صداقتِ اسلام اور ذرائع ترقیٔ اسلام (قسط نمبر 7۔ آخری)
(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، فرمودہ 22؍فروری 1920ءبمقام بندے ماترم ہال (امرتسر)
حضرت مرزا صاحبؑ کے علمی کارنامے
پھر حضرت مرزا صاحبؑ نے علمی طور پر ایسے ایسے مضمون لکھے کہ مخالفین بھی ان کے سب سے زبردست ہونے کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ لاہور میں ایک بہت بڑا جلسہ ہوا جس کا نام مہوتسو رکھا گیا۔ اس میں یہ شرط رکھی گئی کہ ہر ایک مذہب کے قائمقام اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں اور کسی مذہب پر کوئی حملہ نہ کریں۔ حضرت مرزا صاحبؑ نے اس کے لئے اسلام پر مضمون لکھا اور قبل از وقت خبر دے دی اور اشتہار چھاپ دیا کہ مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ اس جلسہ میں تیرا مضمون سب سے اعلیٰ رہے گا۔ چنانچہ جب آپ کا مضمون اس جلسہ میں پڑھا گیا اور اس کے پڑھنے کا وقت پورا ہوگیا تو سب حاضرین جن میں مختلف مذاہب کے لوگ شامل تھے بول اُٹھے کہ اور وقت دیا جائے اور ایک شخص نے اپنا مضمون پڑھنے کا وقت اس کے لئے دے دیا۔ لیکن جب پھر بھی وہ مضمون ختم نہ ہوا تو لوگوں نے کہا کہ اسی کو پڑھتے جاؤ۔ لیکن پھر بھی وہ ختم نہ ہوا تو لوگوں نے کہا کہ جلسہ میں ایک دن اور بڑھا دیا جائے۔ چنانچہ ایک دن بڑھایا گیا اور اس میں وہ مضمون سُنایا گیا۔ اور لوگوں نے علی الاعلان کہہ دیا کہ خواہ ہم ان باتوں کو مانیں یا نہ مانیں لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ مضمون باقی سب مضامین سے بالا رہا اور سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اس کے متعلق ایک مضمون بھی لکھا۔
حضرت مرزا صاحبؑ کے متعلق ایک مخالف اخبارو کیل کی شہادت
الغرض عملی طور پر حضرت مرزا صاحبؑ نے اسلام کی صداقت میں وہ کام کیا کہ جو اس زمانہ میں کوئی نہ کر سکا۔ اور آپ کے مخالفین تک نے اس کو تسلیم کر لیا چنانچہ آپ کی وفات پر اس شہر کے اخبار وکیل نے جو ہمارے سلسلہ کا نہیں ہے ایک زبردست آرٹیکل لکھاجس میں تسلیم کیا کہ مرزا صاحب نے اسلام کی شاندار خدمات کی ہیں اور انہوں نے دیگر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کی صداقت کو نمایاں کر دیا اور حضرت مرزا صاحبؑ کے مخالف کی آپ کے متعلق گواہی ہے اور بھی کئی اخبارات نے آپ کی خدمات کا اعتراف کیا۔ مگر وکیل کا مضمون سب سے زبردست تھا اس میں لکھا گیا تھا[حاشیہ: اخبار وکیل کے اصل الفاظ یہ ہیں:۔‘‘ وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحرتھا اور زبان جادُو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیڑیاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا۔ جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا۔ خالی ہاتھ دُنیا سے اٹھ گیا………مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کے لئے اُسے امتدادِ زمانہ کے حوالہ کرکے صبر کر لیا جائے۔ ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دُنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دُنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزند انِ تاریخ بہت کم منظر عالَم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دُنیا میں انقلاب پیدا کرکے دکھا جاتے ہیں ’’۔‘‘ میرزا صاحب کی اس رفعت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرادیاہے کہ ان کا ایک بڑا شخص اُن سے جدا ہوگیا اور اس کے ساتھ مخالفینِ اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے وابستہ تھی خاتمہ ہوگیا۔ اُن کی یہ خصوصیّت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جنرل کا فرض پُورا کرتے رہے، ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پَست اور پامال بنائے رکھا۔ آیندہ بھی جاری رہے’’۔