ملکہ معظمہ الزبتھ ثانی کی پلاٹینم جوبلی کے حوالے سےمجلس انصاراللہ برطانیہ کے تحت خصوصی تقریب اور عشائیہ
320معزز مہمانوں کی شمولیت۔ دعوت الی اللہ کے حوالے سے نمائش کا اہتمام۔
جوبلی سووینئر گفٹ پیک کی تقسیم۔
جماعت احمدیہ کی رفاہی خدمات اور امن کے قیام کے لیے کی جانے والی مساعی پر خراج تحسین
زندہ قوموں کی زندگی میں قابل ذکر ادوار کو یاد رکھنے کے لیے یادگاریں تعمیر کی جاتی ہیں، ترقیاتی فلاحی منصوبے جاری کیے جاتے ہیں اور خصوصی دن، ہفتے اور سال بھی شایانِ شان طریق پر منائے جاتے ہیں۔ کچھ یہی کیفیت آج برطانیہ بھر میں دکھائی دے رہی ہے جب ملکہ معظمہ کی اس عہدۂ جلیلہ پر خدمات کے حوالے سے ستّر سال مکمل ہونے پر برطانیہ بھر میں بلکہ دولت مشترکہ کے دیگر ممالک میں بھی پلاٹینم جوبلی کے پیش نظر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ عزّت مآب ملکہ عالیہ الزبتھ ثانی وہ پہلی برطانوی شاہی فرد ہیں جن کے اعزاز میں پلاٹینم جوبلی کی تقریبات منعقد کی جارہی ہیں۔ اسی سلسلے میں مجلس انصاراللہ برطانیہ کی طرف سے مسجد بیت الفتوح مورڈن (لندن) کے طاہر ہال میں ایک پُرتکلّف تقریب اور یادگار عشائیہ کا اہتمام بتاریخ 26؍مئی 2022ء بروز جمعرات کیا گیا۔ اس موقع پر شاہی تقریب کی مناسبت سے ہال کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اور طاہر ہال کی اطراف میں ایک خوبصورت نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جس میں متعدد قدآدم بینرز اور پوسٹرز کے ذریعے مہمانوں کو قرآنی تعلیمات، اسلام اور جماعت احمدیہ کا اجمالی تعارف کروایا گیا تھا۔
انگریزی (برطانوی) سلطنت اور موجودہ شاہی خاندان کی بلاشبہ یہ خوش قسمتی تھی کہ برصغیر ہندوستان جس دَور میں ان کی عملداری میں تھا اُس وقت وہاں کی ایک پاکیزہ بستی قادیان میں وہ مبارک وجود مبعوث ہوا جس نے آخری زمانے میں ساری دنیا میں پھیلے ہوئے بنی نوع انسان کو خدائے واحد و یگانہ کی وحدانیت اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی رسالت پر اکٹھا کرکے اخوّت کی لڑی میں پرونا تھا۔ سیّدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں بعض غیرمسلم اقوام کی طرف مسلمانوں پر ہونے والے شدید مظالم کا سلسلہ بچشم خود مشاہدہ فرمایا تھا اور پھر یہ نظارہ بھی دیکھا تھا کہ انگریزی حکومت کی فرمانروائی کے بعد اُس تمام علاقے میں انصاف اور امن کے فروغ کے لیے قابل قدر مساعی کی گئیں اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی اور ضمیر کی آزادی کا تحفظ بھی یقینی بنایا گیا۔ چنانچہ حضورعلیہ السلام نے اپنی متعدد کتب اور خطابات میں انگریزوں کی ان خصوصیات کا شکریہ ادا کیا اور مسلمانوں کے لیے بھی اپنی محسن حکومت کی شکرگزاری پر زور دیا۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے اس تعلق میں خاص طور پر دو کتب بھی تحریر فرمائیں۔ ایک کتاب ’’تحفۂ قیصریہ‘‘ رقم فرمائی۔ یہ کتاب ملکہ معظمہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی (22؍جون 1897ء) کی مناسبت سے دعوت الی اللہ کے عظیم الشان مقصد کے پیش نظر رقم فرمائی گئی تھی۔ اس کتاب میں حضورعلیہ السلام نے اسلام کی پُرامن اور اخوّت و رواداری پر مبنی تعلیم بیان فرمائی۔ اسی طرح ایک دوسری کتاب ’’ستارہ قیصرہ‘‘ 24؍اگست 1899ء کو شائع فرمائی۔ دونوں کتب میں انگریزوں کی طرف سے ہندوستان میں کی جانے والی مذکورہ بالا کوششوں پر خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ نہایت حکمت کے ساتھ جہاد کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ بھی فرمایا۔ حضورؑ نے ثابت فرمایا کہ اسلام کبھی بھی تلوار کے زور سے نہیں پھیلا اور نہ ہی مذہبی تشدّد کی اسلام کی تعلیم میں حمایت کی گئی ہے۔
برطانوی شاہی خاندان کے ساتھ دعوت الی اللہ کا براہ راست موقع اُس وقت بھی میسّر آیا جب سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کا دور خلافت تھا۔ 20؍جنوری 1936ء کو بادشاہت کی مسند پر بیٹھنے والے ایڈورڈ ہشتم جب ابھی ولی عہد تھے تواپنے والد بادشاہ جارج پنجم کی نمائندگی میں دسمبر 1921ء میں بحیثیت پرنس آف ویلز ہندوستان کے دورے پر آئے۔ اس موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک کتاب ’’تحفۂ شہزادہ ویلز‘‘ تحریر کرکے شاہی خاندان کے اس معزز مہمان کو پیش کی جس میں اسلام کی تعلیمات بیان کی گئی تھیں۔
خلفائے احمدیت کی طرف سے براہ راست شاہی خاندان کے کسی فرد کو دعوت الی اللہ کرنے کا موقع اُس وقت بھی میسر آیا جب جولائی 2011ء میں پرنس ایڈورڈ (HRH the Earl of Wessex) لندن گارڈن سوسائٹی کے پیٹرن کے طور پر مسجد فضل لندن تشریف لائے۔ مسجد فضل کے باغیچوں کو سالہاسال سے علاقے بھر میں کئی اعزازات عطا کیے گئے تھے۔ سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بھی پرنس کی ملاقات ہوئی اور کافی دیر دونوں نے تبادلہ خیال بھی کیا۔ پرنس ایڈورڈ نے اس موقع پرمحمود ہال میں پیش کی جانے والی خصوصی نمائش بھی ملاحظہ کی جس میں مسجد فضل لندن کی تاریخ کے مختلف ادوار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ پرنس ایڈورڈ کو بتایا گیا کہ مسجد فضل لندن کی تعمیر چھ ہزار دوصدتئیس پاؤنڈز کی لاگت سے 23؍اکتوبر 1926ء کو مکمل ہوئی تھی اور یہ رقم کُلّی طور پر قادیان کی احمدی خواتین نے قربانی کرکے مہیا کی تھی۔ اس مسجد کا منفرد ڈیزائن Thomas Mawson نے تیار کیا تھا جبکہ سنگ بنیاد جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ نے 1924ء میں رکھا تھا۔ جبکہ تکمیل کے بعد مسجد کا افتتاح خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب نے کیا تھا۔
2012ء میں ملکہ عالیہ الزبتھ ثانی کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر امام جماعت احمدیہ سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے محبت بھری دعاؤں سے بھرپور مبارکباد کا خط ملکہ معظمہ کی خدمت میں بھجوایا گیا تھا۔
