مکرم محمد امین صاحب آف شمس آباد
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں جو اللہ تعالیٰ کی محبت تھی، اُس محبت کو آپؑ نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا:
دے چکے دل اب تنِ خاکی رہا
ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا
والد صاحب مرحوم نے حضورؑ کا یہی شعر اپنی فون نمبرز والی ڈائری میں خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا۔ خاکسار کے والد صاحب اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے وجود تھے، تمام عمر اللہ تعالیٰ کے حضور سجود و قیام کرتے ہوئے اور دعائیں کرتے گزار دی۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہی اُن کا نقطہ نظر رہی۔
اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایک اور دعا جو اپنے ہاتھ سے اسی ڈائری میں لکھی ہوئی تھی: ’’اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُن لوگوں کی محبت جو تجھ سے پیار کرتے ہیں، وہ کام جو تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے میرے اللہ ایسا کر کہ تیری محبت مجھے ٹھنڈے اور میٹھے پانی سے بھی پیاری لگنے لگے۔‘‘
اُن کی عبادات کے معیار کو ہم بچپن سے دیکھتے آئے تھے، لیکن اُن کی وفات کے بعد جب اُن کی ڈائری میں لکھی ہوئی یہ دو تحریریں دیکھیں تو احساس ہوا کہ اُن کی عبادات محض عبادات نہیں تھیں بلکہ اپنے اللہ سے اُن کو بے حد محبت تھی اور دعاؤں میں بھی اللہ تعالیٰ سے اُس کی محبت ہی مانگا کرتے تھے۔
زندگی کے آخری دن بھی اپنی عبادات مکمل کیں اور مورخہ یکم اور 2؍دسمبر 2021ء کی درمیانی شب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پیدائش اور خاندان میں احمدیت
خاکسار کے دادا جان مورخہ یکم اگست 1934ء کو بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے تھے۔ اُنہوں نے اپنے خاندان میں سے اکیلے بیعت کی تھی۔ داداجان گاؤں شمس آباد کے اولین احمدیوں میں سے تھے۔ والد صاحب کی معیّن تاریخ پیدائش کا دستاویزی ریکارڈ میسر نہ ہے البتہ زبانی روایات کے مطابق والد صاحب کا سنہ پیدائش 1947ء بنتا ہے۔ لہٰذا والد صاحب پیدائشی احمدی تھے اور ضلع قصور کے گاؤں شمس آباد میں پیدا ہوئے۔
تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ 1947ء میں سفر سندھ سے واپسی پر جب پتوکی سے گزرے تو پتوکی اسٹیشن پر کھریپڑ، علی پور اور شمس آباد کے متعدد دوست آئے ہوئے تھے۔ (بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 16؍ تا 22؍ فروری 2021ء صفحہ49)
قرین قیاس ہے کہ پتوکی اسٹیشن پر شمس آباد سے آنے والے احباب میں دادا جان بھی شامل ہوں۔ واللہ اعلم۔
توکل علی اللہ
جہاں اللہ تعالیٰ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ دعاؤں میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت مانگتے تھے تو وہاں توکل علی اللہ بھی مثالی تھا۔ جب بھی کوئی قابل فکر بات اُن کے علم میں لائی گئی تو ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تو مسبب الاسباب ہے، اُس کے لیے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
