خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 03؍جون 2022ء
صحابہ کرامؓ نے اس معرکے میں انتہائی صبر و استقامت کا ایسا ثبوت دیا جس کی مثال نہیں ملتی اور برابر دشمن کی طرف بڑھتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے خلاف فتح عطا فرمائی اور کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
جنگِ یمامہ کے حالات و واقعات کا تفصیلی بیان
مسیلمہ کذاب کے قتل کے واقعہ کا بیان
مخالفانہ حالات کے باعث پاکستان، الجزائر اور افغانستان کےاحمدیوں کے لیے دعا کی تحریک
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 03؍جون 2022ء بمطابق 03؍احسان 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔ اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کےفوری بعد منافقین سے، مخالفین سے جو لڑائیاں ہوئیں ان کا ذکر ہو رہا تھا اور اس سلسلہ میں
حضرت خالد بن ولیدؓکی مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ کا ذکر
ہوا تھا۔ اس ضمن میں مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے علم برداروں کی بہادری کا ذکر ہو رہا ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ انصار کا جھنڈا حضرت ثابت بن قیسؓ کے پاس تھا اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن خطابؓ کے پاس۔ حضرت زید بن خطابؓ نے لوگوں سے کہا۔ لوگو !مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، دشمن پر ٹوٹ پڑو اور آگے قدم بڑھاؤ۔ پھر فرمایا اللہ کی قسم! مَیں اس وقت تک بات نہیں کروں گا یہاں تک کہ اللہ انہیں شکست دے دے گا یا مَیں اللہ سے جا ملوں گا اور دلیل کے ساتھ اس سے بات کروں گا۔ پھر آپؓ بھی شہید ہو گئے۔
(البدایہ والنھایہ جلد 3جزء 6 صفحہ320 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت زید بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپؓ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوتیلے بھائی تھے۔ قدیم الاسلام ہیں۔ شروع میں اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ بدر اور اس کے بعد کے غزوات میں شریک رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد آپ اور مَعْن بن عَدِی انصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان مؤاخات کرائی تھی اور دونوں ہی یمامہ کی جنگ میں شہید ہو گئے۔ جنگِ یمامہ میں حضرت خالدؓ نے جب لشکر کو ترتیب دیا تو ایک حصہ کا سپہ سالار حضرت زید بن خطابؓ کو بنایا اور اسی طرح اس جنگ میں مہاجرین کا پرچم بھی آپؓ کے ہاتھ میں تھا۔ آپؓ پرچم لیے آگے بڑھتے رہے اور بڑی بے جگری سے لڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے تو پرچم گر گیا۔ سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہما نے پرچم تھام لیا۔ اس معرکے میں زید رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کے دستِ راست اور ایک بہادر شہسوار جس کا نام رَجَّال بن عُنْفُوَہ تھا، اس کو قتل کیا اور آپؓ کو جس نے شہید کیا اس کو ابومریم حنفی کہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا اور ایک مرتبہ جب حضرت عمرؓ نے اسے کہا کہ تم نے میرے بھائی کو قتل کیا تھا تو اس نے کہا اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں زید رضی اللہ عنہ کو شرف بخشا اور ان کے ہاتھوں مجھےذلیل نہیں کیا۔ یعنی وہ شہادت کی موت پا گئے اور اگر اس وقت ان کے ہاتھوں مَیں مارا جاتا تو ذلت کی موت مرتا۔ اب مجھے اسلام کی توفیق مل گئی ہے۔
حضرت عمر بن خطابؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓبھی جنگِ یمامہ میں شامل ہوئے تھے۔
وہ جب واپس مدینہ آئے تو حضرت عمرؓ نے اپنے اس شہید ہونے والے بھائی کے غم میں ان کو کہا کہ جب تمہارے چچا زید شہید ہو گئے تو تم واپس کیوں آ گئے اور کیوں اپنا چہرہ مجھ سے چھپا نہ لیا؟ جب زیدؓ کے قتل کی خبر عمر رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا: زیدؓ دو نیکیوں میں مجھ سے آگے نکل گیا تھا۔ یہ ذکر پہلے بھی ایک دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ مجھ سے پہلے اسلام قبول کیا اور مجھ سے پہلے شہید ہو گئے۔ مالک بن نُوَیرہکو جب حضرت خالدؓ نے قتل کر دیا تو اس کے بھائی مُتَمِّم بن نُوَیرہ نے اپنے بھائی مالک کے قتل پر اشعار کہے۔ اس کو اپنے بھائی سے بہت محبت تھی اور وہ اکثر ان کی جدائی میں روتا رہتا اور شعر کہتا تھا۔ ایک مرتبہ جب حضرت عمرؓ سے اس کی ملاقات ہوئی اور اس نے بھائی کا مرثیہ حضرت عمرؓ کو سنایا تو حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ اگر مَیں شعر کہنا جانتا تو تمہاری طرح مَیں بھی اپنے بھائی زیدؓ کے لیے شعر کہتا۔ اس پر مُتَمِّمنے عرض کیا: اگر میرے بھائی کی موت ایسی ہوتی جیسی موت آپؓ کے بھائی کی ہوئی ہے یعنی شہادت کی موت تو مَیں کبھی بھی اپنے بھائی پر غمگین نہ ہوتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا
جس خوبصورت انداز میں میرے بھائی کی تعزیت تم نے کی ہے اَور کسی نے نہیں کی۔
حضرت عمرؓفرمایا کرتے تھے کہ جب باد صبا چلتی ہے تو زیدؓکی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے صفحہ362-363 از علی محمد الصلابی الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ280 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)