پلاٹینم جوبلی عشائیہ کے موقع پر دعوت الی اللہ کی غرض سے طاہر ہال کے اطراف میں جو قدآدم بینرز آویزاں کیے گئے تھے ان میں سے ایک کے ذریعے قرآن کریم کی موجودہ زمانہ میں پوری ہونے والے پیشگوئیوں کو بیان کیا گیا تھا جن میں ساری دنیا کا باہم اکٹھا ہوجانا، چڑیاگھروں کا قیام، کتب و رسائل کی کثرت سے اشاعت اور خلا میں سفر اور تحقیق جیسی ناقابل یقین پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا بیان تھا جو قرآن کریم کی عظیم الشان صداقت پر گواہ ہیں۔ اسی طرح سیّدنا حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کے پاکیزہ حیات کے مختلف ادوار بھی اختصار سے پیش کیے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضورﷺ کی بعض منفرد خصوصیات کو قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں ایک بینر میں پیش کیا گیا تھا مثلاً آنحضورﷺ کا رحمۃ للعالمین ہونا، آپ کا اُسوۂ حسنہ یعنی دوسروں کے لیے نمونہ ہونا اور آپؐ کا بنی نوع انسان کے پیغامبر کے طور پر بھجوایا جانا۔ نیز نامور عالمی شخصیات (مثلاً سرجارج برنارڈ شا، مائیکل ایچ ہارٹ اور سر ولیم میور) کی تحریروں کے نمونے بھی پیش کیے گئے تھے جن میں انہوں نے رسول اکرمﷺ کی شان اقدس میں شاندار خراج تحسین پیش کیا تھا۔
تبلیغی نقطۂ نظر سے طاہر ہال میں تین چار میزوں پر مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور بعض دیگر کتب موجود تھیں۔ جو قدِآدم پوسٹرز اس موقع پر تیار کیے گئے تھے اُن میں جہاد (جنگ) کے دوران ملحوظ رکھی جانے والی اخلاقی تعلیمات کو بھی قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں پیش کیا گیا تھا۔ مثلاً قرآن کریم نے مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ امن کے قیام کی حد تک صرف دفاعی لڑائی کی اجازت ہے۔ اسی طرح جب کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہوجائے تو پھر اُس معاہدے کا ہرصورت میں پاس کیا جائے۔
چند بینرز مجلس انصاراللہ کے تحت ہونے والے رفاہی کاموں اور چیرٹی واک فار پیس سے جمع کی جانے والی رقوم کے استعمال پر روشنی ڈال رہے تھے جن میں خصوصیت سے افریقہ کے پسماندہ علاقوں میں کی جانے والی طبّی خدمات (خصوصاً آنکھوں کے آپریشن) شامل ہیں۔
شام چھ بجے سے معزز مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی اور اُن کے استقبال اور رجسٹریشن کے لیے ریسپشن ڈیسک اور متعدد افراد بیک وقت مصروف عمل ہوگئے۔ مہمانوں کی کاروں کے لیے پارکنگ میں مخصوص جگہ ریزرو تھی۔ طاہرہال میں مہمانوں کی رجسٹریشن کے بعد انہیں مشروبات پیش کیے جاتے اور تقریب سے متعلقہ مختلف معلومات پیش کی جاتیں۔ مہمان باہم مل جُل گئے اور ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تبادلۂ خیال بھی کرتے رہے۔ نیز پوسٹرز اور بینرز سے لطف اندوز بھی ہوئے اور بعض نے گروپ تصاویر بھی اُتاریں۔ مہمانوں کے لیے پچاس میزوں کے گرد ساڑھے چار صد کرسیاں رکھی گئی تھیں۔
اس پُروقار تقریب کا انعقاد 26؍مئی بروز جمعرات شام سات بج کر پانچ منٹ پر مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے کی زیرصدارت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرم حافظ طیب احمد صاحب نے سورۃ البقرہ کی آیت 178 کی تلاوت کی۔ آیت کریمہ کا ترجمہ مکرم Patryk Pawlikowski صاحب نے پیش کیا۔ اس تقریب میں کمپیئر کے فرائض مکرم رفیع احمد بھٹی صاحب نے سرانجام دیے۔