ایک دفعہ گاؤں میں رہتے ہوئے کسی وجہ سے کچھ پریشانی کا شکار تھے۔ سردیوں کے دن تھے اور کمرہ میں اکیلے بیٹھے آگ تاپ رہے تھے، صحن کچا تھا لیکن کچھ جگہوں پر پکی اینٹیں وغیرہ لگائی ہوئی تھیں جو کہ بارش کے موسم میں گزرگاہ کا کام دیتی تھیں۔ خاکسار کو بتایا کہ میں اپنی پریشانی میں اندر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک مجھے کچھ گرنے کی آواز آئی، جب باہر جا کر دیکھا تو دیوار پر لگا ہوا بجلی کا بلب زمین پر گرا ہوا تھا اور عین اس جگہ پر جہاں پکی اینٹ بھی لگی ہوئی تھی لیکن بلب ٹوٹا نہیں تھا۔ حالانکہ بجلی کے بلب کا کانچ نازک ہوتا ہے۔ خاکسار کو یہ واقعہ سنایا اور سمجھایا کہ دیکھو بظاہر یہ ناممکن بات ہے کہ اس طرح بلب پکی جگہ پر گرے اور محفوظ رہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کیا ممکن نہیں۔ ضرور یہ تجربہ والد صاحب کے لیے توکل علی اللہ بڑھانے والا تھا۔
آنحضورﷺ پر درود پاک بھیجنے کے نتیجے میں ایک خواب
والد صاحب وہ انسان تھے جو دعاؤں میں بھی اللہ تعالیٰ اور اُس کے پیاروں کی محبت مانگتے تھے۔ دُرثمین کے کئی اشعار اکثر اُن کی زبان پر رہتے تھے۔
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اُس کا ہے محمد، دلبر مرا یہی ہے
اور دوسرا شعر یہ کہ
اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بھی آنحضورﷺ کی محبت سے سرشار تھے اور آپؑ کے یہ اشعار آنحضورﷺ سے سچا عشق کرنے والے انسان کے دل کی حالت کے عکاس ہیں۔
والد صاحب نے ایک دفعہ مجھے ایک واقعہ سنایا۔ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے درود شریف بکثرت پڑھنا شروع کر دیا اور یہ روٹین اسی طرح جاری رہی۔ ایک رات مجھے خواب آئی کہ میں کسی رستہ پر چلتا جا رہا ہوں۔ کسی نے پوچھا کہ یہ رستہ کدھر جاتا ہے۔ کسی نے جواب دیا کہ یہ رستہ سیدھا روضہ رسولؐ کی طرف جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں مزید چلتا گیا کہ روضہ رسولؐ نظر آنا شروع ہو گیا۔ ابھی وہاں پہنچ نہیں پایا تھا کہ خواب ختم ہو گئی۔
یہ واقعہ سناتے ہوئے مزید کہتے کہ شاید میں درود شریف پڑھنے میں سست ہو گیا ہوں گا کہ میں خواب میں وہاں پہنچ نہیں پایا اور خواب ختم ہو گئی۔
اگر یہ حساب درست رہا تو باقی سب حساب بھی درست رہے گا
والد صاحب راج گری کا کام کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ کام ایسا ہے جو سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم ہوتا ہے یعنی اس کام میں موسمی شدت سے بچا نہیں جاسکتا۔ گاؤں میں سردیوں میں گرم پانی، آرام دہ گرم کمروں جیسی سہولتیں میسر نہ تھیں اور نہ ہی والد صاحب کے پاس کوئی آرام دہ جائے نماز تھا بلکہ کھجور کی چھال سے بنا ہوا مصلیٰ ہوتا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم نے والد صاحب کو کبھی نماز ترک کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پانچوں نمازیں ترجیحاً مسجد میں جا کر پڑھتے تھے، اگر کسی وجہ سے بروقت مسجد نہیں پہنچ پائے تو گھر پر نماز پڑھ لی لیکن ترک کبھی نہیں کی۔ خاکسار کو یاد ہے کہ بچپن میں ایک دفعہ رات کو پانی پینے کے لیے اٹھا تو دیکھا کہ والد صاحب اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہیں اور دعائیں کر رہے ہیں۔ واللہ اعلم کہ اُس وقت رات کا کون سا پہر تھا۔ یعنی فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نوافل کی ادائیگی میں بھی مشغول رہتے تھے۔
