خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 10؍جون 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭…جنگ یمامہ کی وجوہات ، اس جنگ میں مسلمانوں کی بہادری اور شہادت کے ایمان افروز واقعات اور فتنہ مرتدین کے خاتمہ کا بیان

٭…حضرت ام عمارہ ؓتاریخ اسلام کی بہت بہادر خواتین میں سے ایک صحابیہ تھیں جوغزوہ احد اور جنگ یمامہ میں بھی شریک ہوئیں

٭…جنگ یمامہ میں سات سو سے زائد حفاظ قرآن کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ تھا لیکن ان کی شہادت ہی بعد میں جمع قرآن کا باعث بنی

٭…حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ مدعیان نبوت سے اس لیے جنگ کی گئی کہ انہوں نے صحابہ کو قتل کیااور اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کی

٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ذات میں پورا ہوا

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍جون 2022ء بمطابق 10؍احسان 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 10؍جون 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکر میں جنگ یمامہ کے بارے میں ذکر چل رہا تھا۔ اس بارے میں مزید بیان ہوا ہےکہ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عباد بن بشر ؓکو کہتے ہوئے سنا کہ اے ابوسعیدؓ جب ہم بزاخہ سے فارغ ہوئے تو اس رات میں نے رؤیا میں دیکھا کہ گویا آسمان کھولا گیا ہے پھر مجھ پر بند کر دیا گیا ہے۔ اس سے مراد شہادت ہے۔ ابوسعید کہتے ہیں کہ میں نے عباد بن بشرؓ کی شہادت کے بعد انہیں دیکھا کہ آپؓ کے چہرے پر بہت زیادہ تلوار کے نشان تھے۔ میں نے آپؓ کو آپؓ کے جسم پر موجود ایک علامت سے پہچانا۔

حضرت ام عمارہ ؓتاریخ اسلام کی بہت بہادر خواتین میں سے ایک صحابیہ تھیں۔ ان کا نام نسیبہ بنت کعب تھا یہ غزوہ احد میں بھی شریک ہوئیں اور نہایت بامردی سے لڑیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ میں احد میں ان کو اپنے دائیں اور بائیں برابر لڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ حضرت عمارہ ؓکے بیٹے حبیب بن زید ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا سُن کر عمان سے واپس لوٹ رہے تھے کہ راستے میں مسیلمہ نے ان کو پکڑ لیا اور آپؓ کا ایک ایک عضو کاٹ کرآپؓ کو آگ میں جلا کر شہید کردیا۔ حضرت ام عمارہؓ کو اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ خود مسیلمہ کذاب کا سامنا کریں گی اور یا اس کو مار ڈالیں گی یا خود خدا کی راہ میں شہید ہو جائیں گی۔ جب حضرت خالد بن ولید ؓنے یمامہ کے لیے لشکر تیار کیاتو حضرت عمارہؓ حضرت ابوبکر ؓکی اجازت سے جنگ یمامہ میں شریک ہوئیں۔ اس جنگ میں ان کا ایک اور بیٹا عبداللہ ؓبھی شریک تھا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب ہم یمامہ پہنچے تو شدید جنگ ہوئی۔ میں نےمسیلمہ کو دیکھااور اس پر حملہ کر دیا۔ ایک شخص میرے سامنے آیا اس نے میرے ہاتھ پر ضرب لگائی اور اسے کاٹ دیا۔ میں جب مسیلمہ تک پہنچی تو وہ زمین پر پڑا تھا اور میں نے اپنے بیٹے عبداللہ کو وہاں پایا اُس نے اُسے مار دیا تھا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ام عمارہ ؓیمامہ کے روز زخمی ہوئی۔تلوار اور نیزے کے گیارہ زخم انہیں لگے علاوہ ازیں ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا۔