(الاکتفاء جزء2 صفحہ111 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1420ھ)
بہرحال جنگ کا ذکر ہو رہا ہے۔ مسیلمہ کذّاب ابھی تک ثابت قدم تھا اور کافروں کی جنگ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ حضرت خالدؓ نے یہ تجزیہ کیا کہ
جب تک مسیلمہ کو قتل نہ کیا جائے گا جنگ ختم نہیں ہو گی
کیونکہ اگر کوئی بنو حنیفہ سے قتل ہوتا ہے تو اس کا ان پر یعنی مسیلمہ کے ساتھیوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے حضرت خالدؓ اکیلے ان کے سامنے آئے اور ایک ایک کو انفرادی جنگ کی آواز لگائی اور اپنے شعار کا نعرہ لگایا۔
مسلمانوں کا شعار یا محمداہ! تھا۔
پس جو بھی مقابلے کے لیے نکلا حضرت خالدؓ نے اس کو قتل کر دیا۔ پھر مسلمانوں نے بڑے جوش سے جنگ کی۔
حضرت خالدؓ نے مسیلمہ کو مقابلے کے لیے آواز دی۔ اس نے قبول کر لی توحضرت خالدؓ نے اس پر اس کی خواہش کے مطابق چند چیزیں پیش کیں۔ پھر حضرت خالدؓ اس پر حملہ آور ہوئے تو وہ بھاگ گیا
اور اس کے ساتھی بھی بھاگ گئے تو حضرت خالدؓ نے لوگوں کو، مسلمانوں کو پکار کر کہا کہ خبردار! اب کوتاہی نہ کرنا۔ آگے بڑھو اور کسی کو بچ کر جانے نہ دو۔ اس پر مسلمان ان پر چڑھ دوڑے۔
(الکامل فی التاریخ لابن اثیر ذکر مسیلمہ واہل الیمامۃ جلد2 صفحہ221 دارالکتب العلمیۃ بیروت2003ء)
صحابہ کرامؓ نے اس معرکے میں انتہائی صبر و استقامت کا ایسا ثبوت دیا جس کی مثال نہیں ملتی اور برابر دشمن کی طرف بڑھتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے خلاف فتح عطا فرمائی اور کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا، انہیں قتل کرتے رہے اور تلواریں ان کی گردنوں پر چلاتے رہے یہاں تک کہ انہیں ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ بنو حنیفہ کے ایک سردار محکِّم بن طُفیل نے بھاگتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! اس باغ میں داخل ہو جاؤ۔ یہ بہت وسیع باغ تھا جس کے گرد دیواریں تھیں۔ محکم بن طفیل نے بنو حنیفہ کا تعاقب کرنے والے مسلمانوں کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ باغ میدانِ جنگ کے قریب ہی تھا اور مسیلمہ کی ملکیت تھا۔ اس باغ کو حدیقةالرحمان کہا جاتا تھا، جس طرح مسیلمہ کو رحمان الیمامہ کہا جاتا تھا لیکن اس جنگ کے دوران اس باغ میں کثرت سے دشمنوں کے مارے جانے کی وجہ سے اس باغ کو حدیقة الموت یعنی موت کا باغ کہا جانے لگا۔ مسیلمہ کذاب بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس باغ میں چلا گیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ نے دیکھا کہ بنو حنیفہ کا ایک سردار محکِّم خطاب کر رہا ہے۔ انہوں نے اس پر تیر چلا کر اس کو قتل کر دیا۔ بنو حنیفہ نے باغ کا دروازہ بند کر دیا اور صحابہ نے چاروں طر ف سے اس باغ کا محاصرہ کر لیا۔
مسلمان کوئی جگہ تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح اس باغ کے اندر جایا جا سکے لیکن یہ قلعہ نما باغ تھا۔ باوجود تلاش کے اس کے اندر جانے کی کوئی جگہ نہ مل سکی۔ آخر حضرت بَرَاء بن مالِکؓجو حضرت انس بن مالکؓ کے بھائی تھے۔آپؓ نے غزوۂ اُحُد اور خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حصہ لیا تھا۔ بہت بہادر تھے۔آپؓ نے کہا کہ
مسلمانو! اب صرف ایک طریقہ ہے کہ تم مجھے اٹھا کر باغ میں پھینک دو،
مَیں اندر جا کر دروازہ کھول دوں گا
مگر مسلمان یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ ان کاایک عالی مرتبہ ساتھی ہزاروں دشمنوں کے درمیان اپنی جان گنوا دے۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا لیکن حضرت بَراء بن مالکؓ نے اصرار کرنا شروع کیا اور کہا مَیں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے باغ میں دیوار کے اندر کی طرف پھینک دو۔ آخر مجبور ہو کر مسلمانوں نے انہیں باغ کی دیوار پر چڑھا دیا۔ دیوار پر چڑھ کر جب حضرت بَراءبن مالک نے دشمن کی بڑی تعداد کو دیکھا تو ایک لمحے کے لیے رکے لیکن پھر اللہ کا نام لے کر باغ کے دروازے کے سامنے کود پڑے اور دشمنوں سے لڑتے اور قتل کرتے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ آخر کار آپ دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور باغ کا دروازہ کھول دیا۔ مسلمان باہر دروازہ کھلنے ہی کے منتظر تھے۔ جونہی دروازہ کھلا وہ باغ میں داخل ہو گئے اور دشمنوں کو قتل کرنے لگے۔ بنو حنیفہ مسلمانوں کے سامنے سے بھاگنے لگے لیکن وہ باغ سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ صرف حضرت بَراء بن مالکؓ نے نہیں بلکہ اَور بھی کئی مسلمانوں نے دیوار پھلانگ کر دروازے کا رخ کیا تھا۔
(حضرت ابوبکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 200-201)
(البدایۃ والنھایۃ جلد 3جزء 6 صفحہ321دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
(البدایۃ والنہایۃ جلد7 صفحہ256 دار ہجر 1998ء)
(معجم البلدان جلد2 صفحہ268 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(اسد الغابہ جلد اول صفحہ 363-364دار الکتب العلمیۃ بیروت 2016ء)