ہمیں نماز کی تلقین کرتے ہوئے ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو نماز قائم کرنے کے لیے ہر طرح کی چھوٹ دی ہے کہ اگر وضو نہیں کر سکتے تو تیمم کر لو، اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھ لو، اگر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے تو لیٹ کر پڑ ھ لو اور اگر وہ بھی نہیں کر سکتے تو اشاروں سے پڑھ لو لیکن نماز کو ترک نہ کرو۔ مزید یہ کہتے کہ سب سے پہلا سوال نماز کا ہی ہونا ہے اور اگر یہ حساب درست رہا تو باقی سب حساب بھی درست رہے گا اور اگر یہ حساب درست نہ رہا تو باقی بھی درست نہیں ہو گا۔
بچپن میں ایک دفعہ خاکسار اور چھوٹا بھائی عشاء کی نمازپڑھنے مسجد میں نہ گئے۔ رات کو قدرے دیر سے گھر پہنچے تو والد صاحب نے پوچھا کہ عشاء پڑھنے گئے تھے؟ ہم نے گھبرا کے کہہ دیا کہ جی! گئے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ مسجد میں کون کون تھا؟ ہم نے ایسے ہی اندازے سے گاؤں کے کچھ احباب کے نام بتا دیے تو والد صاحب نے کہا کہ کیا میں نہیں تھا؟ اب ہم خاموش تھے کیونکہ کام پر دیر ہو جانے کی وجہ سے بعض اوقات والد صاحب گھر پر بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ لیکن اُس دن والد صاحب نے مسجد میں عشاء کی نماز ادا کی تھی۔ کچھ دیر کی ہماری خاموشی کے بعد والد صاحب نے ہمیں کہا کہ ’’وضو کر لو اور مصلیٰ بچھا لو اور پچاس پچاس نوافل پڑھ کے سونا ہے۔‘‘
یہ واقعہ خاکسار کی یادداشت سے کبھی نہیں اترا۔ یعنی انہوں نےڈانٹ ڈپٹ یا بدنی سزا نہیں دی بلکہ نماز ہی پڑھنے کو کہا تاکہ آئندہ ایسی کوتاہی نہ ہو۔
تلاوت قرآن کریم کا التزام
والد صاحب نماز تہجد اور نماز فجر کے بعد باقاعدگی سے تلاوت بھی کیا کرتے تھے۔ والد صاحب کے پاس قرآن پاک کا وہ نسخہ بھی موجود تھا جس سے خاکسار کے دادا جان تلاوت کیا کرتے تھے۔ باقاعدگی سے قرآن پاک کے اُس نسخہ سے بھی تلاوت کیا کرتے تھے اور خود کے لیے علیحدہ سے قرآن پاک کاایک نسخہ شروع کر رکھا تھا۔ یعنی بیک وقت قرآن پاک کے دو نسخے زیراستعمال رہے جن سےتلاوت کیا کرتے تھے۔
باترجمہ اور بلند آواز میں تلاوت کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ تلاوت کرتے وقت آواز کم از کم اتنی بلند ضرور ہونی چاہیے کہ خود کو سنائی دے۔
حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے سلسلہ سے محبت
درثمین کے کئی اشعار والد صاحب کی زبان پر رہتے تھے اور آپؑ کا الہام ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ بتاتے رہتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ لو، یہ الہام کیسے پورا ہو رہا ہے۔ اسی طرح آپؑ کی پنڈت لیکھرام اور ڈاکٹر ڈوئی کے بارے میں پیشگوئیاں خاص جوش سے بیان کرتے۔
2017ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جرمنی تشریف لائے تو خاکسار کو حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب والد صاحب کے علم میں یہ بات آئی کہ ملاقات کا وقت مل گیا ہے تو انہوں نے خاکسار کو خاص طور پر فون کر کے کہا کہ ’’خلیفہ صاحب کو میرا سلام کہنا‘‘۔ ملاقات کے دوران حضور انور کی خدمت اقدس میں والد صاحب کی طرف سے سلام عرض کیا تو حضور انور نے بھی جواباً ’’وعلیکم السلام‘‘ فرمایا اور والد صاحب کا مختصر تعارف حاصل فرمایا۔
