پروفیسر محمد اسلم صاحب (نمبر18)
قادیان جب ہم لاری اڈے پر بس سے اترے تو مجھے دُور سے ایک مینارہ نظر آیامیرے دل میں یہ خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہی مینارۃ المسیح ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق مختلف اغراض سے قادیان دارالامان میں وارد ہونے والوں کا سلسلہ برصغیر کی تقسیم1947ء کے بعد بھی جاری رہا۔ ذیل میں پروفیسر محمد اسلم کی کتاب’’سفرنامہ ہند‘‘سے قادیان دارالامان کےدور خلافت رابعہ میں ہونے والے دوسفروں سے متعلق صفحات من وعن درج کیے جاتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کی تاریخ میں قربانیوں سے عبارت یہ دَورِ درویشی سادگی اور اخلاص کا مرقع ہے اور محض للہ قادیان دارالامان میں دھونی رما کر بیٹھنے والوں کی ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جانے والی سچی داستان ہے۔
یاد رہے کہ یہ ایک غیر از جماعت مہمان کے سفر کا احوال ہے،جس نے قادیان دارالامان کے درویش صفت میزبانوں کے خلوص اور اہتمام کے مقابل پراپنی طبع کے زیراثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی مستقبل کی پیش خبریوں اور قادیان کے دَورِ درویشی کامنفی رنگ میں ہی ذکر کیا ہے۔کیونکہ کتاب کے مطالعہ سے لگتا ہے کہ یہ مصنف صاحب ظاہری ڈگریوں سے مالامال ہونے کے باوجودنہ صرف’’الطریقۃ کلھا ادب‘‘ سے ناآشنا تھے،بلکہ محض سنی سنائی باتوں پر اکتفاکرنے والےاورٹھوس علمی تحقیق سے کنی کترانے والے تھے کیونکہ اسی کتاب کے صفحہ 406 پر اپنے سفر کشمیر کے ذکر میں لکھا: ’’سرینگر میں خانیار شریف کے علاقے میں یوز آصف نامی کسی شخص کی قبرہے۔ مرزائیوں نے اسے حضرت عیسیٰؑ کی قبر مشہور کردیا ہے۔ خواجہ کمال الدین (م:1932ء)نے تو اس موضوع پر انگریزی زبان میں کتاب بھی لکھ ماری ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ سولی پر فوت نہیں ہوئے تھے۔ جب انہیں جمعہ کی سہ پہر سولی پر لٹکایا گیا تو فورا بعد سبت شروع ہوگیا۔ پہرے دار وہاں سے چلے گئے تو عیسائیوں نے ان کو سولی سے اتار لیا اوران کے زخموں کا علاج کیا۔ جب وہ صحتیاب ہوگئے تو چھپتے چھپاتے کشمیر پہنچ گئے جہاں انہوں نے بقیہ زندگی گزاری۔ ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم ؑبھی بیت المقدس سے کشمیر چلی آئیں…ایسی ہی بھول بھلیوں پر مرزا غلام احمد کی ’’نبوت‘‘کی بنیاد ہے۔‘‘(صفحہ406-407)
لیکن ہم اکرام ضیف کے تحت قادیان، والئ قادیان اور سلسلہ قادیان کے بارے میں مصنف کےطنز کے نشترلیے ان الفاظ کو ذیل میں کوئی مسکت اور شافی جواب دیے اور تبصرہ کیے بغیر ہی درج کریں گےکیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےاپنے منظوم کلام میں سمجھادیا تھاکہ
جس کو تم کہتے ہو یارو یہ فنا ہوجائے گا
ایک دن سارے جہاں کا پیشوا ہوجائے گا
قوم کے بغض و عداوت کی نہیں پروا ہمیں
وقت یہ کٹ جائے گا ،فضلِ خدا ہو جائے گا
یاد رہے کہ یہ پروفیسرمحمد اسلم صاحب اردو زبان کے نامورادیب، مؤرخ، ماہرِ تعلیم، محقق اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سابق صدر تھے۔ وہ پاکستان میں وفیات نگاری کے بانی تھے۔ ان کی کتابیں خفتگانِ کراچی، خفتگانِ خاک لاہور اور وفیات مشاہیرِ پاکستان سند کا درجہ رکھتی ہیں۔