مسلمان مرتدین سے قتال کرتے ہوئے مسیلمہ کذاب تک پہنچ گئے۔ وہ ایک دیوار کے شگاف میں کھڑا ہوا تھا جیسے خاکستری رنگ کا اونٹ ہو۔ وہ بچاؤ کے لیے اس دیوار پر چڑھنا چاہتا تھا اور غصہ سے پاگل ہو چکا تھا۔ وَحْشِی بن حَرْبجنہوں نے غزوۂ احد میں حضرت حمزہ ؓکو شہید کیا تھا مسیلمہ کی طرف بڑھے اور آپؓ نے اپنا وہی برچھا جس سے حضرت حمزہ ؓکو شہید کیا تھا مسیلمہ کی طرف پھینکا اور وہ اسے جالگا اور دوسری طرف سے پار ہو گیا۔ پھر جلدی سے اَبُودُجَانہ سِمَاک بنِ خَرَشَہؓ اس کی طرف بڑھے۔ اس پر تلوار چلائی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ قلعہ سے ایک عورت نے آواز دی۔ ہائے حسینوں کے امیر کو ایک سیاہ فام غلام نے قتل کر دیا۔
(البدایہ والنھایہ جلد 3جزء 6 صفحہ321دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ528 دارالکتب العلمیۃ 2001ء)
مسیلمہ کذاب کو کس نے جہنم رسید کیا؟
بلَاذَرِیکا بیان ہے کہ قبیلہ بنو عامر کا کہنا ہے کہ ان کے قبیلے کے ایک فرد خِدَاشْ بن بَشِیرنے قتل کیا۔ ایک روایت ہے کہ انصار کے قبیلہ خزرج کے عبداللہ بن زید نے قتل کیا۔ بعض نے کہا کہ حضرت اَبُودُجَانہؓنے قتل کیا۔ معاویہ بن ابوسفیان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس کو قتل کیا تھا۔ بعض کے نزدیک ہو سکتا ہے کہ سب اس کے قتل میں شریک ہوں۔ بعض کتب میں جس میں طبری بھی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیلمہ کو ایک انصاری اور وَحْشِینے مشترکہ طور پر قتل کیا تھا۔
(الصدیق،ازپروفیسرعلی محسن صدیقی، صفحہ 102-103)
وَحْشِی بن حَرْبؓ مسیلمہ کو قتل کرنے کا واقعہ خود بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غزوۂ احد میں حضرت حمزہ ؓکو شہید کرنے کے بعد جب لوگ لوٹے تو میں بھی ان کے ساتھ لوٹا اور میں مکہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اس میں اسلام پھیلا تو میں طائف کی طرف بھاگ گیا۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایلچی بھیجے اور مجھ سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایلچیوں سے تَعَرُّض نہیں کرتے۔ انہوں نے یعنی وَحْشِی نے کہا کہ میں بھی ان کے ساتھ نکلا یہاںتک کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا کیا تم وَحْشِی ہو؟ مَیں نے کہا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ تم نے حمزہؓ کو کیسے قتل کیا تھا۔ تو مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تفصیل سے آگاہ کیا۔ جب مَیں نے بات ختم کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ ؟ وَحْشِی کہتے ہیں کہ مَیں وہاں سے نکل گیا ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اور مسیلمہ کذاب نے بغاوت کی تو مَیں نے کہا: مَیں مسیلمہ کی طرف ضرور نکلوں گا تا کہ مَیں اسے قتل کروں تا کہ اس کے ذریعہ سے حضرت حمزہؓ کو قتل کرنے کا کفارہ ادا کر سکوں۔ بہرحال یہ کہتے ہیں کہ مَیں بھی لوگوں کے ساتھ اس جنگ میں نکلا۔ پھر اس کا حال ہوا جو ہوا۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص دیوار کے شگاف میں کھڑا ہے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے گندمی رنگ کا اونٹ ہے۔ سر کے بال پراگندہ ہیں۔ مَیں نے اس کو اپنا برچھا مارا اور اسے اس کی چھاتیوں کے درمیان مارا یہاں تک کہ وہ اس کے دونوں کندھوں کے درمیان سے نکل گیا۔ بہرحال یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد انصار میں سے ایک شخص اس کی طرف لپکا اور اس کی کھوپڑی پر تلوار کی ضرب لگائی۔ راوی سلیمان بن یَسَار نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے سنا۔ وہ کہتے تھے کہ جب مسیلمہ مارا گیا تو ایک لڑکی جو اس گھر کی چھت پر تھی بولی۔ امیر المومنین یعنی مسیلمہ کو کالے غلام نے مار ڈالا ہے۔یہ بخاری کی روایت ہے۔
وَحْشِی کہتے ہیں کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم دونوں یعنی انصاری صحابی اور حضرت وَحْشِی میں سے کس نے مسیلمہ کو قتل کیا لیکن اگر مَیں نے ہی اسے مارا ہے تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص یعنی حضرت حمزہؓ کے قتل کا ارتکاب بھی مَیں نے کیا تھا اور سب سے بدترین شخص کو بھی مَیں نے ہی مارا۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 528 ،تحریض ھند والنسوۃ معھا، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل حمزۃ بن عبدالمطلب روایت نمبر 4072)
صحیح بخاری کی روایت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وَحْشِیکوجو یہ فرمایا تھا کہ ’’کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ؟‘‘ اس کی شرح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’وَحْشِیؓ میں جو تبدیلی پیدا ہوئی وہ ان کے اخلاص پر دلالت کرتی ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح اپنی غلطی کا کفارہ دیں۔ چنانچہ یمامہ کی ہولناک جنگ میں اپنی یہ خواہش اور نذر پوری کر کے سرخرو ہوئے۔‘‘ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ فَھَلْ تَسْتَطِیْعُ اَنْ تُغَیِّبَ وَجْھَکَ عَنِّیْ‘‘ کیاتمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ؟ ’’بہت