فارغ وقت میں موبائل پر YouTube کے ذریعہ گذشتہ خطبات و مجالس عرفان سنتے رہتے تھے۔ انتہائی سادہ لوح انسان تھے لیکن YouTube پر Thumbnail میں خلفائے کرام کی تصویر دیکھ کر ویڈیو چلا لیتے تھے۔ شروع شروع میں جب انہوں نے موبائل کا استعمال شروع کیا تو خودکار طریق پر اگلی سے اگلی ویڈیو چلنے والی option چالو تھی۔ ایسے میں کسی مخالف کی ویڈیو بھی شاید چل گئی تو خاکسار کو فون کیا اور بڑی فکرمندی سے کہا کہ ’’میرے موبائل پر خطبہ تو چل جاتا ہے لیکن گالیاں نکالنے والے بھی پتہ نہیں کیسے آ جاتے ہیں ‘‘ ۔ خاکسار نے پھر والد صاحب کو سادہ زبان میں بتایا کہ اس کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ خودکار طریق سے اگلی ویڈیو چلنے والی option بند کر دی۔
والد صاحب کے شب و روز کے مشاغل میں دین کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔
جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت
جب ربوہ میں جلسہ سالانہ منعقد ہوتے تھے تو والد صاحب جلسہ میں شرکت کیا کرتے تھے۔ اُن جلسوں کے واقعات بھی وقتاً فوقتاً سنایا کرتے تھے۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد والد صاحب کو 2018ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ گھٹنے میں تکلیف کے باوجود رہائش سے جلسہ گاہ میں پیدل جاتے، جلسہ کی تمام کارروائی اہتمام کے ساتھ سنتے۔ بستی مسیح الزماںؑ میں مقاماتِ مقدسہ کی زیارت سے روحانی سیرابی حاصل کی۔
انفاق فی سبیل اللہ
والد صاحب کی نماز جنازہ سے قبل محلہ کے زعیم صاحب انصاراللہ نے منبر پر تشریف لا کر حاضرین کی خدمت میں بیان کیا کہ محمد امین صاحب کی عبادتوں کا معیار بہت بڑھا ہوا تھا اور خدا کی راہ میں خرچ بھی غیرمعمولی کرتے تھے۔ خود فون کر کے پوچھتے کہ کیا میرے ذمہ کوئی بقایا ہے؟ کورونا وائرس کی وجہ سے عمر رسیدہ احباب کا مسجد میں آنا ممنوع تھا تو اُن (زعیم صاحب) کو فون کر کے کہتے کہ مَیں گھر میں نماز ادا تو کر لیتا ہوں لیکن وہ تسکین میسر نہیں آتی جو مسجد میں آتی ہے۔ لہٰذا اگر ہو سکے تو مجھے مسجد میں آنے کی اجازت دے دیں۔ محترم زعیم صاحب کی طرف سے تحریری تعزیت میں بھی یہی اوصاف بیان تھے۔
گھر سے کوڑا اٹھانے کے لیے آنے والی ایک خاتون نے ایک دن والد صاحب کو کہا کہ ’’چاچا! مجھے ایک چارپائی کی ضرورت ہے‘‘ ۔ والد صاحب نے گھر میں پڑی غیر استعمال شدہ چارپائیاں دکھائیں اور کہا کہ جو تمہیں پسند ہے لے جاؤ۔ والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ والد صاحب کا کہنا تھا کہ خدا کی راہ میں وہ چیزدینی چاہیے جو خود کو بھی پسند ہو۔ دنیاوی ساز و سامان ذخیرہ کرنے کو دوزخ کا ایندھن جوڑنے سے تشبیہ دیتے تھے۔
ایک عرصے سے والد صاحب کا ذاتی ذریعہ معاش نہ تھا لیکن پھر بھی چندہ دینے کے لیے رقم کا تقاضا نہیں کرتے تھے۔ یقیناً جو ذاتی خرچ اُن کو میسر تھا اُسی میں سے انفاق فی سبیل اللہ بھی کرتے تھے۔ اُن کی وفات کے بعد جب زعیم صاحب نے اُن کے انفاق فی سبیل اللہ کی گواہی دی تو سوچ کر آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے کہ کبھی زائد رقم کا مطالبہ تو کیا ہی نہیں تھا تو اپنے جیب خرچ سے ہی خدا کی راہ میں خرچ کرتے رہے۔
داڑھی، ایک بہت بڑی ذمہ داری
