے، وہ سب سے بڑھ کرعالم وعارف ہوتاہے۔ وہ معلم ہوتاہے۔ خدااسے سکھاتاہے اور بتاتاہے وہ ایک ایسے مقام پرہوتاہے کہ جس کے آگے ہمارے سراور ہماری سوچوں کوسجدہ ریزہونا ہی قابل برکت وسعادت ہے۔ اوریہی اطاعت کا پہلاقرینہ ہے اور یہی ادب واحترام کاتقاضا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتاہے کہ بڑے بڑے عالم اور سمجھ رکھنے والوں کی سمجھ سے بالا کوئی بات ہوتی ہے اور ایسے مواقع پربھی جھٹ بول پڑنا اور اعتراض کرنا ابلیسی فکرکا حامل ٹھہرجایاکرتا ہے۔ کیونکہ اس وقت بھی یہی ہواتھا کہ جب تمام فرشتوں کوسجدہ کرنے کاحکم ہواتو اپنے علم کی بنا پر، اسی علم کے زُعم میں ایک نے اعتراض کرتے ہوئے انکارکردیا۔ جس کانتیجہ کیاہوا؟ یہی کہ وہ شیطان قرارپایا، راندۂ درگاہ ٹھہرا۔ ایسے لوگوں کا پھرکوئی وارث نہیں ہواکرتا۔ ان کونہ توزمین قبول کرتی ہے اور نہ ہی آسمان اس پرکوئی توجہ کرتاہے۔
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
کے مصداق وہ دربدر ٹھوکریں کھاتے پھرتےہیں۔ اسی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’میں اعتراض کرنے والے کو نصیحت کرتاہوں کہ بہت الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے منہ سے نکل جانے کے بعد انسان کو پچھتانا پڑتا ہے۔ رسول کریمﷺ کے متعلق کسی نے کہا تھا کہ آپ نے انصاف کے ماتحت مال تقسیم نہیں کی۔ آپؐ نے کہا اگرمیں نے انصاف نہیں کیا تواورکون کرسکتاہے۔ اورپھرفرمایااس شخص کی نسل سے ایسے لوگ ہوں گے جودین کوبرباد کرنے والے ہوں گے۔ قرآن ا ن کے حلق سے نیچے نہ اترے گا۔ کیساخطرناک انجام ہوا۔ جوکچھ معترض نے کہا ہے اس کایہی مفہوم ہوسکتاہے کہ ہم دین کے لئے زیادہ مانگتے ہیں۔ مگریہ کون سی بری بات ہے۔ جوجائز تدبیرہو وہ ثواب کاموجب ہے۔ مگرایسی باتیں اپنے نتائج کے لحاظ سے قابل اعتراض ہوتی ہیں گواپنے الفاظ کے لحاظ سے نہ ہو۔ دیکھوقرآن کریم میں آتاہے خداتعالیٰ مسلمانوں کو فرماتاہے تم رسول کوراعنا (البقرۃ:105)نہ کہوگوتمہاری نیت اس لفظ سے یہ نہیں کہ رسول کی ہتک کرو۔ مگریہ لفظ ہتک کرنے والاہے۔ اگرتم اس لفظ کواستعمال کروگے توتم سے انعام چھین لئے جائیں گے۔ اس سے معلوم ہوسکتاہے کہ خداتعالیٰ کوانبیاء کے متعلق کس قدرغیرت ہوتی ہے۔ اورجس طرح اللہ تعالیٰ کواپنے انبیاء کی غیرت ہوتی ہےگوان کی ذاتی خوبیاں بہت بڑھی ہوئی ہیں اورخلفاء میں ان کے مقابلہ میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔ ان میں انبیاء کی طرح معصومیت نہیں ہوتی۔ مگرجس مقام پران کوکھڑاکیاجاتاہے اس کی غیرت کی وجہ سے ان پراعتراض کرنے والے بھی ٹھوکرسے نہیں بچ سکتے…ایسی باتیں مت کرو جن کاتمہیں صحیح علم نہ ہو…میں تمہاری نسبت أعلم ہوں اس معاملہ کے متعلق اوروہ کچھ جانتاہوں جوتم نہیں جانتے…‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍مئی 1926ءمطبوعہ خطبات محمودجلد10صفحہ 178تا179)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم نہ تو سیاسی کتابیں پڑھتے ہیں۔ نہ ہم سیاسی مجالس میں شرکت حاصل کرتے ہیں۔ اورنہ یہ باتیں جوہم کہتے ہیں ہمارے غورفکرکانتیجہ ہوتی ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ باتیں ہمیں خدا سمجھاتاہے اورجوباتیں وہ ہمیں سمجھاتاہے اوراس کے سمجھانےکے بعد جو باتیں ہم کہتے ہیں وہی اکثرپوری ہوتی ہیں …پس یہ ٹھیک اور بالکل ٹھیک ہے کہ ایسی باتیں ہمیں خداسکھلاتاہے۔ اوراسی کے سکھلائے ہوئے علم کے ماتحت ہم دنیاکوبتاتے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍جون1926ءمطبوعہ خطبات محمودجلد10صفحہ211)