بلند اخلاق کے آئینہ دار
ہیں‘‘ یہ الفاظ۔ ’’وَحْشِیؓ سے خواہش کا اظہار کیا کہ اگر تجھ سے ہو سکے تو میرے سامنے نہ آیا کرو۔ یہ لب و لہجہ آمرانہ نہیں بلکہ التماس کا لب و لہجہ ہے اور اس سے اس محبت و عزت کا پتہ چلتا ہے جو حضرت حمزہؓ کے لئے آپؐ کے دل میں تھی۔ ایک منتقم مزاج انتقام لے کر دل ٹھنڈا کر سکتا تھا مگر آپؐ نے عفو سے کام لیا۔ صرف اتنا چاہا کہ وہ آپؐ کے سامنے نہ آئے تا حضرت حمزہؓ کی درد ناک شہادت کی یاد سے آپؐ کے دل کو ٹھیس نہ پہنچے۔‘‘
(صحیح البخاری مترجم از زین العابدین صاحب جلد 8صفحہ 198-199)
اسی
جنگِ یمامہ کی تفصیل
ایک اَور جگہ بیان ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کی طرف سے جرأت اور دلیری کا ذکر اس طرح بیان ہوا ہے کہ دونوں گروہوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی یہاں تک کہ دونوں گروہوں کے بہت سے لوگ قتل اور زخمی ہو گئے۔ مسلمانوں میں سے سب سے پہلے مالک بن اوس شہید ہوئے۔ مسلمانوں میں سے حفاظ قرآن بھی کثرت سے شہید ہو گئے۔ دونوں لشکروں میں گھمسان کا رَن پڑا یہاں تک کہ مسلمان مسیلمہ کے لشکر میں اور مسیلمہ کا لشکر مسلمانوں کے لشکر سے جا ملا۔ جب مسلمان ہٹتے تو وہ لوگ آگے بڑھتے تا کہ مُجَّاعَہ تک پہنچ سکیں۔ سالم مولیٰ ابوحذیفہ نے اپنی نصف پنڈلیوں تک گڑھا کھودا۔ ان کے پاس مہاجرین کا جھنڈا تھا اور ثابت نے بھی اسی طرح کا گڑھا اپنے لیے کھودا۔ پھر ان دونوں نے اپنے جھنڈوں کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور لوگ ہر طرف پراگندہ ہو گئے تھے۔ یعنی گڑھا کھود کے اس میں خود کھڑے ہو گئے اور جھنڈے اپنے ساتھ لگا لیے جبکہ سالمؓ اور ثابتؓ اپنے جھنڈوں کے ساتھ قائم رہے یہاں تک کہ سالم شہید ہو گئے اور ابوحذیفہ ؓبھی شہید ہو گئے۔ حضرت ابوحذیفہ ؓ کا سر سالمؓ کے قدموں میں تھا اور سالم رضی اللہ عنہ کا سر حضرت ابو حذیفہؓ کے قدموں میں تھا۔ جب سالم ؓشہید ہو گئے تو جھنڈا کچھ دیر اسی طرح پڑا رہا۔ کسی نے اسے اٹھایا نہیں۔ پھر یزید بن قَیسؓ نے جو بدری صحابی تھے وہ آگے بڑھے اور انہوں نے اس جھنڈے کو اٹھا لیا یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر حَکم بن سعید بن عاص نے اس جھنڈے کو اٹھایا اور اس کی حفاظت میں سارا دن لڑتے رہے۔ پھر وہ بھی شہید ہو گئے۔ وَحْشِیؓ کہتے ہیں کہ شدید لڑائی ہوئی۔ تین مرتبہ مسلمانوں کے قدم اکھڑے۔ چوتھی مرتبہ مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کیا اور ان کے قدم جم گئے اور وہ تلواروں کے سامنے ڈٹ گئے۔ بنو حنیفہ اور ان کی تلواریں ایک دوسرے پر پڑنے لگیں یہاں تک کہ مَیں نے آگ کی چنگاریاں ان میں سے نکلتی ہوئی دیکھیں اور ان کی گھنٹی کی طرح کی آوازیں سنیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنی مدد نازل کی اور بنی حنیفہ کو اللہ تعالیٰ نے شکست دی اور اللہ نے مسیلمہ کو قتل کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس روز اپنی تلوار خوب چلائی یہاں تک کہ وہ تلوار میرے ہاتھ میں دستے تک خون سے بھر گئی۔ حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمارؓ کو ایک چٹان پر چڑھے ہوئے دیکھا، وہ پکار رہے تھے کہ
اے مسلمانوں کے گروہ!کیا تم جنت سے بھاگ رہے ہو؟ مَیں عمار بن یاسر ہوں میری طرف آؤ۔
راوی کہتے ہیں کہ مَیں دیکھ رہا تھا کہ ان کا کان کٹ کر لٹک رہا تھا۔ اَبُو خَیْثَمَہ نَجَّارِیکہتے ہیں جب مسلمان جنگِ یمامہ کے دن پراگندہ ہو گئے تو مَیں ایک طرف ہٹ گیا اور میری آنکھوں کے سامنے یہ منظر ہے کہ مَیں اس دن حضرت اَبُودُجانہؓ کو دیکھ رہا تھا۔ ان کا نام سِماک بن خَرَشَہ تھا اور ابو دُجانہ کی کنیت سے معروف تھے۔ یہ وہ مشہور صحابی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور غزوۂ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار ہاتھ میں لے کر کہا: اس کا حق کون ادا کرتا ہے؟ اَبُودُجانہ بولے مَیں ادا کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو وہ تلوار عنایت فرمائی اور بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے دریافت کیا کہ اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ مسلمان کو نہ مارنا اور کافر سے نہ بھاگنا۔ حضرت اَبُودُجانہؓ نے حسب معمول سر پر سرخ پٹی باندھی اور فخریہ انداز سے اکڑتے ہوئے صفوں کے درمیان آ کر کھڑے ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چال اگرچہ خدا کو ناپسند ہے لیکن ایسے موقع پر کچھ حرج نہیں۔ معرکۂ کارزار میں نہایت پامردی سے مقابلہ کیا اور بہت سے کافر قتل کیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں بہت سے زخم کھائے لیکن میدان سے نہیں ہٹے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا یہ پچھلا واقعہ بیان ہو رہا ہے۔ بہرحال جنگِ یمامہ کے واقعہ میں بیان ہے کہ اس میں اَبُودُجانہ پر بنو حنیفہ کے ایک گروہ نے حملہ کیا۔ اب یمامہ میں کیا ہوا۔ ان کے بارے میں لکھا ہے ان پر ایک گروہ نے حملہ کیا تو آپؓ اپنے سامنے بھی تلوار چلاتے، اپنے دائیں بھی تلوار چلاتے اور اپنے بائیں بھی تلوار چلاتے۔ آپؓ نے ایک شخص پر حملہ کیا اور اسے زمین پر گرا دیا۔ آپؓ کوئی بات نہیں کر رہے تھے یہاں تک کہ وہ گروہ آپ سے دُور ہو گیا اور واپس چلا گیا اور مسلمان قریب آ گئے۔ بنو حنیفہ شکست کھا کر باغ کی طرف بھاگے۔ مسلمان ان کے پیچھے بھاگے اور انہیں باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ ان لوگوں نے باغ کے دروازے بند کر لیے تو حضرت اَبُودُجانہؓ نے کہا مجھے ڈھال میں ڈال کر پھینک دو تا کہ مَیں اندر جا کر باغ کا دروازہ کھول سکوں۔ چنانچہ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا اور آپؓ باغ میں پہنچ گئے۔ آپؓ کہہ رہے تھے تمہارا بھاگنا تمہیں ہم سے بچا نہیں سکتا۔ آپؓ نے ان کے ساتھ سخت جنگ کی یہاں تک کہ دروازہ کھول دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس باغ میں اس وقت داخل ہوئے جب آپ شہید ہو چکے تھے۔ ایک اَور روایت کے مطابق بَرَاءبن مالک کو باغ میں پھینکا گیا تھا لیکن پہلی روایت جو براء بن مالک والی ہے وہ زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔
(الاکتفاء جزء 2 صفحہ 121تا126 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1420ھ)
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی دجانۃ…… حدیث 6353)
(کنز العمال جزء4 صفحہ339 حدیث10792 موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
اس کی تفصیل بھی ہے۔ بہرحال باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔
اس وقت میں
پاکستان کے لیے دعا کے لیے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ احمدیوں کے لیے خاص طور پر دعا کریں۔
پاکستان کے حالات عمومی طور پر جو بگڑ رہے ہیں وہ تو ہیں۔ ایسے حالات میں پھر احمدیوں کی طرف بھی ان کی توجہ ہو جاتی ہے۔ مخالفت بڑھ رہی ہے۔ پرانی قبریں اکھیڑنے کی طرف سے بھی انہوں نے گریز نہیں کیا۔
انتہائی بدطینت قسم کے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کرے۔
اسی طرح الجزائر کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں وہ بھی آج کل مشکلات میں گرفتار ہیں۔ افغانستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب پر اپنا فضل نازل فرمائے۔
اس وقت میں
چند مرحومین کا ذکر
کرنا چاہتا ہوں اور اس کے بعد پھر ان کی نماز جنازہ بھی نماز کے بعد پڑھاؤں گا۔ اس میں پہلا ذکر
مکرم نسیم مہدی صاحب مبلغ سلسلہ
کا ہے جو مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب کے بیٹے تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی انہتر سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ موصی بھی تھے۔ ان کی دو شادیاں تھیں۔ پہلی بیوی وفات پا گئی تھیں۔ پسماندگان میں اب ان کی دوسری اہلیہ اور دونوں بیویوں سے دو دو بیٹے اور ایک ایک بیٹی شامل ہیں۔ یہ 1976ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ ہوئے تھے۔ پھر اصلاح و ارشاد مقامی میں ان کو خدمت کا موقع ملا۔ پھر 77ء میں ان کو بطور مبلغ سوئٹزرلینڈ بھجوایا گیا۔ وہاں ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ 84ء میں ان کو نائب وکیل التبشیر مقرر کیا گیا۔ چند ماہ یہ بطور قائم مقام وکیل التبشیر کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ 1984ء میں دسمبر میں یہ یہاں لندن آئے تو یہاں پر پرائیویٹ سیکرٹری لندن کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ پھر چند مہینے بعد یہ 85ء میں لندن سے ہی کینیڈا روانہ ہو گئے۔ 85ء سے 2008ء تک بطور مبلغ اور بعد ازاں مبلغ انچارج کینیڈا خدمت کی توفیق پائی۔ اس عرصہ میں یہ کینیڈا کے امیر بھی رہے۔ 2009ء سے 16ء تک مبلغ انچارج امریکہ خدمت کی توفیق ملی۔ پھر یہ بیمار ہو گئے تھے۔ ان کا تقرر پھر دوبارہ سوئٹزرلینڈ میں ہوا لیکن انہوں نے لکھا کہ ڈاکٹر نے مجھے صحت کی خرابی کی وجہ سے کہا ہے کہ مَیں مزید زیادہ بوجھ والا کام نہیں کر سکتا تو انہوں نےغیر معینہ مدت کی رخصت لے لی۔ بہرحال ان کو پھر مَیں نے لکھا تھا کہ اگر ایسی حالت ہے اور ڈاکٹر کہتا ہے تو اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ جب ٹھیک ہو جائیں تو بتا دیں، ان شاء اللہ تعالیٰ پھرآپ سے خدمت لی جائے گی لیکن بہرحال بیماری ان کی بڑھتی رہی۔
جیساکہ مَیں نے کہا 1985ء میں یہ کینیڈا گئے تھے۔ 1986ء میں مشن ہاؤس بیت الاسلام کے لیے 24 ایکڑ زمین خریدی گئی اور اس کو پھر وہاں آباد بھی کیا گیا۔ ان کے وقت میں بہت سے احمدی کینیڈا میں آ کر آباد ہوئے اور انہوں نے ان لوگوں کی بڑی مدد کی۔ بہت سے دوسرے لوگ بھی ان کے ممنون احسان ہیں۔ چندہ اور تجنید کے سسٹم کو انہوں نےکمپیوٹرائزڈ کروایا۔ ٹورانٹو اور کیلگری میں دو بڑی مساجد کی تعمیر کی گئی اور دیگر جماعتوں میں بھی سینٹر قائم کیے گئے۔ میرا خیال ہے شاید وینکوور کی مسجد بھی ان کے زمانے میں بنی تھی۔ بہرحال یہ دو بڑی مساجد تو ہیں۔ 2003ء میں ان کے وقت میں ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ احمدیہ کینیڈا کا قیام ہوا۔ ایم ٹی اے نارتھ امریکہ سٹیشن کے قائم کرنے میں بھی آپ نے بڑا کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے یہ سب کام قبول فرمائے۔