والد صاحب نے عمر کے بالکل آخری حصہ میں داڑھی رکھی۔ قبل ازیں باریش نہ تھے۔ خاکسار کو یاد ہے کہ بہت شروع میں ہمارے گاؤں کی مجلس میں جب معلم صاحب تعینات نہ تھے تو صدر صاحب جماعت والد صاحب کو کہتے رہتے تھے اگر تم داڑھی رکھ لو تو مَیں مرکز میں درخواست لکھ دیتا ہوں کہ آپ کو امام الصلوٰۃ مقرر کر دیا جائے۔ والد صاحب کا یہی کہنا تھا کہ چونکہ داڑھی ایک بڑی ذمہ داری ہے، اس لیے مَیں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا۔ کچھ عرصہ بعد ہی ہماری جماعت میں معلم صاحب کی تعیناتی عمل میں آ گئی۔
اہل و عیال سے احسان کا سلوک
والدہ صاحبہ اکثر بتاتی رہتی ہیں کہ اُنہوں نے زندگی کے کٹھن مرحلوں میں ہمیشہ ساتھ دیا اور حالات کی کڑی سے کڑی دھوپ میں بھی سائبان بنے رہے۔ سب سے بڑی بیٹی کے بعد ایک بیٹا پیدا ہوا جو کہ پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی بقضائے الٰہی وفات پا گیا۔ بعد میں چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اُس وقت گاؤں کا ماحول اور طرح کا تھا، احمدی و غیراحمدی میں فرق نہ ہونے کے برابر تھا، ایسے میں بیٹیوں کی پیدائش اور بیٹے کی وفات ہو جانے پر جہاں کئی لوگ ٹھٹھا کرنے والے تھے، وہاں ساتھ ساتھ تعویذ گنڈوں کے مشورے دینے والے بھی تھے۔ اِن حالات میں والدہ صاحبہ پریشان ہو گئیں۔ والدہ صاحبہ اُن حالات کو اب بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ میری پریشانی کو دیکھتے ہوئے کچھ دن کام سے چھٹی کر لی اور میرے پاس رہے اور سمجھاتے رہے کہ چاہے کوئی جو مرضی کہے، یہ ہماری بیٹیاں ہیں اور جب اللہ تعالیٰ چاہے گا تو ہمیں نرینہ اولاد بھی دے گا۔ پانچ بیٹیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے تین بیٹے عطا کیے اور پھر ایک بیٹی عطا کی۔
قلیل آمدن کے باوجود ساری اولاد کو دینی اور دنیوی تعلیم دلوائی۔ بروقت اور احسن طریق سے بیٹیوں کے رشتے طے کیے اور رخصت کیا۔
حسن سلوک کا دائرہ صرف اپنی اولاد تک محدود نہ تھا بلکہ اپنی بہوؤں کے ساتھ بھی بہت شفقت اور احسان کا سلوک کرتے تھے۔ خاکسار کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ جب وہ رخصت ہو کر آئی تھیں اور ابھی پاکستان میں ہی تھیں تو صبح کے وقت باورچی خانہ میں سیدھی دھوپ پڑتی تھی۔ انہوں نے دیکھا تو خود وہاں پر پنکھا لا کر لگا دیا۔
آخری بیماری اور وفات
والد صاحب کو کچھ عرصے سے گھٹنے کی تکلیف تھی اور گرمی کے موسم میں جسم پر الرجی ہو جاتی تھی۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ سیمنٹ کا کام کرتے رہے ہیں، اُس وجہ سے اب یہ الرجی ابھرتی ہے۔ حسب ضرورت اس کا مجوزہ علاج کروا لیا جاتا تھا۔ گھٹنے کی تکلیف کی وجہ ڈاکٹرز نے یہ بتائی کہ ہڈی کچھ گھِس گئی ہے۔ علاوہ ازیں والد صاحب کو شوگر وغیرہ جیسی کوئی مرض لاحق نہ تھی۔ 25؍ فروری 2020ء کو اچانک خبر ملی کہ والد صاحب کی طبیعت خراب ہوئی ہے اور اُن کو ہسپتال لے کر گئے ہیں۔ ہسپتال میں ڈاکٹرز نے ہارٹ اٹیک کی تصدیق کی۔ چونکہ والد صاحب بظاہر صحت مند نظر آتے تھے، اس لیے اچانک ملنے والی یہ خبر لرزہ طاری کر گئی۔
ساتھ ہی مجوزہ ٹیسٹ وغیرہ کروائے گئے تو تشخیص ہوئی کہ دل کے تین stents بند ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹرز نے تجویز کیا کہ stents بھی ڈالے جا سکتے ہیں اور Bypass بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اِن کی عمر 70 سال سے زائد ہے، اس لیے Bypass میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے تمام ممکنہ خدشات سے آگاہ کر دیا۔ لہٰذا باہمی مشورہ کے ساتھ یہی طے پایا کہ stents ڈلوا لیے جائیں اور مجوزہ ادویات کے استعمال کے ساتھ ساتھ روٹین چیک اپ کروایا جاتا رہے۔ مورخہ یکم اپریل 2020ء کو تین stents ڈالے گئے اور 3؍ اپریل 2020ء کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی۔