انٹرنیٹ پر موجود معلومات کے مطابق پروفیسر محمد اسلم 28؍نومبر1932ء کو تحصیل پھلور ضلع جالندھر، صوبہ پنجاب برطانوی ہندمیں طفیل محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ پہلی جماعت سے ایم اے تک تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ ایم اے کے بعد 1958ء میں انگلستان چلے گئے جہاں ڈرہم یونیورسٹی سے بی اے آنرز، جامعہ مانچسٹر سے ایم اے فارسی اور جامعہ کیمبرج سے ایم لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1967ء میں واپس آئے اور جامعہ پنجاب کے شعبہ تاریخ میں بطور لیکچرار مقرر ہوئے، جہاں سے 27؍نومبر1992ء میں پروفیسر و صدر شعبہ تاریخ سبکدوش ہوئے۔ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ گھرانے میں مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی بیٹی سے شادی کی۔ پروفیسر محمد اسلم کچھ عرصہ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی کے سیکرٹری بھی رہے۔
پروفیسر محمد اسلم نے تاریخ اور وفیات نگاری پر متعدد اہم تصانیف یادگار چھوڑیں:دین الٰہی اور اس کا پس منظر(1970ء)،تاریخی مقالات (1970ء)،سرمایہ عمر (1972ء)،وفیات مشاہیر پاکستان (1990ء)،خفتگانِ کراچی (1991ء)،سلاطین دہلی اور شاہانِ مغلیہ کا ذوقِ موسیقی (1992ء)،وفیات اعیان پاکستان (1992ء)،خفتگانِ خاک لاہور (1993ء)،سفرنامہ ہند (1995ء)،مولانا عبید اللہ سندھی کے سیاسی مکتوبات،ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت (1995ء)،محمد بن قاسم اور اس کے جانشین (1996ء)Muslim Conduct of State۔(انگریزی ترجمہ سلوک الملوک فارسی)
یاد رہے کہ ان پروفیسر محمد اسلم کی متعدد کتب اسکولوں، کالجوں اورجامعات کے نصاب میں شامل ہیں۔ درجنوں تحقیقی مقالات بھی لکھے۔ان کی وفات 6؍اکتوبر 1998ء کو لاہور میں ہوئی۔
پروفیسر محمد اسلم کی کتاب سفرنامہ ہند ، دراصل ان کے ہندوستان کے تاریخی، دینی، علمی، ادبی اور روحانی مقامات کی سیر اور ان پر تحقیقی تبصروں کا مجموعہ تھا، جسے پہلی دفعہ 1995ء میں ریاض برادرز، 40 اردو بازار لاہور نے اردو آرٹ پریس، دربار مارکیٹ لاہور سے 1100کی تعداد میں طبع کروایا تھا۔ جو آن لائن اردو ویب سائٹ ریختہ پر بھی موجود ہے۔ اسی کتاب کو اکتوبر 2018ء میں راشد اشرف کے زیر اہتمام سلسلہ کتب زندہ کتابیں کے تحت نمبر 26 پر دوبارہ طبع کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے صفحہ 413 پر امرتسر، بٹالہ اور قادیان کے عنوان سے باب میں سفر کے احوال درج ہیں۔ صفحہ 427 پر بٹالہ میں قیام اور مصروفیات کے ذکر میں لکھا ہے کہ ’’میں اور پروین پال(بٹالہ کے ) شمشان کے قریب کھڑے تھے کہ ایک بس آتی دکھائی دی۔ پروین نے کہا کہ یہ بس قادیان جارہی ہے۔ آپ وہاں چلیں گے؟ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ قادیان یہاں سے صرف دس میل ہے۔ اور بس والے صرف ایک روپیہ فی مسافر کرایہ وصول کرتے ہیں۔جب وہ بس قریب آکر رکی تو ہم اس میں سوار ہوگئے۔ راستے میں ایک گاؤں ونڈالہ گرنتھیاں آیا۔ اور ہم بیس منٹ میں قادیان پہنچ گئے۔
قادیان جب ہم لاری اڈے پر بس سے اترے۔ تو مجھے دور سے ایک مینارہ نظر آیا۔میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہی مینارۃ المسیح ہے۔ ہم نے وہاں تک پہنچنے کے لئے راستہ پوچھا۔ تو دوکانداروں نے ہماری رہنمائی کی۔ جونہی ہم مینارۃ المسیح کو جانے والی گلی کو پہنچے۔ ہمیں دور سے ایک لحیم شحیم ، قادیانی ، قمیض اور پاجامے میں ملبوس، سر پر ٹوپی رکھے ہوئے، اپنی جانب آتا دکھائی دیا۔ قریب پہنچ کر میں نے سلام کیا۔ تو اس نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنا تعارف ان الفاظ میں کروایا۔ میرا نام عبدالرحیم عاجز ہے۔ میں ریٹائرڈ گورنمنٹ آفیسر ہوں۔ میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد دین کی خدمت کے لئے یہاں رہائش اختیار کرلی ہے۔ اورمیں انجمن احمدیہ کا سیکرٹری ہوں۔ میں نے بہشتی مقبرہ اور مسجد اقصیٰ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے کہا کہ وہ تو ہم دیکھ ہی لیں گے۔ پہلے جو کچھ دکھانا چاہتا ہے وہ تو دیکھ لیں۔ عبدالرحیم عاجز ہمیں مرزا غلام احمد قادیانی (م 1908)کا رہائشی مکان دکھانے لے گیا۔ اس نے ہمیں ایک کمرہ دکھایا۔ جس کی چاروں دیواروں میں طاقچے بنے ہوئے تھے۔ عربی زبان میں ایسے طاقچے کو مشکوٰۃ کہتے ہیں۔ عبدالرحیم عاجز نے مجھے بتایا کہ مرزا صاحب چل پھر کر لکھنے کے عادی تھے۔ان چاروں طاقچوں میں دواتیں پڑی رہتی تھیں۔ قلم اور کاغذ مرزا صاحب کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ اور وہ ان دواتوں میں قلم ڈوب کر لکھا کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ یہ تو مشائین کا طریقہ ہے۔ اس نے مسکرا کر کہا کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو ایسا ہی ہوگا۔ اس کمرہ میں دو تین سیڑھیاں چڑھ کر ایک چھوٹا سا حجرہ آتا ہے۔ جسے دارالحزن کہتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس حجرے میں بیٹھ کر مرزا صاحب امت کی حالت زار پر رویا کرتے تھے۔ اسی طرح کا ایک اور حجرہ تھا جو دارالفکر کہلاتا ہے۔ اس میں بیٹھ کر مرزا صاحب امت کے بارہ میں غور و فکر کیا کرتے تھے۔ اور اسی میں سے گزر کر موصوف مسجد مبارک میں پہنچ جاتے تھے۔ یہ مسجد ان کے گھر سے ملحق تھی۔
اس مکان سے متصل ایک مکان میں مرزا غلام احمد کا پوتا مرزا وسیم احمد رہتا ہے۔ وہ بھارت کے قادیانیوں کا سربراہ ہے۔ ان دنوں میں وہ حیدرآباد دکن گیا ہوا تھا۔ اس لئے اس کے ساتھ ہماری ملاقات نہ ہوسکی۔ یہاں سے عبدالرحیم عاجز ہمیں مسجد اقصیٰ لے گیا۔ وہاں فرش پر پانی چھڑکا جارہا تھا۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ نماز مغرب کے وقت قادیان کے تمام قادیانی مردوزن اس مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور درمیان میں پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ مغرب سے عشاء تک وعظ و تلقین کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان دنوں مینارۃ المسیح کی مرمت ہورہی تھی۔ اور اس کی بیرونی سطح پر سنگ مرمرلگایا جا رہا تھا۔ عبدالرحیم عاجز نے مجھے کہا کہ میں اس مینارے پر چڑھ جاؤں۔ میں نے معذرت چاہی۔ لیکن اس نے اصرار کیا ۔ میں اس کے اصرار پر مینارے پر چڑھا تو میرا سانس پھول گیا۔ (اگر میں مر جاتا تو وہ مجھے وہیں بہشتی مقبرہ میں دفن کردیتے) جب میرا سانس درست ہوا۔ تو میں نے اردگرد کا جائزہ لیا تو میلوں تک کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ایک جانب میں نے درختوں کا جھنڈ دیکھا۔ میں نے اپنے دل میں سوچا ۔ ہو نہ ہو۔ یہی بہشتی مقبرہ ہے۔ مسجد اقصیٰ کے صحن میں مرزا غلام احمد قادیانی کے والد مرزا غلام مرتضیٰ (م 1876) کی قبر ہے۔ تذکرہ رؤوسائے پنجاب میں سر لیپل گریفن اور کرنل میسی نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ نونہال سنگھ، شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دورے میں غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمات پر مامور رہا۔ 1841ء میں یہ جرنیل ونچورہ کے ساتھ منڈی اور کلو کی طرف بھیجا گیا۔ اور 1843ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کر پشاور روانہ کیا گیا۔ ہزارہ کے مفسدے میں اس نے کارہائے نمایاں کئے اور 1848ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا۔ اور اس کی طرف سے لڑا۔ اس موقع پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں۔ دوسری جگہ یہی دونوں مورخ لکھتے ہیں اس خاندان نے غدر 1857 کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں۔ غلام مرتضیٰ نے بہت سے آدمی بھرتی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت تھا جب کہ افسر موصوف نے تریموں گھاٹ پر نمبر 46 نیٹو انفنٹری کے باغیوں کو تہ تیغ کیا۔ جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سند دی۔ جس میں یہ لکھا ہے کہ 1857 میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلا ل رہا۔ اسے کہتے ہیں ’’ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘‘
جب میں مسجد اقصیٰ دیکھ کر فارغ ہوا۔ تو عبدالرحیم عاجز نے اپنے فرزند عبدالحفیظ سے کہا وہ ہمیں بہشتی مقبرے لے جائے۔ اور دربان سے کہے کہ ہمیں اس وقت بہشتی مقبرہ دیکھنے کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔ راستے میں ہمیں عبدالحفیظ نے بتایا کہ عصر سے مغرب تک وہاں صرف عورتوں کو جانے کی اجازت ہے۔ اس لئے ہمیں خصوصی اجازت ملی ہے۔ جب ہم گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو برقع پوش عورتیں ہمیں دیکھ کر دیواروں کی طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئیں۔ عبدالحفیظ کی معیت میں ہم خطہ خاص میں پہنچے۔ اس خطے میں مرزا غلام احمد (م 1908) اور اس کے خلیفہ اول حکیم نورالدین بھیروی (م 1914) کے علاوہ مرزا صاحب کے اعزاء و اقارب کی قبریں ہیں۔ مرزا صاحب کے قدموں میں اس کی تین بہوویں سارہ بھاگلپوری، ام طاہر اور امت الحئی کی قبریں ہیں۔ سارہ صوبہ بہار کے ضلع بھاگلپور کے قصبے پرینی کی رہنے والی تھیں۔ وہ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر عبدالقادر کی بہن اور میرے ایک استاد عباس بن عبدالقادر کی پھوپھی تھیں۔ اس کی قبر کے کتبے پریہ مرقوم تھا کہ اس کا نکاح مرزا بشیر الدین محمود کے ساتھ مرز اغلام احمد پر ہونے والی ایک وحی کی بنا ء پر ہوا تھا۔ ام طاہر قادیانیوں کے موجودہ خلیفہ طاہر احمد کی ماں تھی۔