ان کی اہلیہ امة النصیر صاحبہ لکھتی ہیں کہ نسیم مہدی صاحب کو ازدواجی زندگی کے 26سال میں جو مَیں نے دیکھا کہ ہر دکھ درد میں ان کو اپنا ساتھی پایا۔ بڑے پیار کرنے والے، عزت کرنے والے شوہر تھے۔ شفیق باپ تھے۔ جاں نثار بھائی تھے۔ انسانیت کا درد رکھنے والے تھے۔ خلافت کے مطیع اور فرمانبردار تھے۔ اللہ تعالیٰ پر مکمل توکل رکھنے والے تھے۔ نیک انسان تھے۔ ان کی اہلیہ نے پھر مزید یہی بیان کیا ہے کہ لوگوں کی بڑی بےلوث خدمت کرنے والے تھے اور دوسروں سے محبت کے ساتھ پیش آنا اور جماعت کے خلاف نہ کوئی بات سنتے تھے نہ کسی کوکرنے دیتے تھے اور نہ ان کے سامنے کرنے کی جرأت ہوتی تھی۔ اور بہت زیادہ مہمان نوازی تھی۔ درود شریف پڑھنے کی طرف بہت توجہ رہتی تھی۔ کہتی ہیں جب عمرے پر گئے تو مَیں نے پوچھا کہ کیا دعائیں کیں۔ تو انہوں نے کہا کہ مَیں نے تو وہاں صرف درود شریف پڑھا ہے۔
ان کی بیٹی سعدیہ مہدی کہتی ہیں کہ میرے والد بہت دعا گو شخصیت کے مالک تھے۔ کہتی ہیں: جب مَیں کبھی دعا کے لیے کہتی تو مجھے کہتے کہ درود شریف پڑھا کرو۔ جب بھی کسی معاملے میں دعا کے لیے کہا تو ہمیشہ درود شریف پڑھنے کی طرف توجہ دلائی۔ مَیں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ آپ ہر بات پر یہی کہتے ہیں کہ درود شریف پڑھا کرو تو کہتے کہ درود شریف پڑھو اور سمجھاتے کہ سب سے بڑی دعا درود شریف ہی ہے۔ اگر یہ قبول ہو گئی تو سب دعائیں پوری ہو جائیں گی۔
پھر عصمت شریف صاحبہ ہیں،کہتی ہیں کہ مہدی صاحب میرے بہنوئی تھے۔ ان کو بائیس سال بہت قریب سے دیکھا۔ بےحد شفیق، بے حد خیال رکھنے والے، بہت محبت سے پیش آنے والے۔ خلیفۂ وقت سے بھی بےانتہا عقیدت رکھنے والے انسان تھے۔ ان کی ہمشیرہ کہتی ہیں کہ جب آپ سوئٹزرلینڈ میں مربی سلسلہ تھے تو اس وقت ایک سوئس لڑکی جو احمدی ہو گئی تھی وہ جلسہ سالانہ پر ربوہ آئی اور ربوہ میں ہمارے گھر آئی کہ مَیں نے نسیم مہدی صاحب کی والدہ سے ملنا ہے اور کہتی ہیں میری خواہش ہے کہ مَیں اس ماں سے ملوں جس کا بیٹا اتنا ذہین ہے، جس نے اتنے تھوڑے عرصہ میں اتنی زبانوں پر عبور حاصل کر لیا اور بغیر کسی جھجھک کے وہ تبلیغ کے کاموں میں مصروف ہے اور بڑی روانی سے ہر موضوع پر بات کر لیتا ہے۔
ان کی بہو کہتی ہیں کہ ہمیشہ ہمیں درود شریف کی اہمیت اور اس کے سہارے سے دعاؤں کی قبولیت کی اہمیت کے بارے میں بتاتے۔ انہوں نے ایک دفعہ بتایا کہ میں ایئر پورٹ کی لائن میں کھڑا ہوا اور خیال ہوا کہ ان کے پاسپورٹ کی مدت ختم ہو چکی ہے تو فوراً ہی درود شریف پڑھنا شروع کر دیا اور لائن میں اسی طرح لگے رہے۔ کاؤنٹر میں موجود شخص نے پاسپورٹ کو دیکھا بھی نہیں اور اسی طرح آگے گزار دیا۔
ان کے داماد لکھتے ہیں کہ جب سے میری شادی ہوئی آپ بہت ہی پیار اور شفقت کا سلوک کرتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر دیتے۔ فجر کی نماز کے بعد میرے ساتھ بیٹھ جاتے اور قرآن پاک کی کوئی آیت یا واقعہ سناتے۔ پھر اس کی تفسیر پیش کرتے اور یوں بڑے لطیف انداز میں ہماری تربیت کرتے۔
ان کی بیٹی نوال مہدی کہتی ہیں کہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ آپ کو قرآن کریم کی طرف بہت توجہ اور شوق تھا۔ قرآن کے بڑے سچے عاشق تھے اور ہمیں بھی کہتے تھے کہ غور سے مطالعہ کیا کرو۔ اس کے معانی اور مطالب کو سمجھنے کی کوشش کرو تو پھر تمہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے نظر آئیں گے اور قرآن کریم پڑھنے کا سرور بھی ملنا شروع ہو جائے گا۔ کہتی ہیں بڑی باقاعدگی سے تہجد کی نماز پڑھنے والے تھے۔ قیام اور رکوع اور سجدہ طویل ہوتا تھا۔ ان کی نمازوں میں بڑی رقّت اور گداز ہوتی تھی۔ رمضان المبارک میں قرآن کریم کے درس دینے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ بڑی محنت سے درس تیار کرتے تھے۔ یہ اَور لوگوں نے بھی لکھا ہے۔ قرآن کریم کے مشکل الفاظ کے معنی اور مطالب بیان کرتے تھے اور اس سے ملتے جلتے الفاظ کا ذکر کرتے جس سے لوگوں کو آسانی سے سمجھ آ جاتی۔
امیر جماعت کینیڈا لال خان صاحب کہتے ہیں کہ سابق امیر اور مشنری انچارج کینیڈا کے ساتھ مَیں نے 1987ء سے لے کرایک لمبا عرصہ کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑے اوصاف سے نوازا تھا اور وہ جو خصوصیات تھیں ان کو جماعت کی خدمت میں انہوں نے استعمال کیا۔ انہیں دوست بنانے اور دوستی نبھانے اور ان روابط کو جماعت کے مفاد میں استعمال کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔ کینیڈین سوسائٹی کے متعدد شعبوں کے عمائد سے انہوںنے ذاتی تعلق پیدا کیے اور ان کو جماعت سے متعارف کروایا۔ ماشاء اللہ یہ ملکہ بھی ان میں خوب تھا اور جن سے بھی تعلق قائم کیا بڑا اچھا اور گہرا تعلق تھا اور دوسروں نے بھی اس تعلق کو نبھایا۔ ان کی وفات پر بھی اسی طرح غیروں نے بہت زیادہ تعزیت کی ہے۔ پھر یہ لال خان صاحب لکھتے ہیں کہ پاکستان اور دوسرے ممالک سے آنے والے افراد اور خاندانوں کی راہنمائی اور امداد کی ذمہ داری کی توفیق اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی۔ پھر کہتے ہیں کہ مجلس عاملہ کے اراکین سے ان کا رابطہ دوستوں کی طرح رہتا تھا۔ کہتے ہیں کہ مجھے ان کی امارت میں تقریباً بیس سال خدمت کی توفیق ملی۔ اس دوران میں مجھے انہوں نے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ان کے امیر ہونے کے باعث مَیں ان کا ماتحت ہوں بلکہ ان کا رویہ مجھ سے ایک دوست والا رہا ہے۔
