امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفین نو (خدام) امریکہ کی (آن لائن) ملاقات
ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دنیا کے لوگوں کے لیے، اپنے ملک کے لوگوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے اور ان کو تبلیغ بھی کریں اور انہیں سمجھائیں کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 29؍مئی 2022ء کو واقفین نو (خدام) امریکہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ واقفین نو نے مسجد بیت الرحمٰن میری لینڈ، امریکہ سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا بعد ازاں واقفین نو کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
ایک واقف نو نے بتایا کہ امریکہ میں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات تیزی سے عام ہوتے جا رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے ٹیکساس کے ایک ایلیمنٹری سکول میں ہونے والی فائرنگ کاذکرکرتے ہوئےراہنمائی لی کہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کے لیے امریکہ کیا کرسکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے، بے وقوف نہیں بننا چاہیے۔ یہ امریکہ کے عوام اور حکومت کا بھی اولین فرض ہے۔ جب آپس میں خلش، رنجشیں اور الجھنیں ہوں تو ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنی ذمہ داریاں بھول جائے اور اپنے زندگی کے مقصد کو بھول جائے پھر ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ تو جب ایسے واقعات ہورہے ہوں تو یہ ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے جو حقیقی مسلمان ہیں کہ ہم لوگوں کو بتائیں اور سمجھائیں کہ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اگر انسان اپنے خالق کے حقوق ادا کر رہا ہو اگر اسے معلوم ہو کہ زندگی کا مقصد محض دنیاوی ہدف کا حصول ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور اس کے حضور جھکنا ہے (تو ایسے حادثات سے بچ سکتے ہیں)۔ اور ہمیشہ اپنی نظر آخرت کی زندگی پر رکھیں۔ پھر انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیں ایک مذہبی شخص یا ویسے ہی ایک عام انسان ہونے کی حیثیت سے، جو دوسری سب سے اہم ذمہ داری دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔ تو بجائے اس کے کہ لوگ اپنے حقوق کے حصول میں ہی لگے رہیں، انہیں چاہیے کہ وہ دوسروں کے حقوق ادا کریں۔ اگر ہر شخص اس بات کو سمجھ لے اور دوسرے کو اس کا حق دے تو یہ رنجشیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔
جب تک آپ لوگوں کو ان کی زندگیوں کے حقیقی مقصد کا احساس نہیں دلائیں گے تب تک یہ واقعات ختم نہیں ہوں گے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کو ان چیزوں کو روکنے کے لیے کچھ قوانین نافذ کرنے چاہئیں۔ بات یہ ہے کہ اگر کوئی پابندی نہیں ہوگی اور اگر ہر شخص اسلحے کی دکان پر جا کر جو بھی اسلحہ لینا چاہے وہ خرید سکتا ہے تو بالآخر اس کا یہی نتیجہ نکلے گا جو آج کل وہاں پر ہورہا ہے۔ تو میری رائے میں حکومت کو بھی اقدام لینے کی ضرورت ہے اور انہیں کچھ پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔ اگر آرم لابیز (Arm lobbies)لائسینسز دینے کی پابندی کے خلاف ہیں تو ان کو کم از کم عمر کی پابندی لگانی چاہیے کہ یہ یہ عمر والوں کو اسلحہ خریدنے کی اجازت نہیں ہے، خصوصاً آٹومیٹک یا سیمی آٹومیٹک اسلحہ۔
