چودھری رحمت خاں صاحب
چودھری رحمت خاں صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت خوشی محمد صاحب رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے صاحبزادہ تھے۔ آپ کا تعلق گجرات کے گاؤں دھیرکے کلاں سے تھا۔ چودھری رحمت خاں صاحب نہایت نیک، دین دار اور جماعت کی خدمت کرنے والے بزرگ تھے۔ آپ اپنی نیکی اور خوش خلقی کی وجہ سے معروف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ وقف زندگی سے قبل بھی 40 سال تک گاؤں میں امامت کے فرائض ادا کرتے رہے۔
آپ نے 1922ء میں زمیندارہ ہائی اسکول گجرات میں ملازمت اختیار کی اور 1954ء میں اسی اسکول سے بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے۔ چودھری صاحب نے اپنے فرائض بطور مدرس خوب احسن طریق سے نبھائے۔ آپ کی شخصیت میں ایک خاص وجاہت شامل ہونے کے ساتھ ساتھ آپ اعلیٰ اخلاق کے مالک بھی تھے۔ یہی وجہ تھی کے شاگرد آپ سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔ زمیندارہ ہائی اسکول سے پینشن پانے کے بعد آپ نے موضع دھوریہ ضلع گجرات کے ہائی سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر فرائض سرانجام دیے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یکم فروری 1957ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں اپنی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے چودھری رحمت خاں صاحب کے بارے میں کچھ اس طرح فرمایا: ’’میں نے (رؤیا میں ) دیکھا کہ ان سیڑھیوں میں کچھ حرکت ہوئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو ملنے آئے ہیں۔ اس پر میں نے جا کر کنڈی کھولی۔ کنڈی کھولنے پر ایک ہاتھ آگے نکلا جیسے کوئی مصافحہ کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اس شخص کی شکل تو نہیں دیکھی لیکن ہاتھ سے میں یہ سمجھا کہ یہ چودھری رحمت خان صاحب کا ہاتھ ہے۔ چودھری رحمت خان صاحب ایک احمدی مخلص نوجوان ہیں (اب تو شاید وہ نوجوان نہیں رہے بلکہ ادھیڑ عمر کے ہوں گے) گجرات میں رہتے ہیں۔ ان کےبھائی چودھری غلام رسول صاحب یہاں سکول میں ماسٹر ہیں۔ 1922ء میں جو میں نےدرس دیا تھا اس میں وہ بڑے شوق کے ساتھ قادیان آکر شامل ہوئے تھے۔ اس کے بعد میں برابر سنتا رہا ہوں کہ انہوں نے اس درس سے پورا فائدہ اٹھایااور اپنی سروس کے دوران میں انہیں جہاں جہاں بھی جانے کا موقع ملا وہ درس دیا کرتے تھے۔ اور لوگوں کو قرآن کریم کے مضامین سے واقف کیا کرتے تھے۔ بہر حال میں نے رؤیا میں سمجھا کہ یہ ہاتھ چودھری رحمت خاں صاحب کا ہے میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا میں کتنی ہی دیر سے آپ کی تلاش کر رہا تھا آج آپ کو پکڑا ہے۔ اور پھر اس خیال سے کہ انہیں علمی ذوق ہے اور قرآن کریم کے مضامین سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور وہ درس دیتے رہے ہیں میں نے کہا اندر آجاؤ تاکہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے متعلق باتیں کریں۔ چنانچہ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان کو اندر کھینچ لے آیا…‘‘(خطبات محمود جلد 38صفحہ 32)
اس رؤیا کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے چودھری رحمت خاں صاحب کو بیرون ملک انگلستان تبلیغ دین کے لیے بھجوانے کا حکم صادر فرمایا۔ لہٰذا آپ 22؍اکتوبر 1960ء کو بطور مشنری انچارج انگلستان بھجوائے گئے۔ وہاں پرآپ نے نہایت اخلاص کے ساتھ فرائض سر انجام دیے۔ اس دوران آپ نے انگلستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے وہاں تبلیغی لیکچر دیے۔ دوران تبلیغ آپ نے ویک فیلڈ (Wakefield)جیل کے گورنر کی درخواست پر اسلام پر ایک لیکچر دیا۔ چودھری صاحب نے اس لیکچر میں اسلامی تہواروں سے متعلق بتایا۔ اس کے بعد سے اس جیل میں مسلمان قیدیوں کو عید کے مواقع پر چھٹی ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
مکرم بشیر احمد خان رفیق سابق امام مسجد فضل لندن چودھری رحمت خاں صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’آپ معمر تھے اور میں آپ کا نائب تھا۔ ان کی نسبت بہت چھوٹی عمر کا تھا۔ لیکن آپ کی شفقت اور حسن سلوک نے مجھے کبھی عمروں کے اس فرق کا احساس نہ ہونے دیا۔ اور ہم دونوں میں بے حد ہم آہنگی رہی۔ آپ 1964ء کی ابتداءمیں بیمار پڑ گئےاور خود واپسی کی درخواست کی جو منظور ہو گئی۔ ‘‘(چند خوشگوار یادیں از بشیر احمد رفیق صفحہ 131)
چنانچہ 1964ء میں چودھری صاحب انگلستان کے مشن سے واپس پاکستان آگئے۔ لیکن واپس آنے کے بعد باوجود پیرانہ سالی کے پھر بھی جماعت کی خدمت کا جذبہ کچھ کم نہ ہوا۔ اسی جذبہ کو دیکھتے ہوئے امام وقت نے آپ کو احمدیہ ہاسٹل لاہور کا سپرنٹنڈنٹ مقرر فرمایا۔ آپ نے یہ خدمت نہایت اعلیٰ طریقہ سے سر انجام دی۔ طلبہ کے ساتھ نہایت شفقت اور ہمدردی سے پیش آتے۔ طلبہ کی تربیت کے لیے اپنا بہترین نمونہ ان کے سامنے رکھا۔
چودھری صاحب اس وقت تک ضعیف العمر اور کمزور ہو چکے تھے۔ کچھ جوان سال بیٹے کی غریب الوطنی میں موت کے غم نے بھی آپ کو کافی متاثر کیا تھا۔ لیکن خلیفہ وقت کی اطاعت اور سلسلہ کی خدمت کا جنون پورے جوبن پر تھا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی وقف عارضی کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ہاسٹل سے چھٹیوں کے ایام میں ربوہ تشریف لے آئے۔ آپ کی وقف عارضی کے لیے جماعت گجرات مقرر ہوئی۔ وقف عارضی پر جانے سے قبل حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن افسوس کے وقف عارضی پر جانے کا آپ کو موقع نہ مل سکا اور اس سے پہلے ہی آپ اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔
محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نےآپ کی وفات کی خبر پر تحریر فرمایا: ’’ان (چودھری رحمت خان صاحب) کی اچانک وفات کی خبر سے بہت صدمہ ہوا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مگر اس بات کی تسلی تھی کہ ان کی زندگی مجاہدانہ عزائم کے دوران ہی ختم ہوئی اور ان کا آخری سانس تک بلحاظ نیت و عزم جہاد اور خدمت دین میں گزرا۔ ایسے ہی اولوالعزم خدام دین اسلام کی سربلندی کا موجب ہوتے ہیں اور ایسے ہی بزرگوں کو دائمی زندگی نصیب ہوتی ہے۔
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما‘‘
(روزنامہ الفضل 18؍اگست 1968ء صفحہ 4)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ چودھری رحمت خان صاحب اور ان کی اولاد سے اپنی محبت کے بارے میں اپنے ایک مراسلہ بنام چودھری بشیر احمد خان صاحب مرحوم(تحریر کردہ 24.06.1985)میں تحریر فرمایا: ’’آپ کا اور چودھری رحمت خان صاحب مرحوم کی تمام اولاد کا ہر گھر برکتوں سے بھر دے اور نسلاً بعد نسلٍ اس بزرگ باپ کا خلوص اور جذبۂ فدائیت آپ کی رگوں میں دوڑتا رہے۔
آپ کو شاید علم نہیں کہ مجھے چودھری رحمت خاں صاحب مرحوم سے بہت پیار تھا۔ اس لیے ان کی ساری اولاد کو بھی خاص محبت کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ ‘‘
چودھری رحمت خان صاحب 30؍جولائی 1968ء کو اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پر اے دل تو جاں فدا کر
اولاد: اللہ تعالیٰ نے سات بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ دو بیٹے بچپن میں فوت ہوئے۔
1۔ چودھری نذیر احمد صاحب
2۔ چودھری بشیر احمد صاحب
آپ کی اہلیہ اس وقت آسٹریلیا میں اپنے بیٹوں مکرم تاثیر احمد خاں صاحب اور مکرم توقیر احمد خاں صاحب کے ہاں قیام پذیر ہیں۔
3۔ چودھری نصیر احمد صاحب
4۔ چودھری منیر احمد صاحب
5۔ چودھری مسعود احمد صاحب (لندن میں دوران تعلیم کرنٹ لگنے سے وفات ہوئی)
6۔ زبیدہ خانم صاحبہ اہلیہ عبد الغنی صاحب
اللہ تعالیٰ سب سے مغفرت کا سلوک فرمائے آمین۔
7۔ صوفیہ خانم صاحبہ اہلیہ محمد اکرم چٹھہ صاحب
اس وقت صوفیہ خانم صاحبہ حیات ہیں جو کئی کتب کی مصنفہ ہیں نیزکئی جماعتی عہدوں پر کراچی اور کینیڈا میں خدمات بجا لاتی رہی ہیں۔ فی الحال یو کے میں سکنتھورپ کےعلاقہ میں اپنے بیٹے مکرم اطہر اکرم چٹھہ صاحب کے ہمراہ رہائش پذیرہیں۔
٭…٭…٭