پھر ڈاکٹر اسلم داؤد صاحب کہتے ہیں کہ نسیم مہدی صاحب کو آرڈر آف اونٹاریو کا تمغہ 2009ء میں ملا جوکہ صوبے کا سب سے معزز اعزاز ہے جو کسی شہری کو دیا جا سکتا ہے۔ یہ ایوارڈ کسی بھی فیلڈ میں کامیابی اور اعلیٰ خدمات بجا لانے پر دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں جب ان کی تقرری امریکہ میں ہوئی تو ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر میری ان سے ملاقات ہوئی۔ اس وقت انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ تم جس پوزیشن میں اب ہو تم جتنی زیادہ لوگوں کی خدمت کر سکتے ہو کرو۔ جب بھی کوئی فرد جماعت تمہارے پاس آئے تو اس کی مدد کرو اور کبھی نہ دھتکارنا۔ جو کچھ ان کے لیے کر سکتے ہو کرو اور یہ بھی بتایا کہ لوگ بعض دفعہ صحیح طرح بات نہیں کرتے تو پوشیدہ طور پہ بھی ان کا پتاکر کے ان کی مدد کرنی چاہیے۔ کہتے ہیں مَیں نے انہیں ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا ہے اور ہمیشہ ایسے رنگ میں پردہ داری کرتے ہوئے مدد کرتے تھے کہ ضرورت مند کسی طرح بھی شرمندہ نہ ہو۔
شکور صاحب مربی سلسلہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کی بہت ساری باتوں میں سے ایک نصیحت جو میرے ذہن نشین ہو گئی وہ یہ ہے کہ کہتے ہیں میں جامعہ کےابتدائی سالوں میں شاید درجہ ثانیہ میں تھا ۔ ایک دفعہ عصر کی نماز پر چپل پہن کے مسجد میں آ گیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ واقفین سلسلہ کو تمام حالات کے لیے تیاری کر کے گھر سے نکلنا چاہیے تا کہ اگر کبھی کوئی حکم مل جائے تو فوری طور پر وہیں سے اس کو بجا لانے کے لیے تم لوگ تیار ہو کے چلے جاؤ۔ یہ نہ ہو کہ کہو مَیں گھر جا کے تیار ہو کے آتا ہوں۔ ذہنی کے علاوہ جسمانی طور پر بھی ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔
اسی طرح فراست عمر مربی سلسلہ امریکہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب میرا جامعہ کا انٹرویو ہوا تو مہدی صاحب نے ایک سوال پوچھا کہ اگر بطور مشنری افریقہ بھیجا جائے اور وہاں مخالفت ہو جائے مقامی لوگوں کی طرف سے تو کس سے پہلے رابطہ کرو گے اپنی والدہ سے یا خلیفة المسیح سے؟ تو کہتے ہیں مَیں نے سوچنے کے بعد کہا خلیفةالمسیح سے۔ اس پر مہدی صاحب نے کہا کہ اسی بنیاد پر مَیں تمہاری سفارش کر رہا ہوں کہ تمہیں داخلہ دیا جائے اور یہی صحیح جواب ہے۔
کرنل دلدار صاحب سیکرٹری مشن ہاؤس ہیں۔ کہتے ہیں کہ نسیم مہدی صاحب میں خلفاء کی اطاعت کا جذبہ نمایاں پایا جاتا تھا۔ ان کے کارناموں میں ایک ’پیس ولیج‘ کا قیام ہے۔ یہ اس طرح معرض وجود میں آیا کہ جس زمانے میں کینیڈا کا جلسہ سالانہ مسجد بیت الاسلام کے ساتھ میدان میں ہوتا تھا، اس وقت ساتھ والے قطعہ زرعی زمین کی مالکہ جلسہ کے موقع پر ہر سال شکایت کرتی کہ ان کے جلسہ کے شور سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے اور ان کے لنگر کی بُو میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔ بہرحال کچھ عرصہ بعد جب حکومت نے اس زرعی زمین کی زوننگ (Zoning)کی اور اس کو رہائشی زون میں تبدیل کر دیا تو پھر نسیم مہدی صاحب کو فکر ہوئی کہ یہ ایک مالکہ ہمیں پریشان کر رہی تھی اب تو کئی مالک بن جائیں گے، کئی گھروں کے مکین آ جائیں گے توبڑا مشکل ہو جائے گا ۔ اس پر انہوں نے عید کے موقع پر احباب جماعت میں سکیم پیش کی کہ کیوں نہ یہاں سارے احمدی گھر بنا لیں اور یہ جگہ احمدی لوگ خرید لیں۔ چنانچہ احباب جماعت نے اس تحریک پر لبیک کہا اور اللہ کے فضل سے پھر پیس ولیج کا قیام عمل میں آیا۔
ذیشان گورائیہ صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ کہتے ہیں بےشمار نوجوانوں نے ان سے تربیت حاصل کی اور آج اس تربیت کے نتیجہ میں ہم لوگ دنیا کے مختلف ممالک میں بطور مربی سلسلہ جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ آپ کی تربیت کی وجہ سے ہم نے خلافت سے محبت کرنا سیکھا اور اطاعت کی روح کو اپنے اندر نشوونما پاتے دیکھا۔
اسی طرح آصف خان صاحب کینیڈا کے سیکرٹری امور خارجہ ہیں، کہتے ہیں مَیں تیرہ سال کی عمر میں وان (Vaughan)میں آیا تھا۔ اس وقت مشن ہاؤس کے آس پاس کچھ درجن بھر احمدی تھے۔ میرا اس وقت جماعتی علم بہت کم تھا۔ مہدی صاحب نے مجھ سے اپنے بیٹے کی طرح سلوک کیا، میرے استاد بن گئے۔ باسکٹ بال کھیلتے اور ہمیں جماعتی تعلیم دیتے۔ میں نے ہوش سنبھالی تومجھے مختلف سیاستدانوں سے رابطہ کرنے کے لیے جماعتی کام دیتے۔ اور اسی طرح آج بھی اللہ کے فضل سے یہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں مَیں نے سب تربیت ان سے حاصل کی۔
مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعت امریکہ کہتے ہیں کہ 2016ء میں بطور مشنری انچارج اور نائب امیر جماعت امریکہ ان کو خدمت کی توفیق ملی اور امریکہ میں انہوں نے بڑا اچھا کام کیا۔ دورہ جات کیے۔ مختلف سٹیٹس میں دورہ جات پر گئے، تبلیغ کے کام کو مؤثر طور پر شروع کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران مرحوم کو میڈیا اور مختلف کمپینز (campaigns)کے ذریعہ اسلام احمدیت کا پیغام امریکہ میں پھیلانے کی توفیق ملتی رہی۔ پھر میکسیکو میں جماعت کے قیام کے بارے میں مرکز کی ہدایت کی روشنی میں وہاں مشن ہاؤس قائم کرنے کے سلسلہ میں ان کو توفیق ملی۔ سیکرٹری تبلیغ امریکہ وسیم سید صاحب کہتے ہیں کہ ہر ایک کے ساتھ پیار اور محبت کا تعلق قائم کرنے والے تھے۔ اس میں پہل کرتے تھے اور خدمتِ اسلام میں ہر ایک کو ساتھ لگانے کا طریق آتا تھا۔ امریکہ آنے کے بعد مرحوم نے 11؍ستمبر کی مناسبت سے ہر سال منعقد ہونے والی تقریبات کو اسلام کی تعلیمات پھیلانے کا مؤثر ذریعہ بنایا اور Muslims for life اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں Muhammad, Messenger of peaceمہم شروع کی۔ امریکہ کی چھپن یونیورسٹیز میں اس موضوع پر لیکچر ہوئے۔ ’لائف آف محمد ‘کتاب وسیع طور پر ان کے لیکچر میں شامل ہونے والے افراد کو تحفةً دی گئی۔ Muslims for loyaltyکی مہم بھی انہوں نے شروع کی۔ مختلف یونیورسٹیز میں لیکچر دیے۔ مقامی حکومتی حلقوں کے ساتھ میٹنگز کیں اور اسلام کی تعلیم کو اجاگر کیا۔
حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک دفعہ اپنی تقریر میں سوئٹزرلینڈ کے مشن کی مساعی میں جماعت کے تعارفی فولڈر کی سکیم پر مہدی صاحب کے مستعدی سے کام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ سوئٹزرلینڈ کی پہاڑیوں پر جو لوگ رہتے ہیں، یہ جانور پالنے والے تین قبیلے ہیں۔ تینوں کی زبان بھی مختلف ہے۔ اٹھائیس ہزار کی تعداد میں ہیں۔ اس سے بھی کم ہے ان کی تعداد، تو بہرحال کہتے ہیں اتفاقاً اٹھائیس ہزار بولنے والوں کا فولڈر شائع کر دیا نسیم مہدی صاحب نے (اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے) مجھ سے مشورہ کرنے کے بعداور آٹھ ہزار فولڈر ہر گھر میں پہنچا دیا اس علاقے کے۔ وہاں اس علاقے کے ہر گھر میں پہنچا دیا وہاں تو شور مچ گیا۔ دو اخباروں نے بڑی سخت تنقید لکھی ہے۔
(ماخوذ از سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ426-427)
تو مَیں نے کہا اچھی دعا ان کے حق میں ہو گئی ہے کئی لاکھ فولڈر تقسیم ہوا۔
(ماخوذ ازخطابات ناصرؒ جلد دوم صفحہ543-544)
بہرحال یہ مختصر سی رپورٹ تھی جو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے وہاں پیش کی جلسہ پہ۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ اپنے پیاروں کے قدموں میں ان کو جگہ دے۔ ان کے بچوں اور بیوی کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جس طرح انہوں نے وفا سے زندگی گزاری ہے ان کی اولاد بھی اسی طرح وفا سے زندگی گزارنے والی ہو۔
اگلا ذکر ہے
عزیزم محمد احمد شارم
ربوہ کا۔ یہ بچہ سولہ سال کی عمر میں بقضائے الٰہی فوت ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔خلافت کا فدائی، ایک ہنس مکھ اور ہر دلعزیز بچہ تھا۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ جماعتی اور تنظیمی پروگراموں میں باقاعدہ شامل ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھا۔ اس عمرمیں اس نے وصیت کر لی تھی۔ پسماندگان میں والدین کے علاوہ دو بہنیں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
تیسرا ذکر
مکرمہ سلیمہ قمر صاحبہ
اہلیہ رشید احمد صاحب مرحوم کا ہے۔ 16؍مئی کو ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد چودھری محمد صدیق صاحب کے نانا حضرت مولوی وزیر الدین صاحب آف مکیریاں کے ذریعہ ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور کانگڑہ میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کے والد چودھری محمد صدیق صاحب مولوی فاضل جو تھے وہ جماعت کی بزرگ شخصیت تھے۔ لمبا عرصہ ان کو انچارج خلافت لائبریری کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ بطور صدر عمومی ربوہ بھی ان کو لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ مولوی صاحب کو، سلیمہ قمر صاحبہ کے والد کو حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت پر قیام ربوہ کے موقع پر خیمہ لگانے اور پہلی رات ربوہ میں بسر کرنے کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔ مرحومہ نے اپنی ابتدائی تعلیم ربوہ میں حاصل کی اور تعلیم الاسلام کالج سے ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کی۔ لمبا عرصہ تک مختلف شعبہ جات میں خدمت کی توفیق ملی۔ لجنہ اماء اللہ مقامی میں 1972ء تا 82ء بطور جنرل سیکرٹری خدمت کا موقع ملا۔ 82ء تا 87ء امة الحئی لائبریری میں بطور لائبریرین کام کیا۔ 87ء تا 18ء اکتیس سال بطور مدیرہ رسالہ مصباح خدمت کا موقع ملا اور اس دوران انہوں نے باوجود نامساعد حالات کے مصباح کو بڑی اچھی طرح چلایا۔ مرحومہ نہایت نیک سیرت، عبادت گزار، دعا گو اور سادہ طبیعت کی مالک تھیں۔ باقاعدگی سے نماز تہجد کے ساتھ دیگر نفلی نمازیں چاشت اور اشراق پابندی سے ادا کرتی تھیں۔ خلافتِ احمدیہ سے بہت اخلاص اور وفا کا تعلق تھا۔ آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں دعا کا رنگ نمایاں ہوتا تھا۔ ایک فرشتہ صفت خاتون تھیں۔ ہر ایک سے نہایت پیار اور محبت کا تعلق تھا۔ کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