مقبرہ خاص ایک چار دیواری کے اندر ہے۔ اس میں دو جگہ سلاخیں لگا دی گئی ہیں۔ تاکہ لوگ دور سے ان قبروں کی زیارت کر لیں ۔ مقبرہ خاص کے باہر چند قطاروں میں مرزا صاحب کے صحابیوں کی قبریں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے لوح پر اس کی نمایاں خدمات درج ہیں ۔ ایک لوح پر کندہ تھا کہ صاحب قبر لودھیانہ کے مناظرے میں مرزا صاحب کے ساتھ موجود تھا۔ دوسری لوح پر مرقوم تھا کہ صاحب قبر مرزا صاحب کی تجہیز و تکفین میں شریک تھا۔ ایک صحابی نے یہ وصیت کی تھی کہ اس کے لوح مزار پر یہ لکھ دیا جائے کہ مرزا صاحب کا خادم خاص تھا۔ انہی قبروں میں ایک قبر بھائی عبدالرحمٰن کی تھی ، مجھے عبدالحفیظ نے بتایا کہ وہ پیدائشی سکھ تھا۔ اورپیشے کے اعتبار سے وہ گرنتھی تھا۔ سکھوں کے ہاں گرنتھی کو بھائی جی کہتے ہیں۔ اسلئے بھائی اس کے نام کا جزو بن گیا۔ جب اس نے مختلف ادیان کا مطالعہ کیا۔ تو اسے قادیانیت میں صداقت نظر آئی۔ اور وہ قادیانی ہوگیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلا آیا۔ اس نے وصیت کی تھی کہ اسے بہشتی مقبرہ میں دفنایا جائے۔ چنانچہ اس کی وصیت پر عمل کیا گیا، یہ واحد مرزئی تھا جس کا جسد خاکی پاکستان سے بھارت لے جاکر قادیان میں دفنایا گیا۔
اختر اورینوی (سید اختر احمد)پٹنہ یونیورسٹی میں اردو کا پروفیسر تھا، اس نے اردو زبان و ادب کی بڑی خدمت کی ہے۔ وہ بڑا سچا پکا تھا، قادیانی تھا۔ اس کا انتقال 31مارچ 1977 کو پٹنہ کے کرجی ہسپتال میں ہوا۔ اس کی وصیت کے مطابق اس کی میت پٹنہ سے قادیان لے جاکر بہشتی مقبرے میں دفن کی گئی۔ 2 فروری 1994ء کو اس کی بیوی شکیلہ اختر بھی فوت ہوگئی ہے۔ وہ ایک اچھی افسانہ نگار تھی۔ اسے بھی یقیناً وہیں دفن کیا ہوگا۔
سید برکات احمد ، خواجہ میر درد رحمۃ اللہ کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ انڈین فارن سروس میں ملازم تھا۔ اس نے Muhammad and the Jews کے نام سے کتاب لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ ’’ رسول اکرم ﷺ اور یہود حجاز‘‘ کے عنوان سے پروفیسر مشیر الحق (م 1990) نے کیا تھا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد برکات احمد نے اپنی بیٹی کے پاس اندور میں سکونت اختیار کر لی تھی ، اس کی وصیت کے مطابق اس کا جسد خاکی بھی قادیان لے جاکر بہشتی مقبرے میں سپرد خاک کیا گیا ہے۔
عبدالحفیظ نے ہمیں وہ جگہ بھی دکھائی جہاں مرزا غلام احمد کی نماز جنازہ ہوئی تھی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ مرزا صاحب کے جنازے میں نمازیوں کی سات صفیں بنی تھیں ، اس لئے اب ان کے ہاں یہ روایت بن گئی ہے کہ نماز جنازہ کے وقت سات صفیں ہی بنائی جاتی ہیں۔
عبدالحفیظ ہمیں ساتھ لےکر اپنے گھر پہنچا جہاں اس کے والد نے چائے تیار کرکے رکھی ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں چائے پلائی اور اس کے بعد رخصت کیا۔ اس کا یہ تقاضا تھا کہ میں رات وہیں رہوں۔ لیکن میں نے معذرت چاہی۔