17؍ اگست 2021ء کو طبیعت بگڑنے پر ہسپتال لے جایا گیا تو دوبارہ ہارٹ اٹیک کی تصدیق ہوئی۔ ڈاکٹرز نے جائزہ لینے کے بعد ادویات میں کچھ تبدیلیاں کیں اور چھٹی دے دی۔
ڈاکٹرز کا مجوزہ طریقہ علاج روٹین میں چل رہا تھا لیکن اس کے باوجود والد صاحب چھاتی میں درد محسوس کرتے تھے اور سانس پھولنے کی شکایت بھی ہونے لگی تھی۔ 20؍ نومبر 2021ء کو ایک مرتبہ پھر اینجیوگرافی کی گئی تو ایک اور stent بند ہونے اورمزید ایک اور blockage کی تشخیص ہوئی۔ اس دفعہ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ stents نہیں ڈالے جاسکتے، اب صرف Bypass ہی کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمر کے اس حصہ میں Bypass کی کامیابی کی بہت زیادہ امید نہیں ہے۔
ایک بہت پریشان کر دینے والا عالم تھا۔ ہم سب بہن بھائیوں کو والد صاحب کا سکون ہر صورت ملحوظ تھا اور یہ صورت حال شدید پریشان کر دینے والی تھی۔ والد صاحب بھی Bypass نہ کروانے پر مُصر تھے۔
اس اینجیوگرافی کے بعد اگلے لائحہ عمل کی پریشانی تو پیش تھی لیکن والد صاحب غیرمعمولی طور پر خوش نظر آتے تھے۔ والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ مجھے کہتے تھے کہ میں نے دعا مانگی ہے کہ یا اللہ! مجھ پہ اپنا فضل کر دے اور مجھے Bypass سے بچا لے۔
قبل اِس کے کہ کسی نتیجے پرپہنچ پاتے، والد صاحب کو خالقِ حقیقی کا بلاوا آ گیا اور وہ اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
زندگی کے آخری دن کی مصروفیات
مورخہ یکم دسمبر 2021ء والد صاحب کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ حسب روٹین نماز تہجد، نماز فجر اور قرآن کریم کی تلاوت کی۔ اس روز دیر تک تلاوت کرتے رہے، جب کر چکے تو والدہ صاحبہ نے پوچھا کہ آج اتنی دیر تک تلاوت کی ہے۔ جواباً کہا کہ ’’آج بس کرنے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا‘‘ ۔
کہتے تھے کہ موبائل کے سپیکر کی آواز بہت کم ہے اور خطبہ وغیرہ سننے میں دِقت ہوتی ہے، لہٰذا ایک وائرلیس سپیکر منگوا کر دیا گیا۔ اِسی دن چھوٹے بیٹے (مربی سلسلہ) سے اس کو موبائل کے ساتھ چلانے کا طریق سمجھا۔
جب دن نکل آتا تھا تو چھت پر چلے جاتے تھے اور پوتا اور پوتی بھی اکثر و بیشتر اُن کے پاس ہی رہتے تھے۔ جب دن ڈھل جاتا تھا تو پھر نیچے آ جاتے تھے۔ دل کے عارضہ کی وجہ سے والدہ صاحبہ سیڑھیاں چڑھنے سے اجتناب کرنے کا کہتی تھیں۔ والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ زندگی کے آخری دن کہتے کہ جو تھوڑی بہت درد مجھے محسوس ہوتی تھی، آج تو وہ بھی نہیں ہو رہی۔ اس لیے آج میں چھت پر جا رہا ہوں۔ سہ پہر کو پیغام بھجوایا کہ آج مچھلی کا سالن بنا لیں۔ مچھلی کے سالن کے ساتھ کھانا کھایا، عشاء کی نماز ادا کی اور کچھ دیر سو گئے۔ کچھ دیر سونے کے بعد اٹھے اور بیت الخلاء گئے۔ وہاں سے آکر کمرے میں Bed پر بیٹھے ہی تھے کہ بیماری کا اچانک حملہ ہوا۔ اس وقت بھی موبائل پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا خطبہ چل رہا تھا۔