اطاعت وفرمانبرداری کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’اصل فرمانبرداری یہ ہے کہ سلسلے کے مفادکے لئے سب کی مانیں بعض لوگ غلطی سے فرمانبرداری کو غلامی سمجھتے ہیں مگر فرمانبرداری غلامی نہیں ہے۔ غلامی اور چیزہے اور فرمانبرداری اور چیز۔ دنیامیں سب سے زیادہ آزادی پھیلانے والے انبیاء اوران کی جماعتیں ہوتی ہیں اور وہی سب سے زیادہ فرمانبردار ہوتی ہیں۔ اگر فرمانبرداری غلامی ہوتی تونہ انبیاء فرمانبردار ہوتے اورنہ ان کی جماعتیں۔ پس یہ غلط خیال ہے کہ فرمانبردای غلامی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍جولائی1926ءمطبوعہ خطبات محمودجلد10صفحہ223تا224)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’ آپ لوگوں کو یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی ہے اورجوشخص یہ نہیں مانتا وہ جھوٹی بیعت کرتا ہے۔ جوسمجھنے والے ہیں وہ توسمجھ لیں گے لیکن جونہیں سمجھتے میں ان سے کہتاہوں کہ کان کھول کرسن لیں کہ ان تمام امورمیں کہ جن میں گورنمنٹ اپنے پاس آنے کے لئے مجبورنہیں کرتی سب پرخلیفہ کاحکم ہے۔ اورجویہ بات سمجھ کربیعت نہیں کرتا وہ درحقیقت بیعت بھی نہیں کرتا۔ پھرجس طرح خلیفہ کاحکم ضروری ہے اسی طرح خلیفہ جونائب مقرر کرتاہے اس کاحکم ماننا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ قانون کی پابندی ہرحال میں ضروری ہے۔ وہ شخص انسان پرست ہے خداپرست نہیں جومیری ہی مانتاہے اورمیرے مقرر کردہ دوسروں کی نہیں مانتا ایسا انسان دراصل خدا کا حکم نہیں مانتا۔ وہ اپنا انجام سوچ لے…یہ ایک مسئلہ ہے جس کی یہاں جماعت کوبھی ضرورت ہے اورباہرکی جماعتوں کوبھی۔ کیونکہ باہرسے بھی آوازآتی ہے کہ ہم میں سیاست نہیں اس لئے کس کی مانیں۔ ہم کہتے ہیں سیاست تو ہے حکومت نہیں۔ اورمیرے نزدیک اگرکوئی شخص یہ نہیں مانتا تووہ گویابیعت ہی نہیں کرتا۔ نبوت اور کفرواسلام کے مسئلے میں اختلا ف کرتے ہوئے ایک شخص بیعت کرسکتاہے۔ لیکن خلافت کے اس مسئلے میں اختلاف کرکے بیعت نہیں کرسکتا۔ دیکھو یہ سمجھتے ہوئے کہ فلاں شخص نے غیبت کی یاجھوٹ بولاہے۔ اس کے پیچھے نمازپڑھ سکتاہے۔ لیکن یہ سمجھ کرکہ بے وضو کھڑاہے ہرگز اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ جسے خبرنہیں کہ امام بے وضو کھڑاہے اس کی توہوجائے گی۔ مگرجسے خبرہے اس کی نمازنہیں ہوگی۔ کیونکہ امامت کاجو مفہوم تھا وہ نہ رہا۔ اسی طرح یہ نکاح توہوسکتاہے کہ عورت عیسائی ہواورمرد مسلمان لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بھائی اور بہن میں نکاح ہوجائے۔ پس خلیفہ کے احکام کی اطاعت ایک ایساضروری امرہے کہ جواس کااقرار نہیں کرتا بلکہ اس سے اختلاف رکھتاہے وہ بیعت میں بھی شامل نہیں ہوسکتا۔ دوستوں کویہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سوائے ان امور کے جن میں نص شرعی موجودہویاجن کو گورنمنٹ نے اپنے لئے مخصوص کرلیاہو۔ باقی سب خلیفہ کی سیاست ہے۔ خواہ وہ روحانی ہوں یااخلاقی ہوں یاجسمانی ہوں یاتمدنی ہوں۔ ان میں خلیفۃ کی اطاعت کرنی چاہیے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍جولائی1926ءمطبوعہ خطبات محمودجلد10صفحہ225تا226)
ایک ایسی نعمت جوکہ کسی اورکونصیب نہیں
