خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 22؍ اپریل 2022ء
سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آج کل ہم رمضان کے مہینے سے گزر رہے ہیں اور تقریباً دو عشرے ختم ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر مومن اس مہینے میں یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس مہینے کے فیض سے حصہ لے۔ اللہ تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت کے حکم میں شروع میں ہی روزے کا یہ مقصد بیان فرمایا ہے کہ روزے تم پر اس لیے فرض کیے گئے ہیں تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کی تلاوت کی نسبت کیا توجہ دلائی؟
جواب: فرمایا:پس اس رمضان میں ہم قرآن شریف بھی پڑھ رہے ہیں اور عموماً قرآن کریم پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے تو اس سوچ سے پڑھنا چاہیے کہ اس کے اوامر و نواہی پر ہم نے غور کرنا ہے اور بُرے کاموں سے رکنا ہے اور اچھے کاموں کو ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔
سوال نمبر4: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےعبادات اور دعاؤں کی قبولیت کےحوالے سےکیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ نے اس بات کو بڑے زور سے بیان فرمایا کہ جب تک انسان متقی نہیں بنتا اس کی عبادات اور دعاؤں میں قبولیت کا رنگ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے۔ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۔ (المائدہ:28) یعنی بےشک اللہ تعالیٰ متقیوں کی ہی عبادت کو قبول فرماتا ہے ۔ فرمایا یہ سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیوں کا ہی قبول ہوتا ہے۔ پھر اس کا جواب دیا کہ عبادات کی قبولیت کیا ہے؟ اور اس سے مراد کیا ہے؟ قبولیت کیا چیز ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز قبول ہو گئی ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پیدا ہو گئے ہیں۔جب تک وہ برکات اور اثرات پیدا نہ ہوں، فرمایا اس وقت تک نری ٹکریں ہی ہیں۔ پس ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا ہمارا رمضان، ہمارے روزے ہمیں اس معیار پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ آپؑ نے فرمایا کہ عیبوں اور برائیوں میں اگر مبتلا کا مبتلا ہی رہا تو تم ہی بتاؤ کہ اس نماز نے اس کو کیا فائدہ پہنچایا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نماز کے ساتھ اس کی برائیاں اور بدیاں جن میں وہ مبتلا تھا کم ہو جاتیں اور نماز اس کے لیے ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ فرمایا پس پہلی منزل اور مشکل اس انسان کے لیے جو مومن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ بُرے کاموں سے پرہیز کرے اور اس کا نام تقویٰ ہے۔
سوال نمبر5: حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے تقویٰ کی نسبت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؑ نے فرمایا کہ’’اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اٹھ گیا ہے۔ کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشمس:10) کا مصداق ہو گا۔‘‘یعنی جس نے اس کو پاک کیا وہ اپنا مقصد پا گیا۔ فرمایا:پاکیزگی اور طہارت عمدہ شے ہے۔ انسان پاک اور مطہر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذات کی ہر ایک شے حلال ذرائع سے ان کو ملے۔ چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خدا تعالیٰ اسے اَور راہ سے مالدار کر دے گا اور یہ چوری صرف ظاہری چوری نہیں ہے۔ بعض کاروباری لوگ بھی جو اپنی غلط قسم کی چیزیں بیچتے ہیں وہ بھی اسی زمرے میں آ جاتی ہیں۔ ’’اسی طرح زانی زنا کرتا ہے اگر صبر کرے تو خدا تعالیٰ اس کی خواہش کو اَور راہ سے پوری کر دے جس میں اس کی رضا حاصل ہو۔ حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘یعنی کہ ایمان جب دل سے نکل جاتا ہے تو اسی وقت پھر انسان سے اس قسم کی حرکتیں ہوتی ہیں…’’انسان اپنے آپ کو اکیلاخیال کر کے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلاسمجھتا ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے۔‘‘ایمان اس کے اندر کوئی نہیں ہوتا۔ خدا اس کے دل سے نکل چکا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت دہریہ ہو جاتا ہے ’’اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے وہ مجھے دیکھتا ہے ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا‘‘کہ خدا دیکھ رہا ہے ’’تو کبھی گناہ نہ کرتا۔ تقویٰ سے سب شے ہے۔ قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے۔ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ(الفاتحہ:5) سے مراد بھی تقویٰ ہے کہ انسان اگرچہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرأت نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے۔ اگر نیکی کی بھی تو یہ نہیں کہ میرا کوئی کمال ہے میرا دل نیک ہے یا میں بہت اعلیٰ نیکی کے معیار پر پہنچ گیا ہوں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے اس نیکی کی نماز پڑھنے کی توفیق دی، دعا کرنے کی توفیق دی۔’’پھر دوسری صورت بھی هُدًی لِّلْمُتَّقِینَ (البقرة:3) سے شروع ہوتی ہے۔نماز، روزہ، زکوٰة وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو۔اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے۔‘‘ یعنی گناہ کی طرف بلانے والی تمام چیزیں جو ہیں اگر تقویٰ ہو توان کو اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے۔ بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے، دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے۔ جس شے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی۔
سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمومن اور کافر کی کامیابی میں فرق کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:اس اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھو کہ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ کسی کامیابی پر جو اسے دی جاتی ہے شرمندہ ہوتا ہے۔ شرمندہ کیوں ہوتا ہے؟ یہ اظہار ہوتا ہے اس سے کہ میں تو اس قابل نہیں تھا اللہ تعالیٰ کے فضل نے یہ سب کچھ دے دیا۔ جو بھی عطا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوئی ہے نہ کہ میری کسی خوبی کی وجہ سے، میرے کسی علم کی وجہ سے، میری عقل کی وجہ سے، میری دولت کی وجہ سے یا میری جسمانی حالت کی وجہ سے۔ نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور جب یہ احساس ہوتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی حمد کرتا ہے کہ اس نے اپنا فضل کیا اور اس طرح پر وہ قدم آگے آگےرکھتا ہے اور ہر ابتلا میں ثابت قدم رہ کر ایمان پاتا ہے۔ فرمایا کہ یاد رکھو کہ کافر کی کامیابی ضلالت کی راہ ہے اور مومن کی کامیابی سے اس کے لیے نعمتوںکا دروازہ کھلتا ہے۔کافر کیونکہ ہر چیز اپنے پر فخر کرتا ہے اور اس کا کریڈٹ اپنے اوپر لیتا ہے تو وہ گمراہی میں گرتا چلا جاتا ہے لیکن مومن ،حقیقی مومن جب اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف ہر چیز منسوب کرتا ہے تو پھر اس کے اوپر نعمتوں کا دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ فرمایا کہ کافر کی کامیابی اس لیے ضلالت کی طرف لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی طرف رجوع نہیں کرتا بلکہ اپنی محنت، دانش اور قابلیت کو خدا بنا لیتا ہے مگر مومن خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے خدا سے ایک نیا تعارف پیدا کرتا ہے اور اس طرح پر ہر ایک کامیابی کے بعد اس کا خدا سے ایک نیا معاملہ شروع ہو جاتا ہے اور اس میں تبدیلی ہونے لگتی ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوْا(النحل:129) خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔
سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خداتعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں کی تحدیث کی بابت کیا بیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا:بعض نام نہاد بزرگ اور پیر فقیر دکھاوے کے لیے اپنی طرف سے سادہ لباس اور بدمزہ کھانا کھاتے ہیں اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہم متقی ہیں۔ بڑے نیک ہیں۔ فرمایا کہ’’یاد رکھو کہ انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں دعا کا طالب رہے اور دوسرے اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحٰی:12) پر عمل کرے۔ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی تحدیث کرنی چاہئے۔‘‘ان کا ذکر کرنا چاہیے۔ ان کا اظہار ہونا چاہیے ’’اس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے۔ اور‘‘نعمتوں کا اظہار ہو گا تو ’’اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے ایک جوش پیدا ہوتا ہے۔ تحدیث کے یہی معنے نہیں ہیں کہ انسان صرف زبان سے ذکر کرتا رہے بلکہ جسم پر بھی اس کا اثر ہونا چاہئے۔ مثلاً ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ وہ عمدہ کپڑے پہن سکتا ہے لیکن وہ ہمیشہ میلے کچیلے کپڑے پہنتا ہے اس خیال سے کہ وہ واجب الرحم سمجھا جاوے یا اس کی آسودہ حالی کا حال کسی پر ظاہر نہ ہو ایسا شخص گناہ کرتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم کو چھپانا چاہتا ہے اور نفاق سے کام لیتا ہے۔ دھوکا دیتا ہے اور مغالطہ میں ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ مومن کی شان سے بعید ہے۔‘‘مومن ایسا نہیں ہوتا ’’آنحضرت ﷺ کا مذہب مشترک تھا‘‘یعنی ہر چیز جو میسر تھی وہ آپ کیا کرتے تھے۔ یہ نہیں ہے کہ ایک طرف رجحان ہو گیا۔ اعلیٰ کپڑے ملے تو اعلیٰ کپڑے بھی پہنے۔ اگر نہیں تھے تو عام کپڑے بھی پہنے۔فرمایا کہ’’آپ کو جو ملتا تھا پہن لیتے تھے اعراض نہ کرتے تھے۔ جو کپڑا پیش کیا جاوے اسے قبول کر لیتے تھے لیکن آپؐ کے بعد بعض لوگوں نے اسی میں تواضع دیکھی کہ رہبانیت کی جزو ملا دی۔ بعض درویشوں کو دیکھا گیا کہ گوشت میں خاک ڈال کر کھاتے تھے۔‘‘اپنے آپ کو درویش کہتے اور گوشت میں مٹی ڈال کر کھاتے ہیں۔’’ایک درویش کے پاس کوئی شخص گیا اس نے کہا اس کو کھانا کھلا دو۔‘‘اس درویش نے اپنے مریدوں کو کہا کہ مہمان کو کھانا کھلا دو۔’’اس شخص نے‘‘مہمان نے ’’اصرار کیا کہ میں تو آپ کے ساتھ ہی کھاؤں گا‘‘میں پیر صاحب آپ کے ساتھ ہی کھاؤں گا۔’’آخر جب وہ اس درویش کے ساتھ کھانے بیٹھا تو اس کے لئے نیم کے گولے تیار کر کے آگے رکھے گئے…فرمایا کہ’’اس قسم کے امور بعض لوگ اختیار کرتے ہیں اور غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اپنے باکمال ہونے کا یقین دلائیں ۔مگر اسلام ایسی باتوں کو کمال میں داخل نہیں کرتا۔ اسلام کا کمال تو تقویٰ ہے جس سے ولایت ملتی ہے، جس سے فرشتے کلام کرتے ہیں، خدا تعالیٰ بشارتیں دیتا ہے۔
سوال نمبر8:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں اوربچوں کے ساتھ تعلقات کی نسبت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:’’اسی طرح عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات ‘‘ہیں، لوگوں کے جو گھریلو رویے ہیں ان کے بارے میں بھی فرما دیا کہ’’عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ ٔمستقیم سے بہک گئے ہیں۔‘‘ سیدھے راستے سے ہٹ گئے ہیں۔’’قرآن شریف میں لکھا ہے کہ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النساء: 20) مگر اب اس کے خلاف عمل ہورہا ہے۔‘‘معروف کیا کرنا ہے انہوں نے بلکہ بعض گھروں میں ظلم ہو رہے ہوتے ہیں۔ پس اچھے کپڑے پہننا اگر توفیق ہے، اچھے کھانے کھانا اگر توفیق ہے تقویٰ میں کمی نہیں کرتا بلکہ اضافہ کرتا ہے۔ نیز معاشرتی اخلاق کے بارے میں بھی بتایا کہ اپنی بیوی سے حسن سلوک کرنا یہ بھی ضروری ہے۔ اپنے بچوں کا خیال رکھنا، ان کی ضروریات پوری کرنا، ان کی صحیح تربیت کرنا یہ بھی ضروری ہے۔ یہ بھی تقویٰ ہے اور یہ قرآن کریم کا حکم ہے۔پس حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی ضروری ہے۔
