خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 08؍ اپریل 2022ء

سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشادفرمایا۔

سوال نمبر2: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے آغازمیں ماہِ رمضان کی کیا خصوصیت بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کے مہینے سے ہم گزر رہے ہیں۔ یہ مہینہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں خاص رحمت سے دعاؤں کو قبول کرنے کا اعلان فرما دیا ہے، اپنے فیضِ خاص کا چشمہ جاری فرما دیا ہے کیونکہ اس میں انسان اپنا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ حتیٰ کہ کھانا پینا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور ایک مقررہ وقت میں کرتا ہے۔ اس لیے آنحضرتﷺ نےفرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت کے دروازے اس مہینے میں کھول دیے جاتے ہیں اوردوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس مہینے میں شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے۔

سوال نمبر3: قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے کے لیے کیا ضروری ہے؟

جواب: فرمایا: اگر انسان خدا تعالیٰ کا بندہ بننے کا حق ادا کرنے والا بن جائے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اس کی پکار بھی سنتا ہوں، اس کے شیطان کو جکڑ دیتا ہوں۔ جب بھی شیطان حملہ آور ہو میں مدد کے لیے آ جاتا ہوں۔ صرف سال کا ایک مہینہ نہیں جو رمضان کا مہینہ ہے بلکہ ہمیشہ ایسے شخص کو شیطان کے حملے سے بچاؤں گا بشرطیکہ میری بندگی کا حق ادا کرو، میرے حکموں کو مستقل مانو۔ صرف رمضان کے مہینےمیں ہی نیکیاں نہ بجا لاؤ بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرو۔ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرو، اپنے ایمان کو پختہ کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری تمام صفات پر کامل یقین اور ایمان رکھو۔ پھر دیکھو کس طرح قبولیتِ دعا کے نظارے بھی تم دیکھتے ہو اور اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالنے والے ہی حقیقی رشد اور ہدایت پانے والے ہیں۔

سوال نمبر4: حضرت مسیح موعودؑ نے دعا کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں ’’اللہ جل شانہ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا۔ جب کوئی شخص بکا وزاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولائے کریم اس کو پاکیزگی وطہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اس پر اس قدر کر دیتا ہے کہ بے جا کاموں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے۔‘‘

سوال نمبر5: دعاکی قبولیت کے لیے کیا ضروری ہے؟

جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا بلکہ خداتعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔ اس لیے دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے۔ اور یہی معنی اس دعا ’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’پہلے لازم ہے کہ انسان اپنے اعتقاد، اعمال میں نظر کرے۔‘‘ اپنے اعتقاد پہ، اپنے اعمال پہ نظر کرے ’’کیونکہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرایہ میں ہوتی ہے۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پید اکردیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں جو کہتے ہیں کہ جب دعا ہوئی تو اسباب کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ دعا کر لی اس لیے عمل کی ضرورت کوئی نہیں، سامانوں کی ضرورت کوئی نہیں، کوشش کی ضرورت کوئی نہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’وہ نادان سوچیں کہ دعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے جو دوسرے اسباب کو پیداکردیتا ہے۔‘‘دعا تو خود ایک سبب ہے، چھپا ہوا سبب ہے، اور دوسرے سبب کو، اسباب کو پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ پس قبولیت دعا کے لیے، اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان کوشش کر کے اللہ تعالیٰ سے ایک تو اس کا فضل مانگے اور فضل یہ ہے کہ بکا و زاری کر کے اس کے بندوں میں شامل ہو اور اس کے لیے کوشش کرے۔ یہ دعا کرے کہ مجھے اپنے بندوں میں شامل کر لے۔ ان بندوں میں جو اعتقاد اور اعمال کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے خالص بندے ہیں۔ وہ دعا کرنے سے پہلے اپنے عمل کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے اور ان بندوں میں شامل ہو جن کے ایمان غیرمتزلزل ہیں اور پکے اور مضبوط ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میں یہ طاقت ہے کہ وہ مٹی کے ذرّے کو بھی سونا بنا سکتا ہے۔ وہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ انتہائی بگڑے ہوؤں کو بھی اپنے عباد میں شامل کر لے۔ ان کو اپنے راستے دکھائے اور پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف چلنے والے راستوں پر چلنے والے بن جائیں۔ اس مضمون کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ میرے راستے پر چلنے کے لیے جہاد کرنے والوں کو میں اپنا راستہ دکھاتا ہوں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: 70) یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ان کو اپنے راستے دکھاتے ہیں۔

سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےدعاؤں کی قبولیت کے معیار کے حوالہ سے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: لوگ سوال کرتے ہیں، خطوں میں مجھے لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے بہت دعا کی ہے لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پس جو یہ کہتے ہیں وہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ غلط نہیں۔ جس کو انسان اپنی طرف سے بہت دعا کا معیار سمجھ رہا ہوتا ہے ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس میں بھی کمی ہو اور ابھی اسے مزید جہاد کی ضرورت ہو۔ پھر اپنے طریقِ دعا کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرما رہے ہیں کہ جو شخص اپنی تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص کے ساتھ اسے ڈھونڈ رہا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم اسے بالضرور اپنی راہیں دکھلا دیا کرتے ہیں۔ پس ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم نے اپنی عقل کے مطابق، اپنی تمام تر صلاحیتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کر لیا ہے کہ فَلْیسْتَجِیبُوْالِی کہ میری بات پر لبیک کہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تمام زور اس بات پر لگا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات پر لبیک کہنا ہے۔ پورے اخلاص و وفا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر رہے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر ہمیں شکوہ نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو نہیں سنا۔ پس دعاؤں کی قبولیت کے لیے بھی پہلے اپنی حالتوں کو بدل کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانا ضروری ہے، جہاد کرنا ضروری ہے۔

سوال نمبر7: آیت کریمہ وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِینَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ کے حوالہ سے حضرت مسیح موعودؑ نے کیا نصائح فرمائی ہیں؟

جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا کے حوالے سے ہمیں مختلف پیرائے میں نصائح فرمائی ہیں اور علم و عرفان کے دروازے کھولے ہیں۔ اس حوالے میں جو بیان ہوا ہےانسانی فطرت کا نقشہ کھینچ کر تفصیل بیان فرمائی کہ انسان ایک حالت پر مستقل قائم نہیں رہ سکتا۔ اتار چڑھاؤ انسان کی طبیعت میں آتا رہتا ہے لیکن جو سعید فطرت ہے وہ اپنی کمزوری کی حالت سے بھی سبق حاصل کرتا ہے، توبہ واستغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور اپنی کمزوری پر شرمندہ ہو کر پھر اللہ تعالیٰ کی تلاش میں جہاد کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی محبت جوش میں آتی ہے، اس کی بخشش جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندے کی طرف دوڑ کر آتا ہے اور اسے پاکیزگی اور نیکی کی قوت عطا فرماتا ہے اور جب انسان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکیزگی اور نیکی کی قوت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر اس کا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جاتا ہے۔ ہر قسم کی کمزوری و سستی سے وہ پاک ہو جاتا ہے۔ وہ تقویٰ پر چلنے والا بن جاتا ہے اور گناہوں سے بچایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایسی رضا حاصل کرنے والا ایسا انسان بن جاتا ہے کہ پھر اس سے ایسی غلطیاں سرزد ہی نہیں ہوتیں جو خداتعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہوں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا لیکن یاد رکھو کہ اس حالت کو حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی سے محنت کرنی پڑتی ہے۔ عارضی محنت نہیں مستقل محنت کی ضرورت ہے۔ اور پھر یہ نیکیاں اور دعاؤں کی قبولیت کے نظارے زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے۔ فرمایا یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا بھی ہمیں سکھا دی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ سو انسان کو چاہیے کہ اس کو مدنظر رکھ کر نما زمیں بالحاح دعا کرے اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بےبصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے۔

سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسَّتَقِیْمَ کے حوالے سے قادیان کے ایک بزرگ کا کونسا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: قادیان کا کسی نے ایک واقعہ بیان کیا ہوا ہے کہ کسی بزرگ کی نماز پڑھتے ہوئے کیسی حالت ہوتی تھی۔ وہ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ایک صحابی مسجد مبارک کے ایک کونے میں کھڑے تھے، نماز پڑھ رہے تھے۔ بڑی خشیت طاری تھی، رقت طاری تھی اور بڑی دیر تک ہاتھ باندھ کےکھڑے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے تجسّس پیدا ہوا کہ جا کے دیکھوں کیونکہ ہلکی ہلکی آواز بھی آرہی تھی کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ تو بار بار وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ کو ہی دہراتے چلے جا رہے تھے اور رقّت طاری ہوئی ہوئی تھی۔ تو یہ وہ دعا ہے جو انسان کو اپنی ہدایت کے لیے بہت پڑھنی چاہیے۔