اس کے ساتھ ساتھ جو پروگرام ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ یا میڈیا کے مختلف چینلز پر دکھائے جا رہے ہیں، وہ شدت پسندی، لڑائی جھگڑے اور اس قسم کی چیزیں دکھا رہے ہیں۔ اور اس قسم کی چیزیں دکھا رہے ہیں جو نوجوان میں شوق اور تفریح کے جذبے کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اس کو بھی دیکھنا چاہیے اور روکنا چاہیے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس پر پابندیاں عائد کریں، جو بھی ان کو مناسب لگے۔ قانون سازوں کو بھی اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی قانون بنانا چاہیے۔ لیکن ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دنیا کے لوگوں کے لیے، اپنے ملک کے لوگوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے اور ان کو تبلیغ بھی کریں اور انہیں سمجھائیں کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ تو یہ ہے وہ کام جو ہم کرسکتے ہیں۔
ایک واقف نو نے پوچھا کہ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں احمدی مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کی گئی ہے وہاں احمدی مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ایک واقف نو کیا کر سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ آپ صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔ امت مسلمہ کے لیے دعا کریں کہ وہ عقل سے کام لے اور ان کو زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق ملے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تعلیمات کی تجدید کے لیے اور لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے بھیجا تھا۔ یہی چیزیں کرسکتے ہیں۔ ورنہ ان ممالک میں جہاںایسی مخالفت ہے، آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ جب تک کہ آپ کے پاس کچھ طاقت نہ ہو۔ اور فی الحال ہمارے پاس وہ طاقت نہیں ہے۔ اسی لیے ایک حدیث میں ہے کہ اگر تمہیں اقتدار حاصل ہو تو اپنے ہاتھ سے ظلم و بربریت کو روکو۔ اگر آپ کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے تو کم از کم لوگوں سے بات کر کے انہیں روکیں اور ان سے عقل سے کام لینے کو کہیں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ان کے لیے دعا کریں۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میںیہی بیان ہے۔ لہٰذا، ہم صرف ان کے لیے دعا کر سکتے ہیں۔ یہی واحد حل ہے۔ اگر آپ اُن کے لیے دلجمعی سے دعا کرتے ہیں تو پھر انشاء اللہ ایک دن آپ ان کا نتیجہ بھی دیکھو گے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ ہم انشاء اللہ دنیا کو بدل دیں گے۔
اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہ دعاؤں کے ذریعے دنیا میں تبدیلی لائے گا۔ اس لیے ہمارے ہاتھ میں یہی واحد ہتھیار ہے جس کا ہمیں صحیح استعمال کرنا چاہیے۔ نیز اس بات پر بھی غور کریں کہ آپ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کس حد تک کوشش کر رہے ہیں، نماز پڑھنے میں کس حد تک مشغول ہیں۔ جب آپ دعائیں کر رہے ہوں تو آپ بڑی خشیت سے خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی دعاؤں کو سنے۔ لہٰذا سب سے پہلے ہمیں اپنی حالتوں کو دیکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا جو ہم کہہ رہے ہیں کیا وہ اس کے مطابق ہے جس کی ہم تبلیغ کر رہے ہیں، یا جس کی ہم خواہش رکھتے ہیں۔ اگر ہمارے قول و فعل برابر نہیں ہیں تو پھر ہماری دعائیں جس طرح ہم چاہتے ہیںقبول نہیں ہوتیں، تو اس بارے میں بھی غور کریں۔