سوال نمبر9: حضرت اقدس مسیح موعودؑکی ذات پر اعتراض کہ آپؑ سید نہیں ہیں،اس اعتراض کی حضورانورنے کیا وضاحت بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو آپ تو سید نہیں ہیں اور سید ایک امتی کی بیعت کس طرح کر سکتا ہے؟ بعض سید اور سیدوں کو اونچا مقام دینے والے اب بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سیدوں کا غیر معمولی مقام ہے تو سید کس طرح بیعت کر سکتا ہے غیر سید کی؟ …آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نہ محض جسم سے راضی ہوتا ہے نہ قوم سے۔اس کی نظر ہمیشہ تقویٰ پر ہے۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات:14)۔یعنی اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ بزرگی رکھنے والا وہی ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔ یہ بالکل جھوٹی باتیں ہیں کہ میں سید ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان اور شیخ ہوں۔اگر بڑی قومیت پر فخر کرتا ہے تو یہ فخر فضول ہے۔ مرنے کے بعد سب قومیں جاتی رہتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کے حضور قومیت پر کوئی نظر نہیں اور کوئی شخص محض اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے نجات نہیں پا سکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ کو کہا ہے کہ اے فاطمہؓ تو اس بات پر ناز نہ کر کہ تُو پیغمبر زادی ہے۔ خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں۔‘‘ پس جب حضرت فاطمہؓ کے لیے یہ حکم ہے، یہ ارشاد ہے تو پھر اَور کون رہ جاتا ہے؟ فرمایا کہ’’وہاں جو مدارج ملتے ہیں وہ تقویٰ کے لحاظ سے ملتے ہیں۔ یہ قومیں اور قبائل دنیا کا عرف اور انتظام ہیں۔ خدا تعالیٰ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی محبت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ ہی مدارجِ عالیہ کا باعث ہوتا ہے…پھر یہ جو فرمایا ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(المائدہ:28) کہ اعمال اور دعائیں متقیوں کی قبول ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہا کہ مِنَ السَّیدِین۔پھر متقی کے لیے تو فرمایا مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا۔ وَّیرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یحْتَسِبُ۔(طلاق:3-4) یعنی متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے۔ اس کو ایسی جگہ سے رزق دیا جاتا ہے کہ اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اب بتاؤ کہ یہ وعدہ سیدوں سے ہوا ہے یا متقیوں سے۔ اور پھر یہ فرمایا ہے کہ متقی ہی اللہ تعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں۔ یہ وعدہ بھی سیدوں سے نہیں ہوا۔ ولایت سے بڑھ کر اَور کیا رتبہ ہوگا۔ یہ بھی متقی ہی کو ملا ہے۔ بعض نے ولایت کو نبوت سے فضیلت دی ہے اور کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے بڑھ کر ہے۔ نبی کا وجود دراصل دو چیزوں سے مرکب ہوتا ہے۔ نبوت اور ولایت۔ نبوت کے ذریعہ وہ احکام اور شرائع مخلوق کو دیتا ہے اور ولایت اس کے تعلقات کو خدا سے قائم کرتی ہے۔پھر فرمایا ہے۔ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(البقرة:3)ھُدًی لِّلسَّیدِینَ نہیں کہا۔ غرض خدا تعالیٰ تقویٰ چاہتا ہے۔ ہاں سید زیادہ محتاج ہیں کہ وہ اس طرف آئیں کیونکہ وہ متقی کی اولاد ہیں۔ اس لئے ان کا فرض ہے۔‘‘ کہ وہ تقویٰ اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ نہ یہ کہ ان کا سید ہونا ان کو کوئی مقام دے رہا ہے۔ فرمایا کہ’’اس لیے ان کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے آئیں نہ یہ کہ خدا تعالیٰ سے لڑیں کہ یہ سادات کا حق تھا۔ وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔ (الجمعہ:5)۔
