اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
اپریل2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
گورنمنٹ دوبارہ ملا ؤں کے سامنے جھک گئی
لاہور: گزشتہ سال نومبر2020ء میں ڈاکٹر شعیب سڈل کی سربراہی میں اسکول کے نصاب اور کتب میں عمل درآمد کے لیے درج ذیل سفارشات پیش کی گئیں:
فیصلہ نمبر 7
مذہبی مواد کو دوسرے مضامین کی کتابوں سے خارج کر دینا چاہیے اور ان کتابوں تک محدود ہونا چاہیے جو مذہبی علم (اسلامیات/اخلاقیات) کے لیے ہیں۔
یہ سفارش معقول تھی کیونکہ مذہبی مواد کا ایک سیکولر کتاب میں شامل ہونے کا کوئی مقصد نہیں۔ تاہم علماء کے ایک طبقے کو پہلے سے جو اثر و رسوخ حاصل تھا اسے چھوڑنا گوارا نہیں تھا اس لیے انہوں نے لاہور میں احتجاج کیا۔ نتیجةً گورنر نے انہیں تسلی دینے کے لیے جلدہی اس کے بر خلاف کارروائی کی اور متعلقہ ضروری احکامات جاری کر دیے۔
27؍اپریل 2021ء کے روزنامہ ڈان نےاس امر کی خبر یوں دی:
نصاب میں اسلامی مواد سے متعلق نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا۔
(بذریعہ اسٹاف رپورٹر 27.04.2021)
لاہور: گورنر پنجاب چودھری سرور نے اسلامیات کے مضمون کے علاوہ نصاب سے اسلامی مواد کو خارج کرنے کا نوٹس لے لیا۔
ان کی ہدایت پر انسانی حقوق اور اقلیتی امور کے محکمہ نے ایک رکنی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔
چودھری سرور نے شعیب سڈل کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد فوری طور پر روک دیا۔ نیا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ مسلم علماء نے گورنر سے اظہار تشکر کیا۔
ایک میٹنگ میں مسلم مذہبی اسکالرز سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری سرور نے کہا کہ نصاب سے اسلامی مواد کو نہیں ہٹایا جائے گا اور یہ صرف اسلامیات کے مضمون تک محدود نہیں رہے گا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی مولانا طاہر اشرفی، رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد نے اس اقدام پر گورنر سرور کا شکریہ ادا کیا۔
اجلاس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی علامہ طاہر اشرفی، رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد، وفاق المدارس کے چیئرمین مولانا حنیف جالندھری، جمعیت اہلحدیث کے چیئرمین علامہ زبیر احمد ظہیر، مفتی عاشق حسین، چیئرمین وفاق المدارس العربیہ پاکستان سمیت دیگر نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، جامعہ رحمانیہ کے چیئرمین مولانا امجد خان، اسلامی نظریہ کونسل کے رکن سید حبیب الرحمان عرفانی موجود تھے۔
شرکاء نے پنجاب کے نصاب میں اسلامیات کے علاوہ دیگر کتابوں سے اسلامی مواد کو خارج کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
ملاقات کے دوران علمائے کرام نے معاملے میں ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔
احمدیوں کے گھروں سے مقدس تحریرات ہٹوا دی گئیں
79 نواں کوٹ، ضلع شیخوپورہ؛ 10؍اپریل 2021ء: یہاں احمدیوں کی مخالفت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال یہاں 40 سے زائد احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ کچھ دن پہلے گاؤں میں کچھ لوگوں میں جھگڑا ہوا جس میں کچھ احمدی رشتہ داروں سے الجھ پڑے جیسا کہ پاکستان میں اکثر ہوتا ہے۔ مخالفین نے ذاتی رنجش کو گزشتہ سال قبرستان کے واقعے سے جوڑ کر اسے مذہبی رنگ دے دیا۔ انہوں نے اس معاملے کو سوشل میڈیا پر بھڑکا دیا۔
اس کے بعد مخالفین نے پولیس کو بتایا کہ احمدیوں کے گھروں پر قرآنی آیات کندہ ہیں اور ان کی مسجد میں مینار ہیں۔ 10؍اپریل کو پولیس نے مخالفین کے مطالبے پر عمل کرتے ہوئے نو احمدیوں کے گھروں سے الحمدللہ اور ماشاء اللہ کے الفاظ تلف کر دیے۔ تاہم احمدیہ مسجد کے میناروں کے معاملہ میں انہوں نے انہیں یہ کہہ کر نہیں شہید کیا کہ یہ پرانے ہیں اور قدیم سے یہاں ہیں۔
مخالفین اب احمدیوں کو نماز عید کی ادائیگی اور قربانی (مویشیوں کی قربانی) سے روکنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
احمدی خاندان سے عقیدے کی بنا پر بائیکاٹ
چک 89 تحصیل یزمان، ضلع بہاولپور؛ اپریل 2021ء: مقامی ملا ں نے مقامی لوگوں سے حلف لیا کہ کوئی بھی احمدیہ کمیونٹی کے صدر عطاء الودود کی بہن کی شادی کی تقریب میں شرکت نہیں کرے گا۔ اس لیے خوشی کے موقع پر کوئی بھی شامل ہونے نہیں آیا۔ ملاںنے جمعہ کے خطبہ میں ان کو برا بھلا کہا اور ختم نبوت کا منکر اور واجب القتل قرار دے کر محلے میں نفرت پھیلائی۔ محلے کے لوگ ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ احمدیہ برادری چھوڑ دو۔ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ 4؍مارچ 2021ء کو ان کے قریبی دوست جناب محمد افتخار نے ان سے ملاقات کی اور مقامی لوگوں کا یہی مطالبہ دہرایا۔ ودود صاحب کو بدلے میں بڑے انعامات کی پیشکش کی گئی۔