ایک واقف نو نے سوال کیا کہ زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے انسان اپنے ایمان پر کیسے قائم رہ سکتا ہے اور کمزو ہونے سے بچ سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اردو میں کہاوت ہے کہ جو سورہا ہو اس کو جگایا جاسکتا ہے لیکن جو شخص پہلے سے جاگ رہا ہو اور یہ دکھاوا کرے کہ وہ سو رہا ہے، اسے جگایا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا، آپ کو اپنی کمزوریوں کا پتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ بعض اوقات آپ سیدھے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ تو اس وقت آپ کو استغفار کرنا چاہیے۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم پڑھنا چاہیے۔ یہ دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ سیدھے راستے پر قائم رکھے۔ تو اگر آپ اپنی پنجگانہ نمازیں پڑھ رہے ہیں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور بیان کیا ہے، تو آپ اپنی نمازوں میں یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ سیدھے راستے پر رکھے۔ یہی واحد حل ہے۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ کچھ مواقع ایسے ہوجاتے ہیں جب انسان کی توجہ دنیاوی معاملات کی وجہ سے بھٹک جاتی ہے، اور اسی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جیسے ہی تمہیں پتا چلے کہ میں بھٹک رہا ہوں تو رُک جاؤ اور واپس آجاؤ۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو اس گناہ یا اس برے کام میں مزید ملوث ہونے سے بچائے۔ پس اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کیا کریں۔ استغفار ان برائیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا بہترین حل اور بہترین طریقہ ہے، اور روزانہ کی پانچ نمازیں جو اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں اور جن کے متعلق آنحضورﷺ نے ہمیں بتایا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےاس کی وضاحت بھی فرمائی ہے۔
ایک واقف نو نے عرض کیا کہ وہ بطور قائد مجلس خدام الاحمدیہ کس طرح نوجوانوں کو الوصیت کی بابرکت سکیم میں شامل ہونے کی ترغیب دلا سکتا ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ تم ’’قائد‘‘ ہو اس کا کیا مطلب ہے؟ …’’قائد‘‘ لیڈر ہے۔ تو آپ لیڈر ہیں۔ اگر آپ کا قول اور آپ کا عمل ایک جیسا ہو تو لوگ آپ کی پیروی کریں گے۔ وہ آپ کو سننے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا، اگر وہ دیکھیں گے کہ آپ ان کے ہمدرد ہیں، تو وہ آپ کے قریب آئیں گے۔ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ اسے سنیں گے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ تو پہلی بات یہ ہے کہ اپنی اصلاح کریں۔ اس شخص کی طرح بنیں جو اسلام اور قرآن کی صحیح تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ دوسری بات یہ کہ اپنے ساتھی خدام کو یہ سمجھائیں کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس پر عمل بھی کرتے ہیں؟ اور پھر، انہیں احساس دلائیں کہ آپ ان کے حقیقی ہمدرد ہیں۔ انہیں یہ احساس دلائیں کہ آپ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ صحیح راستے پر رہیں۔
جب یہ چیزیں آپ کے ذریعہ پیش کی جائیں گی، تو دوسرے خدام آپ کی پیروی کریں گے۔ وہ آپ کی بات سنیں گے۔ اور آپ ان کو یہ بھی سمجھائیں کہ یہ وصیت کی سکیم بڑی بابرکت سکیم ہے۔ اگر ہم اس سکیم میں شامل ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ہماری مدد بھی کرے گا اور ہمیں اپنی اصلاح کا موقع بھی دے گا۔ کبھی یہ بھی ہوجاتا ہے کہ کچھ لوگ وصیت کرتے ہیں لیکن وہ متقی نہیں ہوتے اور وہ بھٹک جاتے ہیں۔ لیکن جب اس طرح کے حالات ہوتے ہیں تو ایسے لوگ یا تو نظامِ وصیت کو چھوڑ دیتے ہیں یا پھر ان کو اس نظام سے نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن زیادہ تر تو جب کوئی شخص وصیت کی سکیم میں شامل ہو جائے اور وہ سچا پیروکار ہو، اس نے الوصیت کی کتاب پڑھی ہو تو پھر وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور اسے کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ واقفِ نو ہونے کی حیثیت سے آپ کا اولین فرض دوسروں کے لیے نمونہ بننا ہے۔ آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی اصلاح کرنے کا عہد کیا ہے۔ آپ وہ ہیں جن کے والدین نے وعدہ کیا تھا اور پھر بعد میں آپ نے بھی وعدہ کیا تھا کہ دنیا کو بدل دیں گےاور پوری انسانیت کو اسلام اور احمدیت کے سائے تلے لے آئیں گے اور انہیں خدا اور اس کے بندوں کے فرائض کا احساس دلائیں گے۔ لہٰذا اگر آپ یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو آپ کے الفاظ میں طاقت ہوگی اور بغیر کچھ کہے بھی آپ کا عمل دوسرے لوگوں کو آپ کی پیروی کرنے کی طرف مائل کرے گا۔
ایک اور خادم نے سوال پوچھا کہ حضور انور نے اپنی تعلیم کے لیے زراعت کا میدان کیسے منتخب کیا اور حضور انور کو زندگی وقف کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟
اس پر حضور انور مسکرائے اورفرمایا کہ یہ تو بہت مشکل سوال ہے۔ پھر فرمایا کہ مجھے بچپن سے ہی زراعت میں گہری دلچسپی تھی۔ لہٰذا، میں زراعت کے شعبے میں جانا چاہتا تھا لیکن بدقسمتی سے میں ایسا نہیں کر سکا۔ لیکن بعد میں، معاشیات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد میرے والد نے بھی مجھ سے کہا کہ اگر ممکن ہے تو زرعی یونیورسٹی میں داخلہ لے لو۔ اور مجھے کسی اور یونیورسٹی کی نسبت وہاں داخلہ ملنے کا زیادہ امکان تھا۔ تو یہی آسان ترین راستہ تھا۔ اور مجھے اس میں دلچسپی بھی تھی۔ چنانچہ مجھے زرعی معاشیات، یا کارپوریشن اور کریڈٹ کے شعبے میں داخلہ مل گیا۔ وہاں آپ کا واسطہ کسانوں سے پڑتا ہے۔ زراعت کرنے کے حوالے سے کچھ کورسز ہیں مثلاً ایگرونومی یا اریبل فارمنگ۔ اور اگر آپ کا تعلق شروع سے یونیورسٹی سے نہیں ہے اور آپ نے گریجوایشن کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے ۔ تو آپ کو کچھ مزید کورسز مکمل کرنے ہوں گے۔ چونکہ میں زراعت کو جانتا تھا اور مجھے شروع سے ہی اس میں گہری دلچسپی تھی، میں اپنے والد کے ساتھ اپنے خاندانی فارم پر جاتا تھا ۔ اس لیے میں نے وہ کورسز کیے اور اچھے نتائج حاصل کیے، اور بعد میں مَیں نے اپنی ڈگری کارپوریشن اور کریڈٹ میں مکمل کی۔ یہ میرے زرعی یونیورسٹی جانے کی اصل وجہ تھی۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ دوسرا سوال یہ تھا کہ مجھے کس چیز نے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں اپنی زندگی وقف کروں۔ میں بچپن سے ہی واقف زندگی بننا چاہتا تھا۔ کیونکہ ایک مرتبہ میں نے اپنے والد صاحب اور اپنے ایک چچا کو یہ بات کرتے ہوئے سنا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان میں بدقسمتی سے بہت کم افراد زندگی وقف کر رہے ہیں۔ تو یہ بات میرے دل میں نقش ہوگئی لیکن میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ بغیر کسی کوالیفیکیشن کے وقف کروں۔ جب میں نے زرعی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اس وقت میں نے عہد کیا کہ اگر میرے اچھے مارکس آئے یعنی اے گریڈ آیا تو پھر میں وقف کروں گا۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ’اگر تیرے نزدیک میں وقف کے قابل ہوں تو مجھے اپنے فضل سے اچھے مارکس دے دے۔ تُو جانتا ہے کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میں کچھ بھی نہیں۔‘ مجھے علم نہیں کہ کیسے مگر خوش قسمتی سے مجھے اے گریڈ مل گیا۔ اور جب مجھے یہ گریڈ مل گیا تو میں پابند ہوگیا کہ وقفِ زندگی کے لیے درخواست دوں۔ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی خدمت میں خط لکھا کہ چونکہ اب میں نے ایم ایس سی کی ڈگری مکمل کرلی ہے اور وہ بھی اچھے نمبروں کے ساتھ تو میں وقف کرنا چاہتا ہوں۔ اور آپؒ نے وقف منظور کرلیا، بعد ازاں آپ نے مجھے افریقہ جانے کا فرمایا۔ تو یہ ہے ساری داستان بلکہ اس کا خلاصہ ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں مگر یہ اس کاخلاصہ ہے۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ حضور انور نے متعدد بار ذکر فرمایا ہے کہ امن کے لیے مکمل انصاف کی ضرورت ہے۔ واقفین کو اس ہدف کے حصول کے لیے کون سے کیریئر اختیار کرنے چاہئیں؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ مَیں نے صرف یہی نہیں کہا کہ ہمیں دنیا میں امن قائم کرنا چاہیے۔ مَیں نےلوگوں سے انصاف یعنی مکمل انصاف اختیار کرنے کا مطالبہ ہی نہیںکیا بلکہ میں نے اپنے خطابات اور تقاریر میں یہ بھی بتایا ہے کہ امن کیا ہے اور ہم معاشرے میں امن کیسے قائم کرسکتے ہیں اور مکمل انصاف کی تعریف قرآن کریم، حدیث اور آنحضورﷺ کی سنت کی روشنی میں اور ان تعلیمات کی روشنی میں جو حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں اس زمانے میں دی ہیںکیا ہے۔ پس خطابات اور تقاریر بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں سارے حوالے مہیا ہیں جن کے ذریعہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مکمل انصاف کیا ہے۔ امن کیا ہے۔ ہم دنیا میں کیسے امن قائم کرسکتے ہیں؟ ہمیں لوگوں کو کیسے متنبہ کرنا چاہیے۔ وہ جو سیدھے راستے سے بھٹک رہے ہیں ان کو سمجھائیں۔ اسی لیے جہاں تک میرا تعلق ہے میں لوگوں کو کہتا ہوں خواہ سیاست دان ہوں یا دوسرے بڑے پڑھے لکھے لوگ، پروفیسرز ہوںکہ وہ بھی معاشرے میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور یہ مکمل انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔ مکمل انصاف کی کیا تعریف ہے؟ قرآن کریم میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً اگر آپ کو اپنے خلاف گواہی دینی پڑے تو تب بھی گواہی دینی چاہیے یہاں تک کہ اپنے والدین، اپنے رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کے خلاف ہی دینی پڑے۔ تو اس طرح معاشرے میں مکمل انصاف قائم ہوسکتا ہے جو آجکل اس دنیا میں مفقود ہے۔ سو ہمیں اس کا پرچار کرنا چاہیے اور یہ خطابات تحریری شکل میں موجود ہیں اور مختلف کتب کی شکل میں بھی اور علیحدہ لیکچرز کی شکل میں بھی۔ پہلے ان کو پڑھیں پھر لوگوں سے ان کی بنیاد پر بات کریں۔ کیونکہ وہ آپ کو تیار شدہ مواد کے طور پر دستیاب ہیں اور پھر آپ ان کو تقسیم بھی کرسکتے ہیں۔ تو اس طرح آپ کام کرسکتے ہیں۔ دیکھیں ہر وقف نو اس پر عمل کرسکتا ہے لیکن جس میدان میں بھی آپ ہوں آپ اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے اور ہم معاشرے میں کیسے امن کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ہم معاشرے میں کیسے امن قائم کرسکتے ہیں۔ مکمل انصاف کیا ہے اور اس کی کیا تعریف ہے۔ اس کے لیے جو قابل ہیں وہ پبلک سروس میں بھی جاسکتے ہیں جہاں آپ کو اپنے نقطہ نظر کو پیش کرنے کا بہتر موقع ملے گا۔
ملاقات کے آخر میں سیکرٹری صاحب وقف نو نے عرض کیا کہ ہمارے لیے یہ اعزاز کا باعث ہے کہ جہاں امریکہ میں ہمارے ہاں ویک اینڈ پر یوم خلافت کی تقریبات منعقد ہورہی ہیں تو یہ کوئی اتفاق نہیں کہ ہمیں حضورانور کی صحبت نصیب ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہے کہ اس اتوار کو سارے امریکہ میں یا اکثر جگہوں پر یوم خلافت منایا جارہا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اچھا ماشاء اللہ۔ تو آپ واقفین نو اس طرح یوم خلافت منا رہے ہیں… ٹھیک ہے پھر اللہ حافظ و ناصر ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