سب سے چھوٹا بیٹا کمرے کے دروازہ میں کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا تو دوسرے بھائی کو بلایا اور فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ ہسپتال پہنچنے پر انہوں نے وفات کی تصدیق کر دی۔ وفات کی تصدیق کے وقت رات کے 12:15 بج رہے تھے تو ریکارڈ میں تاریخ وفات 2؍ دسمبر2021ء درج کی گئی۔
نماز جنازہ حاضر و غائب
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 08؍ جنوری 2022ء کو 12 بجے دوپہر اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں والد صاحب کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ (بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 14؍ جنوری 2022ء صفحہ21)
والد صاحب کے جسدِ خاکی کو غسل دینے کے بعد سرد خانہ میں رکھوایا گیا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بین الاقوامی سفر میں خاصی دشواریاں حائل تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا اور معجزانہ طور پر خاکسار کے پاکستان پہنچنے کے اسباب بن گئے۔ مورخہ 6؍ دسمبر 2021ء کو خاکسار پاکستان پہنچا اور اسی دن بعد نماز مغرب مسجد احد (دارالعلوم جنوبی احد) سے ملحقہ گراؤنڈ میں نماز جنازہ حاضر ادا کی گئی۔ نماز جنازہ حاضر مکرم حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ صاحب (مدیر اعلیٰ الفضل انٹرنیشنل) نے پڑھائی۔
بوقت وفات والد صاحب کی عمر 74 سال تھی۔ والد صاحب موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔
حرفِ آخر
والدین تو سبھی کو پیارےہوتے ہیں لیکن کیا ہی خوش قسمتی ہے کہ جس اولاد کے لیے ایک نیک نمونہ حیات بچ جائے۔ وراثت میں زمین، جائیداد کی بجائے دین ملے۔ حصہ میں مکان کی بجائے قرآن پاک اور جائے نماز آئیں۔ خیالات میں نیک اور پاک گفتگو آئے۔ یاد میں پاک نصیحتیں آئیں اور دن رات کی انتھک دعائیں ملیں۔ دنیا تو بہت لوگ کما لیتے ہیں مگر جو لوگ دین کمائیں اور آنے والی نسلوں کے لیے اپنا عملی نمونہ چھوڑ جائیں ایسے لوگ ہی تقویٰ کی راہوں پر چلنے والے ہوتے ہیں۔ کیا یہ سب منافع نہیں؟ اگر ہم اُس نسخہ قرآن مجید سے، جس سے والد صاحب تلاوت کیا کرتے تھے، تلاوت کرتے ہوئے، اُن کے جائے نماز پر سجدہ ریز ہوتے ہوئے وہی دعائیں کریں جو ہمارے والد صاحب کیا کرتے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم سب بہن بھائی زندگی کے کسی موڑ پر بھی اپنے پیارے والد صاحب کی نیکیوں میں اُن کی برابری کر پائے تو ہمارے لیے ساری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔ ہمارا اُن سے وفا کا ثبوت یہی ہے کہ ہم دن رات کوشاں رہیں کہ ہم نے اپنے پیارے والد صاحب کی نیکیوں کو زندہ رکھنا ہے، جس طرح وہ دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کی محبت مانگتے تھے، ہم بھی اُسی طرح درِ مولیٰ پر پڑے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرشار ہو جائیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ والد صاحب کو اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے اور اپنے پیاروں کے ساتھ، جن کی محبت وہ مانگا کرتے تھے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے والد صاحب کی نیکیوں کو زندہ رکھنے والے بنیں۔ آمین ثم آمین
٭…٭…٭