پروگرام کے آغاز میں مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمٰن صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے نے مہمانان کرام کو خوش آمدید کہا۔ جس کے بعد جماعت احمدیہ کے تعارف پر مبنی ایک دستاویزی فلم پیش کی گئی۔ جماعت احمدیہ کے آغاز، اس کی غرض و غایت اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مختصر دعاوی کے بعد جماعت احمدیہ کے تحت ہونے والے رفاہی کاموں کا ذکر اختصار سے بیان کیا گیا۔
پہلی مختصر تقریر Mrs Lynn Cooper صاحبہ کی تھی جو آجکل گریٹر لندن کی قائمقام ہائی شیرف کے عہدہ پر کام کررہی ہیں۔ انہوں نے تقریب میں مدعو کرنے پر شکریہ اداکیا اور احمدیہ کمیونٹی کی طرف سے مختلف معاشرتی پروگراموں میں رفاہی خدمات بجالانے والے افراد کا تذکرہ کیا اور کہا کہ ہم سب ملکہ معظمہ کی پلاٹینم جوبلی کو شایان شان طریق سے منانے کے لیے آج اس جگہ اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس جوبلی کے موقع پر ہائی شیرف کو جو گارمنٹس دیے گئے ہیں اُن پر بریل (Braille) زبان میں یہ الفاظ تحریر ہیں: رحم دلی، انصاف، دوسروں کے لیے احترام اور ذمہ داری کا احساس۔ یہ خصوصیات نوجوان نسل کے لیے زیادہ اہم ہونی چاہئیں۔ ان خصوصیات کے علاوہ شفقت اور سخاوت بھی وہ خوبیاں ہیں جو ملکہ معظمہ کی خدمات کو بیان کرتی ہیں۔ کیونکہ اکیس سال کی عمر میں ملکہ عالیہ نے یہ کہا تھا کہ اُن کی زندگی لمبی ہو یا مختصر ہو مگر ان خصوصیات کے لیے وقف ہوگی۔
دوسری تقریر محترم ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب KBE کی تھی جو انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضورﷺ کا اُسوۂ حسنہ ایک احمدی کی عملی زندگی کا تعین کرتے ہیں۔ حکمران اور رعایاکے باہمی تعلقات کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے کہ اپنی قیادت اُن کے سپرد کرو جو اس کا حق رکھتے ہیں۔ اور جو قیادت کے لائق سمجھے جائیں انہیں انصاف کے ساتھ یہ خدمت بجالانی چاہیے۔ برطانیہ میں بسنے والے تمام احمدی بالخصوص اور دنیابھر کے احمدی بالعموم ملکہ معظمہ الزبتھ ثانی سے غیرمعمولی محبت رکھتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے قیام کے ابتدائی دَور سے ہی برطانوی شاہی خاندان کے ساتھ محبت کا خاص تعلق قائم ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہی ہے جس کا اظہار بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ اُس دور کے دیگر مقامی حکمرانوں کے برخلاف ملکہ کی فرمانروائی والے علاقے میں مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے۔ ہندوستان بھر میں تبلیغ کے تمام تر ذرائع اختیار کیے جاسکتے ہیں اور عوام کو بھی مکمل مذہبی آزادی ہے کہ خود تحقیق کرکے مذہبی معاملات میں اپنے لیے راستے منتخب کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم احمدی اپنی تحریروں اور تقریروں میں برطانوی شاہی حکمرانوں کے ہمیشہ شکرگزار ہوتے ہیں۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے جماعت احمدیہ کے برطانوی شاہی خاندان کے ساتھ مختلف مواقع پر محبت بھرے تاریخی تعلقات کو اختصار سے بیان کیا اور اپنی تقریر کو برطانوی شاہی خاندان کے لیے خوبصورت دعائیہ کلمات پر ختم کیا۔ آپ کی مؤثر تقریر کے بعد ایک دستاویزی فلم پیش کی گئی جس میں چیریٹی واک فار پیس (Charity Walk for Peace) کا تعارف کروانے کے بعد اس کی تاریخ پیش کی گئی اور اُن رفاہی خدمات پر نہایت اختصار سے روشنی ڈالی گئی جو اس وقت خصوصیت سے دنیابھر میں انسانیت کی بھلائی اور امن کے قیام کے لیے جاری ہیں۔