سوال نمبر9: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کامیابی حاصل کرنے کا کیا رازبیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: ’’ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے۔ پھر اس امت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا و تزکیہ نفس سے کام لے گا تو سب وعدے قرآن شریف کے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے۔’’جو ہمت کے ساتھ پورے طور پر دعا اور تزکیہ نفس سے کام لے گا اس کے ساتھ قرآن شریف کے سب وعدے پورے ہو کر رہیں گے۔‘‘ہاں جو خلاف کرے گا وہ محروم رہے گا کیونکہ اس کی ذات غیور ہے۔ اس نے اپنی طرف آنے کی راہ ضرور رکھی ہے لیکن اس کے دروازے تنگ بنائے ہیں۔ پہنچتا وہی ہے جو تلخیوں کا شربت پی لیوے۔‘‘ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ’’لوگ دنیا کی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ لوگ دنیا کی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں ’’حتی کہ بعض اسی میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کانٹے کی درد بھی برداشت کرنا پسند نہیں کرتے۔ جب تک اس کی طرف سے صدق اور صبر اور وفاداری کے آثار ظاہر نہ ہوں‘‘ یعنی جب بندے کی طرف سے صدق اور صبر اور وفا داری کے آثار ظاہر نہ ہوں تو ادھر سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی رحمت کے آثار نہیں ظاہر ہوتے‘‘۔

سوال نمبر10: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نفس میں تبدیلی پیداکرنے کے حوالہ سے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں کہ‘‘اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔’’ کوشش کرو۔ ’’نماز میں دعائیں مانگو۔ صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا میں شامل ہو جاؤ۔ جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا، دوائی کھاتا، مسہل لیتا، خون نکلواتا، ٹکور کرواتا اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کی کوشش کرو۔ صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدہ کے جس قدر طریق خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں وہ سب بجا لاؤ۔ ‘‘

سوال نمبر11: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدعا کی قبولیت کے درجہ پر پہنچنے کے حوالہ سے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: یاد رکھو دعا ایک موت ہے اور جیسے موت کے وقت اضطراب اور بیقراری ہوتی ہے اسی طرح پر دعا کے لئے بھی ویسا ہی اضطراب اور جوش ہونا ضروری ہے۔ اس لئے دعا کے واسطے پورا پورا اضطراب اور گدازش جب تک نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ پس چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نہایت تضرع اور زاری وابتہال کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جاوے۔ اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے۔

سوال نمبر12: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دنیا کے موجودہ حالات کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: دنیا کے حالات کے لیے بھی دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو تباہ کاریوں سے بچائے اور ان کو عقل دے کہ یہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے والے ہوں۔

سوال نمبر13:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے آخر پر ایم ٹی اے کی کونسی ویب سائٹ اور ایپلیکیشن کا اجرافرمایا؟

جواب: فرمایا: نماز جمعہ کے بعد میں ایم ٹی اے کی ایک سائٹ کا بھی اجرا کروں گا جو ایم ٹی اے انٹرنیشنل نے ویب سائٹ بنائی ہے۔ اس کی موبائل ایپلیکیشن بنائی ہے جس میں تین سو تیرہ بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق میرے خطبات جمعہ کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔ اس ویب سائٹ پر احباب یہ خطبات جمعہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ بدری صحابہ کے متعلق بنائی گئی پروفائلز پڑھ سکتے ہیں اور جہاں تک کسی نے مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہوا ہو گا اس کو بُک مارک (book mark)بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر صحابی کے متعلق سوال و جواب کا ایک کوئز موجود ہے۔ ویب سائٹ پر متعلقہ مفید نقشے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ناموں اور مشکل الفاظ کا عربی تلفظ بھی سنا جا سکتا ہے۔ اب تک کی اپلوڈ کی گئی معلومات کے علاوہ آئندہ آنے والی نئی معلومات اور ویڈیوز بھی ہر ہفتے اس میں جاری کی جائیں گی۔ ویب سائٹ کا جو پتہ ہے وہ یہ ہے کہ www.313companions.org

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button