خلافت یاخلیفہ کامقام ومرتبہ اور اس کے عظیم الشان اوصاف وخصائل کاکچھ مختصر بیان اوپرہواہے۔ اور ان سبکو مدنظررکھتے ہوئے خلافت کی اس نعمت پرجتنا بھی ہم شکرکریں وہ کم ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور امرکاذکرکرنابھی بہت ضروری ہے کیونکہ وہ ایک ایسی بات ہے کہ جوکسی بھی طرح سے ایک نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں ہے۔ اوروہ ہے خلیفہ وقت کاہمارے لیے درد اور ضرورتوں کااحساس اور دعائیں کرنا۔ ایک ماں بھی اپنے بچوں کے لیے کیا درداور احساس رکھتی ہوگی جوکہ خلیفہ کواپنی جماعت کے ہرفردکے ساتھ ہوتاہے۔
حضرت مصلح موعودؓ اسی درد اور احساس کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’دیکھنے والوں کو تو یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہوگی کہ کئی لاکھ کی جماعت پر حکومت مل گئی۔ مگر خدا را غور کرو کیا تمہاری آزادی میں پہلے کی نسبت کچھ فرق پڑگیا ہے۔ کیا کوئی تم سے غلامی کرواتا ہے یاتم پر حکومت کرتا ہے یا تم سے ماتحتوں غلاموں اور قیدیوں کی طرح سلوک کرتا ہے۔ کیا تم میں اوران میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے۔ کوئی بھی فرق نہیں۔ لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارےلئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے مگر ان کے لئے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا۔ لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کرسکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں۔ پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاں تمہارے لئے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔‘‘(برکات خلافت، انوارالعلوم جلد 2صفحہ 158)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں: ’’میں چونکہ خطبہ کو مختصر کرنا چاہتا ہوں۔ اس لئے دوستوں سے ایک آخری بات کہہ دیتا ہوں۔ وہ یہ کہ جتنے خلفاء راشدین ہوئے ہیں (یعنی نبی کریمﷺ کے بعد سے خلافت راشدہ شروع ہوئی۔ پھر اس خلافت کے بعد کچھ اور لوگ آ گئے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے پھر خلافت کا مضبوط نظام قائم فرمایا اور یہ نظام اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ جماعت اپنے آپ کو خدا کی نگاہ میں اس انعام کی مستحق ثابت کرتی جائے گی)۔ ان تمام خلفاء کے حالات کا مطالعہ کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ کہ وہ تمام خلفاء تذلل اور فروتنی اور عاجزی کی راہوں کو اختیار کرتے چلے آئے ہیں۔ میں نے بھی خدا کے حکم کے مطابق اس کی رضا کے لئے اور تمام خلفاء راشدین کی سنت کے مطابق عجز کی راہوں کو اختیار کیا ہے۔ میں آپ میں سے آپ کی طرح کا ہی ایک انسان ہوں اور آپ میں سے ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اتنا پیار پیدا کیا ہے کہ آپ لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ بعض دفعہ سجدہ میں میں جماعت کے لئے اور جماعت کے افراد کے لئے یوں دعا کرتا ہوں کہ اے خدا! جن لوگوں نے مجھے خطوط لکھے ہیں۔ ان کی مرادیں پوری کر دے، اے خدا! جو مجھے خط لکھنا چاہتے تھے لیکن کسی سستی کی وجہ سے نہیں لکھ سکے ان کی مرادیں بھی پوری کر دے اور اے خدا! جنہوں نے مجھے خط نہیں لکھا اور نہ انہیں خیال آیا ہے کہ دعا کے لئے خط لکھیں اگر انہیں کوئی تکلیف ہے۔ یا ان کی کوئی حاجت اور ضرورت ہے تو ان کی تکالیف کو بھی دور کر دے اور حاجتیں بھی پوری کر دے۔