سوال نمبر10: حضرت اقدس مسیح موعودؑنے حقیقی متقی کی نسبت کیا وضاحت بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:’’آنحضرت ﷺ جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے دعویٰ کیا تو اس وقت بھی لوگوں کی نظروں میں بہت سے یہودی عالم متقی اور پرہیز گار مشہور تھے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی متقی ہوں۔ خدا تعالیٰ تو ان متقیوں کا ذکر کرتا ہے جو اس کے نزدیک تقویٰ اور اخلاص رکھتے ہیں۔ جب ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کا دعویٰ سنا، لوگوں میں جو ان کی وجاہت تھی اس میں فرق آتا دیکھ کر رعونت سے انکار کر دیا اور حق کو اختیار کرنا گوارا نہ کیا۔ اب دیکھو کہ لوگوں کے نزدیک تو وہ بھی متقی تھے مگر ان کا نام حقیقی متقی نہیں تھا۔ حقیقی متقی وہ شخص ہے کہ جس کی خواہ آبرو جائے۔ ہزار ذلت آتی ہو۔ جان جانے کا خطرہ ہو فقرو فاقہ کی نوبت آئی ہو تو وہ محض اللہ تعالیٰ سے ڈر کر ان سب نقصانوں کو گوارا کرے لیکن حق کو ہرگز نہ چھپاوے۔ متقی کے یہ معنے جیسے آج کل کے مولوی عدالتوں میں بیان کرتے ہیں ہرگز نہیں ہیں کہ جو شخص زبان سے سب مانتا ہو خواہ اس کا عمل درآمد اس پر ہویا نہ ہو اور وہ جھوٹ بھی بول لیتا ہو، چوری بھی کرتا ہو تو وہ متقی ہے۔‘‘ یعنی صرف مسلمان کہہ دینا تقویٰ نہیں ہے ’’تقویٰ کے بھی مراتب ہوتے ہیں اور جب تک کہ یہ کامل نہ ہوں تب تک انسان پورا متقی نہیں ہوتا۔
سوال نمبر11:حضرت اقدس مسیح موعودؑنے جماعت کو تقویٰ کے حصول کے لیے کیا نصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا: ’’تقویٰ والے پر خدا کی ایک تجلّی ہوتی ہے۔ وہ خدا کے سایہ میں ہوتا ہے مگر چاہئے کہ تقویٰ خالص ہو اور اس میں شیطان کا کچھ حصہ نہ ہو ورنہ شرک خدا کو پسند نہیں اور اگر کچھ حصہ شیطان کا ہو تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ سب شیطان کا ہے۔‘‘فرمایا ’’…ہم اپنی جماعت کو کہتے ہیں کہ صرف اتنے پر وہ مغرور نہ ہو جائے کہ ہم نماز روزہ کرتے ہیں یا موٹے موٹے جرائم مثلاً زنا، چوری وغیرہ نہیں کرتے۔ ان خوبیوں میں تو اکثر غیر فرقہ کے لوگ مشرک وغیرہ تمہارے ساتھ شامل ہیں۔‘‘ یعنی وہ بھی نہیں کرتے یہ باتیں۔ ’’تقویٰ کا مضمون باریک ہے اس کو حاصل کرو۔ خدا کی عظمت دل میں بٹھاؤ۔ جس کے اعمال میں کچھ بھی ریا کاری ہو خدا اس کے عمل کو واپس الٹا کر اس کے منہ پر مارتا ہے۔‘‘دکھاوے کے لئے عمل نہ ہو۔’’متقی ہونا مشکل ہے مثلاً اگر کوئی تجھے کہے کہ تُو نے قلم چرایا ہے تو تُو کیوں غصہ کرتا ہے۔‘‘ چھوٹی سی بات کی۔ کسی نے کہہ دیا۔ تُو نے میرا قلم اٹھایا ہے تو وہ غصہ میں آجائے تو یہ تقویٰ والوں کی نشانی نہیں ہے۔ صبر اور حوصلہ دکھانا چاہیے۔ فرمایا’’تیرا پرہیزتو محض خدا کے لیے ہے۔‘‘بچنا چاہیے تھا اس بات سے۔ غصہ سے بچنا چاہیے تھا۔’’یہ طیش‘‘یہ غصہ’’اس واسطے ہوا کہ روبحق نہ تھا۔‘‘صحیح سچائی کی طرف تیرا قدم نہیں تھا۔’’جب تک واقعی طور پر انسان پر بہت سی موتیں نہ آ جائیں وہ متقی نہیں بنتا۔ معجزات اور الہامات بھی تقویٰ کی فرع ہیں۔ اصل تقویٰ ہے۔ اس واسطے تم الہامات اور رؤیا کے پیچھے نہ پڑو بلکہ حصول تقویٰ کے پیچھے لگو۔‘‘یہ نہیں ہے کہ فلاں کو الہام ہوا، فلاں کو رؤیا ہوا۔ یہ دیکھو تقویٰ کیا ہے۔’’جو متقی ہے اسی کے الہامات بھی صحیح ہیں اور اگر تقویٰ نہیں تو الہامات بھی قابل اعتبار نہیں۔ ان میں شیطان کا حصہ ہو سکتا ہے۔ کسی کے تقویٰ کو اس کے ملہم ہونے سے نہ پہچانو بلکہ اس کے الہاموں کو اس کی حالت تقویٰ سے جانچو اور اندازہ کرو۔ سب طرف سے آنکھیں بند کر کے پہلے تقویٰ کے منازل کو طے کرو۔‘‘فرمایا’’…جتنے نبی آئے سب کا مدّعا یہی تھا کہ تقویٰ کا راہ سکھلائیں۔ اِنْ اَوْلِیآؤُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ۔(الانفال:35) مگر قرآن شریف نے تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھلایا ہے۔
٭…٭…٭