ودود صاحب اور ان کے خاندان کے دیگر 11؍افراد ان مخالفانہ حالات سے کافی متاثر ہیں۔ وہ گاؤں میں واحد احمدی خاندان ہے۔
وکلا برادری کی طرف سے تحقیر آمیز رویہ
بلاشبہ پاکستان میں اب بھی اچھے اور عظیم وکلا موجود ہیں۔ آخرپاکستان کو ایک قانون دان ہی معرض وجود میں لایا تھا۔ ڈین ہیگ میں ایک اور پاکستانی کو عالمی عدالت انصاف کا صدر مقرر کیا گیا۔ لیکن اب دور بہت بدل گیا ہے۔ وکلا برادری باقی معاشرے سے مختلف نہیں ہے۔ لیکن اعلیٰ تعلیم کے دعویدار ہونے کے ناطے ان کا اس طرح گرنا اور بھی زیادہ افسوسناک ہے۔
اب برسوں سے کچھ وکلا اور بار کونسلوں نے نہ صرف متعصبانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے بلکہ دوسروں کو بھی مذہبی تعصّب میں مبتلا کیا ہے۔ گزشتہ سال اسلام آباد اور ملتان کی بار ایسوسی ایشنز نے ان لوگوں کو اپنی رکنیت دینے سے انکار کر دیا جو ختم نبوت کے عقیدہ کی تشریح سے اختلاف رکھتے تھے۔
حال ہی میں پنجاب بار کونسل کے تین وکلا نے لاہور میں اپنے وائس چیئرمین کو ایک درخواست لکھی۔ یہ مضمون کے لحاظ سے کتنی بیہودہ اور لغو تھی اس کا اندازہ اسے پڑھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ :
وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل کے نام
موضوع: (قادیانی)مذہب کو کالم میں داخل کرنے کی درخواست
ہم عرض کرتے ہیں کہ کونسل کے ریکارڈ میں مذہب کا کالم نہیں ہے اور نہ ہی اندراج کے فارم میں ایسا کالم ہے۔
ہمیں معلوم ہوا ہے کہ بار کونسل میں بہت سے ہندو وکیل ہیں۔ اس کے علاوہ مسیحی وکالت کرنے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔
اس کے علاوہ قادیانیوں کی ایک بڑی تعداد اندراج شدہ ہے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ ہم اس درخواست کے ذریعے معزز ایوان سے التجا کرتے ہیں کہ انرولمنٹ فارم اور کمپیوٹر ریکارڈ میں مذہب اور قادیانی کا کالم شامل کیا جائے تاکہ اقلیتوں کی تعداد اور شناخت ہو سکے۔
(دستخط شدہ)
فرحان شہزاد منیر حسین بھٹی
ممبر پنجاب بار کونسل
ملک ریاض ممبر پنجاب بار کونسل
نوٹ: گو کہ یہ ناقابل یقین ہے لیکن بہرحال معاملہ ایسا ہی ہے۔
ضلع گوجرانوالہ میں احمدیہ مخالف احتجاج
بھڑی شاہ رحمان، گوجرانوالہ؛ اپریل 2021ء: یہاں احمدی مخالف کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ایک ملا ںکو تقریر کرنے کی دعوت دی گئی۔ ملاں نے شرکاء کو بتایا کہ قادیانی اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ لوگوں سے کہا گیا کہ ان کا بائیکاٹ کریں تمام سودے بازیاں ختم کریں، قادیانیوں کو کرائے پر دی گئی دکانیں خالی کروائیں، انہیں اپنی دکانوں سے خریداری نہ کرنے دیں نیز یہ کہ قادیانیوں کو زمین بیچنے والے کو شہر سے باہر نکال دینا چاہیے۔ اس کے بعد مقامی لوگوں کا رویہ احمدیوں کے ساتھ سخت ہو گیا ہے۔
ضلع سیالکوٹ میں احمدیوں کو ہراساں کیا گیا
مرل ضلع سیالکوٹ، اپریل 2021ء: ڈاکٹر امجد سجاد ایک احمدی ہیں جن کوکچھ عرصے سے عقیدے کی بنا پر دشمنی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس علاقے میں مخالفت پہلے سے موجود تھی لیکن اب احمدیوں کو اپنے پیاروں کی قبروں پر جانے اور ان کے لیے دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے لوگوں کو سجاد صاحب اور ان کے کلینک کا بائیکاٹ کرنے پر اکسایا گیا۔
TLPکی احمدیوں کی تدفین میں رکاوٹ
کوٹ سوندھا، ضلع شیخوپورہ؛ 9 اپریل 2021ء: کوٹ سوندھا میں چھ احمدی خاندان رہتے ہیں۔ گاؤں میں ایک مشترکہ قبرستان ہے۔ تاہم احمدیوں کی قبریں الگ الگ قبرستان میں موجود ہیں۔ ماضی میں گاؤں کے بزرگوں نے باہمی طور پر فیصلہ کیا تھا کہ احمدیوں کی قبروں کی جگہ ان کے لیے مخصوص رکھی جائے۔
ایک احمدی خاتون محترمہ حنیفاں صاحبہ کا انتقال 9؍اپریل کو ہوا۔ تحریک لبیک پاکستان (TLP) کے مولویوں اور کارکنان نے ان کی تدفین میں رکاوٹ ڈالی۔ پولیس سے رابطہ کیا گیا اور تدفین کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کہا گیا۔ پولیس نے مداخلت کی اور فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت احمدیوں کی قبروں کی جگہ پر باڑ لگائی جائے گی تاکہ مستقبل میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