محمود بن لبیدؓسے روایت ہے کہ جب حضرت خالدؓنے اہل یمامہ کو قتل کیا تو مسلمان بھی اس جنگ میں بڑی تعداد میں شہید ہوئے یہاں تک کہ اکثر صحابہ رسولؐ بھی شہید ہو گئے اور مسلمانوں میں سے جو زندہ بچ گئے تھے ان میں بہت زیادہ زخمی تھے۔جب حضرت خالد ؓکو مسیلمہ کے قتل کی خبر دی گئی توبنو حنیفہ کے سردار مجاعہ بن مرارہ کو بیڑیوں میں جکڑ کرلایا گیا اور اُس کی شناخت کروائی گئی۔مجاعہ کیونکہ قیدتھا بنو حنیفہ کا سردار تھا ۔مردوں کی اکثریت مَرچکی تھی ۔قلعوں میں سوائے عورتوں بچوں بوڑھوں اور کمزوروں کے کوئی بھی نہیں تھا اس لیے اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے اُس نےایک چال چلی اور حضرت خالد بن ولیدؓ سے کہا کہ جلد باز لوگ جنگ کے لیےنکلے تھے جبکہ قلعے تو ابھی بھی جنگجوؤں سے بھرے ہوئے ہیں اور دھوکا دہی سے حضرت خالد بن ولیدؓ کو صلح پر آمادہ کیا۔ حضرت خالدؓ نے اس ہولناک جنگ میں مسلمانوں کا جانی نقصان دیکھ کر صلح کے لیے رضا مندی ظاہر کر دی۔بعد ازاں حضرت ابوبکرؓ کا خط حضرت خالدؓ کو پہنچا کہ ہر بالغ کو قتل کر دیا جائے لیکن یہ خط صلح کے بعد پہنچا تھا اس لیے حضرت خالد ؓنے اپنے عہد کو پورا کیا اور مسلمانوں کی حالت اور صلح کی وجہ بتانے کے لیے حضرت ابوبکرؓ کی طرف ایک خط بھیجا جس کو پڑھ کر حضرت ابوبکرؓ مطمئن اور خوش ہو گئے۔حضرت خالدؓ نے تمام مال غنیمت جمع کرکے حضرت ابوبکر ؓ کی خدمت میں بھجوادیا۔بنو حنیفہ نے مسیلمہ کی نبوت سے لاتعلقی اور بیعت کرکے دوبارہ اسلام لانے کا اعلان کیا۔

جنگ یمامہ میں مقتولین کی تعداد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں قتل ہونے والے مرتدین کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی اور ایک روایت میں اکیس ہزار بھی بیان ہوئی ہے جبکہ پانچ یا چھ سو کے قریب مسلمان شہید ہوئے۔ بعض روایات میں مسلمانوں کی تعداد سات سو،بارہ سو اور سترہ سو بھی بیان ہوئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں شہید ہونے والوں میں سات سو سے زائد حفاظ قرآن تھےجن کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ تھا لیکن ان حفاظِ قرآن کی شہادت ہی بعد میں جمع قرآن کا باعث بنی۔ بعض مؤرخین کے نزدیک جنگ یمامہ ربیع الاوّل بارہ ہجری کو ہوئی جبکہ بعض کا قول ہے کہ یہ گیارہ ہجری کے آخر میں ہوئی۔ ان دونوں اقوال کی مطابقت اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس جنگ کا آغاز گیارہ ہجری میں ہوا ہو اور اس کا اختتام بارہ ہجری میں ہوا ہو۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مدعیان نبوت کا مقابلہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے نبی ہونے کے دعویدار تھے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کے مدعی تھے بلکہ صحابہ نے ان سے اس لیے جنگ کی تھی کہ وہ شریعت اسلامیہ کو منسوخ کر کے اپنے قانون جاری کرتے تھے اورنہ صرف اپنے اپنے علاقہ کی حکومت کے دعویدار تھے بلکہ انہوں نے صحابہ کو قتل کیا۔ اسلامی ملکوں پر چڑھائیاں کیں، قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اپنی آزادی کا اعلان کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے۔ بہت سے منافق مرتد ہو گئے اور افترا پردازوں کے ایک گروہ نے دعویٰ نبوت کر دیا اور اکثر بادیہ نشین ان کے گرد جمع ہو گئے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب جاہل اور بدکردار آدمی مل گئے۔فتنے بھڑک اٹھے اور مصائب بڑھ گئے۔آفات نے دُور و نزدیک کا احاطہ کر لیا اور مومنوں پر ایک شدید زلزلہ طاری ہو گیا۔ایسے وقت میں حضرت ابوبکرؓ حاکم وقت اور حضرت خاتم النبیینؐ کے خلیفہ بنائے گئے۔ منافقوں ،کافروں اور مرتدوں کےروّیوں اور طور طریقوں سے آپؓ ہم و غم میں ڈوب گئے۔ آپؓ اس طرح روتے جیسے ساون کی جھڑی لگی ہو اور اپنے اللہ سے اسلام اور مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگتے۔یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی۔جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دئیے گئے۔ فتنے دور کر دیے گئے اور مصائب چھٹ گئے۔خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا اور اللہ نے مومنوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا ۔پس غور کرو کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ذات میں پورا ہوا۔

