سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے
بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سنت نبویہ کے معارض اور نقیض واقع ہو اور آثار نبویہ میں اس کام کے کرنے کے بارے میں زجر اور تہدید پائی جائے۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 611)
کتاب اللہ کے بر خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النار ہے۔ اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھر ادھر بالکل نہ جاوے۔ کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے۔ …
ہمارا اصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اور طریق سنت کے سوا نہیں۔ …
(ملفوظات جلد 5صفحہ 163۔ایڈیشن 1984ء)
…میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے گلے کا ہار ہو رہی ہیں۔ اور اُن بری رسموں اور خلاف شرع کا موں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے۔ ہر چند سمجھایا گیا، کچھ سنتے نہیں۔ ہر چند ڈرایا گیا۔ کچھ ڈرتے نہیں اب چونکہ موت کا کچھ اعتبارنہیں اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے بڑھ کر اورکوئی عذاب نہیں۔ اس لئے ہم نےان لوگوں کے برا ماننے اور برا کہنے اور ستانے اور دکھ دینے سے بالکل لا پروا ہو کر محض ہمدردی کی راہ سے حق نصیحت پورا کرنے کے لئے بذریعہ اس اشتہار کے ان سب کو اور دوسری مسلمان بہنوں اوربھائیوں کو خبر دار کرنا چاہا تاہماری گردن پرکوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے۔ اور قیامت کو کوئی نہ کہہ سکے کہ ہم کو کسی نے نہیں سمجھایا۔ اور سیدھا راہ نہیں بتایا۔ سو آج ہم کھول کر بآواز کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے، یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین اسلام کی راہ اختیار کی جائے۔ اور جو کچھ اللہ جلشانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی ہے اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں۔ اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں۔ اور اس کے بر خلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 109-110۔ ایڈیشن 2019ء)
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی فرمانبرداری کی جاوے۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں۔ کوئی مرجاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں۔ حالانکہ چاہئے کہ مردہ کے حق میں دعا کریں۔ رسومات کی بجاآوری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا۔ اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 440۔ ایڈیشن 1984ء)