لیکن بعض دفعہ بعض نادان فنا اور نیستی کے اس مقام کو کمزوری سمجھنے لگ جاتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی عاجزی کی راہ کو اختیار کیا حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد جو خلفاء اور مجدد ہوئے۔ انہوں نے بھی عجز کے اسی راستے کو اختیار کیا۔ تو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شخص بڑا کمزور ہے کیونکہ یہ عاجزی اختیار کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا کچھ ایسا جلوہ ظاہر ہوتا ہے وہ اپنے نفس کو بھی اور دنیا کی ساری مخلوق کو بھی مردہ سمجھتے ہیں نہ ہی اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں، نہ دنیا کو کچھ سمجھتے ہیں اور اس عجز کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی اعجازی قدرت کا مظہر بن جاتے ہیں گویا ایسے لوگوں کے لئے فنا اور نیستی کے مقام سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک چشمہ پھوٹتا ہے۔ اس لئے دنیا کی کوئی طاقت انہیں مرعوب نہیں کر سکتی انہیں ساری دنیا کے مال بھی کوئی لالچ نہیں دے سکتے۔ جب خدا کا یا اس کے دین کا معاملہ ہو تو کسی دوسرے کے سامنے ان کا سر جھکا نہیں کرتا۔ ورنہ وہ تو ایک فقیر اور مسکین کے سامنے بھی جھک رہے ہوتے ہیں۔ اور عاجزی دکھا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب خداتعالیٰ کے فعل اور قول کا اور خداتعالیٰ کے نام اور اس کی عظمت کا دنیا اور دنیا داروں سے تصادم ہو جائے۔ تو پھر دنیا ان کے پاؤں کی خاک بھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ان کا مربی اور معلم ہوتا ہے۔ آپ اس بات کو اچھی طرح یاد رکھیں۔ پس یا تو ہمارا یہ عقیدہ ہی غلط ہے کہ خلیفہ وقت ساری دنیا کا استاد ہے اور اگر یہ سچ ہے اور یقیناً یہی سچ ہے تو دنیا کے عالم اور دنیا کے فلاسفر شاگرد کی حیثیت سے ہی اس کے سامنے آئیں گے۔ استاد کی حیثیت سے اس کے سامنے نہیں آئیں گے۔ تو خلیفہ وقت کا انکسار اس کی عاجزی و فروتنی، اس کا تذلل یہی اس کا مقام ہے اور وہ اس ایمان اور یقین پر قائم ہوتا ہے کہ میں لاشئی ہوں۔ کچھ بھی نہیں ہوں۔ نہ علم ہے مجھ میں نہ فراست ہے مجھ میں، نہ ہی کوئی طاقت ہے مجھ میں، اگر کچھ ہے تو وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے۔ وہ جتنا علم دے جتنی طاقت دے جتنی فراست دے اس کی عطا ہے اور اسی کے جلال اور عظمت کے لئے خرچ کی جاتی ہے۔ کہیں بھی اس کا اپنا وجود نظر نہیں آتا۔ مٹی کے ذرّات ہوا میں بکھر جائیں تب بھی ان کا کچھ وجود ہوتا ہے۔ لیکن ایسے شخص کا وجود اتنا بھی باقی نہیں رہتا۔
تو میں آپ کو وضاحت کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ آپ کا خلیفہ بنائے گا۔ اس کے دل میں آپ کے لئے بے انتہا محبت پیدا کر دے گا اور اس کو یہ توفیق دے گا کہ وہ آپ کے لئے اتنی دعائیں کرے کہ دعا کرنے والے ماں باپ نے بھی آپ کے لئے اتنی دعائیں نہ کی ہوں گی اور اس کو یہ بھی توفیق دے گا کہ آپ کی تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے ہر قسم کی تکلیف وہ خود برداشت کرے اور بشاشت سے کرے اور آپ پر احسان جتائے بغیر کرے کیونکہ وہ خدا کا نوکر ہے آپ کا نوکر نہیں ہے اور خدا کا نوکر خدا کی رضا کے لئے ہی کام کرتا ہے۔ کسی پر احسان رکھنے کے لئے کام نہیں کرتا لیکن اس کا یہ حال اور اس کا یہ فعل اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اس کے اندر کوئی کمزوری ہے اور آپ اس کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ کمزور نہیں، خدا کے لئے اس کی گردن اور کمر ضرور جھکی ہوئی ہے۔ لیکن خدا کی طاقت کے بل بوتے پر وہ کام کرتا ہے۔ ایک یا دو آدمیوں کا سوال ہی نہیں میں نے بتایا ہے کہ ساری دنیا بھی مقابلہ میں آجائے تو اس کی نظر میں کوئی چیز نہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍نومبر1966ءمطبوعہ خطبات ناصر جلداول صفحہ 492تا 494)