دو سال کے بعد مجھے دوبارہ امرتسر ، بٹالہ اور قادیان جانے کا اتفاق ہوا۔ اس بار میں نے اکیلے ہی قادیان میں گھوم پھر کر قصبے کا جائزہ لیا، وہاں اس وقت 13 صد قادیانی آباد تھے۔ ان میں اکثریت بہاریوں کی تھی۔ انہوں نے گزر بسر کے لئے تھوڑا بہت کام شروع کیا ہوا تھا۔ کوئی ریڈیو مرمت کرتاتھا، کسی نے بجلی کے سامان کی دوکان کھولی ہوئی تھی، کوئی معمولی سا چائے کا ریسٹو رانٹ چلا رہا تھا۔ ایک شخص بازار میں بیٹھا آئس کریم بیچ رہا تھا۔ ایک مرزئی سائیکلوں کو پنکچر لگا رہا تھا۔ غربت و افلاس کی جھلک ان کے چہروں سے نمایاں تھی۔ ان کا فقط یہی کارنامہ تھا کہ وہ قادیان میں آباد تھے۔ قادیان کی آبادی 15 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ جس میں 13 صد مرزئی ہیں۔ اور سمٹ سمٹا کر قادیان کے ایک گوشے میں آبسے ہیں۔ گلیوں اور بازاروں میں ہو کا عالم تھا۔ کوئی ویرانی سی ویرانی تھی۔ مرزا صاحب نے بر بنائے الہام یہ لکھا تھا کہ قادیان کی آبادی بڑھ کر لاہور سے جاملی ہے۔ اس طویل و عریض شہر میں اسے رویاء میں ایک بازار دکھایا گیا تھا۔ جس میں سے کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ اور بگیوں ، ٹم ٹم ، وکٹوریہ اور خدا جانے کون کونسی سواریاں وہاں رواں دواں تھیں۔ اس بازار میں سونے چاندی کا کاروبار ہورہا تھا۔ اور بڑی بڑی توندوں والے سیٹھ ، گدیوں پر بیٹھے کاروبار میں مصروف تھے۔ مرزا صاحب نے بر بنائے الہام کہا تھا کہ ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ لوگ لاہور کے بارہ میں استفسار کریں گے انہیں بتایا جائے گا کہ اب وہ قادیان کا ایک محلہ ہے۔ میں قادیان کے ویران بازار میں کھڑا اس الہام پر غور کر رہا تھا توا س الہام کے تاروپود تار عنکبوت کی طرح ہوا میں ہچکولے کھاتے ہوئے نظر آتے تھے۔ یہاں بڑی بڑی توندوں والے جواہرات کا کاروبار کرنے والے سیٹھ تو کجا خالی شکم ، مرجھائے ہوئے چہروں والے ٹٹ پونجئے دوکاندار نظر آرہے تھے۔ جو قادیان کے ایک گوشے میں سمٹ آئے تھے۔ قادیان پھیلنے کی بجائے اب سمٹ چکا تھا۔ واپس آکر میں نے دو مضمون بعنوان ’’ میں نے قادیان دیکھا‘‘ اور ’’ بہشتی مقبرہ میں چند لمحے‘‘ مجلہ ختم نبوت کراچی میں شائع کروائے۔ ‘‘
جیسا کہ آغاز میں اظہار کیا گیا تھا کہ ہم پروفیسر صاحب کی اس تحریر میں چھپے اعتراضات، تمسخر اور طنز کا جواب یہاں درج نہیں کریں گے کیونکہ دنیا دیکھ سکتی ہے کہ قادیان صرف لاہور تک ہی نہیں پھیلاہے بلکہ اس دارالامان کی کھڑکیاں سڈنی، واشنگٹن، ٹوکیو، لندن، پیرس، لیگوس ، بیونس آئرس سمیت دنیا کے کونے کونے میں کھلنے لگی ہیں۔
بس آخر پر یہاں یہ وضاحت از حد ضروری معلوم ہوتی ہے کہ باوجودپاکستان کی موقر یونیورسٹی کے ایک تجربہ کار پروفیسر ہونے کےان صاحب کی اس تحریرمیں تاریخی اور اعدادوشمار کے سقم اور جھول بے انتہا ہیں اورجہاں اس مضمون نگار کی وجہ سے ’’ ختم نبوت کراچی‘‘ جیسے رسائل میں جماعت احمدیہ کے متعلق شائع ہونے والے مواد کے معیار تحقیق کی بلندی بھی کھل رہی ہے وہاں پاکستان کے عام عوام اور ان اخبارات و رسائل کے سادہ لوح قارئین کے ساتھ ہونے والے دھوکے کا سراغ بھی ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام نیک روحوں کو اس کرموں والی اچی بستی کے خلاف منافرت پھیلانے والوں سے محفوظ رکھے۔ آمین