حضرت خالدؓ کی مجاعہ بن مرارہ کی بیٹی سے شادی کے بارے میں سوال اٹھتے ہیں۔ اس بارے میں کتب تاریخ اور سیرت میں لکھا ہےاور مؤرخین کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کو جب اس شادی کی خبر ملی تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں خط لکھا کہ اے امّ خالدؓ کے بیٹے تمہیں عورتوں سے شادی سوجھی ہے اور ابھی تمہارے صحن میں ایک ہزار دو سو مسلمانوں کا خون خشک نہیں ہوا اور پھر مجاعہ نے تمہیں فریب دے کر مصالحت کر لی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان پر مکمل قدرت عطا کر دی تھی۔حضرت خالدؓنے جوابی خط حضرت ابوبکر ؓکی خدمت میں روانہ کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ دین کی قسم میں نے اس وقت تک شادی نہیں کی جب تک خوشی مکمل نہ ہو گئی اور استقرار حاصل نہ ہو گیا۔ میں نے ایسے شخص کی بیٹی سے شادی کی ہے کہ اگر میں مدینہ سے پیغام بھیجتا تو وہ انکار نہ کرتا۔ معاف کیجیے میں نے اپنے مقام سے پیغام دینے کو ترجیح دی۔ اگر آپؓ کو یہ رشتہ دینی یا دنیاوی اعتبار سے ناپسند ہو تو میں آپؓ کی مرضی پوری کرنے کے لیے تیار ہوں۔ رہا مسئلہ مسلم مقتولین کی تعزیت کا تو اگر کسی کا حزن و غم کسی زندہ کو باقی رکھ سکتا یا مُردہ کو لوٹا سکتا تو میرا حزن و غم زندہ کو باقی رکھتا اور مُردہ کو لوٹا دیتا۔ میں نے اس طرح حملہ کیا کہ زندگی سے مایوس ہو گیا اور موت کا یقین ہو گیا اور رہا مسئلہ مجاعہ کی فریب دہی کا تو میں نے اپنی رائے میں غلطی نہیں کی لیکن مجھے علم غیب نہیں ہے جو کچھ کیا اللہ نے مسلمانوں کے حق میں خیر کیا ہے۔ انہیں زمین کا وارث بنایا اور انجام کار متقیوں کے لیے ہے۔ جب یہ خط حضرت ابوبکرؓ کو موصول ہوا تو آپؓ کا غصہ جاتا رہا اور قریش کی ایک جماعت نے اور حضرت خالدؓ کا خط لانے والے نے بھی حضرت خالدؓ کی طرف سے عذرخواہی کی تو حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا تم سچ کہہ رہے ہو اور حضرت خالدؓ کی وضاحت اور معذرت قبول فرمائی۔

حضور انور نے آخر میں فرمایا کہ ایک قصہ مرتدین کا تو ختم ہو گیاباقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button