ہزاروں ماؤں سے بڑھ کراپنی جماعت کے ایک ایک فردسے محبت اور پیارکے اسی احساس اوردعاکاذکرکرتے ہوئے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍جون 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل)
پس کس قدرہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ بابرکت وجودکہ جس کی دعائیں عرش کاخدا سنتاہے اور خوب سنتاہے۔ جس کی تائیدونصرت کے لیے اس کاخدا اس کے ساتھ یہ کہہ کرکھڑاہوتاہے کہ انی معک یامسرور، جس کی قدم قدم پرراہنمائی وہ خدائے علیم وخبیر خودکرتاہے۔ وہ بابرکت وجود، وہ دعادعا مقدس چہرہ ہمارے لیے اتنا درد رکھتاہے، ہمارااتنا خیال رکھتاہے۔
اگر ہر بال ہو جائے سخن ور
تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس ملنے والی عظیم نعمت کی قدرکریں، اس پرشکرکریں، اوراپنے محبوب امام کے لیے دعائیں کریں، اس کی ہربات پر عمل پیراہوں، اوراس کی ہرنصیحت پرکماحقہ عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری آخری سانسوں تک دامن خلافت سے وابستہ رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں: ’’خلافت کے نظام کے دائمی رہنے کے لئے کوشش کرنی ہے تو پھر جماعت کے اندر وہ نمونے بھی مستقل مزاجی سے قائم رکھنے پڑنے ہیں۔ تبھی وہ ترقیات بھی ملیں گی جو پہلے ملتی رہی ہیں۔
پس یہ وہ معیار ہیں جو اللہ تعالیٰ کے انعام سے فیض پانے کے لئے ضروری ہیں۔ ہمیں اپنی عبادتوں کے معیار بھی اونچے کرنے ہوں گے۔ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہو گی۔ اپنے ہر قول و فعل کو ہر قسم کے شرک سے کلیۃً پاک کرنا ہو گا۔ اپنے اموال کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہو گا۔ اور خلافت سے وفا اور اطاعت کے معیاروں کی بھی ہر وقت حفاظت کرنی ہو گی تبھی ہم خلافت کے انعام اور اس کے ساتھ رکھی ہوئی اللہ تعالیٰ کی برکات سے فیض پا سکتے ہیں اور تاقیامت رہنے والی خلافت سے جُڑے رہ سکتے ہیں اور اپنی نسلوں کو ان کے ساتھ جڑا رکھنے والا بن سکتے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍مئی 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍جون2018ءصفحہ9)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 11؍مئی 2003ء کو جماعت احمدیہ کے نام اپنے ایک محبت بھرے پیغام میں بیان فرمایا: ’’قدرتِ ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحدکرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے۔ اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو دین حق کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں۔ اِمام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام کے ساتھ وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو امام کے ساتھ وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکروٹا۔‘‘
پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اورمیرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل23؍مئی 2003ءصفحہ1)
٭…٭…٭