‘‘ مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیّت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدرو عظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دِل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے کہ وہ وقت ہرگز لوحِ قلب سے نسیاً منسیاً نہیں ہو سکتا جب کہ اسلام مخالفین کی یُورشوں میں گِھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب ووسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سِسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے۔ ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دُنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کو سر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبردست طاقتیں اس حملہ آور کی پُشت گری کے لئے ٹوٹی پڑی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالَم تھا کہ توپوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا……… کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا۔ اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اُڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطر ناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دُھواں ہوکر اُڑنے لگا……غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبارِ احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑ ا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایتِ اسلام کا جذبہ ان کے شعارِ قومی کا عنوان نظر آئے۔ قائم رہے گا۔ ا سکے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کُچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت انجام دی ہے۔ مرزا صاحب اور مولوی محمد قاسم صاحب نے اس وقت سے کہ سوامی دیانند نے اسلام کے متعلق اپنی دماغی مفلسی کی نوحہ خوانی جابجا آغاز کی تھی، اُن کا تعاقب شروع کر دیا تھا۔ ان حضرات نے عمر بھر سوامی جی کا قافیہ تنگ رکھا۔ جب وہ اجمیر میں آگ کے حوالے کر دیئے گئے اس وقت سے اخیر عمر تک برابر مرزا صاحب آریہ سماج کے چہرہ سے انیسویں صدی کے ہندوریفارمر کا چڑھایا ہوا ملمع اُتارنے میں مصروف رہے۔ اُن کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعویٰ پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ یہ تحریریں نظر انداز کی جا سکیں۔ فطری ذہانت مشق و مہارت اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت نے مرزا صاحب میں ایک شانِ خاص پیدا کر دی تھی۔ اپنے مذہب کے علاوہ مذہبِ غیر پر ان کی نظر نہایت وسیع تھی اور اپنی ان معلومات کا نہایت سلیقہ سے استعمال کر سکتے تھے۔ تبلیغ و تلقین کا یہ ملکہ ان میں پیدا ہو گیا تھا کہ مخاطب کسی قابلیت یا کسی مشرب و ملّت کا ہواُن کے برجستہ جواب سے ایک دفعہ ضرور گہرے فکر میں پڑ جاتا تھا۔ ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے اور جس کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور باہمی کشمکش سے اپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہے ہیں اس کی نظیر غالباً دُنیا میں کسی جگہ سے نہیں مل سکتی۔ مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ مَیں ان سب کے لئے حَکم و عَدل ہوں۔ لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی اُن میں بہت مخصوص قابلیت تھی اور یہ نتیجہ تھی ان کی فطری استعداد کا ذوق مطالعہ اور کثرت مشق کا۔ آئندہ اُمّید نہیں ہے کہ ہندوستان کی مذہبی دُنیا میں اِس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہشیں محض اس طرح مذاہب کے مطالعہ میں صَرف کر دے۔ ’’ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 571 تا 573 مطبوعہ 1971ء) کہ مرزا صاحب کی قلم سحر اور زبان جادو تھی۔ اور ان کی دو مٹھیاں بجلی کی بیٹریاں تھیں۔ تو یہ علمی معجزہ تھا۔ جو حضرت مرزا صاحبؑ نے اسلام کی صداقت میں دکھایا۔ پھر دیکھئے یا تو ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ مرزا صاحبؑ نے اسلام کو پھیلایا نہیں یا دشمن بھی اقرار کررہے ہیں کہ اسلام کی جو تعلیم مرزا صاحبؑ نے پیش کی ہے وہ بہت اعلیٰ ہے۔ چنانچہ انہی دنوں یورپ سے ایک انگریز کا خط میرے نام آیا ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ مَیں نے حضرت مرزا صاحبؑ کی ایک کتاب پڑھی ہے جس سے مجھ پر ثابت ہوگیا کہ اسلام کی تعلیم ایسی اعلیٰ ہے کہ مَیں حیران ہوں انسان اس پر عمل ہی کس طرح کر سکتا ہے۔ دیکھئے وہ یہ نہیں کہتا کہ اسلام کی تعلیم خراب یا ناقص ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ ایسی اعلیٰ ہے کہ عمل کرنا مشکل ہے۔
پس ان واقعات اور دلائل سے ثابت ہوگیا کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے اور اپنی صداقت کے دلائل سے سب پر غلبہ رکھتا ہے اور مشاہدہ سے ثابت ہوگیا کہ اس زمانہ میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔
حاضرین سے خطاب
اس کے بعدمیں سب احباب سے خوایہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم درخواست کریں۔ محبت اور پیارے سے دوسرے کو تلقین کرنا بُرا نہیں۔ بُرا آپس میں لڑنا اور ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنا ہے۔ آپ لوگ ٹھنڈے دل سے ہمارے مذہب پر غور کریں۔ ہم بھی آپ لوگوں کے مذاہب پر اسی طرح غور کرتے ہیں۔ کیا یہ مذہب جو مَیں نے پیش کیا ہے ایسا نہیں ہے کہ اس پر دُنیا کے امن و امان کی بنیاد ہو؟ اگر اسلام ایسا ہی ہے اور واقع میں ایسا ہی ہے تو میں آپ لوگوں سے اپیل کروں گا کہ آپ اسے قبول کریں تاکہ وہ بُعد دور ہوجائے جو ہم میں اور آپ لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ پھر میں ان لوگوں سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ہیں لیکن ہماری جماعت میں داخل نہیں ہیں۔ پوچھتا ہوں کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم مستعد ہو کر اسلام کو دنیا میں پھیلا دیں۔ تمہارے سامنے وہ شخص گزر گیا جس نے اپنا سب کچھ اسلام کی اشاعت میں لگا دیا۔ کیا تم نے ابھی تک غور نہیں کیا کہ اس کی کوشش کیا تھی؟ کیا یہ کہ وہ اسلام کو مٹانے کے لئے پیدا ہوا تھا یا یہ کہ دن رات اسلام کے لئے مرتا تھا۔ اس کوذیابیطس کا مرض تھا، اسے جگر کی بیماری تھی، اسے ہسٹیریا کا عارضہ تھا مگر باوجود ان بیماریو ں کے ہم نے اسے دیکھا کہ ہر وقت اور ہر گھڑی اس کی یہی کوشش تھی کہ اسلام دُنیا میں پھیلے اور اسی میں وہ ہر وقت لگا رہتا تھا۔ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والا دل اسلام سے محبت رکھنے والا دل اس کی طرف بڑھنے سے ڈر سکتا ہے، اس سے علیحدہ رہ سکتا ہے، اس کو چھوڑ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیا اس نے قرآن میں کوئی نقص بتایا؟ کیا اس نے اسلام کی تعلیم کو تبدیل کر دیا؟ یا کیا اس نے اسلام کو چھوڑ دیا؟ اگر نہیں اور اس کا مشن ہی یہ تھا کہ اسلام کو دُنیا میں پھیلایا جائے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ جو لوگ اپنا یہی مقصد قرار دیتے ہیں وہ اس کے جھنڈے کے نیچے نہیں آجاتے۔ وہ ٹھنڈے دل سے غور کریں اس تعصب اور ضد کو جانے دیں جو مزاج لوگوں میں نہیں ہوتی۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو یقیناً یہی معلوم ہوجائے گا کہ خُدا نے اسے اسی لئے بھیجا تھا کہ وہ ایک ایسی جماعت قائم کرے جو دُنیا میں اسلام کو پھیلائے۔ پس مسلمان اس پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس وقت اسلام کی کیا حالت ہے۔ پس اے عزیزو! اے بھائیو!!اے پیارو!!! اس وقت کو پہچانو اور اس وقت کو دیکھو کیا اس حالت کو دیکھ کر تمہیں رحم نہیں آتا۔ شوق نہیں ہوتا کہ تم بھی اسلام کی اشاعت کے لئے قدم بڑھاؤ۔ دیکھو اور یاد رکھو کہ اس وقت اسلام کے لئے خدا کی غیرت جوش میں ہے۔ اسلام کے مخالفین نے کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تلوار کے زور سے اسلام کو پھیلایا ورنہ اسلام میں کوئی خوبی نہیں ہے کہ پھیل سکے۔ خدا تعالیٰ نے کہا یہ غلط ہے۔ اسلام دلائل کے زور سے پھیلا تھا۔ اب جبکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام دلائل کے ذریعہ اسلام کو پھیلا سکتا ہے تو اس کا آقا کیوں اس طرح نہ پھیلا سکتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تلوار نہیں اُٹھائی تھی بلکہ پہل دشمن نے کی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خود حفاظتی کے لئے تلوار ہاتھ میں لی تھی۔ مگر واقعات کے مخفی ہونے کی وجہ سے لوگوں نے کہا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تھا اس کے جواب میں خدا کی غیرت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کو کھڑا کر دیا تاکہ وہ دلائل کے ذریعہ سے اسلام کو پھیلائے۔
پس تم لوگ خدا تعالیٰ کے اس ارادہ سے اپنے ارادوں کو ملا دو تاکہ خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں اب مسلمانوں کی ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ تعصب اور ضد کو جانے دیں اور سچے مسلمان بن جائیں۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدد دینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا ہے اور اپنی طرف سے رسی پھینکی ہے۔ اب تمہارا یہ کام ہے کہ اسے پکڑ لو۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت کہلاتے ہو۔ اگر تمہارنے گرے پر خدا مدد نہ کرتا اور تمہاری ترقی کا کوئی سامان نہ کرتا تو لوگ نتیجہ نکال لیتے کہ اسلام خدا کا پیارا مذہب نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اسلام خدا کا پیارا مذہب ہے اس لئے ایسی حالت میں جبکہ مسلمان ہر طرح سے کمزور اور ناتواں ہوگئے تھے اس کا فرض تھا کہ مدد کرتا چنانچہ اس نے کی۔ اور حضرت مرزا صاحبؑ کو مسلمانوں کی ترقی کا سامان دے کر بھیج دیا۔ اب تمہارا یہ کام ہے کہ ان کو قبول کر لو اوریہ رسی جو خدا نے پھینکی ہے اس کو پکڑ لو۔ یہی ذریعہ ہے تمہارے ترقی کرنے کا اور یہی راستہ ہے تمہارے مقصود تک پہنچنے کا۔
تھوڑا ہی عرصہ ہؤا۔ انگلستان کے ایک شخص نے جس کانام فیتھ ہے خواب دیکھا کہ ایک چٹان ہے جس میں سے ایک شخص نکلا اور اس کے ہاتھ میں رسی ہےاور اس کو کہتا ہے یہ رسی پکڑ لے۔ اس کے بعد وہ ہمارے مبلغین سے ملا جنہوں نے اسے حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر دکھائی جس کو دیکھ کر اس نے اپنی خواب بتائی اور کہا یہی شخص تھا جس کے ہاتھ میں رسی تھی اور جس نے مجھے کہا تھا کہ اسے پکڑ لو۔
پس اے بھائیو! اے عزیزو!! تم بھی اس خدمت میں شامل ہوجاؤ جو حضرت مرزا صاحبؑ کا مشن کر رہاہےتاکہ زندہ مذہب پر قائم ہوجاؤ۔ اگر تم ان دلائل کو لے کر نکلو گے جو حضرت مرزا صاحبؑ نے اسلام کی صداقت میں پیش کئے ہیں تو کوئی مذہب تمہارے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا۔ پس تم خدا تعالیٰ کے اس فضل کی قدر کرو اور اس کوقبول کر کے اس کے بتائے ہوئے دلائل کو لے کر دنیا میں نکل کھڑے ہو۔ تاکہ دُنیا کے چاروں کونوں تک لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی آواز کی گونج اُٹھے۔
اب میں اس دعا پر اپنے لیکچر کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم احمدی سلسلہ کے لوگوں کو اور ان کو جو اس سلسلہ سے باہر ہیں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو حتّٰی کہ ان کو بھی جو خدا کو نہیں مانتے سچے مذہب کو قبول کرنے اور سیدھا راستہ اختیار کرنے کی توفیق دے اور سیدھے راستے پر چلائے اور ہم پر وہی فضل نازل کرے جو پہلے انبیاءؑ کے وقت ہوتے رہے۔ آمین ثم آمین
(صداقتِ اسلام، انوار العلوم جلد 5 صفحہ51تا 82)