اگلی تقریر جناب Stuart Cundy QPMکی تھی جو میٹروپولیٹن پولیس سروس کے ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تقریب میں شمولیت اُن کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کیونکہ یہ جوبلی اس لیے بھی منفرد ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں صرف یہی پلاٹینم جوبلی مشاہدہ کریں گے۔ مَیں نے پانچ سال کی عمر میں ملکہ معظمہ کی سلور جوبلی بھی دیکھی تھی اور اُس وقت مجھے یہ علم نہیں تھا کہ پلاٹینم جوبلی دیکھنے کا بھی مجھے موقع ملے گا۔ انہوں نے بھی پہلی مقرّرہ کی طرف سے بیان کی جانے والی خصوصیات کا ذکر کیا کہ پولیس افسر ہونے کے ناطے یہ میرے لیے بھی بہت اہم ہیں۔ پولیس کی چار اہم خصوصیات ہیں یعنی پیشہ ورانہ تربیت، دیانتداری،جرأت اور ہمدردی۔ یعنی وہی ہمدردی کا مادہ جو ابھی دکھائی جانے والی دستاویزی فلم سے عیاں ہے جس میں جماعت احمدیہ نے محتاجوں کی دادرسی کی ہے۔ مثلاً غرباء اور بےگھر افراد کی مدد، تعلیم کی فراہمی، بیماروں کے لیے ہسپتال۔ یہ کام آپ نہ صرف اپنے ملک برطانیہ میں بلکہ دنیابھر میں کررہے ہیں۔ آپ کا ماٹو ’’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ دوسروں کے لیے بھی ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔
اس کے بعد جناب Andy Kyte صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو رائل نیوی میں ریئرایڈمرل ہیں اور اسسٹنٹ چیف آف نیول سٹاف نیز چیف نیول لاجسٹک افسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکہ معظمہ کی جوبلی تقریبات کے سلسلے میں ہونے والی آج کی اس منفرد تقریب میں شمولیت میرے لیے اعزاز ہے۔ آپ کی چیریٹی واک فار پیس صرف آپ کی اپنی کمیونٹی کو ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لوگوں کو اس رفاہی کام میں شامل کرتی ہے۔ ابھی جو دستاویزی فلم دکھائی گئی ہے اُس میں اُس مثالی مدد کی تصویر کشی کی گئی ہے جو آپ کی کمیونٹی دوسروں کی خدمت میں پیش کررہی ہے۔ 1985ء میں چیریٹی واک کے آغاز کے بعد سے اب تک آپ کی کمیونٹی نے ساڑھے سات ملین پاؤنڈ کی نمایاں امدادی رقم چھ سو رفاہی اداروں کے ذریعے مختلف امدادی کاموں کے لیے پیش کی ہے۔ یہ ایک عظیم الشان قومی خدمت بھی ہے۔ اسی طرح سابق فوجیوں اور اُن کے خاندانوں کی امداد کے لیے بھی آپ نے اسی مسجد سے سات لاکھ پاؤنڈ کی خطیر رقم جمع کرکے پیش کی ہے جس کے لیے ہم بےحد شکرگزار ہیں۔ جس طرح فوجی اور اُن کے قریبی لوگ ملک اور قوم کے لیے قربانی کرتے ہیں اسی طرح آپ لوگ بھی اُن کے لیے قربانی کرکے اُن کو اعزاز بخش رہے ہیں اور یہ مختلف معاشرتی طبقات کو قریب لانے کا ذریعہ ہے۔ یہ خدمات یقیناً آپ کے روحانی راہنما کی ہدایت کی روشنی میں ہی بجالائی جاسکتی ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ اپنی قوم کے ساتھ وفاداری دکھاؤ اور اُن کی خدمت کرو، اور یہ بھی کہ محبت سب کے لیے اور نفرت کسی سے نہیں۔
اس خصوصی تقریب کی آخری تقریر محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ کی تھی۔ آپ نے کہا کہ میری پیدائش کینیا میں ہوئی جو برطانیہ کے شاہی جھنڈے کے نیچے ہی ایک ریاست تھی پھر لڑکپن میں قریباً ساٹھ سال پہلے مَیں برطانیہ آگیا۔ لندن میں غیرملکیوں کی بڑی تعداد میں آنے کے باوجود یہاں رواداری کا عمدہ معیار قائم رہا اور آج مجھے اپنے لندن سے تعلق اور برٹش ہونے پر فخر ہے اگرچہ نائن الیون کے واقعے کے بعد اسلام کی تعلیم پر بہت سے اعتراضات شروع ہوئے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ اسلام کی تعلیم دو حصوں پر مشتمل ہے: ایک اپنے خالق سے تعلق اور دوسرا خالق کی مخلوق سے تعلق۔ دونوں کے حقوق قائم کیے جائیں تو مختلف اقوام آپس میں ایک ایسے رشتے میں منسلک نظر آتی ہیں جس کی بنیاد پر باہمی محبت، برادرانہ اخوّت اور رواداری قائم رہ سکتی ہے۔
مکرم امیر صاحب نے بتایا کہ ہر قوم اور ہر مذہب اس زمانے میں ایک مصلح کی آمد کا منتظر تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ وجود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے طور پر ایک صدی قبل مبعوث ہوچکا ہے۔ اُن کی اطاعت کے نتیجے میں خلق خدا کے مختلف طبقات باہم محبت میں پروئے جاسکتے ہیں۔ آنحضورﷺ کے معروف خطبہ حجۃ الوداع میں بھی انسانوں کے باہمی ظاہری فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے برابری اور انصاف کی بنیاد پر معاملات طے کرنے اور باہمی تعلقات میں تقویٰ کو پیش نظر رکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر کاربند رہتے ہوئے ہم اپنی آج کی دنیا میں امن، سلامتی اور رواداری کا قیام کرسکتے ہیں۔
تقریب کے باقاعدہ اختتام سے قبل محترم ظہیر احمد جتوئی صاحب چیئرمین چیریٹی واک فار پیس نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد دعا کے ساتھ یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ دعا مکرم امیر صاحب یوکے نے کروائی۔
بعد ازاں معزز مہمانوں کی خدمت میں عشائیہ پیش کیا گیا۔ اسی دوران مہمانوں میں گفٹ پیک بھی تقسیم کیے گئے جن میں سووینئرز کے علاوہ خصوصیت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب بھی شامل تھیں۔
اس تقریب میں مجموعی طور پر پانچ صد حاضرین شامل ہوئے جن میں 320 مہمانان گرامی تھے۔ متعدد مہمانوں نے تقریب کے اختتام پر مسجد بیت الفتوح کے مختلف حصے دیکھے اور نماز عشاء کے دوران گیلری سے عبادت کے پُروقار طریق کا مشاہدہ کیا۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دعوت الی اللہ کی ہرممکن کوشش کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ عاجزانہ دعا بھی کرتے رہیں کہ خداتعالیٰ کرے کہ برطانوی قوم امن و سلامتی اور خوشحالی کی بلندیوں کو حاصل کرتے ہوئے خدائے واحدویگانہ سے بھی غیرمعمولی تعلق اُستوار کرلے تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت بھی سنور جائے۔ آمین
(رپورٹ:محمود احمد ملک۔ مدیر ’’انصارالدین‘‘ یوکے)